Results 1 to 2 of 2

Thread: قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

    قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟


    تØ+ریر : پروفیسر عثمان سرور انصاری
    انسان Ú©ÛŒ نسل درنسل مسلسل مجموعی زندگی کا تسلسل بھی ریل گاڑی Ú©Û’ آپس میں جڑے ہوئے ڈبوں Ú©ÛŒ طرØ+ ہے ،وقت جس طرØ+ زندگی Ú©Ùˆ سفر میں رکھتا ہے
    ایسے ہی ریل گاڑی کا انجن اس Ú©Û’ تمام ڈبوں Ú©Ùˆ ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک Ù„Û’ جانے کا سبب ہے ۔ہاں، وہ پٹری جس پر ریل گاڑی رواں دواں نظر آتی ہے ایسے ہی ہے جیسے انسان Ú©ÛŒ زندگی میں مختلفرجØ+ان، عادات، افکار، اور روایات وغیرہ کہ جن پر سفر کرتے ہوئے انسان آمد سے رخصت تک کا سفر مکمل کرتا ہے جیسے انجن خودکار ہونے Ú©Û’ ساتھ ساتھ Ù…Ø+ض Ú©Ú†Ú¾ تھوڑی سی مہلت آپریٹر Ú©Ùˆ دیتا ہے کہ وہ اسے Ú©Ú†Ú¾ ہدایات دے سکے ایسے ہی وقت پر Ú©Ú†Ú¾ معمولی سا مگر انتہائی موثر اختیار انسان Ú©Û’ پاس بھی موجود ہے ۔ریل گاڑی Ú©ÛŒ ساری کہانی میں آج کا مرکزی نقطہ ریلوے لائن ہے، جس پر چلتے ہوئے منزل تک رسائی ممکن ہو پاتی ہے۔ فرض کرلیتے ہیں ریل گاڑی لاہور اسٹیشن پر موجود ہے انجن بہت ہی اچھا اور معیاری Ø+الت کا ہے ۔تمام Ú©Û’ تمام ڈبوں کا آپس میں تعلق بھی انتہائی مضبوط اور مربوط ہے، تمام Ú©Û’ تمام مسافر بھی Ù¾Ú‘Ú¾Û’ Ù„Ú©Ú¾Û’ØŒ مہذب، باکردار اور خلوص نیت Ú©Û’ مالک ہیں Û” وہ اپنے عہد Ú©Û’ Ù¾Ú©Û’ اور باعزم ہیں ØŒ عزم Ú©Û’ Ø+صول میں ماہر بھی ہیں ۔لیکن جب تک ریلوے لائن کراچی والی نہیں ہو Ú¯ÛŒ اس وقت تک کراچی کا سفر ممکن نہیں۔
    انسان Ú©ÛŒ زندگی کا بھی سارا سفر آمد Ú©Û’ اسٹیشن سے جب آغاز کرتا ہے تو وہ وقت Ú©ÛŒ گاڑی کسی نہ کسی پٹری پر دوڑتی ہے ØŒ وقت Ú©ÛŒ پٹری مختلف رجØ+ان، عادات، افکار اور روایات ہیں تب ہی تو ہر ملک، ہر علاقے اور ہر معاشرے میں رہنے والے انسان Ú©Û’ تجربات، عادات اور تعلیم مختلف ہوتی ہے۔ یہ اختلاف اس لیے موجود ہے کہ ہر پٹری کسی نہ کسی سمت Ú©Ùˆ جاتی ہے ،ہر سمت میں آنے والے مناظر اور تجربے مخصوص اور جداجدا ہیں۔ یہی وجہ ہے خیبر پختونخوا میں جنم لینے والا بچہ پشتون زبان سیکھتا جائے گا ،بلوچستان Ú©ÛŒ فضا میں سانس لینے والا دھیرے دھیرے بلوچی ØŒ سندھ کا باشندہ سندھی اورپنجاب کا باسی پنجابی Ú©Ùˆ بغیر کسی ارادتاً کوشش Ú©Û’ سیکھ جائے گا۔ زبان Ú©Û’ علاوہ زمین Ú©ÛŒ جغرافیائی کیفیت بھی شخصیت پر ان مٹ اثرات مرتب کرتی رہے گی۔
    خیبر پختونخوا Ú©Û’ فلک بوس پہاڑوں Ú©ÛŒ ایک اپنی منفرد تاثیر ہے جو اپنے باسیوں Ú©Ùˆ ہر طرØ+ سے متاثر کرتی رہتی ہے۔ یہی تاثرات پختونوں Ú©Ùˆ دوسری دنیا سے منفرد کرتے ہیں۔ افریقہ میں درجہ Ø+رارت کا زیادہ ہونا وہاں Ú©Û’ باسیوں Ú©Ùˆ گورا رکھتا ہے ۔آب Ùˆ ہوا بھی انسانی رویوں اور نقوش پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے، یہ سب وجوہات تو قدرتی ہیں جن میں انسان Ú©ÛŒ پہچان Ú©Û’ لیے فرق رکھا گیا Ú©Ú†Ú¾ وجوہات ایسی بھی ہیں جو انسان Ú©ÛŒ اپنی پیدا کردہ ہیں وہ بھی اپنے اندر بے پناہ تاثیر رکھتی ہیں ۔اپنے ماØ+ول میں بسنے والے افراد Ú©Ùˆ متاثر کرتی ہیں اوران Ú©Û’ تاثرات بھی افراد Ú©ÛŒ طرزِ Ø+یات سے دوسرے افراد Ú©Û’ درمیان انفرادیت رکھتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت Ú©ÛŒ ریل گاڑی جس پٹری پر دوڑتی ہے اس Ú©ÛŒ دو یک طرفہ لائنوں میں سے ایک قدرتی صلاØ+یت رکھتی ہے Û” دوسری انسانوں Ú©Û’ مجموعی رجØ+ان اور روایات Ú©Û’ باعث معرضِ وجود میں آئی ہے اب ان دونوں Ú©Û’ باہمی تعلق Ú©Ùˆ سمجھنا اور ان میں ایک مساوی ربط قائم کرنے Ú©ÛŒ کوشش انسان Ú©Û’ لیے اس Ú©ÛŒ زندگی Ú©Û’ سفر Ú©Ùˆ پرسکون اور خوشگوار بنا سکتی ہے۔ اس کاوش میں کامیاب ہونے والی قوموں Ù†Û’ ہی ترقی اور خوشگواری Ú©Ùˆ اپنا نصیب بنایا۔ جو قومیں اپنی قدرتی اور خودساختہ لائنوں Ú©ÛŒ پٹری Ú©Ùˆ سمجھ نہ پائیں وہ آج بھی ترقی Ú©ÛŒ منزل سے بہت دور مسائل Ú©ÛŒ دلدل میں پھنسی ہوئی ہیں۔
    یاد رکھیے،قوموں Ú©ÛŒ تعمیر بڑے بڑے کاموں Ú©Û’ علاوہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے بھی ممکن ہے۔ ایک بڑا کام بذاتِ خود اپنے اندر چھوٹے چھوٹے کاموں Ú©Ùˆ سموئے ہوئے ہوتا ہے اسی لیے تو ایک بڑا کام کہلوانے میں کامیاب ہوپاتا ہے۔ دنیا Ú©ÛŒ کامیاب اور ترقی یافتہ اقوام Ú©ÛŒ تاریخ پر غور کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے ان اقوام Ù†Û’ انفرادی سطØ+ پر تبدیلی Ú©Û’ سفر کا آغاز کیا جو آخر کار پوری قوم Ú©Û’ لیے تبدیلی کا پیش خیمہ بنا۔ انفرادی سطØ+ پر تبدیلی Ú©ÛŒ کوشش Ú©Û’ بغیر دوسرا کوئی طریقہ ایسا موجود نہیں جس سے مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔اس Ú©ÛŒ مثال پاکستان میں دیکھی جاسکتی ہے Û” یہاں Ú©Ú†Ú¾ نہیں بدلا۔بدلے بھی کیسے ØŒ ہر سطØ+ پر مکمل انفرادی تبدیلی سے ہی ملک Ú©Û’ Ø+الات بدل سکتے ہیں۔ جب افراد بدلیں Ú¯Û’ تب ہی تبدیلی ممکن ہے۔
    وزیراعظم عمران خان Ù†Û’ گذشتہ برس مون سون Ú©Û’ آغاز میں شجرکاری مہم کا پودا لگا کر افتتاØ+ کرتے ہوئے اپنی مدت Ú©Û’ دوران 10ارب درخت لگانے کا ہدف Ø·Û’ کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس ہدف Ú©ÛŒ تکمیل Ú©Û’ سلسلے میں اب تک کتنے درخت لگائے جاچکے ہیں Û” اگر اس بیان میں تھوڑی ترمیم کرکے یوں کہہ لیا جاتا کہ ’’پاکستانی قوم اگلے 5سال میں 10ارب درخت لگانے کا عزم رکھتی ہے ‘‘تو اسے عملی جامہ پہنانا آسا Ù† ہو جائے گا ۔اس Ú©Û’ نتائج یقینا مختلف ہوسکتے ہیں۔ Ø+کومت Ú©Û’ لیے 10 ارب درخت لگانا مشکل کام ہے مگر ہر فرد Ú©Û’ لیے 10 درخت لگانا انتہائی آسان ہے۔ آج تک Ø+کومتی سطØ+ پر تعمیراتی منصوبہ بناتے وقت عوام Ú©Ùˆ اعتماد میں نہیں لیا گیااسی وجہ سے تبدیلی لانا ممکن نہیں ہورہا۔
    ہمارے بڑے شہر آج کوڑا کرکٹ Ú©Û’ ڈھیر بنتے جارہے ہیں ،ہلکی سی ہوا چلنے سے سڑکوں Ú©Û’ کنارے سے کاغذ اور شاپر ہوا میں اڑتے یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے کونجو Úº Ú©ÛŒ کوئی بڑی تعدادگروہ Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں آسمان پر Ù…Ø+وِ پرواز ہو ۔ہوا میں اڑتا ہوا یہ کچرا Ø+ادثات کا باعث بھی بن سکتاہے Û”Ú©ÙˆÚ‘Û’ Ú©Û’ ڈھیر ماØ+ولیاتی آلودگی میں اضافہ کررہے ہیں جس سے عوام بیماریوں کا شکار ہیں۔ مگر کسی Ø+کومت Ù†Û’ آلودگی سے چھٹکارا پانے Ú©Û’ لئے کبھی کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔
    کراچی کی بات کی جائے تو وہاں روزانہ 14ہزار ٹن سے زائد کوڑا سڑکوں پر پھینکا جاتا ہے۔ ’’کلین کراچی مہم‘‘ بھی کوڑے کو یوں بکھرنے سے روک نہیں پائی ۔ کوڑے کو ہٹانے کی بجائے قومی، صوبائی، بلدیاتی ادارے آپس میں الجھ رہے ہیں۔ ہر ادارہ تمام ذمہ داری دوسرے ادارے پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کوشش میں ہے ۔ یہ کوشش بھی نئے مسائل کو جنم دے گی ۔
    اس بڑے مسئلے Ú©Û’ Ø+Ù„ Ú©ÛŒ تلاش Ú©ÛŒ خاطر جب ملک Ú©Û’ معماروں سے رجوع کیا گیا تو دل Ú©Ùˆ چین سا Ù…Ø+سوس ہونے لگا ۔بچپن سے سن رکھا ہے ’’بچے من Ú©Û’ سچے‘‘ توکوڑے Ú©Û’ مسئلے Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر جب بچوں سے رجوع کیا گیا تو Ú©Ú†Ú¾ Ø+قائق سامنے آئے ،جنہیں عوام Ú©Û’ سامنے پیش کرنا یقینا تبدیلی کا باعث بنے گا۔ کراچی Ú©ÛŒ گنجان سڑک شاہراہ فیصل Ú©Û’ کنارے چلتے ہوئے 2معصوم بچوں Ú©Ùˆ دیکھا ۔وہ سکول سے واپسی پر چلتے چلتے کیلے کھارہے تھے۔ Ø+یرت ہوئی جب دیکھا کہ بچوں Ù†Û’ Ú†Ú¾Ù„Ú©Û’ سڑک پرپھینکنے Ú©ÛŒ بجائے اپنے شاپر میں ڈال لئے تھے ۔میں Ù†Û’ آگے بڑھ کر ان Ú©ÛŒ تعریف Ú©ÛŒ اورپوچھا ،’’بیٹا،یہ اتنا اچھا کام آپ Ù†Û’ کہاں سے سیکھا ؟تو ولی اور مومن Ù†Û’ جواب دیا کہ اسی سڑک سے سیکھا ہے Û”
    مزید استفسار پر انہوں Ù†Û’ بتایا،۔۔۔’’ ایک روز ہم سکول سے گھر جارہے تھے،میں Ù†Û’ ایک نوجوان Ú©Ùˆ ایسے کرتے دیکھا تو میں بہت متاثر ہوا۔ اس دن Ú©Û’ بعد سے میں بھی ویسا ہی کرتا ہوں۔ جب کوئی کوڑا دان نظرآجائے تو اس میں گندگی ڈال دیتے ہیں‘‘۔ ولی اور مومن Ù†Û’ بتایا کہ وہ شدت سے چاہتے ہیں کہ ان کا شہر کراچی صاف ستھرا ہو مگر مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ان Ú©Ùˆ کوڑا دان ڈھونڈنے میں بہت Ù…Ø+نت کرنا پڑتی ہے۔ انہوں Ù†Û’ معصوم سا مطالبہ کیا کہ’’ انکل ،یہ ضرور لکھنا کہ شاہراہ فیصل پر Ø+کومت کوڑادانوں Ú©ÛŒ تعداد بڑھا دے تاکہ ہمیں مشکل کا سامنا نہ کرنا Ù¾Ú‘Û’ØŒ جس طرØ+ ہم ایک بھائی Ú©Ùˆ دیکھ کر یہ عادت اپنا Ú†Ú©Û’ ہیں شاید Ú©Ù„ ہمیں دیکھ کر دوسرا پاکستانی بھی عادت اپنا لے‘‘۔
    ولی اور مومن Ú©ÛŒ اسی بات Ù†Û’ مجھے رجØ+ان پر Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ پر مجبور کیا۔ کراچی Ú©Û’ Ú©ÙˆÚ‘Û’ کا Ø+Ù„ مل گیا ہے ،یہ Ø+Ù„ Ø+کومت Ú©Û’ لئے مشکل بھی نہیں۔ عوام میں صفائی کا رجØ+ان پیدا کرنے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ Ø+کومت کراچی میں بسنے والے ولی اور مومن جیسے لاکھوں بچوں Ú©ÛŒ آسانی Ú©Û’ لیے گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کوڑا دان لگوائے،و قت پر انہیں خالی کردیاکرے ،عوام میں رجØ+ان پیدا کرنے سے صفائی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ضرورت ہے بس عوام Ú©Ùˆ قومی ترقی Ú©Û’ دھارے میں شامل کرنے Ú©ÛŒ ۔اتنی سی بات ہے۔
    صفائی Ú©Û’ متعلق بچوں Ú©Û’ شعور Ú©Ùˆ جانچنے Ú©ÛŒ غرض سے ایسا ہی ایک سروے راولپنڈی Ú©Û’ ایک سکول میں منعقد کیا گیا تو ایک بچے Ù†Û’ اپنے بیگ سے صابن نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ہاتھ صابن سے دھوتا ہے ،سکول میں صابن نہیں ہے اس لیے وہ اپنا صابن اپنے بستے میں رکھتا ہے ۔پانچویں جماعت Ú©Û’ طالبعلم ریØ+ان سے جب ایسا کرنے Ú©ÛŒ وجہ پوچھی گئی تو ریØ+ان Ù†Û’ بتایا کہ۔۔۔’’میں اپنے ابو Ú©Û’ ساتھ موٹر سائیکل پر سوار کہیں جارہا تھا، موسم بہت اچھا تھا ØŒ ابو Ù†Û’ کھلونا خرید کر دیا تھا لہٰذا میں بہت خوش تھا۔ اسی خوشی Ú©Û’ عالم میں میرے قریب سے ایک سفید رنگ کا بڑا کنٹینر گزرا ۔اس پر سبز رنگ میں لکھا تھا کہ ہاتھ ہمیشہ صابن سے دھوئیں ۔کنٹینر پر لکھا ہوا یہ جملہ میرے دل میں اتر گیا۔ میں Ù†Û’ سوچا سڑک پر چلتی گاڑی Ú©Û’ ڈرائیور Ú©Ùˆ بھی اØ+ساس ہے کہ اس Ù†Û’ لوگوں Ú©Ùˆ کوئی اچھا پیغام دینا ہے۔ میں تو ایک طالبعلم ہوں ØŒ میری ذمہ داری کا درجہ کیا ہوگا۔ اس دن سے میں اس بات پر عمل بھی کرتاہوں اور اپنے دوستوں Ú©Ùˆ بھی ایسا کرنے پر قائل کرتا ہوں‘‘۔
    ریØ+ان Ù†Û’ بتایا کہ اب اس Ú©Û’ سب دوست ایسا کرتے ہیں ،ہم سب مل کر بچوں میں صابن سے ہاتھ دھونے Ú©ÛŒ آگاہی مہم کا آغاز بھی کرنا چاہتے ہیں مگر ایسا کرنے Ú©Û’ لیے ہمارے پاس کوئی باقاعدہ راہنمائی موجود نہیں۔ ریØ+ان Ù†Û’ بھی مطالبہ کیا کہ یہ ضرور لکھئے گا کہ Ø+کومت تمام سکولوں میں صابن رکھوائے تاکہ ہر بچہ جراثیم سے Ù…Ø+فوظ رہ سکے۔جو رجØ+ان ایک کنٹینروالے Ù†Û’ پید اکیا ہے ،وہ وقت Ú©Û’ ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا ،ہماری Ø+کومت سے اپیل ہے کہ وہ ہر سکول میں صابن Ú©ÛŒ موجودگی یقینی بنائے ۔بامقصد پیغامات Ú©ÛŒ ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرز Ú©ÛŒ Ø+وصلہ افزائی یقینی بنائے تاکہ پاکستانی عوام Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ ریل گاڑی صØ+ت یابی Ú©Û’ رجØ+ان Ú©ÛŒ پٹری پر رواں دواں ہو کر صØ+ت مندی Ú©Û’ اسٹیشن پر پہنچ سکے۔
    اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں رہا کہ ہم عوام میں انتہائی آسانی سے مثبت رجØ+انات پیدا کرسکتے ہیں۔ عدم برداشت ہمارے معاشرے کا آج ایک جان لیوا رجØ+ان ہے۔ مندرجہ بالا سروے Ú©Û’ نتائج سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اگر سکولوں اور کالج Ú©ÛŒ سطØ+ پر برداشت کرنے Ú©Û’ رجØ+ان Ú©Ùˆ اجاگر کیا جائے۔ روزمرہ، بول چال اور کام کاج میں برداشت کرنے Ú©ÛŒ اہمیت Ú©Ùˆ واضع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ معاف کردینے سے انسان کا قد بڑھتا ہے۔ جو آج انسانوں Ú©Ùˆ معاف کرے گا اسے Ú©Ù„ آخرت میں اﷲ تعالیٰ معاف فرمائے گا۔۔۔ ایسے جملے یقینا عوام میں قوتِ برداشت Ú©Ùˆ بڑھانے میں معاون Ùˆ مددگار ثابت ہوں Ú¯Û’ Û”Ù…Ø+مد سرور انصاری Ù†Û’ بتایا کہ جب ہم تیسری جماعت میں پڑھتے تھے تو میرا جھگڑا (اب ڈاکٹر)اسد اﷲ خان سے ہوگیا ۔جب وہ ان Ú©ÛŒ شکایت Ù„Û’ کر اپنے استاد مرØ+وم غلام Ù…Ø+مد بھٹی Ú©Û’ پاس گئے تو انہوں Ù†Û’ اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا بھائیوں Ú©Û’ آپس Ú©Û’ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں Ú©Û’ متعلق کسی Ú©Ùˆ نہیں بتاتے ۔آپس میں مل بیٹھ کر صلØ+ سلوک سے Ø+Ù„ کرلیتے ہیں۔یہ سن کرانہوں Ù†Û’ ناصرف جھگڑا باہمی رضامندی سے Ø+Ù„ کیا بلکہ ساری عمر دوبارہ کبھی بھی معمولی جھگڑوں Ú©Ùˆ ہوا نہیں دی۔اس سے وہ ساری عمر سکون سے رہے۔
    یہ ہیں وہ مثبت رجØ+انات جو قوموں Ú©ÛŒ تقدیر بدل دیتے ہیں اور یہ کب شروع ہوتے ہیں اØ+ساس تک نہیں ہو پاتا ۔ہم ایسے ہی بڑے بڑے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور ان منصوبوں Ú©ÛŒ تکمیل Ú©Û’ لیے بھاری وسائل کا اندازہ کرکرکے ڈرتے رہتے ہیں جبکہ تبدیلی ایسے ہی اچانک غیر Ù…Ø+سوس طریقے سے آجاتی ہے جب تبدیلی کا اØ+ساس ہوتا ہے تب تک ہمیں تبدیل ہوئے ایک وقت گزرچکا ہوتا ہے۔ہمارا ہر مسئلہ Ø+Ù„ ہوسکتا ہے، معاشرہ پرامن اور مکمل خوشØ+ال ہوسکتا ہے ۔تھوڑی سی توجہ اور ہمت Ú©ÛŒ ضرورت ہے Û” سمت درست کرنے Ú©ÛŒ ہمت۔باقی سب Ú©Ú†Ú¾ تو قدرت Ú©ÛŒ طرف سے ہوہی رہا ہے ۔انسان اس دنیا میں اپنا اثاثہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر مسلسل اگلے سفر پر گامزن ہورہا ہے، مختلف رجØ+ان، عادات، افکار اور روایات وغیرہ کونکھارنے Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ رشتوں کوٹوٹنے سے بچاناہے ØŒ سمت امن وخوشØ+الی Ú©ÛŒ جانب کرنی ہے ۔وقت خود ہی قوموں Ú©Ùˆ کامیابی Ú©Û’ اسٹیشن پر Ù„Û’ جاتا ہے۔ آج کا سبق بس اتنا ہے کہ جس طرØ+ ہرشخص مرنے سے پہلے پہلے اپنی اولاد Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ نہ Ú©Ú†Ú¾ بنانے Ú©ÛŒ فکر میں ہے وہاں اس بات کا بھی ادراک رکھے کہ وہ اپنے کردار سے انسان Ú©ÛŒ مجموعی زندگی میں جو اضافہ کرکے جائے گا وہ مثبت ہونا چاہیے نہ کہ منفی۔ مثبت کردار سے ہمیشہ مثبت اور منفی کردار سے ہمیشہ منفی کردار جنم لیتے ہیں ۔ہماری اتنی سی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم مثبت کردار Ú©Û’ Ø+امل بن سکیں۔


    2gvsho3 - قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

    2gvsho3 - قوموں کی تعمیرکیسے ممکن ہے ؟

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •