ام حوتپ:
تہذیبِ انسانی کا رخ موڑنے والا
تحریر : اخلاق احمد
تیسرے خاندان فراعنہ کے اہم حکمران شاہ زوسر کی کامیابیوں کا دارومدار زیادہ تر اس کے وزیر باتدبیر ام حوتپ کی دانشمندی پر تھا۔ ام حوتپ مصر کے قدیم دارالحکومت ممفس کا رہنے والا تھا۔ وہ تاریخ مصر بلکہ شاید تاریخ عالم کا تاحال ایسا سب سے پہلا دانشور مصنف، معالج، مفکر، عالم اور ماہرتعمیرات اور منجم ہے جس کا نام تحریری طور پر مل چکا ہے۔ اس کے نام کے معنی ہیں ''امن میں رہنے والا‘‘۔ ام حوتپ نے اولین ماہرتعمیرات کی حیثیت سے دنیا کی پہلی ایسی اونچی عمارت تعمیر کی جو ساری کی ساری پتھروں سے بنائی گئی تھی۔ یہ عمارت فرعون زوسر کا ہرم یا مقبرہ ہے۔ ام حوتپ کا یہ عظیم تعمیراتی شاہکار آج بھی سرزمین مصر پر موجود ہے، اس سے پہلے شاہی مقبرے پختہ اینٹوں سے تعمیر کیے جاتے تھے۔ پتھر کا استعمال صرف فرش تک محدود تھا۔ ام حوتپ نے یہ ہرم ممفس کی پہاڑیوں کے قریب چٹانوں پر سفید پتھروں سے تعمیر کیا۔ یہ ہرم چھ چکر وار زینوں پر مشتمل ہے۔ اپنے اسی مخصوص طرزتعمیر کی وجہ سے یہ ''زینے دار‘‘ ہرم کہلاتا ہے۔ یہ قاہرہ کے نزدیک سقارہ کے قدیم قبرستان میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس جگہ فراعنہ کے پانچویں خاندان تک کے حکمرانوں اور سرکردہ اشخاص کے مقبرے تعمیر ہوتے رہے۔ قدیم مصر کا دارالحکومت ممفس یہاں سے قریب تھا۔ زوسر کا مذکورہ سرتاسر سنگین مقبرہ 397 فٹ لمبا، 358 فٹ چوڑا اور کوئی 205 فٹ اونچا ہے۔ ام حوتپ نے اپنی زندگی میں جو کارنامے انجام دیئے ان میں اس ہرم کی تعمیر ایک لحاظ سے اس کا سب سے اہم اور عالمی سطح پر بھی اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اولین تعمیراتی کارنامہ ہے۔ ام حوتپ کے اسی کارنامے سے مصر میں پتھر کے اہراموں اور عمارتوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ اسی سے دنیا میں طرزتعمیر اور تہذیب انسانی کا ایک نیا تعمیراتی دور شروع ہوا۔ یعنی یہ ام حوتپ ہی تھا جس نے تقریباً پانچ ہزار برس قبل نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کو ایک عظیم اور فنی ترقی کے ایک نئے تعمیراتی دور میں داخل کر دیا تھا۔ اہرام زوسر کی تعمیر کے ساتھ پوری دنیا میں ام حوتپ نے عظیم الشان عمارتوں کی تعمیر پر مبنی جس تہذیب کا آغاز کیا وہ اسی کے ایجاد کردہ فنی اصولوں کی بنیاد پر استوار ہوئی تھی۔ اس نے دھوپ میں سکھائی ہوئی اینٹوں کی جگہ پتھر کے بلاکوں سے پہلی مرتبہ ہرم تعمیر کیا۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد اسی طرزتعمیر سے اہل مصر نے اہرام زوسر سے بھی بڑی عمارات تعمیر کر لیں۔ ان میں چوتھے خاندان کے حکمرانوں نے خوفوچیوپس اور منکورا کے مشہور عالم تین بڑے اہرام شامل ہیں۔ اپنی اس فنی مہارت اور جدت کے سبب ام حوتپ ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر گیا۔
ام حوتپ تاریخ عالم کا پہلا معلوم جینئس تھا۔ ایسا جینئس جو اپنے افکار، تخلیقی صلاحیت، پرواز فکر اور قوت اختراع کے لحاظ سے اپنے دور سے بے حد آگے تھا۔ اس کی تخلیقی صلاحیتوں نے انسانی تمدن کا دھارا نئی راہوں کی طرف موڑ دیا۔
دنیائے قدیم کی عظیم شخصیتوں میں یہی وہ عظیم دانش مند شخصیت ہے جسے نہ صرف مصریوں نے اپنی ہزار ہا سالہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا، بلکہ ان کے بعد آنے والی دوسری اقوام عالم یونانیوں اور رومیوں نے فاتحین مصر کی حیثیت رکھنے کے باوجود مفتوح مصری قوم کے اس اولین دانش مند کو نہیں بھلایا۔
قدیم مصری ادب میں ام حوتپ کا ذکر بربط نواز کے مشہور قدیم مصری گیت میں بطور افتتاحی اسم کے آیا ہے۔ اسی طرح قدیم مصریوں کے ہاں یہ روایت ملتی تھی کہ جب کوئی نوآموز کاتب کچھ لکھنے کا آغاز کرتا تو اپنی دوات سے چند قطرے سیاہی کے ام حوتب کے نام پر زمین پر ٹپکا دیتا تھا۔
متعدد قدیم مصری تحریروں میں اس کی معجزہ نما شفابخشی کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم تاریخ مصر میں وہ ہمیشہ بطور معالج یاد رکھا گیا۔ یہاں تک کہ پانچ سو قبل از مسیح میں اس کی وفات کے کوئی 24 سو سال بعد اسے شفایابی کے دیوتا کا درجہ حاصل ہو گیا۔ بعد میں آنے والے ادوار میں اس کے درجے میں اضافہ مصر کے غیر ملکی حکمرانوں یعنی یونانیوں نے کیا کہ اسے اپنے دیوتا شفا و صحت اسکلی پیوس کے مشابہ قرار دے دیا۔ موجودہ سقارہ میں اس کے مقبرے کے اردگرد، جو زیارت گاہ بن گیا تھا، یونانی اسے مشابہت کی بنا پر اسکلی پیوں کہتے تھے۔
بعد کے زمانوں میں نہ صرف مصر بلکہ دوسرے تہذیب یافتہ ملکوں تک سے مریض صحت پانے کی خاطر اس کے مقبرے پر آیا کرتے تھے۔ یوں اس کا مقبرہ ایک طبی اور مذہبی مرکز کی اختیار کر گیا تھا۔ لق لق اور بن مانس (میمون) ام حوتپ کے مقدس پرندے اور چوپائے کی حیثیت رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے مریض جب ام حوتپ کے مقبرے کی زیارت کے لیے آتے تو بطور نذر کتان کے کپڑے کی پٹیوں میں لپٹے اور مٹی کے مرتبان میں سربمہر جنوط شدہ لق لق یا میمون بھی لاتے تھے۔ انگریز ماہر مصریات ڈاکٹر والٹرایمری نے ایک ایسا مقبرہ دریافت کیا جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ یہ ام حوتپ کا ہی مقبرہ ہے۔ اس مقبرے کی غلام گردشوں سے کم از کم 10 لاکھ حنوط شدہ لق لق مٹی کے سربمہر مرتبانوں میں ملے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف نے 26 سال کی تلاش کے بعد 1965 میں یہ مقبرہ دریافت کیا تھے۔ یہ مقبرہ بھی سقارہ کے قبرستان میں موجود ہے۔