گڑیا کے پاؤں ........ جویریہ صدیق
برسوں پہلے کی بات ہے، میں بس میں سفر کر رہی تھی۔ میں اس وقت کالج کی طالبہ تھی اور اب میں ایک اسکول کی پرنسپل ہوں۔ اس دن بہت گرمی تھی۔ کالج کی وین خراب ہوگئی تو ہم سب نے سوچا کہ کیوں نہ آج پھر بس کی سواری کی جائے۔ اسٹاپ بالکل گھر کے پاس تھا۔ہم پانچ لڑکیاں بس پر سوار ہوئیں تو ہسپتال کے اسٹاپ سے ایک بوڑھی اماں اپنی بہو کے ساتھ بس میں سوار ہوئی۔ بہو کی گود میں ایک بچی تھی اور اس کو رومال میں ایسے لپیٹ رکھا تھا جیسے کھانے یا روٹی کو رومال میں باندھا جاتا ہے۔ ایک دن کی بچی دیکھ کر جہاں ہم سب کالج کی لڑکیوں کو بہت خوشی ہوئی وہاں اس بات پر حیرت کہ بچی کے بدن پر کپڑے کیوں نہیں ہیں، وہ رومال میں کیوں بندھی ہے۔ رومال سے اس کے بازو، سینہ اور آدھی ٹانگیں ڈھکی ہوئی تھیں، اس کے ننھے پاؤں باہر آ رہے تھے۔ وہ ہلکی سی آواز میں رو رہی تھی اور ننگے پاؤں ہلا کر دودھ مانگ رہی تھی۔ ساس بہو کو مسلسل برا بھلا سنا رہی تھی، ایک بیٹا پیدا کرتی تو کیا جاتا، اچھا کیا رفیق نے اس تیسری کلموہی کا منہ تک نہیں دیکھا۔ میں اب اس کی دوسری شادی کروں گی۔ بہو بہت کمزور لگ رہی تھی چپ کرکے آنسو بہا رہی تھی اور اپنی بے بسی کا ماتم کر رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کہا بڑی بی! بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں، آپ خود بھی عورت ہی ہو، کچھ اللہ کا خوف کرو۔ باقی سب بھی میری ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ ننھی گڑیا کو بھی شاید میری بات اچھی لگی، اس نے ننگے پاؤں خوب ہلا کر اس بار زور کی آواز لگا کر دودھ مانگا۔وہ بڑی بی منہ میں ہی کچھ بڑبڑانے لگی۔ میں نے کہا، بچی کے کپڑے کیوں نہیں بنائے، اس کو آپ آدھا ننگا لے کر گھوم رہی ہیں، کچھ تو خدا کا خوف کریں۔ میں نے اپنا سکارف اتارا، اس گڑیا کی ماں کو دیا کہ اس میں بچی کو لپیٹ لے اور خود اپنے دوپٹے کو اسکارف کی طرح لپیٹ لیا۔آگے ایک خاتون ٹفن لے کر بیٹھی تھی، اس نے روٹی قیمے کا رول بنا کر اس لڑکی کو دیا کیونکہ اس کا کمزوری سے برا حال تھا۔ وہ لڑکی روٹی پر ایسے ٹوٹی جیسے کب سے بھوکی تھی۔ میری دوست کے پاس پانی کی بوتل تھی، اس نے اس کو پانی پلایا۔ تھوڑا ہوش میں آنے کے بعد اس نے بچی کو دودھ پلایا اور ننھی گڑیا سوگئی۔ میں نے بیگ سے کاپی پین نکالا اور اس لڑکی کو اپنے والدین کے سکول کا پتہ لکھ دیا کہ ٹھیک ہونے کے بعد یہاں نوکری کرنے آجانا۔آج سے بیس سال پہلے 50 روپے کا نوٹ بڑا سمجھا جاتا تھا، میں نے وہ اس کو دے دیا۔ وہ آنسوؤں کے ساتھ شکریہ ادا کرتی رہی۔ جھولی بھر بھر کر سب کو دعائیں دیتی رہی۔ اس کی ساس نفرت سے منہ موڑ کر کھڑکی کے باہر دیکھتی رہی کیونکہ بہو تیسری بار بھی بیٹی لائی تھی، بیٹا نہیں۔میرے والدین کا چھوٹا سا سکول تھا، جہاں بہت سارے بچے پڑھتے تھے۔ وہ لڑکی ناصرہ اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ وہاں آگئی اور آیا کا کام کرنے لگی۔ اس کی دو بیٹیاں پڑھنے لگیں اور ننھی گڑیا ابھی چھوٹی تھی تو وہ اس کو دوپٹے کے ساتھ باندھ لیتی، جس میں صرف اس کا چہرہ نظر آتا، گول گول آنکھیں، پیارا چہرہ۔ ہم سب نے اس کے لئے کپڑے اور کھلونے خریدے۔ناصرہ نے مجھے بتایا کہ تیسری بیٹی کی پیدائش پر میرے شوہر نے مجھے مارا اور میری ساس نے کوئی کپڑے نہیں بنائے۔ میری بچی ننگی تھی کہ ایک نرس نے اپنے رومال میں اس کو لپیٹ دیا، ڈاکٹر نے مجھے دو دن ہسپتال میں رکنے کا کہا تھا لیکن میری ساس بچی پیدا ہونے کے بعد مجھے پیدل چلاتے ہوئے بس اسٹاپ تک لائی۔ میں پھر بھی ساس، سسر اور شوہر کی خدمت کرتی ہوں، اپنی تنخواہ آدھی ساس اور شوہر کو دے دیتی ہوں۔ میں یتیم ہوں، وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔دن گزرتے گئے، میرے امی ابو اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور میں سکول کو چلا رہی ہوں۔ ناصرہ بھی اب گھر پر آرام کرتی ہے اور اس کی تینوں بیٹیاں جاب کر رہی ہیں۔ چھوٹی گڑیا جس کا نام علینا ہے، اب خود ٹیچر ہے۔ صبح میرے سکول میں پڑھاتی ہے۔ فارغ اوقات میں وہ غریب اور نادار بچوں کو پڑھاتی ہے۔ اس کے والد اور دادی کو اب سمجھ آگیا ہے بیٹیاں بھی بیٹوں سے کم نہیں اور بیٹیاں اللہ کی رحمت ہیں۔