کورونا سے بچا جا سکتا ہے اگر ہم … صابر شاکر
دنیا بھر میں اس وقت تمام موضوعات‘ تمام خبریں‘ تمام سرگرمیاں ایک ہی مسئلے سے متعلق ہیں‘ اور وہ ہے وبائی مرض کورونا‘ جو بدستور پھیل رہا ہے اور اس ان دیکھے وائرس نے ایک ایسے قاتل کا روپ دھار لیا ہے کہ بڑے بڑے ایوان ہائے اقتدار میں ایک بھونچال سا آ گیا ہے۔ یہ وائرس جو اپنا کوئی واضح وجود نہیں رکھتا‘ جو نظر نہیں آتا‘ جو محسوس نہیں کیا جا سکتا‘ جس کی کوئی آہٹ نہیں‘ جس کی کوئی سرحد نہیں‘ جو کسی مذہب کو نہیں دیکھ رہا‘ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ عمر‘ جنس کی تمیز کیے بغیر جب چاہے جس پر چاہے حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس کے حملہ آور ہونے کا کوئی وقت‘ کوئی جگہ متعین نہیں ہے۔ اقتدار کے ایوان ہوں یا بڑے بڑے شاہی محل‘ حکمران ہوں یا ان کی شاہ زادوں جیسی اولادیں‘ کوئی بھی اس ان دیکھے قاتل کی دسترس سے باہر نہیں۔ اس بے جان‘ ایک طرح سے بے وجود وائرس کے شکنجے میں بادشاہ بھی آ رہے ہیں اور دنیا پر حکمرانی کرنے والوں کے حکمران بھی۔ اس کا خوف اتنا ہے کہ دنیا کی تمام آسائشیں‘ تمام راعنائیاں‘ تمام موسموں اور دلکش مناظر سے بھی انسان خوف کھا رہا ہے۔ بڑوں بڑوں کے تکبر‘ غرور‘ رعونتیں‘ فرعونیتیں خاک میں مل چکی ہیں۔ سیاروں کو مسخر کرنے والے اور سمندروں کی تہوں تک پہنچنے والا انسان تمام تر سائنسی ترقی‘ میڈیکل سائنسز کی تمام تر تحقیق‘ اور بڑے بڑے ماہرینِ طب کے علوم زیرو ہو چکے ہیں۔ تمام بادشاہ‘ حکمران شاہزادے‘ شاہزادیاں گھروں میں چھپ چکے ہیں کہ اس بے وجود قاتل سے بچا جا سکے‘ لیکن تمام حربے‘ تمام تدبیریں‘ تمام حکمتیں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ اولادیں والدین سے اور والدین اولادوں کو بوسہ دینے‘ ملنے ملانے‘ پیار کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ شوہر بیویوں سے اور بیویاں شوہروں سے دور بھاگ رہی ہیں۔ عشق و محبت کے دعوے دار‘ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے عہد و پیمان کرنے والے روپوش ہو چکے ہیں۔ ہر انسان کھلی فضا میں سانس لینے سے بھی گھبرا رہا ہے۔ مونہوں پر جانوروں کی طرح چھکو ماسک چڑھا لئے گئے ہیں۔ حسین و جمیل بننے اور نظر آنے کی خواہش مند خواتین میک اپ کرنا چھوڑ چکی ہیں۔ 'میرا جسم میری مرضی‘ کا نظریہ بھی نظروں سے اوجھل ہو چکا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اس بے وجود وائرس کا داخلہ روکنے کے لئے اپنے اپنے ملک کی ہر طرح کی سرحدیں بند کر چکے ہیں۔ جہاز‘ بسیں‘ کشتیاں‘ گاڑیاں سب ساکت ہو چکی ہیں۔ بازار‘ باغات‘ پارکس بند ہو چکے ہیں۔ انسانوں کے تعیش خانوں پر تالے لگ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ بے آہٹ‘ بے رنگ‘ بے ذائقہ وائرس کسی کے قابو میں نہیں آ رہا‘ نہ ایٹم بم کام آ رہا ہے نہ خطرناک ترین ہتھیار بلکہ اس وائرس نے تو دنیا فتح کرنے والوں کی فوج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سب عالمی طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں کہ اس وائرس کو مارنے کے لئے کوئی دوا تیار کی جائے‘ لیکن اب تک بے سود۔ لاشوں کے انبار لگانے والی عالمی طاقتیں بڑے بڑے تگڑے ملک‘ دنیا بھر میں اپنی فوجیں اتارنے والے‘ فوجی اڈے بنانے والے ملک اس وائرس کے سامنے بے بسی کی تصویر نظر آ رہے ہیں اور اب تو ایک دوسرے پر الزام عائد کر کے 'کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘ کے مصداق اپنی شکست کا اعلان کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بے وجود وائرس کی دسترس میں بلا تفریق سب ہی ہیں۔ ملکوں‘ شہروں‘ بستیوں‘ دیہات کو لاک ڈاؤن کیا جا رہا ہے‘ کرفیو لگائے جا رہے ہیں‘ لاکھوں کروڑوں اربوں کی آبادیاں اپنے گھروں میں قید ہو چکی ہیں کہ شاید اس بے وجود وائرس سے بچا جا سکے۔ مندروں‘ چرچوں کو تالے لگ چکے ہیں۔ مساجد میں تعداد نہ ہونے کے برابر ہو چکی ہے۔ حرمین شریفیں میں عام نمازیوں کو داخلے سے منع کر دیا گیا ہے۔ علما با جماعت نمازوں اور جمعہ کے اجتماعات کو محدود سے محدود تر کر رہے ہیں۔ فی الوقت انسان صرف اور صرف اپنی عقل‘ علم و شعور کے بل بوتے پر اس کا حل ڈھونڈ رہا ہے‘ لیکن ہم سب اس سارے معاملے میں ایک ہستی کو بھول رہے ہیں کہ 'کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے‘۔ جی اللہ تعالیٰ‘ رب العالمین‘ رب کائنات‘ پروردگارِ عالمین‘ جو الرحمان ہے‘ جو رحیم ہے‘ الملک ہے‘ القدوس ہے‘ جو السلام ہے‘ جو مومن ہے‘ المھیمن ہے‘ جو العزیز ہے‘ جبار ہے‘ المتکبر ہے‘ خالق ہے‘ باری ہے‘ مصور ہے‘ غفار ہے‘ قرار ہے‘ وہاب ہے‘ رازق ہے‘ الفتاح ہے‘ علیم ہے‘ قابض ہے، باسط ہے‘ جو پروردگار عزت دینے والا ہے‘ سب کْچھ سننے والا‘ پست کرنے والا‘ بلند کرنے والا‘ عزت دینے والا‘ ذلت دینے والا‘ حاکم حقیقی، عادل‘ لطیف ہر بات سے با خبر نہایت بردبار بڑی عظمت والا‘ بہت بخشنے والا‘ حسنِ عمل کی قدر کرنے والا‘ سب سے بالا‘ سب سے بڑا‘ اور سب کا نگہبان۔ وہ اللہ تعالیٰ سب کو سامانِ حیات فراہم کرنے والا ہے‘ جو جلیل ہے‘ کریم ہے‘ رقیب ہے اور قبول کرنے والا ہے اور وسعت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو چاہنے والا ہے‘ وہ کار سازِ حقیقی ہے اور صاحب قوت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ حاضر ہے‘ جو سب کْچھ دیکھتا ہے اور جانتا ہے‘ سب مخلوقات کے بارے میں سب معلومات رکھنے والا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کْچھ برداشت کر لیتے ہیں‘ لیکن ظلم‘ نا انصافی اور سرکشی برداشت نہیں کرتے۔ قرآن مجید کی تلاوت کریں‘ اس کا مطالعہ کریں تو یہ کتاب کتابِ حکمت ہے‘ راہ ہدایت دکھاتی ہے۔ ہم سے پہلے بڑی بڑی قوموں کو اللہ تعالیٰ نے نیست و نابود کر دیا‘ جب وہ سرکشی پر اتر آئیں اور نا فرمانی کی۔ اس میں قومِ عاد‘ قومِ لوط‘ قومِ ثمود کے واقعات کا ذکر موجود ہے‘ لیکن ہم اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ آج بھی صورت حال یہی ہے کہ قیامت صغریٰ کا نقشہ پیش کر رہے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے‘ ہماری نمازیں‘ ہمارے سجدے‘ ہماری عبادتیں شاید اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت نہیں پا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں دنیاوی احتیاطیں اپنی جگہ لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے رحم کی بھیک مانگنی چاہئے‘ جو اپنے بندوں کو سنتا ہے۔ ہمیں اپنے انفرادی اور اجتماعی گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے کیونکہ توبہ اور استغفار ہی اس آزمائش کو عذاب بننے سے روک سکتی ہے۔ قرآن مجید کی سورہ الزلزال میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''جبکہ زمین ہلا دی جائے گی جس طرح اس کو ہلانا ہے اور زمین اپنا بوجھ باہر نکال پھینکے گی اور انسان پکار اٹھے گا کہ اسے کیا ہوا گیا ہے۔ اس دن وہ اپنی داستان کہہ سنائے گی‘ تیرے اللہ کے ایما سے۔ اس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے کہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں پس جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ بھی اس کو دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر بھی بدی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھے گا‘‘۔
سورۃ القارعہ میں ہے ''کھڑکھڑانے والی کیا ہے‘ کھڑکھڑانے والی؟ اور تم کیا سمجھو کہ کیا ہے کھڑکھڑانے والی؟ اس دن لوگ منتشر پتنگوں کی مانند ہوں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کے مانند ہو جائیں گے‘ تو جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند عیش میں ہوں گے اور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے تو اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہو گا اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا ہے؟ دہکتی آگ۔
قیامت آنے سے پہلے ہمیں اس آزمائش پر پورا اترنے کے لیے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے سر بسجود ہو جانا چاہیے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا چاہیے۔ اللہ ہماری مدد کرے گا۔ اللہ ہم سے ناراض ہے‘ لیکن اللہ رحیم ہے‘ رحمان ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کرنی چاہیے۔ اللہ اپنا گھر ہمارے لئے کھول دے‘ ہمیں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر جا کر سلام پیش کرنے کی سعادت عطا کرے۔ آمین۔ ثم آمین۔