پاکستان کے دوست اردوان ....... تحریر : جویریہ صدیق
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان پاکستان میں بہت مقبول ہیں۔ ان کی مقبولیت کے پیچھے بہت سی وجوہات کار فرما ہیں لیکن ان کی پاکستان سے محبت اور دوستی کی نظیر نہیں ملتی۔ صدر اردوان ترکی میں سولہ سال سے کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔ 15 جولائی 2016ء کی ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد صدر اردوان کی اقتدار پر گرفت بہت مضبوط ہوگئی ہے۔ اس وقت ترکی میں پارلیمانی نظام صدارتی نظام میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ان کی جماعت نے حالیہ انتخابات میں پارلیمنٹ میں 295 نشستیں حاصل کیں۔وہ اپنے عوام میں بہت مقبول ہیں اور اسلامی ممالک کے عوام بھی ان کے مداح ہیں۔ پاکستان کے ساتھ رجب طیب اردوان کی خصوصی انسیت ہے۔ 26 فروری 2019ء کو جب بھارتی طیارے جابہ، بالا کوٹ پر پے لوڈ گرا کر چلے گئے اور خطے پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے تو ترکی نے کھل کر پاکستان کی سب سے پہلے حمایت کی اور ہر طرح کی امداد کا یقین دلایا۔ 27 فروری 2019ء کو پاکستان کی طرف سے بھارتی طیارے گرائے گئے اور پائلٹ ابھی نندن زندہ گرفتار ہوا۔ امن پسندی کی وجہ سے پاکستان نے پائلٹ واپس بھارت کو لوٹا دیا۔ اس اقدام کو ترکی نے بہت سراہا۔5 اگست کے بعد سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ترکی نے بھی کشمیریوں کیلئے ہر فورم پر مؤثر آواز بلند کی۔ صدر اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کشمیریوں، فلسطینیوں اور روہنگیا مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی۔ صدر اردوان نے کہا 5 اگست سے کشمیری عوام گھروں میں قید ہیں، بھارتی فوج ان پر ظلم کر رہی ہے اور وہ دلیری سے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے امن کا استحکام مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا، ترکی کشمیر کی آزادی کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔اس تقریر سے پہلے دیگر عالمی رہنماؤں نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا تھا۔ صدر اردوان کی تقریر نے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل جیت لئے۔ پاکستانی عوام نے ان کو پاکستان اور کشمیر کا سفیر قرار دیا۔ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں تنازع کشمیر کے حوالے سے اکتوبر میں کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں بڑی تعداد میں مندوبین نے شرکت کی اور مسئلہ کشمیر کو عالمی دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔رجب طیب اردوان پاکستان کے دو روزہ تاریخی دورے پر آئے۔ ان کا نور خان ائیر بیس پر تاریخی استقبال کیا گیا۔ ان کی اہلیہ، پارلیمنٹ کے ارکان اور بزنس وفد ان کے ساتھ آیا ہے۔ ان کے اعزاز میں حکومت کی طرف سے ظہرانہ اور عشائیہ دیا گیا۔ اسلام آباد میں پاک ترک فورم کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں کہا کہ پاکستان سے تجارتی حجم کو 5 ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔ میں پاکستانیوں کو ترکی میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہوں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں دباؤ کے باوجود پاکستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا درد ترکی کا درد ہے اور پاکستانی عوام کی خوشی ترک عوام کی خوشی ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا، جبر نہیں انصاف اس کا حل ہے۔ کشمیر بھی ترکی کیلئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کیلئے رکھتا ہے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنی تقریر میں شاعر مشرق علامہ اقبال کا خصوصی ذکر کیا، اس پہلے بھی وہ علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ جب پوری دنیا ترکی پر قبضے کی خواہاں تھی اس وقت علامہ اقبال نے لہو گرمانے والی نظمیں لکھیں۔ انہوں نے پاکستان اور ترکی کی دوستی کو سراہتے ہوئے کہا، ہماری دوستی مفاد نہیں پیار محبت پر مبنی ہے۔ میں پاکستانی عوام کو عزت سے سلام پیش کرتا ہوں اور میزبانی پر ان کا شکر گزار ہوں۔ اس دوران پاکستان اور ترکی میں ۔ْ12 شعبوں میں مفاہمتی یاد داشتوں کی دستاویزات پر دستخط ہوئے۔ یہ دورہ پاکستان اور ترکی کے درمیان نئے باب کا آغاز کرے گا۔ اس دورے نے پاکستان اور ترکی کے اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ مفاہمتی یادداشتوں سے پاک ترک نئے تجارتی تعلقات شروع ہوئے ہیں۔رجب طیب اردوان کی پاکستان سے محبت اور مسئلہ کشمیر پر دوٹوک مؤقف نے پاکستانیوں کو ان کا مزید گرویدہ کر دیا ہے۔