بیدل حیدری
haidari.jpg
طبقاتی تضادات اور افلاس کو موضوع بنایا لیکن شعریت قائم رکھی
تحریر : عبدالحفیظ ظفر
فاقوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا پہن لیا
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
یہ فکر انگیز شاعری اس شخص کی ہے جس نے تمام عمر اپنے نظریات کو اپنے اشعار سے الگ نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ شعری طرز احساس کو بھی بڑی خوبصورتی سے برقرار رکھا۔ ان کو زندگی نے جو کچھ دیا اور انہوں نے زندگی کی آنکھ سے جو کچھ دیکھا اسے اپنے فن کی چادر میں لپیٹ کر قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا۔
ایک کھرا سچا شاعر جو منافقت اور ریاکاری سے نفرت کرتا تھا اور لفظ سمجھوتہ جس کی لغت میں شامل نہیں تھا قدم قدم پر سماجی اور معاشی جبر کے خلاف لڑتا رہا یہ تھے بیدل حیدری۔1924ء کو میرٹھ (بھارت) میں پیدا ہونے والے بیدل حیدری کا اصل نام عبدالرحمان تھا۔ ان کے شعری کلیاب کلیات بیدل حیدری کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بیدل حیدری نے رومانوی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا کا حصہ بنایا لیکن ان کا شعری اسلوب جداگانہ تھا۔ وہ رومانس میں بھی نئے جذبوں کے حامی ہیں اور رومانوی شاعری کی روایات کی من و عن پیروی نہیں کرتے۔ ان کی قوت متخیلہ اور شدت احساس کا امتزاج ایسے ایسے اشعار وجود میں لاتا ہے کہ زبان سے بے اختیار واہ واہ نکلتی ہے۔ ان کی تراکیب بھی حیران کن ہوتی ہیں اور وہ جب وہ تجرید کو حقیقت کا لباس پہناتے ہیں تو ان کا فن اوج کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح ان کی چھوٹی بحر کی غزلیں بھی کمال کی ہیں۔ وہ بات کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور قاری کے دل میں اتر جانے کے فن سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ بعض اوقات ان کے شعر کا پہلا مصرعہ پڑھ کر ہی قاری ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے لگتا ہے۔ یہ کمال ان کی نکتہ آفرینی کا ہے۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے۔
ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
بیدل حیدری کی شاعری عام آدمی کی شاعری ہے۔ ہو سکتا ہے ہمارے کچھ نقاد ان کی شاعری کو بھی نعرے بازی سمجھ لیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اگر وہ نفس کی شاعری کے ساتھ ساتھ آفاق کی شاعری بھی کرتے ہیں تو کیا یہ کوئی جرم ہے؟ بیدل حیدری نے اپنی فکر کا کینوس محدود نہیں کیا البتہ یہ ضرور ہے کہ طبقاتی تضادات کی نشاندہی ان کی شاعری کی پہچان بن گئی ہے۔ ان کی شاعری میں لطافت بھی نظر آتی ہے اور الفت کے سائے بھی۔ ظاہر ہے ایک شاعر کو بہت سے عوامل متاثر کرتے ہیں اس لئے اس کا شعری کینوس محدود نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایک چیز ہوتی ہے جسے طرہ امتیاز (Hallmark) کہا جاتا ہے۔ وہ طرہ امتیاز زہر فنکار کا بن جاتا ہے۔ جناب احمد ندیم قاسمی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ ہیں اور ترقی پسند ادب کے حامی ہیں حالانکہ انہوں نے خود کئی بار کہا تھا کہ میں کیمونسٹ تو نہیں مسلمان ہوں لیکن ترقی پسند مسلمان ہوں۔ ان کی شاعری کے بھی کئی رنگ ہیں لیکن قاسمی صاحب کا طرہ امتیاز بہرحال انسان دوستی اور سماجی اقدار کا احترام رہا۔ یہی کچھ دوسرے ترقی پسند شاعروں کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ بیدل حیدری کو بھی اسی فکر کے حوالے سے جانچنے کی ضرورت ہے۔ ان کی شاعری میں بھی ترقی پسندی کے سائے ملتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مذہب سے دور ہو گئے ہیں۔ ان کے شعر کا ایک مصرعہ ملاحظہ کریں۔
جو رزق آئے گا وہ آسماں سے آئے گا
بیدل حیدری اپنی شاعری میں دو چیزوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ ایک اظہاریت اور دوسرا تاثریت۔ اس کے علاوہ وہ فطری حقائق کا اچھا خاصا ادراک رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جو حسن تنہائی میں شعراء کو نظر آتا ہے وہ انجمن میں نہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
مقام رنج ہے تنہائیوں نے مل کر آج
وہ اپنا حسن بھی کھویا ہے انجمن بن کر
اسی خیال کو بیدل حیدری نے کتنی خوبصورتی سے پیش کیا ہے
جتنا ہنگامہ زیادہ ہو گا
آدمی اتنا ہی تنہا ہو گا
تجریدیت کو حقیقت کی سطح پر دیکھنا بھی ایک بہت بڑا آرٹ ہے۔ علامتی اور تجریدی افسانہ نگار اسے خوب سمجھتے ہیں اسے انگریزی میں (Personification) کہتے ہیں۔ بیدل صاحب بھی ا س کااستعمال بخوبی جانتے ہیں۔ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں
دریا نے کل جو چُپ کا لبادہ پہن لیا
پیاسوں نے اپنے جسم پہ صحرا پہن لیا
وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی بڑی دلکش تھی لیکن اسے گزرانے کا انہیںڈھنگ نہیں آیا۔ کہتے ہیں
بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو اُلٹا پہن لیا
ان کی قوت متخیلہ کبھی کبھی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے ۔ فرماتے ہیں
اتنا کھل کر بھی نہ رو جسم کی بستی کو بچا
بارشیں کم ہوں تو سیلاب بھی کم آتے ہیں
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گائوں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
ذیل میں بیدل حیدری کے مزید اشعار پیش کئے جارہے ہیں ۔
تجھ پر برسوں گا میں سب سے پہلے
اے سمندر مجھے بادل نہ بنا
اے زمانے میں ترا سونا ہوں
اے زمانے مجھے پیتل نہ بنا
میرے اندر کا پانچواں موسم
کس نے دیکھا ہے کس نے جانا ہے
رہنے والے رتجگوں میں پریشاں مزید اسے
لگنے دے ایک اور بھی ضرب شدید اسے
فرط خوشی سے وہ کہیں آنکھیں نہ پھوڑلے
آرام سے سنائو سحر کی نوید اُسے
اس پیکر جمال کی پرچھائیں بھی جمال
اس روشنی کے پیڑ کا سایہ بھی روشنی
کئی دوسرے شعرا کی طرح بیدل حیدری کو وہ قدر و منزلت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کے شعری کلیات '' کلیات بیدل حیدری ‘‘ کا مطالعہ کرکے یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ بھی ناقدری زمانہ کا شکار ہے۔ 2004 ء میں بیدل حیدری کی زندگی کا سورج ڈوب گیا۔ لیکن ان کے فن کا سورج ہمیشہ چمکتا رہے گا۔