لا تعداد خصوصیات ۔۔۔۔۔۔ بلال الرشید
زندگی کیا ہے ؟ ایک ہنڈولا ۔ ایام کی ایک نہ ختم ہونے والی گردش‘ جو کبھی آدمی کو رلاتی اورپھر ہنساتی ہے ۔ تلک الایام نداولہا بین الناس۔ جب انسان خوش ہوتاہے تو اسے اپنی اس خوشی کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا‘ پھر کوئی واقعہ اسے غمزدہ کر دیتاہے اور اپنے اس غم کے سوا وہ سب کچھ بھول جاتا ہے ۔ یوں وہ اپنی پیدائش سے لے کر موت تک کبھی ہنستا اور کبھی روتا رہتا ہے ۔ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی طرح حالات کے بہائو میں بہتا چلا جائے۔ اپنی افتادِ طبع کے مطابق‘ ہر اکسا دینے والی چیز (stimulus)پر آنسوئوں اور ہنسی کی صورت میں اپنا ردّعمل ظاہر کرتا رہے ؛ حتیٰ کہ ایک دن قبر میں اتر جائے ۔ ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان ساتھ ساتھ غو ر وفکر بھی کرے کہ یہ سب کیا ہے ‘ جو میرے ساتھ اس دنیا میں پیش آرہا ہے اور کیوں پیش آرہا ہے ؟
اولاد سب سے بڑی مثال ہے ‘ جس دن کسی شخص کے گھر بچّہ پیدا ہوتاہے ‘ اس دن سے وہ غلام بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد ساری زندگی وہ اپنی اولاد کو ہنستا دیکھ کر ہنستااور روتا دیکھ کر روتا ہے ۔ اس کی ذاتی شخصیت ‘ ذاتی خوشیاں اور ذاتی غم جیسے ختم ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ یہ اولاد اس کی کل کائنات بن جاتی ہے ۔ بے شمار بوڑھے ماں باپ ‘ جن کی اولادان کی زندگی میں اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو پاتی ‘موت کے قریب پہنچ کر اس غم میں ڈوب جاتے ہیں کہ میرے بعد میری اولاد کا کیا ہوگا ۔ آدمی بھول جاتا ہے کہ جس خدا نے انسان کو پیدا کیا‘ اسے دماغ دیا ‘ اس کے جسم میں جگر اور خون پیدا کیا‘ساری زندگی اسے سانس لینے کے لیے آکسیجن دی‘ ساری زندگی اسے کھانے کے لیے اناج دیا اور اسے وہ اولاد دی‘ جس کے غم میں وہ گھل رہا ہے ‘ بھلا اس سے بڑھ کر کون اُس کا وارث ہو سکتا ہے ۔
انسان تو بہت ہی short sightedہے ۔ جو خداآج بھی صرف ایک زمین پر 87لاکھ قسم کی مخلوقات کو پال رہا ہے ‘ اس پہ انسان کو یقین نہیں اور اپنے زورِ بازو پر اس سے زیادہ اعتبار ہے ۔ انسان سوچتا ہے کہ میں اگر اپنی اولاد کو بہت سی جائیداد دے جائوں تو یقینا ان کی زندگیاں بہتر ہوسکتی ہیں ۔ یہ الگ بات کہ یہ اولاد اسی جائیداد پہ ایک دوسرے سے لڑ لڑ کے مر جائے یا جس اولاد کے لیے اتنا سب کچھ جمع کیا گیا ہے‘ وہ ساری زندگی اپنے اندرونی ڈپریشن ہی سے نہ نکل سکے۔اس مال و اسباب سے ذرہ برابر محظوظ ہی نہ ہو سکے ۔ اس کے برعکس آپ یہ دیکھیں کہ جب کسی شخص کو اللہ نے نوازنا ہوتا ہے تو اس کا دماغ غیر معمولی بنا دیتاہے ‘ اس کے لیے حالات سازگار کر دیتاہے ۔ وہ لوگ ارب پتی ہوجاتے ہیں ‘ جن کے باپ دادا ان کے لیے قرضوں اور فاقوں کے سواکچھ بھی چھوڑ کر نہ گئے تھے ۔
دوسری طرف دیکھیں کہ قرآن مجید فرقان حمید کہتا ہے ''جس دن دور بھاگے گا‘ آدمی اپنے بھائی سے ۔اوراپنی ماں سے اور باپ سے ۔اور اپنی بیوی اور بیٹے سے (بھی بھاگے گا)۔ ہرشخص اس روز ایک فکر میں ہوگا ‘ جس کے سوا کچھ اسے سوجھے گا نہیں ۔‘‘( سورۃ عبس)
ان آیات کا ایک بہت خوفناک مطلب ہے اور یہ ہے کہ جس اولاد کی خاطر انسان ساری زندگی پینترے بدل بدل کر زندگی کے چیلنجز سے لڑتا رہتاہے ‘ وہ درحقیقت اس کی کچھ لگتی ہی نہیں ۔ وہ تو مصنوعی طور پر اس کے دل میں اولاد کی محبت اتار دی گئی ہے ۔ اور یہ محبت کہاں سے آئی ہے ؟ یہ وہ محبت ہے ‘ جو خدا اپنی مخلوق سے کرتاہے۔ اسی کا ایک ننھا سا ذرّہ لے کر اسے مخلوقات کے دل پہ نازل کر دیا گیا ہے ۔ حدیث کے مطابق‘ اگر یہ محبت نہ اتاری جاتی ‘توجانور اپنی اولاد کوپیروں تلے روند دیتے ۔
اولاد کس لیے پیدا کی گئی ؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ دلوں میں اولاد کی وہ محبت کیوں اتاری گئی ‘ جو ساری زندگی کے لیے ماں باپ کو اولاد کا غلام بنا دیتی ہے ۔ اولاد آزمائش کے لیے پیدا کی گئی ۔خدا فرماتا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ (آزمائش ) ہیں ۔ خدا نے اولاد کو انتہائی خوبصورت (cute)پیدا کیا ہے ‘تاکہ انسان مکمل طورپر اس میں مگن ہو کر رہ جائے ۔ آخری سانس تک وہ اس کی حفاظت اور اسے feedکرنے کی کوشش کرتا رہے ۔ اگر اولاد اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو اپنی محبت میں ڈوبا ہوا‘ انسانی دماغ (نفس ) اس کی حفاظت کے لیے آخری حد تک نہ جاتا ۔ اس کے نتیجے میں ماں باپ اپنی زندگی بچانے کے لیے اولاد کو قربان کر دیتے ۔ اس کے نتیجے میں کرّہ ٔ ارض سے زندگی ہی ختم ہو جاتی ۔
لیکن اولاد کو اس قدر خوبصورت بنانے کا ایک بہت بڑا مقصد اور بھی تھا اور وہ تھا؛ انسان کو بوریت سے بچانا ۔ چھوٹے بچّوں میں اس قدر خوبصورتی ہوتی ہے کہ وہ انسان کو مکمل طور پر اپنے آپ میں مگن کر لیتے ہیں ۔یہ اولاد ایک کھلونا ہے ‘ جو انسان کو لبھاتی رہتی ہے ۔ بچّے دنیا کی سب سے خوبصورت تخلیق ہیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ چھ ماہ کی عمر سے لے کر تین سال تک تو یہ خوبصورتی اپنی انتہا پر ہوتی ہے ۔ جب بچّہ بڑا ہوتا ہے اور جب یہ ظاہری خوبصورتی کم ہونا شروع ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی بچّے کی intelligenceکی خوبصورتی شروع ہو جاتی ہے ‘ جس کی وجہ سے بچّہ دلچسپ حرکتیں کرنے لگتا ہے ‘ پھر یہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے انسان کو اپنے اس روبوٹ سے زیادہ محبت ہوتی ہے ‘ جس میں artificial intelligenceزیادہ ہوتی ہے ‘ جس میں خصوصیات( features)دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں ۔
اسی طرح خدا نے مخلوقات کو دو جنسوں میں پیدا کیا تاکہ چیلنجز سے بھرپور دنیا کی یہ زندگی حد سے زیادہ بور نہ ہو جائے ۔ اصل میں انسان کو اس لیے زمین پہ اتارا گیا تھا کہ اس نے عقل کی مدد سے خدا تک رسائی کا چیلنج پورا کرنا تھا ۔جاندار اگر نر اور مادہ کی دو جنسوں میں پیدا نہ کیے جاتے ‘ اگر اولاد نہ ہوتی اور اگر اولاد کی اولاد نہ ہوتی‘ تو انسان اس دنیا میں بوریت کی شدت سے ہی مر جاتا ۔
غم کبھی ختم نہیں ہوتے اور نہ خوشیاں ۔ جو زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ وہ کبھی مرنا نہیں چاہتے اور جو غمزدہ ہیں ‘ انہیں اپنے غم کے سوا کچھ بھی یاد نہیں۔ انسان خواہ کھرب پتی ہو‘جسے غم ملنا ہو‘ اولاد کی طرف سے مل جاتا ہے۔ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ 99.9فیصد لوگوں کی طرح انسان ہر خوشی celebrateکرے اور ہر غم میں پگھل کر رہ جائے‘ لیکن ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان یہ سوچے کہ دنیا میں جو کچھ اسے پیش آرہا ہے ‘ وہ کیوں پیش آرہا ہے ؟ اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ آپ چیزوں پر فوری ردّعمل دینے کی بجائے انہیں observeکرنا شروع کر دیں ۔
ایک دل لبھانے والی چیز میں خصوصیات( features)جتنے زیادہ ہوتے ہیں ‘ اتنی ہی زیادہ دیر تک وہ انسان کو خود میں مگن رکھنے کے قابل ہوتی ہے ۔ اولاد میں یہ خصوصیات لا اتعداد ہوتے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ انسان ساری زندگی اس میں مگن رہتا ہے ۔ اُس کی عظمت کو سلام ‘ جس نے یہ لا تعدادخصوصیات پیدا کی ہیں ۔