سب یاد رکھا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے ایک فارغ التحصیل طالب علم عامر عزیز کی نظم کی بازگشت یورپ میں بھی سنی گئی ہے‘ جہاں پاپ سنگر راجرز نے نریندر مودی کو فاشسٹ قرار دیتے ہوئے عامر عزیز کی دل کو چھو لینے والی نظم کا حوالہ دیا ہے۔ نظم میں کچھ تو ہے کہ اسے پڑھنے والوں پر بھی بغاوت کے مقدمے درج ہو رہے ہیں۔ عامر عزیز اور دوسرے شاعروں کی نظمیں پڑھنے والے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے 10 طالب علموں کے خلاف بغاوت کے مقدمے درج کر لئے گئے ہیں۔ ان میں سات کشمیری طالب بھی شامل ہیں۔ اہم نام جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق صدر کنہیا کمار کا ہے۔ وہ آسام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف کھڑے ہونے والے تھے۔ بغاوت کا مقدمہ تو بنتا ہے۔ آئیے پہلے عامر عزیز کی نظم پڑھتے ہیں۔
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
تم رات لکھو، ہم چاند لکھیں گے
تم جیل میں ڈالو، ہم دیوار پھاند‘ لکھیں گے
تم ایف آئی آر لکھو، ہم تیار، لکھیں گے
تم ہمیں قتل کرو، ہم بن کے بھوت لکھیں گے
تمہارے قتل کے سارے ثبوت لکھیں گے
تم عدالت سے بیٹھ کر چٹکلے لکھو
ہم سڑکوں، دیواروں پہ انصاف لکھیں گے
بہرے بھی سن لیں، اتنی زور سے بولیں گے
اندھے بھی پڑھ لیں، اتنا صاف لکھیں گے
تم زمین پہ ظلم لکھ دو، آسمان پہ انصاف لکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
اور دن میں میٹھی میٹھی باتیں کرنا سامنے سے
سب کچھ ٹھیک ہے، ہر زبان میں تتلانا
رات ہوتے ہی حق مانگ رہے لوگوں پہ لاٹھیاں چلانا
گولیاں چلانا، ہم پہ حملے کرکے، ہمیں کو حملہ آور بتانا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
اور میں اپنی ہڈیوں پہ لکھ رکھوں گا یہ ساری واردات
تم جو مانگتے ہو مجھ سے میرے ہونے کے کاغذات
اپنی ہستی کا تم کو ثبوت ضرور دیا جائے گا
یہ جنگ تمہاری آخری سانس تک لڑی جائے گی
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا
۔23 فروری کی صبح کچھ مختلف نہ تھی۔ سورج روزانہ کی طرح مشرق سے نکلا اور مغرب کی جانب ڈوبنے لگا۔ سب معمول کے مطابق اپنے اپنے گھروں سے کام کاج کو نکلے، لیکن تمام معمولات کے باوجود یہ دن پہلے سے کافی مختلف تھا۔ فرق کپل مشرا کا بیان تھا۔ ان کی دھمکی کے بعد شمالی دہلی میں این آر سی کے خلاف پھولوں کی بارش میں شروع ہونے والے اجتماع کا انجام گولیوں کی تڑتڑ، مدد کیلئے چیخ و پکار، آگ کے شعلوں اور تیزاب کی بو کے ساتھ ہوا۔ شمالی دہلی میں سب سے زیادہ نقصان اس علاقے میں ہوا جہاں سے کپل مشرا انتخاب ہار گئے تھے۔ انتخاب ہرانے والوں کو سزا تو ملنا تھی، سو مل گئی۔ یہ ہے دہلی کا سب سے بڑا قانون۔
۔21 تا 24 فروری 2020ء‘ مجھے 1947ء کی یاد آ گئی۔ 1947ء کی طرح ایک بار پھر کلہاڑیوں، درانتیوں اورڈنڈوں سے مسلح ہندو بلوائی مسلمانوں کی تلاش میں تھے۔ اس مرتبہ وہ خطرناک کیمیکلز سے بھی مسلح تھے۔ یہ ایک طرح سے کیمیکل واربھی تھی‘ جس میں تیزاب کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔ کسی ڈر، خوف کے بغیر۔ مہاراشٹرا اور گجرات سے آنے والے 400 غنڈے شہر بھر میں دندناتے پھر رہے تھے۔ ایمبولینسوں کو اجازت نہ ملنے پر موٹر سائیکل سواروں نے اپنے قرب میں گرنے والوں کی لاشوں کو ہسپتال پہنچایا۔ موت سے چھپنے کیلئے بیوہ ہونے والی بچیوں کو مردہ خانے جانے کی اجازت بھی نہ ملی۔کچھ نے اپنے سروں سے دوپٹے اتار دیئے تاکہ مسلمان ہونے کا شائبہ بھی نہ ہو۔ کچھ عورتوں نے قتل سے بچنے کیلئے ماتھے پر تلک سجائے اور مرد ''سیفران‘‘ کپڑوں میں سامنے آگئے۔ ہرجانب مسلح جتھے بنا روک ٹوک شہر پر قبضہ کئے ہوئے تھے۔ ہر ایک سے نام اور مذہب پوچھ کر راستہ دے رہے تھے،جس کسی پر شک گزرتا، بار بار ''جے شری رام‘‘ کہنے کا مطالبہ کرتے۔ پھر ہنستے، ڈنڈوں سے مارتے اور یہی الفاظ دہراتے رہتے حتیٰ کہ جسم ٹھنڈا پڑ جاتا۔ متعدد مسلمان طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے سڑکوں اور چوراہوں پر تڑپ رہے تھے۔ ہر جوان یا بڑے کو سڑک پر گھسیٹ گھسیٹ کر شہید کر دیتے۔ ایک گھر میں ایک 85 سالہ مسلمان عورت کو زندہ جلا دیا گیا۔ اس کی سیاہ لاش نریندر مودی اور امیت شاہ سے پوچھ رہی ہے کہ منٹوں میں پاکستان پر الزام لگانے والوں، اتنے بڑے ہجوم کی نقل و حمل اور تین روز تک گھر جلانے والوں کو روکنے میں کیوں ناکام رہے؟ ٹوئٹر پر بھی عوام پوچھ رہے ہیں: نریندر مودی!تم 69گھنٹے کہاں تھے؟ کسی نے لکھا کہ جب دہلی جل رہا تھا، نریندر مودی ڈانس دیکھ رہے تھے۔ یعنی روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجارہا تھا۔ ان دنوں شمالی دہلی میں سب سے زیادہ رش مردہ خانوں میں ہے۔ کئی سوافراد لاپتہ ہیں۔ زندہ ہیں یا مردہ علم نہیں۔ 123ایف آئی آرز کے تحت 650 افراد گرفتار ہیں۔ کہیں مسلمان ہی تو گرفتار نہیں ہو گئے؟
حالات کی سنگینی کا اندازہ ہاشم پورہ میں 42 مسلمانوں کے سروں میں گولیاں مار کر نالے میں پھینکنے والوں کی خبر سننے والے جج مرالی نے بھی لگا لیا تھا۔ جسٹس مرالی نے رات 2 بجے عدالت لگائی اور پولیس کو تمام شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے اور زخمیوں کیلئے راستہ کھلوانے کا حکم دیا۔ اسی رات ڈھائی بجے وزیر داخلہ امیت شاہ اچانک ظاہر ہوئے، اور مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کا حکم دینے والے جسٹس مرالی کو دہلی سے نکال باہر کیا گیا۔ جج صاحب کے تبدیل ہوتے ہی شمالی دہلی کی پولیس نے کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف قتل اور عوام کو اکسانے کے حوالے سے درج درخواستیں خارج کر دیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی ہر قیمت پر ان کے خلاف مقدمات کا اندراج چاہتی تھی۔ جسٹس مرالی نے تمام وڈیوز خود سن کر ان تینوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ پولیس چیف بھی آمادہ تھے، لیکن ان کے تبادلے کے اگلے ہی روز دہلی پولیس نے ہائیکورٹ میں نئی رپورٹ جمع کرا دی ہے جس میں انہوں نے انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کو اشتعال دلانے سمیت تمام سنگین الزامات سے بری کر دیا حالانکہ پرویش ورما نے سرعام کہا تھا کہ شاہین باغ میں غنڈے بیٹھے ہیں۔ انوراگ نے کہا تھا ''دیش کے غداروں کو‘ گولی مارو مسلمانوں کو‘‘۔
غیر ملکی میڈیا نے اعتراف کیا کہ ایک بڑا گروپ مقامی نہ تھا، لیکن مقامی باشندوں نے رہنمائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی، چن چن کر شہید کیا گیا۔ 69 گھنٹے تک نریندر مودی نے مڑ کر نہ دیکھا اور پھر کشمیریوں کو مقید کرنے کا پلان بنانے والے اس اجیت ڈوول کو بھیج دیا‘ جس نے علمائے کرام اور امام صاحبان کو ڈرایا، دھمکایا کہ ''جو ہو گیا سو ہو گیا‘ اب نہیں ہو گا‘‘۔ مسلمانوں کی 30،40 برس کی کمائی راکھ کا ڈھیر بن گئی اور وہ کہتے ہیں: جو ہو گیا سو ہو گیا۔ اس سے زیادہ بے رحمانہ جملہ ہو نہیں سکتا۔ یہ ایک سبق بھی ہے۔ امریکی صدر کی دہلی میں موجودگی کی بھی پروا کئے بغیر ہندوئوں نے قتل عام کر کے دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے مقصد کی تکمیل میں امریکی صدر کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتی۔