برصغیر میں خط ِ عربی کی آمد ۔۔۔۔ تحریر : عبدالحئی عابد
۔25 سو قبل مسیح میں جب وادیٔ دجلہ و فرات میں سومیری تہذیب کا دور دورہ تھا، وادی سندھ میں دراوڑ قوم بستی تھی۔ دو ہزار ق م میں آنے والے آریا قوم نے دراوڑوں کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ آریاؤں نے اس سرزمین پر صدیوں حکومت کی۔ وادیٔ سندھ میں ملنے والی قدیم تحریروں اور سازوسامان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کھروشتی، آریائی، سنسکرت، دیوناگری زبانیں اور رسم الخط مروج رہے۔
برصغیر کے ساتھ عربوں کے تعلقات قدیم زمانے سے تھے۔ ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں عرب تاجروں کے لیے بڑی کشش تھی۔ ان کو یہاں تجارتی سامان اور قسم قسم کی اشیا وافر اور کم قیمت ملتی تھیں۔ اکثر تجارتی قافلے ادھر کا رخ کرتے تھے۔ یہی تعلق ہند میں عربی خط کے فروغ کا باعث بنا۔
ایک روایت کے مطابق عہد رسالتؐ ہی میں ایک وفد سراندیپ (سری لنکا) سے مدینہ روانہ ہوا تھا جو بعض رکاوٹوں کی وجہ سے عہد فاروقی کی ابتدا میں وہاں پہنچا اور براہِ راست اسلام کا علم حاصل کیا۔ عہدفاروقی کی ابتدا میںبھروچ (ہندوستان) اور دیبل کی مہم پر دشمن کے مقابلے میں کامیابی نصیب ہوئی۔
۔31ھ کے قریب مکران فتح ہوا۔ اسی طرح مختلف اوقات میں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں کئی علاقے مسلمانوں کے زیرنگیں آ گئے۔ سب سے مؤثر اور طاقتور حملہ ولید بن عبدالمالک کے دور حکومت میں محمد بن قاسم نے کیا اور دیبل کی بندرگاہ پر فتح حاصل کی۔ اسی طرح مختلف علاقے فتح کرتے ہوئے وہ ملتان تک قابض ہو گئے۔ بعد ازاں مکمل سندھ، پنجاب اور کشمیر کے علاقوں کو بھی فتح کر لیا۔
مسلمانوں کے سندھ اور ملحقہ علاقوں میں عمل دخل کی وجہ سے عربی خط قرآن مجید کی صورت میں ان علاقوں تک پہنچا۔ حضرت عثمانؓ کے عہد میں قرآن پاک تدوین اشاعت کے مرحلہ میں پہنچ گیا۔ حضرت علیؓ کے دور میں رسم الخط میں کی گئی اصلاح نے اسے عجمیوں کے پڑھنے کے لیے آسان بنا دیا۔ ابتدا میں جو بھی عرب برصغیر آتے، اپنے ساتھ قرآن پاک کی کتابت شدہ آیات لاتے۔ اس طرح قرآن پاک کے ساتھ عربی خط بھی پھیلتا رہا۔ ادھر عرب میں عربی رسم الخط میں اصلاح اور ارتقا کا عمل جاری تھا۔ خط کوفی آرائشی صورت میں لکھا جانے لگا۔
برصغیر میں بھنبھور (سندھ) کے مقام پر ایک قدیم اور معدوم مسجد کا کتبہ نہایت صاف تزئینی خط کوفی میں لکھا ہوا ہے۔ یہ مسجد 294ھ میں امیر محمد بن عبداللہ کے حکم سے تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دہلی کی مسجد ''قوت اسلام‘‘ قطب الدین ایبک نے تعمیر کرائی تھی جو برصغیر کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ اس کے کتبے کسی بلند پایہ خطاط کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سندھ اور گردونواح میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے پر درس گاہیں اور مساجد بنانے کا سلسلہ چل نکلا۔ مساجد کی تزئین و آرائش اور خطاطی مسلمانوں کے فنون کا حصہ تھی۔ امورِ مملکت کے چلانے، مراسلت اور دیگر معاملات میں عربی خط کو متعارف کرایا گیا۔ عربی خط کی لطافت، روانی اور شستگی سے متاثر ہو کر ہندوستانی زبانوں کے لیے بھی اسی رسم الخط کو اختیار کر لیا گیا۔
محمد بن قاسم کے بعد محمود غزنوی تک کے دور کی خطاطی کا کوئی خاص نمونہ میسر نہیں ہے۔ برصغیر میں مسلم حکومت کا دوسرا دور اس وقت شروع ہوا جب سبکتگین نے شمال مغرب کے درہ سے داخل ہو کر برصغیر پر حملہ کیا اور ملتان تک پہنچ گیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا محمود غزنوی تخت نشین ہوا۔
اس دور میں برصغیر میں خط نسخ بھی وارد ہو چکا تھا۔ چنانچہ یہاں کوفی، نسخ اور ان میں ترامیم شدہ شکلیں رائج تھیں۔ خطاطی زیادہ تر قرآنی کتابت تک ہی محدود رہی۔ عہد غزنوی کے نمونوں میں سلطان محمود کا ایک سکہ ہے جسے ''تنکہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے دونوں طرح عربی اور سنسکرت عبارتیں تحریر ہیں۔ اس عہد کا ایک اور مخطوطہ داتا گنج بخشؒ کی کتاب ''کشف المحجوب‘‘ ہے جسے ابو حامد نامی کاتب نے 436ھ میں تحریر کیا۔ اسی طرح احمد آباد (گجرات) میں ''کاچ‘‘ نامی مسجد میں ایک کتبہ عربی میں خط نسخ میں تحریر شدہ موجود ہے۔
اس عہد کے دیگر کتبات کو بھی دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غزنوی دور کے آخر تک خط کوفی اپنی ارتقائی صورت میں اور نسخ ابتدائی صورت میں برصغیر میں موجود تھا۔ یہاں کے کاتب ابن مقلہ اور ابن البواب کی طرز کو اپنا رہے تھے۔ بعدازاں دیگر تمام خاندانوں غوری، غلاماں، خلجی، لودھی، تغلق وغیرہ کے عہد حکومت کے دوران بھی عربی خط اور خطاطی کو ترقی دی گئی۔ سلطان ناصرالدین محمود قرآن مجید کی کتابت خود کرتے تھے۔ ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ اب بطوطہ نے بھی دیکھا تھا۔
غیاث الدین بلبن نہایت عقلمند، مدبر اور متقی بادشاہ تھا۔ قرآنی خطاطی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا اور جو کاتب اس کو قرآن پاک کا نسخہ لکھ کر پیش کرتا اسے خوب نوازتا اور پھر قرآن پاک کا وہ نسخہ کسی مستحق فرد کو جو اسے پڑھنا چاہتا ہو ہدیہ کر دیتا۔ بلبن کا بڑا لڑکا سلطان محمد خان شہید نہایت علم دوست اور شیخ سعدیؒ کا بہت معتقد تھا۔ امیر خسرو بھی خان شہید کے دربار سے متعلق تھے۔
خاندان خلجی اور خاندان تغلق کے ادوارحکومت میں بھی خطاطی کا مقام بلند رہا۔