آسمانی یا انسانی ۔۔۔۔۔ آصف عفان
پوری دنیا ان دیکھے کورونا کے سامنے بے بسی کی تصویر بن چکی ہے ‘ سپین کی شہزادی سمیت چونتیس ہزار سے زائد زندگیاں نگلنے والا یہ وائرس آسمانی ہے یا انسانی۔اس بارے کوئی حتمی فیصلہ کرنا ابھی قبل از وقت ہوگا‘ لیکن آج نہیں تو کل یہ بھید کھل کر ہی رہے گا۔اجارہ داری اور حتمی برتری جیسے اہداف کے حصول کے لیے ایسے ایڈونچرز نئے اورا نوکھے نہیں۔ٹیکنالوجی کی نہ کوئی زبان ہوتی ہے‘ نہ کوئی احساسات‘نہ کوئی جذبات ہیں نہ اس کی کوئی ماں ہے نہ باپ نہ کوئی بہن نہ بھائی۔اس کی نئی جہتیں اور تسلسل ہی اس کے رشتہ دار ہوتے ہیں۔اس کا ٹارگٹ ہی اس کا مشن ہوتا ہے۔عصری تقاضوں کے تحت اس میں تبدیلیاں اور نئے رجحانات متعارف ہوتے رہتے ہیں‘ کبھی جوہری تجربات تو کبھی بائیولوجیکل ‘فرق صرف اتنا ہے کہ جوہری تجربات زیادہ عرصہ صیغۂ راز میں نہیں رکھے جاسکتے۔ بعض اوقات تو ادھر تجربہ ہوا ادھر پوری دنیا میں کہرام مچ جاتا ہے‘ لیکن بائیولوجیکل تجربات کی واردات کا تو کھوج لگانا پڑتا ہے۔دنیا بھر کے کھوجی یقینا اس واردات کے تعاقب میں ضرور ہوں گے۔ غلبہ حاصل کرنے کی یہ دوڑ اب زمینوں سے نکل کر خلائوں تک جاپہنچی ہے۔ برادرِ محترم حسن نثار نے تو اپنے کالم میں اشارتاً پوری واردات ہی بیان کرڈالی ہے اور ساتھ ہی تاکید بھی کی ہے کہ کورونا کے بعد اس کے بالواسطہ اور بلا واسطہ بینیفشر یز پر نظر رکھیے‘ پوری نہیں تو آدھی بات ضرور سمجھ آجائے گی۔امریکہ خلا میں غلبہ اور بالادستی کے لیے کس قدر جنون میں مبتلا ہے کہ اس نے توتنبیہ کر ڈالی ہے کہ وہ خلا میں اپنی فیصلہ کن برتری پر کسی قسم کا سمجھوتا ہرگز نہیں کرے گا۔کوروناوائرس آسمانی ہے یا انسانی‘ یہ معما تو کبھی نہ کبھی حل ہوکر ہی رہے گا فی الحال اتنا ہی کافی ہے کہ سمجھ والے سمجھ گئے‘ جو نہ سمجھے وہ اناڑی ۔ہمارے ہاں بھی کورونا گردی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ انصاف سرکار پورے ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرچکی ہے۔ان کا صرف ایک ہی ہدف ہے کہ بندہ کورونا سے نہیں مرناچاہیے‘ بھلے بے موت مارا جائے‘پروا نہیں۔کسی کا اپینڈیکس پھٹ گیاتو کسی کی آنکھیں پتے میں پتھری کی وجہ سے پتھرا گئیں۔کوئی گردے کی جان لیوا تکلیف سے چیخیں مار رہا ہے تو کوئی جگر اور دیگر مہلک امراض کے ہاتھوں مجبور ہسپتالوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔کوئی کسی حادثہ میں ہڈی تڑوا بیٹھا ہے تو کوئی بری طرح گھائل ہے۔سبھی کو یہ کہہ کر لوٹا جارہا ہے کہ ہیلتھ ایمرجنسی میں صرف کورونا سے متاثرہ مریضوں کو اٹینڈ کیا جارہا ہے۔ابھی آپ Pain Killerپر گزارا کریں جب حالات نارمل ہوں گے تو سرجری یا جو بھی علاج بنتا ہوگا کردیں گے۔کورونا کے پیش نظر ایمرجنسی تو قابل فہم ہے ‘لیکن دیگر امراض میں مبتلا چیختے ‘چلاتے اور درد سے کراہتے‘ تشویشناک حالت سے دوچار مریضوں کو علاج سے انکار کی منطق ناقابلِ فہم اور قطعی غیر انسانی فعل ہے۔کورونا کے مریضوں کی وجہ سے آپریشن تھیٹر بند کرنا اور سرجری کا عمل معطل کردینا کہاں کی مسیحائی ہے؟ صورتِ حال اس قدر بھیانک اور درد ناک ہے کہ اس نے کیا حکام ‘کیا عوام سبھی کے حواس گم کرڈالے ہیں۔عوام کے حواس گم ہونا تو سمجھ میں آتا ہے کہ ان دیکھی موت کا خطرہ اچھے اچھوں کے ہو ش اڑا دیتا ہے‘ لیکن ہمارے ہاں تو پوری سرکار کے طوطے اڑچکے ہیں۔انہیں بھی کچھ سجھائی نہیں دے رہا اور ان کی حالت اس مریض کی سی ہے‘ جو لگانے والی دوائی کھا رہا ہو اور کھانے والی دوائی لگائے چلے جارہاہو۔ان کے دعوے اور اقدامات سن سن کر عوام کے کان پک چکے ہیں لیکن ان کی گورننس کا پھل ہے کہ پکنے میں ہی نہیں آرہا۔دیگر امراض میں مبتلا مریضوں پر ہسپتالوں کے دروازے بند کرنے کا کریڈٹ بھی انصاف سرکار کو ہی جاتا ہے ۔
کس کس کا رونا روئیں‘ان کی بے تکی منطقوں کا یا ان کی بدحواسیوں کا۔یہ سبھی دیکھ کر وہ لطیفہ یاد آگیا کہ باپ گھر میں داخل ہوا توبیٹا لپک کر اس کے پاس آیا اور بولا:پاپا میرے پاس آپ کے لیے دو بڑی خبریں ہیں‘ایک اچھی اور ایک بُری خبر۔باپ نے بڑے تجسس سے کہا کہ پہلے اچھی خبر سنائو۔بیٹے نے کہا کہ میں اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا ہوں۔باپ نے خوش ہوکر سر پہ ہاتھ پھیرا اور بولا : اب بُری خبر سنائو‘جس پر بیٹے نے انتہائی سادگی سے کہا کہ پہلی خبر جھوٹی ہے!جس کورونا ایمرجنسی کی وجہ سے دیگر مریضو ں کے علاج سے گریز کیا جارہا ہے اسی کورونا وائرس سے مقابلہ کے لیے کیے گئے چند اقدامات پیش خدمت ہیں :بزدار سرکار جو حفاظتی کٹس استعمال کررہی ہے وہ 2017ء میں شہباز شریف کے دور میں خریدی گئی تھیں‘ جو آج ان کے کام آرہی ہیں۔کورونا کی وبا راتوں رات ہم پر نازل نہیں ہوئی‘ دو مہینے سے یہ چین‘ اٹلی‘ ایران اور دیگر ممالک میں اپنی تباہ کاریوں کے ساتھ منظر عام پرآچکی تھی۔ مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ اور اموات کے باوجود نہ تو انہوں نے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا۔گویا صفر تیاری کے ساتھ سرکار نے اس ان دیکھی موت کو عوام کے گلے ڈال دیا۔نہ توڈاکٹروں‘ نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف کے لیے حفاظتی کٹس خریدی گئیںاور نہ ہی ان مسیحائوں کے ساتھ فرنٹ لائن پر مددگار محکموں کو حفاظتی سامان مہیا کیا گیا۔ڈاکٹرز اور نرسوں کے ساتھ پولیس وہ واحد محکمہ ہے‘ جوکورونا کے خلاف اس جنگ میں ہراول دستہ ہے۔ پولیس بھی اسی حفاظتی سامان سے کام چلارہی ہے ‘جو اسے فلاحی تنظیموں نے فراہم کیے ہیں۔سرکار کی طرف سے نہ تو حفاظتی ماسک فراہم کیے گئے ہیں نہ ہی سینی ٹائزر اور حفاظتی گائون‘جبکہ طریقہ کار ایسا وضع کیا گیا ہے کہ لوگ مارے خوف کے کورونا کی علامات چھپا رہے ہیں۔ادھر علامات ظاہر اور رپورٹ مثبت ہوئی اُدھرمریض کے علاقہ کو اس طرح گھیر لیا جاتا ہے جیسے کوئی اشتہاری پکڑنے آئے ہوں۔اس کے بعد اس کا پوراا خاندان اور اہلِ علاقہ کو اس طرح یرغمال بنا لیا جاتا ہے‘ جیسے یہ کوئی اچھوت ہوں۔پھر خبریں کچھ یوں چلائی جاتی ہیں کہ اتنے مشتبہ افراد پکڑے گئے‘گویا وہ مریض نہ ہوں کوئی جرائم پیشہ ہوں۔اور پھر ہسپتال میں ان کا جو حشر نشر کیا جاتا ہے...الامان ‘الحفیظ۔
چند روز قبل میو ہسپتال میںجس مریض کی ہلاکت پرپنجاب سرکار کے سارے چیمپئن جس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے رہے ہیں وہ باعث شرم ہے۔ کسی دل کے مریض کے لیے اس سے بڑاکورونا اور کیا ہوگا کہ اس کے ہاتھ پائوں بیڈ سے باندھ دیے جائیں‘جبکہ سرکار کی وزیر صحت اس بے حسی کو علاج کا حصہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس ہلاکت‘ ہسپتال انتظامیہ ‘ عینی شاہدین اور وائرل ہونے والی فوٹیج نے ثابت کردیا ہے کہ انصاف سرکار کے اقدامات اور انتظامات ناصرف ہوائی ‘بلکہ تضادات اور غلط بیانیوں کا مجموعہ ہیں۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے تازہ ترین پریس کانفرنس میں لاک ڈائون سے متاثرہ پچپن لاکھ محنت کشوں اور بے وسیلہ مستحقین کے لیے چار ہزار روپے فی کس تقسیم کرنے کے لیے نئی راکٹ سائنس متعارف کروائی ہے‘ جس کے تحت امدادی رقم حاصل کرنے کے لیے ویب سائٹ پر موجود فارم پر کرکے درخواست دینا ہوگی جس پرسرکار درخواست گزار کو چار ہزار روپے کا عبوری ریلیف دے گی۔یہ معما تاحال حل طلب ہے کہ کوئی محنت کش اور بے وسیلہ ویب سائٹ تک رسائی کیسے حاصل کرے گا اور اسے یہ کون بتائے گا کہ ویب سائٹ کیا ہوتی ہے۔ممکن ہے ان محنت کشوں کی رہنمائی کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تربیتی کلاسیں بھی شروع کروائی جائیں‘تاکہ یہ محنت کش اور بے وسیلہ افراد تربیت حاصل کرکے ویب سائٹ پر موجود امدادی فارم پرکرسکیں اور اس کے بعد ملنے والی امداد سے خوشحال زندگی گزار سکیں۔چلتے چلتے مفادِ عامہ کا ایک پیغام شیئر کرتا چلوں کہ لاک ڈائون کی وجہ سے تھیلیسیمیا ‘ ہیموفیلیا کے مریض بچوں کو جو تازہ خون کالجز ‘ یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں سے حاصل ہوتا تھا وہ بند ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے خون کی شدید قلت کا سامنا ہے ‘جبکہ بروقت ٹرانسفیوژن نہ ہونے کی وجہ سے ان مریض بچوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔کورونا سے بچنا لازم ہے ‘لیکن ان بچوں کی جان بچانا بھی ہم سب پر واجب ہے۔