نام بگاڑنا۔۔۔۔
تحریر : ڈاکڑ حاجی حنیف طیب
ایک معاشرتی برائی حضور پاک ﷺ نے ناموں کو خراب کرنے سے منع فرمایا ہے

بامعنی نام رکھنا اسلامی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔نام انسان کے دین ومذہب کا عکاس ہے ،اس لئے بچوں کا نام رکھنے سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ وہ اُس کی شخصیت کاحصہ ہے اور آئندہ وہ اپنی زندگی اسی نام سے بسر کرے گا، اپنی شناخت اسی نام سے کرائے گا اوراُس کے اچھے کارناموں کو اسی نام سے شناخت کیاجائے گا ،حتیٰ کہ بعدازمرگ قبر تک بلکہ قیامت کے دن زندہ کئے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اسی نام سے پکاراجائے گا۔ گویا اُس کا نام ہی اُس کی شناخت کا سبب ہے ۔ناموں کے حوالے سے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اچھے ، بامقصد،بامعنی اوراسلاف کے ناموں پررکھے جائیں ۔حضورنبی کریم ﷺنے ناموں کے سلسلے میں اپنی اُمت کو جوتعلیم فرمائی،اُس میں سے چند یہ ہیں کہ قیامت کے روزہرانسان کو اُس کے باپ کے نام سے پکاراجائے گا۔ (ابوداؤد)

حضرت عبد اﷲبن عمر رضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایاکہ تمہارے ناموں میں سے اﷲجل شانہ کوسب سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نام عبد اﷲ(اﷲکابندہ)اورعبدالرحمن(رحمان کابندہ) ہیں۔والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے اچھے نام رکھیں۔ اور پھرجو نام اس کارکھیں تواسی نام سے اسے پکاریں ۔عموماًیہ دیکھا گیاہے کہ ناموں کے بگاڑنے کی ابتداگھرکے لوگوں سے ہی ہوتی ہے،جب وہ پیارمیں مامون کومنو،ممو،یامما،رشید کو رشواور ودودکوودّواور ددّوکے نام سے بلاتے ہیں ۔ نام کوبگاڑناقابل تعزیر ہے،حضور ﷺ نے ناموں کوخراب کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ناموں کا بگاڑمعاشرے پر برے اثرات مرتب کرتاہے اور معاشرتی ماحول کو خراب بھی کرتاہے۔ عموماًنام بگاڑنے پر اکثرلڑائی جھگڑے بھی ہوجاتے ہیں ،جو ہماری اخلاقی پستی کی دلیل ہے۔ناموں کا بگاڑبچوں کے ذہن پر بھی اَثر اندازہوتاہے اورذہنی دباؤ کا سبب بھی بنتا ہے۔انہیں یہ احساس باورکرواتا ہے کہ اُن کے والدین نے اُن کا کتنا برُانا م رکھا ہے۔ناموں کے بگاڑنے سے ہماری معاشرتی اور سماجی سرگرمیوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے حضورﷺنے ناموں کوبگاڑنے سے منع فرمایا ہے۔
آج کل ناموں کے سلسلے میں کچھ لوگوں میں یہ غلط رواج پڑگیا ہے کہ وہ قرآن سے نام کی فال نکالتے ہیں۔مثلاًوہ بچے کانام تجویز کرتے وقت قرآن مجید سے نام کے حروف نکال کر اور بچے کے نام کے حروف کے اعداداور تاریخ پیدائش کے اعدادکوآپس میں ملاکر نام رکھتے ہیں ،یہ بالکل غلط طریقہ ہے ،کیوں کہ قرآن وحدیث میں علم الاعدادپراعتمادکی اجازت نہیں ہے،البتہ تاریخی نام رکھنا جس کے ذریعے سن پیدائش محفوظ ہوجائے تو یہ صحیح ہے۔اسی طرح بعض لوگ پیارواظہارمحبت کی غرض سے اپنے بچوں کے اصلی ناموں کے علاوہ ایک اور عرفی نام بھی رکھتے ہیں ۔ مثلاًمحمدحنیف عرف حنفو،عبدالرحیم عرف رحیمو، شہاب الدین عرف شابو،عبدالحامد عرف پپی وغیرہ۔ یہ نامناسب بات ہے اورنام کو بگاڑنے اور عرفیت کو بڑھانے کاذریعہ بننے والے نام رکھنے کی شریعت میں گنجائش نہیں۔ بعض لوگ قرآن مجید کھول کرساتویں سطر کی ابتدامیں جوحرف ہوگا ،اسی حرف سے نام رکھتے ہیں ۔حرف کاف (ک) نکلا توکاف سے شروع ہونے والے نام رکھتے ہیں ۔مثلاًکلیم عرف کمو وغیرہ۔اس طرح فال لینا بھی غلط ہے۔ شرعاًاس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔پیا راور لاڈکے نام رکھنے کی اِجازت ہے کہ آپ ﷺنے حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا کو حمیرا کہہ کرپکارا۔نام کومختصر بھی کرسکتے ہیں اس لیے نبی کریم ﷺنے حضرت عائشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہاکوعائش کہہ کرپکارا۔(بخاری)
واضح رہے کہ نام کواگر اس طرح مختصر کیا جائے کہ اُس کے معنی مذموم اور مفہوم مردودہوجائیں یعنی اچھے نام برے نام میں تبدیل ہوجائیں تو اِس طرز پر نام کو مختصر کرنا شرعاًدرست نہیں ہے۔جیسے حبیب کوحبو ، جلیل کو جلو اورنصیر کو نصو وغیر ہ کہنا ۔ اسلام نے ناموں کو بگاڑنے اورکسی برے نام سے پکارنے سے منع کیا ہے، اسلام میں یہ عمل قطعاً درست نہیں ، خاص کروہ نام جواﷲتعالیٰ کے ناموں میں شامل ہیں ۔ مثلاً اکثر لوگ رحیم کو رحیمے،کریم کوکریمے ،سلام کو سلامے /سلامو، کہہ کر پکارتے ہیں ،یہ اسمائے حسنہ کی توہین ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ برے ناموں کوبدل کران کے عوض اچھے نام رکھ دیاکرتے تھے۔ (ترمذی) ایک جماعت رسول کریم ﷺکی خدمت میں حاضرہوئی تو اس میں ایک شخص تھا جس کو ''اصرام‘‘کہتے تھے۔ آپ ﷺ نے اس سے دریافت کیاکہ تمہارانام کیاہے ، اس نے کہامجھ کو اصرام کہتے ہیں ۔آپ ﷺنے فرمایا (نہیں) بلکہ تمہارانام زرعہ ہے ۔اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیاہے۔نیز انہوںنے (بطریق وتخلیق ) یہ بھی نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے عاص، عزیز، عتلہ، شیطان،حکم،غراب، حباب اور شہاب ناموں کوبدل دیاتھا۔البتہ شہاب کی اضافت دین کی طرف کی جائے توصحیح ہے،جیسے شہاب الدین وغیرہ ۔ بعض لوگ اچھے ناموں کوبگاڑکربولتے ہیں۔مثلاًمیمونہ کو ممو، سعیدہ کوسدو،مجیداں کومجو،نعیمہ کو نمواورناجیہ کو نجو،وغیرہ ۔ چٹا ، مٹا، چکنا، گیٹا، لمبو، ہکلا، کالو، کالیا، لنگڑا، کانہ ،کہہ کر پکارنا غلط ہے۔اس طرح سے نام کوبگاڑ کر پکارنا غلط ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اپنے بچوں کے وہی نام رکھ دیتے ہیں جن مہینوں میں وہ پیداہوتے ہیں جیسے ،رمضانی، شعبانی، عیدوں، شبراتی وغیرہ، یہ طریقہ بھی شرعاًصحیح نہیں ہے۔ عموماً گلی ، محلوں،رشتہ داروںاور برادری والوںمیں ناموں کوبگاڑ کر بلانا، انہیں پکارنا یاآوازدینا معیوب نہیں جانا جاتا، حالاں کہ کسی کے نام کو بگاڑنا ،اُس فرداور اس کے نام کی تضحیک کے برابر ہے ،اچھے بھلے نام کو لوگ بگاڑ کر ''کاسو‘‘کردیتے ہیں حالاں کہ اس کا نام قاسم ہوتا ہے۔اسی طرح اقبال کو ''بالے یابالا‘‘ یوسف کو جوزف، رفیق کو فیکے، مجید کو مجو ، اور قدیرکو کدّو، ساجد کو سجو، کہہ کر بلانا انتہائی معیوب بات ہے۔