آلات موسیقی کب ایجاد ہوئے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : اخلاق احمد قادری

موسیقی کو روح کی غذا تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسان نے آلات موسیقی غاروں میں قیام کے دوران ہی ایجاد کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان آلات یا سازوں نے بھی دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ ارتقائی ترقی کی ہے، تقریباً تین ہزار ق م تک ایسے آلات موسیقی یا ساز وجود میں آ چکے تھے جن کی کوئی نہ کوئی شکل آج بھی رائج ہے۔ ایسے سازوں میں سے ایک بربط یا چنگ ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین آلات موسیقی میں ہوتا ہے۔ بربط کی ایجاد کا زمانہ تقریباً تین ہزار ق م ہے۔ اس کا ذکر یونانی صنمیات اور بائبل میں ملتا ہے۔ یہ ساز قدیم چینی اور قدیم مصری مصوری میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ عہد فراعنہ کا ایک مصری بربط جس کا تعلق 1500 ق م سے ہے برٹش میوزیم میں محفوظ ہے۔ جدید زمانے کا ڈبل ایکشن بربط جو پاؤں سے بجایا جاتا ہے اور سمفونی یا آرکسٹرا میں شامل ہے، اٹھارہویں صدی میں ایک فرانسیسی ماہرآلات موسیقی سبستیان ایرارڈ نے قدیم بربطوں کے اصولوں پر ایجاد کیا تھا۔ ستار یا ستار نما طنبورا یا اسی قسم کے دوسرے تاروں والے ہاتھ سے بجائے جانے والے آلات موسیقی بربط کے اصولوں پر ازمنہ وسطیٰ میں ایجاد ہوئے۔ انہیں سازوں میں سے گز سے بجائے جانے والے طنبور Bowed lute نے ارتقائی مراحل طے کر کے چھ تارے باجے کی شکل اختیار کر لی۔ بعدازاں اس نے موجودہ وائلن کی شکل اختیار کی۔ وائلن فرانس میں 1529ء کے قریب ایجاد ہوا تھا۔ وائلن بنانے کے فن نے تقریباً اٹھارویں صدی میں عروج حاصل کیا۔ یہ عروج وائلن کو انتونیو سٹراڈیویری (Antonio Stradivari) کے ہاتھوں نصیب ہوا۔ منہ سے بجائے جانے والے آلات موسیقی کی ایجاد کا تعلق اس سے بھی قدیم زمانے سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اولین منہ سے بجائے جانے والے آلات موسیقی 10 ہزار ق م سے بھی پہلے ایجاد ہو چکے تھے۔ غاروں میں رہنے والے قدیم انسانوں نے مختلف جانوروں کی ہڈیوں اور سینگوں میں سوراخ کر کے اولین ساز ایجاد کیے تھے۔ ایسے کئی اولین ساز مختلف مقامات کی اثریاتی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں۔ اس کے بعد میں اولین مہذب انسانوں، سمیریوں اور مصریوں کی کئی بانسریاں جن کا تعلق تین ہزار ق م سے ہے دریافت ہو چکی ہیں۔ منہ سے بجائے جانے والے ایسے ہی آلات موسیقی ارتقائی مراحل طے کر کے ہم تک پہنچے ہیں۔ یورپی تاریخ موسیقی میں فرانسیسی موسیقار یاں باپٹسٹ للی (Jean Baptiste Lully) نے لکھا کہ یورپ کی موسیقی میں بانسریوں کا اولین استعمال 1681ء میں ہوا۔ ایک جرمن موسیقار تھیوبالڈ بوہم (1881-1794ء) نے یورپی بانسری کو موجودہ شکل دی۔ ہارن (باجا) کا تعلق اس کی اولین شکل میں زمانہ قبل از تاریخ سے ہے۔ بنیادی طور پر ہارن اپنی ابتدائی شکل میں جانوروں کے سینگ، گھونگے اور ہاتھی دانت پر مبنی تھے۔ بگل یا شہنائی بھی انہیں سینگوں یا گھونگوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ مصر کے آثار سے ایک کانسی کا بنا ہوا بگل ملا ہے۔ اس کا تعلق دو ہزار ق م سے ہے۔ بگل نے رومی اور یونانی معاشروں میں بھی بہت اہمیت اختیار کر لی تھی۔ دہری بانسری (Oboe) یا نَے کا تعلق بھی دو ہزار ق م کے قدیم مصری سازوں سے ہے۔ اس ساز کو اس کی موجودہ یورپی شکل میں فریڈرک ٹرائی برٹ نے فرانس میں انیسویں صدی میں دی تھی۔ الغوزہ یا کارنیٹ کا تعلق بھی قدیم مصر اور یونان سے ہے۔ اسے جرمنی کے شہر نورمبرگ میں کرسٹوفر ڈینر نے 1670ء کے لگ بھگ یورپ میں متعارف کروایا تھا۔