کورونا اور اخلاقی آلودگی ۔۔۔۔۔۔ طارق حبیب

کورونا وائرس نے پاکستان میں قہر ڈھانا شروع کیا تو قومی و انفرادی سطح پراقدامات شروع کردئیے گئے۔ مختلف اداروں کی جانب سے بھی اپنے ملازمین کی حفاظت کیلئے تیزی سے اقدام کیے جانے لگے۔ اس موقع پر دنیا میڈیا گروپ کی جانب سے اپنے ملازمین کو ہدایات جاری کی گئیں کہ ماسک پہنیں ‘ ہاتھ دھوئیں اور کھانسی ‘نزلہ‘ بخار سمیت دیگر کوئی علامت محسوس ہو تو ایچ آر سے رابطہ کیا جائے۔ مذکورہ شخص کے فوری ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔ ان ہدایا ت کے باوجود ملازمین کی جانب سے عمومی طرز ِعمل میں لاپروائی جھلک رہی تھی‘ جس کے بعد ملک بھرمیں دنیا میڈیا گروپ کے تمام دفاتر میں جگہ جگہ سینیٹائزر لگادئیے گئے۔ دفتر آمد کے وقت انسانی جسم کا درجہ حرارت جانچنے کیلئے باقاعدہ ایک شخص کو تعینات کردیا گیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود مسلسل غفلت برتی جارہی تھی اور دفتر میں وہ افراد جو پوری قوم کو کورونا کے حوالے سے آگہی فراہم کرنے‘ دنیا بھر میں کورونا سے پھیلنے والی تباہی کی تفصیلات بتانے ‘ اس وائرس کے تیزرفتاری سے پھیلنے ‘ وائرس سے متاثرہ شخص کی اذیت ناک صورتِ حال سے آگہی کا فریضہ انجام دے رہے تھے ‘ خود اس وائرس سے بچائو کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں بدستور غفلت کا مظاہر کررہے تھے۔ بالآخر دنیا میڈیا گروپ کی سینئر مینجمنٹ نے شعبہ جات کا خود معائنہ کیا اور بڑی تعداد میں ماسک منگوا کر ملازمین میں تقسیم کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں سختی سے ماسک استعمال کرنے کی ''حکمیہ ہدایت‘‘ جاری کی ۔اب ‘ذرا غور کریں کسی بھی ادارے کی انتظامیہ اس سے زیادہ کیا کرسکتی ہے ؟شاید‘اگر ماسک خود پہنانا اور ہاتھ دھلوانا ممکن ہوتا تو ملازمین کی بھلائی کے لیے انتظامیہ یہ بھی کر گزرتی۔ اب‘ دیکھا جائے تو لاپروائی اور غفلت کا یہ رویہ انفرادی ہی نہیں‘ بلکہ من حیث القوم یہ ہمارا عمومی طرزِعمل بن چکا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اب اسے فعل بد بھی نہیں گردانا جاتا۔ اگر کہا جائے کہ ہم اخلاقی آلودگی کا شکار چکے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ہم اپنے ان رویوں سے صرف دوسروں کی جان کے لیے خطرہ نہیں بنتے‘ بلکہ خود اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے بھی رسک ہوتے ہیں۔ہم قواعد کو تفریح بنا لیتے ہیں اور ملکی قوانین کو مذاق۔حکومتی ہدایات کو نظر انداز کرنا چوہداہٹ قرار پاتا ہے ۔سڑکوں پر بغیر نمبر پلیٹ گاڑی کے ذریعے خود کو بااثر ثابت کرنا‘ صرف تفریح کے لیے عام شاہراہوں اور موٹر ویز پر جان بوجھ کر حد رفتار سے تجاوز کرنا‘ ایمبولینس کو راستہ دینے میں توہین سمجھنا‘ چاہے مریض کی جان ہی چلی جائے‘ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے اور بتاتا ہے کہ ہم کس قدراخلاقی تنزلی کا شکار ہیں‘اسی طرح ریاستی قانون کی دھجیاں اڑانا ہماری انا کی تسکین کا باعث ہے۔ موٹر سائیکل سواری کے دوران ہیلمٹ کا استعمال نہیں کرنا اور اگر ہیلمٹ نہ استعمال کرنے پر چالان ہوجائے تو زیب تن کیا ہوا‘دوہزار مالیت کا لباس پھاڑ کر احتجاج کی ویڈیو ریکارڈ کرائیں گے‘ مگر 500کا ہیلمٹ پھر بھی نہیں خریدیں گے‘پھر مجمع اور بھیڑ لگانے کی تو ایسی عادت ہے کہ ہسپتال ہو یا بینک‘ تعلیمی ادارے ہوں یا بس ٹرمینل‘ لائن بنا کر اطمینان سے اپنے کام کو انجام دینے کی روایت کہیں نہیں پائی جاتی۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں اگر معمولی سا ٹریفک جام ہوجائے تو انتظار کرنے کی بجائے جان پر کھیل کر اپنی گاڑی مخالف سمت سے آنے والی گاڑیوں کے ٹریک پر ڈال کر وہ سمت بھی بلاک کرکے منٹوں کے انتظار کو گھنٹوں میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل کو اپنانے میں خاص و عام ‘سب ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ ہم سمجھتے نہیں یا ہم اتنے معصوم ہیں کہ ہمیں پتا نہیں کہ قومی رویہ کیا ہوتا ہے ؟ہم یہاں قانون اور قواعدوضوابط کی دھجیاں اڑارہے ہوتے ہیں‘ مگر بیرون ِ ملک جاتے ہی سارے قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ مجال ہے کہ پولیس کی غیر موجودگی میں بھی کوئی سگنل توڑ دیں‘ حد رفتار سے تجاوز کرجائیں ‘کہیں لائن میں کھڑے ہونے کی بجائے آگے بڑھیں۔ اس کی وجہ ان ممالک کے سخت قوانین ہیں ‘جو ہر خاص و عام کے لیے برابر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک نے اپنے عوام کی اخلاقی تربیت پر ہمیشہ توجہ دی ہے‘ جس کی وجہ سے ایک جانب تو کوئی باہر سے آیا شخص بھی ان کے معمولا ت میں رخنہ نہیں ڈال سکتا تو دوسری جانب بحیثیتِ قوم یہ ممالک کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے بہت منظم انداز میں مقابلہ کرتے ہیں۔
اس کی کئی مثالیں دنیا میں کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد سامنے آئیں۔ جب چین میں اس وبا کا حملہ ہوا تو ابھی کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد صرف 500تک تھی کہ پوری چینی قوم نے ماسک پہننے کے ساتھ ساتھ تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی شروع کردی تھیں۔ اگر کہیں کوئی غفلت نظر بھی آتی تھی تو چینی پولیس پوری قوت سے قانون پر عملدرآمد کرارہی تھی۔ ڈاکٹروں نے رضاکارانہ طور پر خود کو کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے پیش کیا۔ پڑوسی ممالک سے سرحدیں بند کردی گئیں اور ذرائع آمدورفت محدود کرنے کے ساتھ ساتھ ان راستوں پر حفاظتی انتظامات سخت کردئے گئے۔ماسک ختم ہوگئے تو ہر شخص نے انفرادی طور پر ماسک کے متبادل کا انتظام کیا اور صرف حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے پر اکتفا نہیں کیا۔ چینی قوم نے بھی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا اور اب‘ حالات یہ ہیں کہ جہاں سے کورونا نے جنم لیا‘ اب اس شہر میں ایک بھی کوروناوائرس سے متاثرہ مریض نہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں حکمرانوں سمیت عوام نے یکسر مختلف ردعمل دیا ہے ۔
حکمرانوں نے چینی طلبا کو روکا اور ایران سے زائرین کی ملک آمد جاری رکھی‘ جس سے کورونا نا صرف تیزی سے پھیلا ‘بلکہ صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ حکمران کے پاس معلومات نہیں کہ بیرون ِملک سے آنے والے اس وقت ملک کے اندر کن علاقوں میں ہیں؟ صورتِ حال سنگین ہونے پر جب ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا اور عوام سے احتیاط کا کہا گیا تو جو پہلا ردعمل سامنے آیا وہ یہ تھا؛ کورونا سے بچائو کے لیے استعمال ہونے والی تمام اشیا بشمول ماسک‘ سینیٹائزرز‘ صابن‘ اور جن اجزا سے یہ اشیا تیار ہوتیں‘ ان کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔تعلیمی ادارے بند کرنے کی حکومتی ہدایت آئی تو ابتدا میں نجی تعلیمی اداروں کے کام کرنے کی اطلاعات آتی رہیں‘ پھر جب یہ ادارے بھی بند ہوئے تو ٹیوشن سینٹر ‘ اکیڈمیاں مسلسل سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں۔ تفریح گاہوں میں جانے سے عوام نہ رکے تو سرکاری طور پر تفریح گاہیں بند کی گئیں اور پولیس نے لڑکوں کو کان پکڑوانے شروع کردئیے‘ یعنی موقع پر سزا۔ گھروں پر رہنے کی ہدایات دی گئیں تو عوام مری اور شمالی علاقہ جات کی جانب چل پڑے۔ ہسپتال میں رش بڑھا تو ڈاکٹروں نے ہڑتال کردی۔عطائی ڈاکٹروں اور جعلی پیروں فقیروں نے کورونا کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔یہ تھا؛ اجتماعی ردعمل ‘جو ایک ہولناک وبا سے جنگ کے دوران ہماری جانب سے ایک ''قوم ‘‘ کی حیثیت سے سامنے آیا ۔
اس ساری صورتِ حال سے یہ واضح ہوگیاکہ اخلاقی آلودگی کے یہ عوامل ختم کیے بغیر اور قانون‘ قواعدوضوابط کا پابند بنائے بغیر قوم کو کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں منظم انداز میں ردعمل دینے پر تیار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ حالات متقاضی ہیں اس کے کہ ہم ایک قوم بن کر اس وبا سے نمٹیں ‘ جو ہدایات حکومت کی جانب سے آتیں ہیں ‘اس پر فوری اور مکمل طور پر یکسو ہو کر عمل کریں۔اپنے رب سے مدد مانگیں اور اِن شاء اللہ ہم اس جنگ میں سرخرو رہیں گے۔