تیزابیت کا مسئلہ ......... تحریر : ڈی کے دانش
انسانی جسم میں بہت سے کیمیائی اعمال سرانجام پاتے ہیں اور انہیں نارمل طریقے سے سرانجام پانے کے لیے جسم کے مختلف اعضا میں پی ایچ مختلف ہوتی ہے۔ جب تیزابیت بڑھتی ہے تو بیماریوں کے جراثیم کی افزائش آسان ہو جاتی ہے، انسانی جسم ان کی گرفت میں آتا چلا جاتا ہے اور کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے، اور بیماری کی پکڑ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ قدرت جو دودھ ماں کے ذریعہ بچے کو پہنچاتی ہے اس کی پی ایچ یعنی ہائیڈروجن آئنز کی طاقت تقریباً نارمل ہوتی ہے۔ یہ سات ہوتی ہے۔ سات سے کم پی ایچ تیزابیت ظاہر کرتی ہے اور جتنی پی ایچ کم ہو گی، تیزابیت بڑھ جائے گی اور جتنی پی ایچ بڑھے گی یعنی سات سے اوپر جائے گی، اس میں اساسیت بڑھے گی یعنی سات سے اوپر جائے گی اور اس کی زیادہ سے زیادہ طاقت 14 ہو تی ہے۔ تندرست جسم جب بیمار ہوتا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ اس کے جسم کا تیزابیت کی طرف رجحان ہے جس سے شروع میں انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس میں دماغی اور جسمانی دونوں تھکاوٹیں شامل ہیں۔ تھکاوٹ رات کی نیند پوری ہونے کے بعد بھی محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے فرد سویا ہی نہیں جبکہ تندرست آدمی کی تھکاوٹ سونے کے بعد ختم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہلکا اور سرشار محسوس کرتا ہے۔ تھکاوٹ کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ گردن اور بازو دبانے سے اگر درد محسوس ہو تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ تھکاوٹ موجود ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں: ۱۔ ورزش نہ کرنا۔ ۲۔ ضرورت سے زیادہ کھانا، پینا، خاص طور پر گوشت، چینی، چائے اور کافی کازیادہ استعمال۔ ان وجوہات سے انسانی جسم تیزابیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس سے جسم کے مختلف اعضا میں درد محسوس ہوتا ہے مثلاً سر درد، اعصابی درد، پٹھوں کا درد، معدے کا درد، خواتین میں ایام کے دوران شدید درد ۔ یہ علامات اعصابی نظام کی کمزوری کی بھی ہیں اور یہ کمزوری تیزابیت کی مرہون منت ہوسکتی ہے۔ خون کی کمی کی بیماریوں کی ابتدا خون میں تیزابیت کے بڑھنے سے ہو سکتی ہے۔ نارمل حالات میں خون کا پی ایچ سات کے قریب ہوتا ہے جبکہ کینسر میں خون کا پی ایچ کئی درجے نیچے پہنچ سکتا ہے۔ خون کے تیزابی رجحان کے بڑھ جانے سے مندرجہ ذیل امراض کا خطرہ رہتا ہے: خون کی کمی، خون کا کینسر، دمہ، یرقان، خون کا جلد نہ جمنا، جلدی بیماری، خون کے سفید خلیے کا نارمل سے زیاد ہ ہونا۔ تیزابیت انسان کو جذباتی بنا دیتی ہے اور غصہ، بے چینی، بے آرامی، خوف اور پریشانی پیدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تیزابیت کینسر، دل کی بیماریوں، ذیابیطس، السر اور جگر کی خرابی وغیرہ کا باعث بھی بنتی ہے۔ گردوں کی پتھری بھی تیزابیت کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔ تیزابیت سے اعصابی بیماریاں ہو سکتی ہیں، ان میں اعضا میں سختی، غیر ارادی طور پر اعضا کا حرکت کرنا، ریڑھ کی ہڈی میں سوزش اور مختلف اعضا کا نارمل کام چھوڑ جانا شامل ہیں۔ تیزابیت انسانی جسم میں کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کا بڑا سبب خوراک ہے۔ خوراک میں بے اعتدالی انسان کو بیماریوں کی گرفت میں لے جاتی ہے۔ خوراک کو جسم بڑی آسانی سے گروہوں میں تقسیم کر سکتا ہے یعنی۱۔ تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک۔ ۲۔ اساسیت کو قائم رکھنے والی خوراک۔تیزابیت پیدا کرنے والی خوراک میں سرفہرست گوشت، چائے، کاربونیٹڈ مشروب، انڈے، نمک وغیرہ ہیں جبکہ اساسیت پیدا کرنے والی خوراک میں بیشتر تازہ سبزیاں اور پھل، دودھ اور دودھ سے بنی چیزیں (پنیر وغیرہ)، دالیں، گری دار میوے، جڑی بوٹیاں اور مصالحے (سرسوں اور جائفل کے علاوہ) شامل ہیں۔ انسان کے طریقۂ خوراک میں جو عادات شروع سے پیدا ہو جاتی ہیں، وہ ان پر گامزن رہتا ہے اور 20 سے 30 سال کے بعد یا تو اس میں تیزابیت عود آتی ہے یا اساسیت بڑھ جاتی لیکن عقلمند لوگ اپنی خوراک کو اس طرح سے استعمال کرتے ہیں کہ اس میں تیزابیت کسی طرح سے بھی غالب نہ آئے۔ دودھ اور دہی کا مسلسل استعمال کرنے والے لوگ تیزابیت کا شکار نہیں ہوتے۔ وہ خوراک جو انسان جسم میں معمولی اساسیت پیدا کرتی ہے وہ انسان کو تندرست و توانا اور لمبی عمر کی طرف لے جاتی ہے۔ چین کے اس علاقہ میں جہاں لوگوں کی عمریں بہت طویل ہیں، وہاں پر زیادہ تر خوراک کا انحصار دودھ اوردہی پر ہے، جو کہ جسم انسانی کی تیزابیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تیزابیت کے بڑھتے ہی انسانی جسم میں قلیل دھاتی مرکبات کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ جسم میں تانبے کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زنک کی مقدار کم ہو جاتی ہے جس سے انسانی جسم کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ اس کمی سے انسان مختلف امراض کا شکار ہونے لگتا ہے۔ دھاتی مرکبات میں ایک بنیادی کردار کیلشیم کا ہے، قدرتی طور پر یہ دودھ میں پایا جاتا ہے اور جلد انسانی جسم میں جذب ہونے کی خاصیت رکھتا ہے لیکن ہمارے یہاں دودھ کا استعمال کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس کی جگہ چائے لے رہی ہے۔ چائے انسانی جسم میں تیزابیت کو بڑھاتی ہے اور ساتھ ہی کیلشیم کے جزو بدن بننے میں رکاوٹ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کا رجحان تیزابیت کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ تیزابیت کے بڑھنے سے انسانی جسم میں ہسٹامین کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ انسانی جسم میں جتنی زیادہ ہسٹامین ہو گی مرد کی طاقت کم ہوتی چلی جائے گی۔ ایک تحقیق کو مدنظررکھتے ہوئے یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تیزابیت انسانی جسم کے اندر دھاتی آئنز کے توازن کو برقرار نہیں رہنے دیتی۔ کیلشیم اور زنک قدیم دور سے اینٹی ہسٹامین کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں اور جدید تحقیق نے بھی اس کو درست قرار دیا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق بڑھاپے کے جلد آنے کی وجہ انسانی جسم میں کیلشیم، میگنیشیم، زنک اور سلفر کی کمی ہے۔ اگر اس کمی کو نہ ہونے دیا جائے تو انسان لمبے عرصہ تک جوان رہ سکتا ہے۔