پاکستان کیلئے اچھی خبریں اور قومی سیاست ۔۔۔۔۔ صابر شاکر
دنیا بھر سے پاکستان کے لیے اچھی اچھی خبریں آرہی ہیں ۔نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغانستان کو فتح کرنے کی بچگانہ اور دیوانی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پاکستان پر نہ جانے کیا کیا الزامات لگائے گئے ۔دنیا بھر میں پاکستانیوں کی زندگی اجیرن کردی گئی اور پاکستان کو ہر فورم پر رسوا کرنے کا کوئی موقع ضائع نہ کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جو کہ درحقیقت امریکہ بہادر کا افغانستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تھا‘کی آڑ میں پاکستان میں دہشت گردی کی ایسی خوفناک لہر شروع کی گئی کہ جس سے ہمارے وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں تک محفوظ نہ رہے اور پاکستان کی سول اورعسکری فورسز اور عام شہریوں سمیت ہر شعبہ ٔ زندگی نے اپنی جان کے نذرانے پیش کئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی جگہ ہونے والی دہشت گردی میں کبھی بھی کوئی پاکستانی ملوث نہیں پایا گیا‘ لیکن پھر بھی پاکستان کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی اور فاتحِ افغانستان بننے کی خواہش نے عالمی استعمار نے ہمیں مسلسل دباؤ میں رکھا اور پاکستان کو سیاحت‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے خطرناک قرار دے دیا گیا۔دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں نے افغانستان میں ڈیرے ڈال لیے تھے اورکلبھوشن جیسے دہشت گردوں کے ذریعے خدانخواستہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے آپریشنز لانچ کیے گئے‘ لیکن اللہ تعالی کی نصرت اور پاکستانیوں کی قربانیوں سے سارے غرور خاک میں مل چکے ہیں۔افغانستان کو فتح کرنے کی خواہش رکھنے والوں کو اب باعزت انخلا چاہیے اور وہ جانتے ہیں کہ یہ کام پاکستان کے تعاون اور مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے‘ کیونکہ بھارت بھی نائن الیون کے بعد تمام حربے آزما چکا ہے اور بھارت بغیر لین دین کے اپنی طرف سے کْچھ لگانے کی مزید سکت نہیں رکھتا۔
نیٹو حکام نے افغانستان میں بربادیوں کے سامان کو امریکہ بہادر سے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور وہاں سے نکلنے کا راستہ ماپا تھا ‘کیونکہ ابھی افغانستان سے غیرملکی فوجوں کے انخلا کی خبریں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت نہیں بنی تھیں کہ اکتوبر 2013ء میں اسلام آباد کے چندصحافیوں( راقم الحروف ‘رمیضہ مجید نظامی ‘ابراہیم راجہ اوراحتشام الحق) کو برسلز میں نیٹو ہیڈکوارٹر میں مدعو کیاگیا تھا‘اس شاندار اور خبروں اور معلومات سے بھرپور وزٹ کا اہتمام برادر انصر بھٹی نے کیا تھا جو اسلام آباد میں غیرملکی سفارتی حلقوں میں موثر اثر ورسوخ رکھتے ہیں ۔اس وزٹ میں نیٹو سیکرٹری جنرل سمیت اعلیٰ سول اور عسکری حکام سے نشستیں ہوئیں ؛چونکہ تمام سیشنز وبریفنگز آف دی ریکارڈ تھیں‘ اس لیے اس دورے کے مندرجات براہ راست کبھی بھی منظر عام پر نہیں آئے‘ لیکن اس کا لب لباب یہ تھا کہ افغانستان میں نیٹو حکام خاص طور پر یورپی یونین نے مالی اور عسکری طور پر مزید بوجھ اٹھانے سے معذرت کرلی تھی۔ سب سے اہم بریفنگ چیف فنانس آفیسر سی ایف او کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ افغان جنگ کو جاری رکھنا اب مالی طور پر ناممکن ہوچکا ہے‘ جبکہ نیٹو حکام نے عسکری طور پر بھی اس جنگ کوجیتنا ایک خواب قرار دیا تھا ۔اس لیے نیٹو حکام نے واضح کیا تھا کہ مستقبل میں ان کا کردار صرف افغان آرمی کو تربیت دینے تک محدود ہوگا ‘وہ کسی آپریشنل سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔
اس وزٹ کے دوسال بعد ہمیں افغانستان میں وہ سارا روڈ میپ عمل پذیر ہوتا ہوا نظر آیا جو اب تک جاری ہے۔افغانستان سے ''باعزت‘‘انخلا کے لیے امریکہ راہیں تلاش کررہا ہے اور پاکستان کی مدد ایک بار پھرناگزیر ہوچکی ہے‘ خاص طور پر سی پیک کے بعد تو اس کی ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے‘ اس لیے ہمارے دامن پر اغیار کی جانب سے لگائے گئے داغ دھبے اب آہستہ آہستہ دھْلنا شروع ہوچکے ہیں۔عالمی فورمز پرپاکستان کی قربانیوں کو نا صرف تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ اس کا برملا اظہار بھی کیا جارہاہے۔ مغربی فضائی کمپنیاں پروازیں بحال کرچکی ہیں‘ امریکی حکام کی طرف سے لگائی گئی یک طرفہ پابندیوں کا بھی خاتمہ ہورہا ہے اور کہیں چاپلوسی اور کہیں لالی پاپ سے کام چلایا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے سفارتکاروں کے لیے پاکستان کا فیملی سٹیشن کا درجہ بحال کردیا گیا ہے‘ برطانوی شاہی جوڑا پاکستان کا دورہ کرچکا ہے‘ عالمی کرکٹ بحال ہوچکی ہے‘ پاکستان کو کمزور کرنے کے غیر ملکی ایجنسیوں کے آپریٹرز پکڑے جاچکے ہیں‘ عالمی عدالتِ انصاف میں بھارت ریاستی دہشت گردی میں ملوث قرار دیا جاچکا ہے۔ پاکستان بھارت کو ہرا کر کبڈی کا عالمی چیمپئن بن چکا ہے ‘ اسلام آباد اور لاہور کو دنیا کے کرائمز فری شہروں میں شامل کیاگیا ہے اور سیاحت کے لیے پاکستان کو موسٹ فیورٹ قرار دیا جاچکا ہے۔مختلف ممالک پاکستان کے لیے نئی ٹریول ایڈوائزری جاری کررہے ہیں اور پاکستان کو سفر کے لیے موزوں قرار دے رہے ہیں‘ دشمن ملک بھارت کی طرف سے بْنے گئے تانے بانے بے ا ثر ہوتے جارہے ہیں‘ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی ادارے قومی معیشت کو مستحکم قرار دے رہے ہیں اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان کے خلاف ایف آئی آر خارج ہونے کے قریب ہے اور جلد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے بھی نکل جائے گا۔
اقوام متحدہ نے پاکستانی خواتین پیس کیپرز کی خدمات کو خوب سراہا ہے۔ امریکی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز بھی پاکستانی خواتین فوجی افسران کی کارکردگی اور خدمات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات انجام دینے والی پاکستانی خواتین سے وہ متاثر ہیں۔ایلس ویلز کی یہ تعریف پاکستانی خواتین کو اقوام متحدہ کی جانب سے میڈل ملنے پر سامنے آئی ہے۔ کانگو میں پاکستانی خواتین پر مشتمل امن فوجیوں کے 15 رکنی دستے کو بہترین کارکردگی پر میڈل سے نوازا گیا ہے۔ یہ ٹیم اقوام متحدہ کے دنیا بھر میں موجود امن دستوں کی پہلی ٹیم ہے جو صرف خواتین افسران پر مشتمل ہے۔ اس ٹیم میں ماہر نفسیات‘ ڈاکٹرز‘ نرسز‘ انفارمیشن آفیسرز اورلاجسٹک آفیسرز سمیت دیگر افسران بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے انتہائی لگن اور انتھک محنت کے ساتھ دیار ِغیر میں پیشہ ورانہ کارکردگی سے دنیا کو متاثر کر کے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔اس وقت اقوام متحدہ کے مختلف امن مشنز میں 78 پاکستانی پیس کیپرز خواتین افسران نوبل کاز میں شریک ہیں۔2019ء کے کانگو مشن میں بہترین کارکردگی پر میجر سامعیہ کو اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل کے نمائندہ خصوصی کی جانب سے سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا جبکہ ڈینکن مارچ خاتون کا اعزازمیجر عروج عارف نے حاصل کیا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پاکستان کے دورے پر ہیں اورمقبوضہ کشمیر‘ سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد اور اسلامو فوبیا کے معاملے پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا غیرمعمولی ہے کہ اسلامو فوبیا کے خلاف سب کو مل کر مقابلہ کرنا ہے۔افغان مہاجرین کی چالیس سالہ مہمان نوازی کرنے سمیت ہر معاملے میں پاکستان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔ترکی کے صدرطیب اردوان کا دورہ پاکستان بھی اچھی خبروں میں سے ایک اوراچھی خبر ہے‘ جس میں تیس سے زائد معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط کئے گئے۔ طیب اردوان کا پارلیمنٹ سے خطاب اور پریس کانفرنس نے مسلمانوں اور پاکستان کو ایک نیا حوصلہ دیا کہ قحط الرجال کے اس دور میں بھی کچھ رہنما ابھی ہیں جو بلا خوف و خطر مظلوم و محکوم مسلمانوں کی آواز بن سکتے ہیں‘لیکن کیا کہیے ان تمام اچھی خبروں سے مستفید ہونے کی بجائے ہماری داخلی سیاست ہیجانی اور اضطرابی کیفیت میں گھری ہوئی ہے۔ ترک صدر کے دورے کے دوران بھی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے ‘جن کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے ‘ان مناظر کو بیان کرنابہت سوں کو کرب میں مبتلا کردے گا‘ اس لیے اس تذکرے کی ضرورت نہیں ۔