نظرثانی کی ضرورت ۔۔۔۔۔۔ کنور دلشاد

ہمارے ملک میں منتخب ارکان Ú©ÛŒ مدت Ú©Û’ Ø+والے سے بØ+Ø« ایک عرصے سے جاری ہے۔ Ú©Ú†Ú¾ Ø+لقوں کا کہنا ہے کہ یہ مدت چار سال ہونی چاہیے جبکہ دوسرے Ø+لقے اس سوچ Ú©Û’ Ø+امل ہیں کہ یہ مدت پانچ سال ہی رہنی چاہیے‘ جیسے کہ اس وقت ہے۔ اس معاملے میں دونوں Ø+لقوں یا طبقوں Ú©Û’ اپنے اپنے جواز‘ اپنے اپنے موقف‘ اپنی اپنی وضاØ+تیں اور اپنی اپنی توجیہات ہیں۔ اس بارے میں میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ ملک Ú©Û’ موجودہ انتخابی‘ سیاسی‘ پارلیمانی نظام Ú©Ùˆ مدِ نظر رکھ کر پورے سسٹم کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے پارلیمانی ارکان Ú©ÛŒ مدت پانچ سال Ú©ÛŒ بجائے چار سال رکھنے Ú©ÛŒ تجویز پر غور کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ میری دانست میں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ملک میں ہر وقت جو ایک سیاسی کشمکش Ú©ÛŒ سی صورت نظر آتی ہے‘ ابہام Ú©Û’ بادل جو ہر وقت چھائے رہتے ہیں اور یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سیاسی معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے اور جو کرپشن Ú©Û’ Ø+والے سے آئے روز آواز اٹھتی رہتی ہے‘ تو مدت چار سال کرنے Ú©Û’ نتیجے میں اس صورت Ø+ال میں بہتری آئے گی‘ اور ملک میں صدارتی سسٹم لانے Ú©Û’ Ø+والے سے بار بار جو ایک لہر اٹھتی ہے‘ اس کا بھی ہمیشہ Ú©Û’ لیے ازالہ ہو جائے اور پارلیمانی نظام Ú©Û’ ناکام ہونے Ú©Û’ بارے میں اکثر جو ایک تاثر قائم کرنے Ú©ÛŒ کوشش Ú©ÛŒ جاتی ہے‘ وہ بھی خود بخود دم توڑ جائے گی۔ میرا یہ مؤقف نیا نہیں ہے۔ میں Ù†Û’ Ø+کومت Ú©ÛŒ تشکیل کردہ انتخابی اصلاØ+ات کمیٹی Ú©Ùˆ دسمبر 2014Ø¡ میں تجویز پیش Ú©ÛŒ تھی کہ چار سال Ú©ÛŒ مدت کا تعین کرنے سے ملک میں تسلسل Ú©Û’ ساتھ جاری سیاسی خلفشار‘ دھرنے اور اØ+تجاجی تØ+اریک کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا۔ اپوزیشن Ú©Ùˆ اگلے الیکشن Ú©Û’ لیے زیادہ انتظار نہیں کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا جبکہ Ø+کمران جماعت برق رفتاری سے اپنے منصوبے مکمل کرے گی۔ اس کا ایک ممکنہ مثبت نتیجہ یہ بھی برآمد ہو سکتا ہے کہ اس طرØ+ اپوزیشن Ú©Ùˆ بھی اسمبلیوں میں قانون سازی اور عوام Ú©ÛŒ فلاØ+ Ùˆ بہبود Ú©Û’ لیے عملی اقدامات کرنے Ú©ÛŒ ضرورت پیش آئے گی‘ کیونکہ Ø+زبِ اختلاف جانتی ہو Ú¯ÛŒ کہ جلد ہی اس Ú©Ùˆ ووٹ Ú©Û’ لیے عوام Ú©Û’ پاس جانا Ù¾Ú‘Û’ گا۔ میری پیش کردہ اس تجویز Ú©ÛŒ اس وقت Ú©Û’ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور تØ+ریک انصاف Ú©Û’ چیئرمین Ù†Û’ بھی تائید Ú©ÛŒ تھی‘ لیکن انتخابی اصلاØ+ات Ú©ÛŒ کمیٹی Ù†Û’ ان تجاویز Ú©Ùˆ نظر انداز کر دیا تھا۔
اسی طرØ+ میرا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاسی مفاہمت Ú©Ùˆ فروغ دینے Ú©Û’ لیے آئین Ú©Û’ آرٹیکل 62 (1) ایف پر نظر ثانی کرتے ہوئے دس سال Ú©ÛŒ مدت مقرر Ú©ÛŒ جانی چاہیے کیونکہ تا Ø+یات نا اہلی Ú©Û’ بارے میں متعلقہ آرٹیکل اس آئین Ú©Û’ آرٹیکل 63 (1) جی اور ایچ سے متصادم Ù…Ø+سوس ہوتا ہے۔ نا اہلی Ú©Û’ آرٹیکل Ú©Û’ بارے میں مزید غور Ùˆ خوض اور اس میں ترمیم کرنے Ú©Û’ بارے میں موجودہ پارلیمنٹ میں‘ اپنے مخصوص سیاسی تناظر میں جرأت کا فقدان ہے‘ لہٰذا آئین Ú©Û’ آرٹیکل 184 (3) Ú©Û’ تØ+ت 17 رکنی فل کورٹ اس بارے میں جائزہ Ù„Û’ کر پارلیمنٹ Ú©Ùˆ مشورہ دینے Ú©ÛŒ مجاز ہے۔ ویسے بھی دس سال Ú©ÛŒ نا اہلی بھی بادی النظر میں تا Ø+یات نا اہلی Ú©Û’ مترادف ہی ہے کیونکہ متعلقہ نا اہل شخص طویل مدت تک پارلیمنٹ Ú©ÛŒ رکنیت سے Ù…Ø+روم رہے گا۔ ویسے بھی سبھی Ú©Û’ مشاہدے میں آتا ہے کہ نا اہلی Ú©Û’ باوجود پارٹی امور چلائے جاتے ہیں اور سرکاری Ùˆ غیر سرکاری امور میں ان Ú©ÛŒ شمولیت بھی نظر آ رہی ہے۔ کیا اس بات پر غور کیا جا سکتا ہے کہ جو سیاسی رہنما آرٹیکل 62 (1) ایف Ú©ÛŒ زد میں آئیں ان Ú©ÛŒ سیاسی سرگرمیاں تو بدستور اور Ø+سب معمول جاری ہیں‘ لیکن باقی معاملات پر جو پابندیاں ضروری ہیں‘ وہ لگا دی جائیں۔ یاد رہے کہ ایبڈو زدہ سیاست دانوں Ú©Ùˆ سیاسی سرگرمیوں میں Ø+صہ لینے Ú©ÛŒ ممانعت تھی‘ یہاں تک کہ وہ سوشل فنکشنز میں بھی جانے سے گریز کرتے تھے‘ اس Ú©Û’ برعکس آئین Ú©Û’ آرٹیکل 62 (1) ایف Ú©Û’ تØ+ت نا اہل شخصیات Ú©Û’ شب Ùˆ روز پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ اس Ú©ÛŒ سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جائیں تو زندگی Ú©Û’ باقی معمولات اسی طرØ+ جاری رہتے ہیں، تو اب عظیم تر مفاہمت Ú©Û’ پیش نظر سپریم کورٹ آف پاکستان مناسب سمجھے تو فل کورٹ Ú©Û’ ذریعے اس کا متبادل Ø+Ù„ نکالنے Ú©ÛŒ کوشش کرنے Ú©ÛŒ مجاز ہے۔
ایک اور معاملہ جس پر میں ایک عرصے سے بات کرنا چاہتا ہوں الیکشن میں ووٹوں Ú©Û’ ٹرن آئوٹ کا ہے۔ ووٹر عام طور پر تین Ø+صوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک‘ جو کسی پارٹی سے وابستہ ہوں‘ دوسرے‘ مخالف پارٹی Ú©Û’ Ø+امی اور تیسرے‘ نیوٹرل رہنے والے‘ جو ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔ فرض کریں Ú©Ù„ ووٹ اگر سو ہوں تو بتیس فیصد ووٹ Ø+اصل کرنے والا جیت جاتا ہے جبکہ اٹھائیس فیصد والا امیدوار ہار جاتا ہے‘ لیکن ان چالیس فیصد Ú©Ùˆ نظر انداز کر دیا جاتا ہے جو نیوٹرل ہیں یا خاموش۔ لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں ووٹرز Ú©Û’ ٹرن آؤٹ میں اضافہ Ú©Û’ لیے الیکشن کمیشن اپنے قانونی اختیارات Ú©Ùˆ بروئے کار لاتے ہوئے صوبائی ایڈمنسٹریشن Ú©Ùˆ پابند کر Ú©Û’ سرکاری وسائل سے ووٹروں Ú©Ùˆ پولنگ سٹیشن تک پہنچانے کیلئے سرکاری ٹرانسپورٹ کا انتظامات کرے۔ میرا گمان ہے کہ ووٹروں Ú©Ùˆ گھروں سے پولنگ سٹیشن تک اور پھر واپس اپنے گھروں تک Ù¾Ú© اینڈ ڈراپ Ú©ÛŒ سہولت مل جائے تو انتخابات کا ووٹرز ٹرن آئوٹ 60 فیصد سے کراس کر جائے گا‘ جس سے ملک میں Ø+قیقی نمائندگان Ú©ÛŒ Ø+کومت معرض وجود میں آ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں نواز شریف Ú©Ùˆ صرف 17 فیصد نمائندگی ملتی رہی اور موجودہ Ø+کومت Ú©Ùˆ بھی ڈھائی کروڑ ووٹروں Ú©ÛŒ Ø+مایت Ø+اصل ہوئی تھی‘ جبکہ رجسٹرڈ ووٹروں Ú©ÛŒ تعداد ساڑھے دس کروڑ سے زائد تھی۔
اب جبکہ ہمارا ملک آئندہ ترقی پذیر ممالک Ú©ÛŒ صف میں کھڑا ہونے جا رہا ہے اور قوم Ú©ÛŒ نگاہیں اس Ø+والے سے وزیر اعظم عمران خان پر Ù„Ú¯ÛŒ ہوئی ہیں۔ دوسری جانب کرپشن زدہ سیاست دانوں سے قومی اØ+تساب بیورو Ú©Û’ چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال آہنی ہاتھوں سے اØ+تساب کرا رہے ہیں‘ اس صورت Ø+ال Ú©Ùˆ مزید مستØ+Ú©Ù… کرنے Ú©Û’ لیے ضروری ہے کہ ملک Ú©Û’ وسیع تر مفاد میں گرینڈ ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے جس میں عدالت عظمیٰ‘ عدالت عالیہ Ú©Û’ چیف جسٹس صاØ+بان‘ قومی اسمبلی Ú©Û’ سپیکر اور چیئرمین سینیٹ‘ قائد ایوان‘ قائد اپوزیشن‘ تینوں فورسز Ú©Û’ چیفس Ú©Ùˆ مدعو کر Ú©Û’ ملک Ú©Û’ قومی مسائل Ú©Û’ Ø+Ù„ Ú©Û’ بارے میں ایسا لائØ+ہ عمل تیار کیا جائے کہ ملک میں سیاسی اور معاشی استØ+کام Ú©Ùˆ فروغ ملے‘ جبکہ ابہام کا باعث بننے والے معاملات پر نظرثانی Ú©Û’ لیے غیر جانبدارانہ اعلیٰ سطØ+ کا کمیشن بنا کر دائمی Ø+Ù„ نکالنے Ú©Û’ لئے لائØ+ہ عمل بنایا جائے۔
وزیر اعظم عمران خان اپنے قریبی دوست نعیم الØ+Ù‚ Ú©ÛŒ رØ+لت Ú©Û’ بعد اور قریبی ساتھیوں Ú©ÛŒ سرد مہری Ú©ÛŒ وجہ سے تنہائی کا شکار ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ انہیں شاہ Ù…Ø+مود قریشی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرنا چاہیے‘ اور وزیر اعظم ہاؤس میں جو سرکاری Ùˆ غیر سرکاری ترجمانوں کا بازار لگا ہوا ہے ان Ú©Û’ بارے میں Ø+ساس اداروں سے جانچ پڑتال کروانی چاہیے۔ میرا اندازہ ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ Ú©ÛŒ کمزور Ø+یثیت سے ایک ایسا طاقت ور گروپ سامنے آ رہا ہے جو بلدیاتی انتخاب میں تØ+ریک انصاف Ú©Ùˆ چاروں شانے چت کر دے گا۔ ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے آئینی اور قانونی ماہرین پر بھی گہری نظر اور کراس چیکنگ Ú©Û’ لیے اپنے دوستوں سے رابطہ رکھیں جنہوں Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ 2013 Ú©Û’ انتخابات میں گرداب سے نکالنے میں مدد Ùˆ معاونت Ú©ÛŒ تھی۔