قومی تعمیر ....... تØ+ریر : ڈاکٹر مختار اØ+مد عزمی

tameer.jpg
Ú©Ù„ شام کسی وجہ سے ہمیں چائے خود بنانی پڑی، بیگم صاØ+بہ چائے بنائیں تو ہمیں بھی خوب بناتی ہیں۔ خود چائے بنانے میں ایک عافیت یہ بھی ہے کہ صرف چائے بنتی ہے ہم نہیں بنتے! بہر Ø+ال Ú©Ù„ شام چائے بناتے ہوئے ہم یہ سوچ رہے تھے ’’قوم Ú©ÛŒ تعمیر میں ادب کا یا ادیب کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟‘‘

ہمارا خیال ہے کہ کسی بھی ادیب، شاعر اور دانشور Ú©Ùˆ پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ وہ چھوٹے موٹے کام خود اپنے ہاتھ سے کرے ورنہ اچھا بھلا شاعر صرف میرا جی بن کر رہ جاتا ہے۔ کام تو کئی ہیں تاہم چائے بنانے، انڈہ ابالنے، سلاد کاٹنے اور اپنے جوتے خود پالش کر لینے سے بھی ایک ادیب Ùˆ شاعر اپنی قوم Ú©ÛŒ تعمیر میں Ø+صہ Ù„Û’ سکتا ہے۔
چائے خود بنانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ دانشور Ù…Ø+ض چائے Ú©ÛŒ پیالی میں طوفان اٹھانے Ú©ÛŒ بجائے قوم اور معاشرے Ú©Û’ کارآمد افراد بن سکیں Ú¯Û’Û” انڈہ ابالنے سے وہ اندر Ú©Û’ ابال سے بچ سکیں Ú¯Û’Û” سلاد کاٹنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ Ú©Ù¹ Ø+جتی اور ضدی پن سے بچ سکیں Ú¯Û’ اور اپنے جوتے خود پالش کرنے سے ان Ú©Û’ اندر ایک Ø+قیقی Ú†Ù…Ú© آئے گی۔ علامہ اقبال Ù†Û’ اپنی پہلی کتاب ''علم الاقتصاد‘‘ میں ہمارے اس مؤقف Ú©ÛŒ تائید Ú©ÛŒ ہے۔ ان کا کہنا ہے۔ ''مجھے ایک مزدور Ú©Û’ کھردرے ہاتھ زیادہ پسند ہیں بہ نسبت ان ہاتھوں Ú©Û’ جنہوں Ù†Û’ قلم Ú©Û’ سوا کبھی کوئی بوجھ نہ اٹھایا ہو‘‘۔
Ú©Ù„ شام چائے بناتے ہوئے ہمیں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ چائے میں پانی، پتی، چینی، دودھ Ú©ÛŒ مقدار کتنی ہونی چاہیے؟ اب بھلا ایسے ادیب شاعر اپنے معاشرے اور قوم Ú©ÛŒ کیا خدمت کر سکتے ہیں جنہیں چائے بنانے Ú©ÛŒ ترکیب ہی معلوم نہ ہو۔ ہمارے ادباء Ùˆ شعراء Ú©ÛŒ اکثریت ایسی ہی ہے جو اپنے معاشرے Ú©Û’ دکھوں اور خوشیوں سے لاتعلق ہے۔ بقول ڈاکٹر انوار اØ+مد ''اردو ادب Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والے صØ+رانورد بن جاتے ہیں اور انگریزی ادب Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والے خلانورد، دونوں کا معاشرے سے تعلق باقی نہیں رہتا‘‘۔ ہماری زندگی عمل سے خالی ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے۔
ابھی چائے کا پانی اچھی طرØ+ سے جو Ø´ میں نہیں آیا تھا کہ موبائل فون Ú©ÛŒ بیل بجی۔ دوسری طرف ایک مولانا دل ربا کرم فرما تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرین Ú©ÛŒ امداد کیلئے Ú©Ú†Ú¾ دینی جماعتوں اور شہر Ú©Û’ اصØ+ابِ درد Ù†Û’ ایک چندہ مہم شروع Ú©ÛŒ ہے، اس میں ہمیں بھی شامل ہونا چاہیے۔ اب بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ ایک ادیب اور دانشور کا زلزلہ زدگان Ú©ÛŒ چندہ مہم سے کیا تعلق؟ ہم تو ٹھہرے اعلیٰ آدرشوں Ú©Û’ مالک، افلاطونی اور رومانی قسم Ú©Û’ دانشور۔ ہمارا ایسے بکھیڑوں سے کیا تعلق؟ ہاں اگر غم کھانا ہی Ù¾Ú‘Û’ تو پھر کسی انٹرنیشنل کرائسس پر دو چار ٹسوے بہا لینے میں Ø+رج نہیں مثلاً سونامی، قطرینہ وغیرہ۔ ایک لوکل قسم Ú©Û’ سانØ+Û’ پر بڑے دانشور کا اظہار خیال کرنا مناسب نہیں سمجھتے!
جب چائے کا پانی اچھی طرØ+ سے جوش میںآچکا تو ہم Ù†Û’ اس میں پتی ڈال دی۔ بعد میں خیال آیا کہ اگر پتی ڈالنے Ú©ÛŒ بجائے Ù¹ÛŒ بیگ ڈال کر سیپریٹ چائے بنائی جاتی تو Ú©Ú†Ú¾ اور ہی مزہ ہوتا۔ Ù¹ÛŒ بیگ Ú©Û’ ساتھ دودھ اور چینی ہر پینے والا اپنی خواہش Ú©Û’ مطابق Ø+Ù„ کر سکتا ہے۔ آنجہانی کمیونزم Ú©ÛŒ اصطلاØ+ات Ú©Û’ مطابق ایسی چائے Ú©Ùˆ بُورژوا چائے کہا جاسکتا ہے مگر پرولتاری دانشور مکس چائے اور Ú©Ú‘Ú© چائے پیتے ہیں تاکہ عوام Ú©Û’ ساتھ اظہار یکجہتی ہو سکے۔ ان کا خیال ہے اور سو فیصد درست خیال ہے کہ جو ادب اپنی قوم اور معاشرے سے لاتعلق ہوتا ہے وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، جس ادب میں نہ اپنی خوشیاں سانجھی ہوں اور نہ دکھ ایک ہوں تو وہ مصر Ú©ÛŒ ممیوں Ú©ÛŒ طرØ+ نشانِ عبرت بن جاتا ہے۔ وہی ادب سچا اور سدا بہار ہوتا ہے جس Ú©ÛŒ جڑیں عوام میں گہری ہوں۔ ڈھائی سو سال پہلے برصغیر Ú©Û’ ایک سکول ماسٹر نظیر اکبر آبادی Ù†Û’ اپنی شاعری میں عوام Ú©Û’ دکھوں اور خوشیوں Ú©Ùˆ بیان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس کا شمار اردو Ú©Û’ پانچ بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ جن شعراء Ù†Û’ Ù…Ø+ض Ø+اکم وقت Ú©ÛŒ خوشامد اور قصیدہ گوئی میں اپنے وقت اور صلاØ+یتوں Ú©Ùˆ ضائع کیا، آج ان کا نام بھی بمشکل ذہن میں آتا ہے۔ ڈھائی سو برس پہلے میر تقی میر Ù†Û’ بھی تو یہی کہا تھا۔
چور اُچکّے، سکھ مرہٹے، شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے میاں
ایسا لگتا ہے کہ چوروں اچکوں اور ڈاکوؤں کا جو دور دو ڈھائی صدیاں پہلے تھا، وہی آج بھی ہے۔ نہ صرف ہماری قوم اور معاشرہ ڈاکوؤں اور لٹیروں Ú©ÛŒ زد میں ہے بلکہ ادب پر بھی انہی Ú©ÛŒ Ø+کمرانی ہے۔ آج بھی کسی ساغر صدیقی Ú©ÛŒ عمر بھرکی کمائی کسی اور نام سے شائع ہو جاتی ہے۔ آج بھی کسی نوشی گوشی Ú©Û’ نشے میں کوئی شاعر اپنے دل Ùˆ دماغ Ú©ÛŒ کمائی لٹوا بیٹھتا ہے۔ آج بھی لٹیرے بلیکئے اور دونمبری لوگ کسی قابل اجمیری Ú©Û’ کلام پر ہاتھ صاف کرجاتے ہیں۔ صاØ+بو! ہمارے معاشرہ میں ایک اور نیا پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ اہل صØ+افت Ù†Û’ بھی ادب Ú©ÛŒ وادیوں میں گلگشت شروع کردی ہے۔ اب بگڑا شاعر صØ+افی بننے پر مجبور ہوگیا ہے۔
شاعر Ù†Û’ تنگ آکے صØ+افت شعار Ú©ÛŒ
ردی کے مول بکتی ہیں جادونگاریاں
آعند لیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
جوں ہی میں Ù†Û’ چائے کا پہلے گھونٹ Ø+لق سے اتارا اور Ú©Ù¾ Ú©Ùˆ میز پر رکھا، قبلہ علامہ اقبال تشریف Ù„Û’ آئے۔ میں اØ+تراماً کھڑا ہوگیا۔ انہوں Ù†Û’ دُعا دی۔ ''جیتے رہو، بیٹھو بیٹھو‘‘ میں Ù†Û’ علامہ Ú©Ùˆ چائے آفر Ú©ÛŒ مگر وہ کہنے Ù„Ú¯Û’ میں تو لسّی پسند کرتا ہوں۔ مجھے یاد آیا، واقعی علامہ تو لسی Ú©Û’ دلدادہ ہیں۔ انہوں Ù†Û’ ایک خط میں اپنے والد شیخ نور Ù…Ø+مد Ú©Ùˆ بھی لسی استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے اور کہا کہ یورپ Ú©Û’ کئی Ø+کماء Ù†Û’ لسی Ú©ÛŒ افادیت ثابت Ú©ÛŒ ہے۔ اب اس کا کیا علاج کہ ہمارے شہروں کا تو کیا کہنا، دیہاتوں سے بھی لسی غائب ہوگئی ہے، البتہ چائے ہر گھر اور ہر گوٹھ گراں میں وافر مل جاتی ہے۔
ہم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علامہ سے پوچھا کہ قوم کی تعمیر میں ادباء کا کیا کردار ہوتا ہے؟ علامہ نے ہمیں غور سے دیکھا اور فرمایا ''برخوردار! لگتا ہے تم نے ''بانگ درا‘‘ میں میری نظم ''شاعر‘‘ نہیں پڑھی؟‘‘ ہماری مسکین صورت دیکھ کر علامہ نے بڑے وجد کے ساتھ اپنی نظم سنانی شروع کردی۔
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
Ù…Ø+فلِ نظم Ø+کومت، چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگین نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
ہم Ù†Û’ عرض کیا علامہ صاØ+ب! آپ Ù†Û’ شاعری Ú©Ùˆ ایک ندی سے بھی تو تشبیہ دی ہے۔ ایسی ندی جس سے زندگی Ú©ÛŒ کھیتیاں ہر ÛŒ ہوتی ہیں۔
شاعرِ دلنواز بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرعہ زندگی ہری
علامہ فرمانے لگے کہ ہم نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے ۔کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں؟ انگلش میڈیم سکولوں کی وبا سے اب قوم میرے اردو اور فارسی کلام سے دور کی جا رہی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ شاید میری قوم کے بچوں کو اس شعر کے علاوہ میرا کوئی اور شعر یاد ہی نہ رہے گا ۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
''بھئی آپ چائے پیو، Ù¹Ú¾Ù†ÚˆÛŒ ہورہی ہے۔ باقی باتیں بعد میں کریں گے‘‘ جوں ہی ہم Ù†Û’ چائے کا آخری جرعہ اپنے اندر اتارا، اندر سے اپنا ایک شعر باہر آگیا۔ ڈرتے ڈرتے عرض کیا۔ علامہ صاØ+ب آپ Ù†Û’ شاعر اور دانشور Ú©Ùˆ کسی قوم Ú©ÛŒ آنکھیں قرار دیا ہے۔ گلہ تو یہ ہے کہ ہمارے اندر بصارت رہی ہے اور نہ بصیرت!
رہن کیوں رکھدی ہیں تم نے مری آنکھیں اے دوست
مجھ Ú©Ùˆ تو چاہیے تھی Ø+دِ بصارت اب Ú©Û’
علامہ Ù†Û’ مسکرا کرداد دی تو میں بے خود ہوگیا Û” اسی بیخودی میںآنکھ Ù„Ú¯ گئی۔ جب آنکھ Ú©Ú¾Ù„ÛŒ تو علامہ تشریف Ù„Û’ جاچکے تھے اور سلیم اØ+مد میرے سامنے اپنے مخصوص انداز میں براجمان تھے۔ فرمانے Ù„Ú¯Û’ میاں Ú©Ù† سوچوں میں گُم ہو۔
''جب کوئی قوم ادب اور ادیب Ú©ÛŒ قدروقیمت جانتی ہے تو پھر خانِ خاناں Ú©ÛŒ طرØ+ اچھا فقرہ سن کر سائل کا منہ موتیوں سے بھر دیتی ہے۔ جب زوال Ú©ÛŒ کیفیت ہو تو ادب اور ادیب سے زیادہ بھانڈ مراثیوں اور ناچنے گانے والوں Ú©ÛŒ Ø+وصلہ افزائی ہوتی ہے‘‘
میں نے عرض کیا:
''سلیم بھائی! آپ نے بجا فرمایا۔ میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں اگر کوئی اچھا فقرہ لکھے تو ایسے ادیب کا قلم توڑ دیا جاتا ہے اور بازو مروڑ دیا جاتا ہے۔ اب کوئی ادیب اپنا کردار کیسے ادا کرسکتا ہے؟‘‘
جس قوم میں قدم قدم پر منافقت ہو، بے چہرگی ہو، لایعنیت ہو وہاں آئینوں سے خوف نہ آئے تو کیا ہو؟ جہاں دن میں بھی رات Ú©ÛŒ تاریکی کا سماں ہو وہاں کتنے چراغ جلانے پڑیں Ú¯Û’ اور کون جلائے گا یہ چراغ؟ جہاں سپاہی Ú©ÛŒ بندوق کا رخ دشمنوں Ú©ÛŒ بجائے دوستوں Ú©ÛŒ طرف ہو اور جہاں گیڈر شیر Ú©ÛŒ کھال پہن لیں وہاں چہروں Ú©Û’ نقاب کون اتارے؟ ان Ø+الات میں ادب Ú©Ùˆ کون پوچھتا ہے اور دانشور Ú©ÛŒ کون سنتا ہے؟ اب سرکاری درباری افسران ہر کام میں خود کفیل ہوچکے ہیں وہ ادیب بھی ہیں شاعر بھی اور دانشور بھی۔ اب مناسب ہوگا کہ اصل ادیب Ùˆ شاعر چائے بنانا سیکھ لیں۔ خود بھی پئیں اور دوسروں Ú©Ùˆ بھی پلائیں بلکہ بہتر ہوگا کہ چائے کا کھوکھا بنالیں اور ادب Ú©Ùˆ کھوہ کھاتے میں ڈالیں Û”
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں