اب بھارت گرے لسٹ میں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب
ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری ہے۔ پاکستان کے بارے میں فیصلے کا اعلان 21 فروری کو سامنے آ سکتا ہے۔ اس کے ذیلی گروپ ''انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ نے عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین سے بھی رپورٹ حاصل کر لی ہے۔ ان اداروں اور ممالک نے واضح کیا ہے کہ پاکستان نے عالمی معیار کے مطابق اہداف کے حصول میں کافی پیش رفت کر لی ہے۔ اس بارے میں ''Mutual Evaluation Report of Pakistan‘‘ بھی مرتب کر لی گئی ہے‘ جس میں کئی معاملات میں زبردست پیش رفت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 27 میں سے 14 نکات پر مکمل طور پر عمل درآمد کر لیا ہے جبکہ مزید 11 نکات پر بھی کافی پیش رفت کر لی گئی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں عدالت کی جانب سے دو افراد کو دی جانے والی سزائوں پر اظہار اطمینان کرتے ہوئے اسے انسداد دہشت گردی کیلئے درست سمت میں اہم اقدم قرار دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف اے ٹی ایف کو بتایا کہ نئے قرضے کے حوالے سے پاکستان مزید پیش رفت کر رہا ہے، اور یہ کہ قرضے کی قسط کی ادائیگی کیلئے کئی اہداف ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیئے گئے ہیں۔ دوسرے مالیاتی اداروں نے بھی پاکستان کی پیش رفت کو مثبت اور عالمی معیار کے مطابق قرار دیا ہے‘ لہٰذا بلیک لسٹ ہونے کا سوال ہی ختم ہو گیا ہے جبکہ ایف اے ٹی ایف اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے حوالے سے تین تنظیموں کے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے؛ تاہم ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں ترکی اور ملائیشیا کے نمائندوں نے کہا ہے کہ ''پاکستان کو جون 2020ء میں گرے لسٹ سے نکال لیا جائے گا‘‘۔
اس تبدیلی کو بھارتی مصنف انیربان بھائومک نے محسوس کرتے ہوئے مضمون کی سرخی جمائی ہے ''India not on same page with US on terror‘‘۔ وہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ امریکہ نے حالیہ دنوں میں پاکستان کا موقف تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے اشارتاً لکھا ہے کہ اس بنیاد پر پاکستان کے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا بھی امکان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ اور بھارت کے موقف میں یکسانیت نہیں رہی۔ کراس بین السرحدی دہشت گردی کے حوالے سے امریکہ کے موقف میں قدرے تبدیلی آئی ہے؛ اگرچہ نریندر مودی امریکی صدر کی دہلی اور احمد آباد میں میزبانی بھی کرنے والے ہیں لیکن دونوں کی سوچ میں فرق کا فائدہ پاکستان کو پہنچنے والا ہے۔ ایلس ویلز کے ٹویٹ نے بھارت کو چونکا دیا ہے۔ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ''پاکستان کا یہ اقدام دو حوالوں سے انتہائی اہم ہے۔ اول‘ اس سے انسدادِ دہشت گردی کیلئے عالمی معیار کے مطابق اقدامات کرنے سے متعلق پاکستان کی کمٹمنٹ کا پتہ چلتا ہے۔ دوسرے‘ پاکستان کی جانب سے نان سٹیٹ ایکٹرز کو انصاف کے کٹہرے میں لانا بھی اہم ہے۔ امریکی رہنما ایلس ویلز کے موقف میں بڑی تبدیلی یہ ہے کہ انہوں نے ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کا ذکر کیا ہے جبکہ پہلے امریکی رہنما سٹیٹ ایکٹرز کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں۔ حالیہ ٹویٹ ان کے گزشتہ بیانات اور ٹویٹس سے مختلف ہے۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے کئے جانے والے قدیم پروپیگنڈے کو تسلیم نہیں کیا کہ دہشت گردی میں پاکستان کا کوئی سرکاری آدمی بھی شامل ہے۔ مبصرین کے نزدیک ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے پاکستان کو سفری اعتبار سے محفوظ ملک قرار دینا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ نے ناصرف محفوظ ملک قرار دیا بلکہ اس کیلئے میڈیا کا بھی سہارا لیا اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ اب پاکستان کو غیر محفوظ ملک نہ سمجھے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارتی پروپیگنڈے کی وجہ سے بند کی جانے والی پاکستان کے ساتھ اپنی فوجی مشقیں بحال کرنے کیلئے 7.2 کروڑ ڈالر جاری کر دیئے ہیں۔ یہ پروگرام جنوری 2018ء میں بند کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں دو ارب ڈالر کے مختلف پروگرام جاری کئے گئے تھے۔ ایک ایک کرکے ان سب کی بحالی کا امکان ہے۔ فوجی تربیتی پروگرام کی بحالی اس لئے کی گئی ہے کہ امریکہ نے انسداد دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو درست سمت میں اہم اقدامات تسلیم کر لیا ہے۔ اسے نئی دہلی میں اپنے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھا جا رہا ہے۔ نئی دہلی میں شکست کھانے والی نریندر مودی حکومت امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو ہرگز شامل نہ کرے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کو شامل نہ کرنے کیلئے وارننگ بھی دی تھی لیکن امریکہ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ امریکی رہنمائوں نے افغانستان کا دورہ کرنے سے پہلے پاکستانی رہنمائوں سے رابطہ کیا، جن میں زلمے خلیل زاد کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور ایلس ویلز بھی شامل ہیں۔
اسی لئے خلاف معمول بھارتی میڈیا کی بولتی بند ہے۔ وہ پہلے کی طرح زہر نہیں اگل رہا۔ اسے پراسرار سی چپ لگی ہے، بھلا کیوں؟ دو وجوہ سے۔ اول، پاکستان کے خلاف منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانس کے حوالے سے الزامات میں پہلے جیسی جان نہیں رہی۔ پاکستان نے بھارت سے بھی بہتر اقدامات کرکے اپنی نیک نیتی ثابت کر دی ہے۔ دوئم، اس حوالے سے امریکہ اور بھارت ایک پیج پر نہیں رہے۔ ان کا ''صفحہ‘‘ بدل گیا ہے۔ اب امریکہ کا دبائو پاکستان سے زیادہ بھارت پر پڑنے والا ہے۔ بھارت کو وارننگ مل چکی ہے۔ ایف اے ٹی ایف اسی سال اکتوبر میں بھارت کو بھی گرے لسٹ میں شامل کر سکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ایک اعلیٰ سطحی وزارتی اجلاس میں بھارت کے قیمتی پتھروں، ہیرے جواہرات اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کالے دھن اور دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی کے معاملات کو سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ اسے عالمی امن کے لئے خطرناک سمجھ لیاگیا ہے۔ پاکستان کی کامیابی یہ ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے وزرا نے گزشتہ دنوں ہونے والے ایک اہم اجلاس میں بھارت کو یہ بتا دیا ہے کہ جناب آپ کا ملک ہمارے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ اس طرح بھارت کو اپنی پڑ چکی ہے۔ بھارتی معاملات کا جائزہ لینے کے لئے ایف اے ٹی ایف نے 18 نمائندوں پر مشتمل ''جوائنٹ ورکنگ گروپ‘‘ بنا دیا ہے، جس میں بھارت کا نمائندہ بھی شامل ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے نمائندوں نے اسے عالمی امن کے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے اکتوبر میں فائلیں ساتھ لانے کی ہدایت بھی کر دی ہے۔ یوں امسال اکتوبر میں بھارت کے کھاتے کھلنے والے ہیں۔
بھارت پاکستان پر الزام لگاتا تھا لیکن ان چند مبینہ دہشت گردوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے بھارت میں قیمتی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔ اقبال مرچی ایسے ہی ایک آدمی کا فرنٹ مین تھا جس کی کروڑوں روپے کی جائیدادوں کا ایف اے ٹی ایف کو بھی پتہ چل گیا ہو گا۔ اسی لئے کمیٹی بھارت کے دو اہم شعبوں میں کالے دھن کا جائزہ لے گی۔ اگر ایک مرتبہ بھارت کا نام گرے لسٹ میں شامل ہو گیا تو اس کا نکلنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اب ایف اے ٹی ایف کی شرائط کافی بدل چکی ہیں۔ ان میں بہت زیادہ سختی آ چکی ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت 82 موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات جا رہی ہیں۔ سیاسی اثرورسوخ کے پیش نظر انہیں مکمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ 18 ایم ایل اے‘ ممبر راجیہ سبھا اور لوک سبھا کی منی لانڈرنگ پر فائلیں کھلی ہوئی ہیں لیکن وہ کام ہی نہیں ہونے دے رہے۔ سرکاری افسران بے بس ہے۔ ان میں دو اس وقت بھی ایم پی اے ہیں جبکہ 9 سابق ایم پی‘ 5 ایم ایل اے‘ 2 سابق ایم ایل ایز شامل ہیں۔ کئی ارکان ٹیکسوں کی چوری میں بھی ملوث ہیں جبکہ ایف اے ٹی ایف نے ٹیکسوں کی چوری کو بھی اب منی لانڈرنگ اور دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جس سرمائے کا کسی کو علم نہیں، وہ سرمایہ کسی بھی پسندیدہ یا ناپسندیدہ مقصد میں استعمال کیا جا سکتا ہے، اس پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ کئی اہم سیاسی شخصیات کے خاندان بھی منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں مگر ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جا رہی ہے۔