کوئی کسی اور دُنیا کا نہیں ۔۔۔۔ ایم ابراہیم خان
تمام انسانوں میں کم از کم ایک بات تو مشترک ہے ؛ یہ کہ ہم سب ہی ایک دنیا کے مکین ہیں۔ نظامِ شمسی کے ایک ہی سیارے پر سب آباد ہیں۔ اچھا سمجھیے یا بُرا‘ یہی سب کا نصیب ہے۔ سب کی ایک کہانی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے ‘جس سے بھاگ کر کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا۔
انسان اقوام‘ معاشروں اور خطوں میں منقسم ہیں۔ یہ سب کچھ اصلاً شناخت کے لیے ہے۔ دین بھی یہی کہتا ہے ‘مگر انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ محض شناخت کافی نہیں۔ کچھ تفاخر بھی چاہیے۔ بہت سوں کی فکری ساخت نے شرف اور تفاخر کو یکجا کردیا ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جواز ہو یا نہ ہو‘ کسی نہ کسی بات پر تفاخر ناگزیر ٹھہرا۔ بیشتر خرابیاں ‘اسی سوچ کی پیدا کردہ ہیں۔
انتہائی باصلاحیت افراد کی طرح غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل معاشروں اور اقوام کا بھی یہی حال ہے۔ جس میں کچھ ہوتا ہے ‘وہ خود کو بہت کچھ سمجھنے کی روش پر گامزن ہوتا ہے اور پھر خود کو سب کچھ سمجھنے کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ‘ کوئی بھی اس دنیا سے باہر نہیں۔ یہ دنیا ایک سمندر کے مانند ہے اور کوئی بھی جزیرہ نہیں۔ کوئی بھی فرد یا معاشرہ خود کو باقی دنیا سے الگ نہیں کرسکتا۔ الگ تھلگ رہنا ایک خاص حد تک‘ یعنی چند ایک معاملات ہی میں ممکن ہے۔ اور اُن معاملات میں بھی قابلِ ترجیح تو یہی امر ہے کہ الگ تھلگ نہ رہا جائے۔ ہم ایک ایسی دنیا کے باسی ہیں‘ جس میں صرف اور صرف اشتراکِ عمل ایسی حقیقت ہے ‘جس کے ذریعے سب کا بھلا ممکن ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ ہر دور میں ایسے افراد اور معاشرے رہے ہیں‘ جو خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کی کوشش کرتے رہے اور اس کے شدید منفی نتائج بھی خود اُنہوں نے اور دوسروں نے بُھگتے۔ بڑی طاقتوں کی یہی کہانی ہے۔ ہر دور کی بڑی طاقت خود کو کسی اور دنیا سے آئی ہوئی سمجھتی رہی اور اُس کی طرزِ فکر و عمل سے یہی مترشّح رہا کہ وہ کسی اور کو کچھ بھی گرداننے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی طرزِ فکر و عمل کیا گل کِھلاتی ہے؟ اس سے ہم کسی بھی درجے میں ناواقف نہیں۔ ہر دور گواہ ہے کہ جس قوم یا معاشرے نے غیر معمولی قوت کا حصول یقینی بنایا‘ اُس نے باقی دنیا کو غلام بنانے کی ٹھانی۔ سب کا آقا بن بیٹھنے کی خواہش نے غیر معمولی خرابیوں کو راہ دی ہے۔ اس دور کی بھی یہی کہانی ہے۔ ہاں‘ سیاق و سباق تبدیل ہوچکا ہے۔ رنگ ڈھنگ کچھ مختلف ہے اور اثرات کا دائرہ بھی خاصا وسیع ہے۔
آج کے بڑوں نے بھی طے کر رکھا ہے کہ دوسروں کو ڈھنگ سے جینے کا حق نہیں دیں گے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر باقی دنیا کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کی جو بھرپور کوشش دو صدیوں پہلے شروع کی تھی وہ اب اپنے جوبن پر ہے۔ ہاں‘ یورپ نے راستہ تھوڑا سا بدل لیا ہے۔ امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے یہ طے کرچکا ہے کہ باقی دنیا کو سکون سے جینے نہیں دے گا۔ کم و بیش ایک صدی تک امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر باقی دنیا پر راج کیا ہے۔ یہ راج کیا تھا‘ استحصال کا ایک سلسلہ تھا ‘جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اور ایک خاص حد تک اب بھی یہی کیفیت ہے۔ امریکا اور یورپ نے یہ تصور کرلیا تھا کہ وہ کسی اور دنیا سے آئے یا بھیجے گئے ہیں اور زمین پر اُنہیں دوسروں پر راج کے سوا کچھ نہیں کرنا۔ عالمی معاشی و مالیاتی نظام کو اپنی مٹھی میں کرنے کے بعد امریکا اور یورپ نے استحصال کا بازار گرم کیا اور کسی بھی خطے کو ڈھنگ سے پنپنے کے قابل نہ چھوڑا۔ ایشیا اور افریقا پر اُن کی خاص ''نظرِ کرم‘‘ رہی ہے۔
چند عشروں کے دوران امریکا اور یورپ کی حکمتِ عملی یہ رہی ہے کہ باقی دنیا میں ہر طرف خرابیاں رقص کرتی رہیں اور اُن کی اپنی سرزمین مکمل طور پر محفوظ رہے۔ ثقافتی سطح پر بھی غیر معمولی برتری کی بدولت دونوں خطوں نے باقی تمام خطوں کو اس قدر مسحور و مرعوب رکھا کہ ایک مدت تک کسی اور طاقت کے ابھرنے کی کوئی سبیل دکھائی ہی نہ دی۔ عسکری معاملات میں غیر معمولی مہارت کا حصول یقینی بنانے پر امریکا اور یورپ نے بھرپور توجہ دی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب ‘باقی دنیا پر اُن کی عسکری برتری غیر معمولی ثمرات کا حصول یقینی بنارہی ہے۔ امریکا نے اس صورتِ حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ کئی خطوں میں اُس نے خانہ جنگیوں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ افریقا اور مشرق وسطٰی پر اُس نے زیادہ توجہ دی ہے۔ ان دونوں خطوں کو اُس نے ابھرنے ہی نہیں دیا۔
چین اور اُس کے چند ہم نوا ممالک کے مضبوط ہونے سے امریکا اور یورپ کے لیے مساوات کچھ تبدیل ہوئی ہے۔ چین نے اب تک عسکری سطح پر کسی بڑے مناقشے سے گریز کیا ہے۔ وہ امریکا اور یورپ سے الجھ کر کوئی جنگ چھیڑنے کے لیے کسی بھی درجے میں تیار نہیں۔ چینی قیادت کو اندازہ ہے کہ کسی بڑی جنگ میں ملوث ہونے سے اُس کی عشروں کی محنت داؤ پر لگ جائے گی۔ روس ‘اس وقت چین کا ہم نوا ہے‘ تاہم عسکری معاملات میں طبع آزمائی سے گریز نہیں کر رہا۔ وہ اس معاملے میں خاصا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ چین کے لیے جدید دور کی کسی جنگ میں بھرپور انداز سے ملوث ہونا ایسا معاملہ ہے‘ جس کا اُس کے پاس تجربہ برائے نام بھی نہیں۔ چینی قیادت کا پورا زور معاشی معاملات کو مضبوط بنانے پر ہے ‘یعنی وہ ''نرم قوت‘‘ کے ذریعے پوری دنیا پر راج کرنے کی تیاری کرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔
چین کا راستہ روکنے کی کوششوں میں امریکی قیادت کہیں کہیں غیر معمولی بدحواسی کا بھی مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس بدحواسی میں وہ یورپ کو بھی راہیں الگ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ سے امریکا کے سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے صرف برطانیہ کو استثناء دیا ہے۔ یہ گویا جلتی پر تیل چھڑکنا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک امریکی پالیسیوں سے پہلے ہی نالاں ہیں۔ اب ‘یورپ کو کورونا وائرس کے ''ایپی سینٹر‘‘ یعنی مرکز کا درجہ دیئے جانے کے بعد امریکا کا اُس سے مزید الگ تھلگ ہو جانا پورے براعظم کو چین اور دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کی طرف دیکھنے کی تحریک دے گا۔
امریکا اور برطانیہ کو یہ بات اب تو سمجھ لینی چاہیے کہ وہ بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں۔ اگر اب بھی اُنہوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی تو بالا دستی قائم رکھنے کی خاطر کی جانے کوئی بھی نامعقول کوشش پوری دنیا کی سلامتی کو داؤ پر لگادے گی۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو چین نے امریکا کی کارستانی قرار دیا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا نے جراثیمی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے چین سمیت پورے ایشیا کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکا کی اس مبینہ شرارت کا خمیازہ یورپ کو بھگتنا پڑا ہے۔ اگر کل کو یہ ثابت ہوگیا کہ واقعی امریکا نے وہی کیا تھا‘ جو چین کہہ رہا ہے‘ تو یورپ اُس سے مزید دور ہو جائے گا۔ اپنی بالا دستی برقرار رکھنے اور پوری دنیا پر راج کرتے رہنے کے لیے امریکا نے اگر منفی سوچ ہی پر عمل جاری رکھا ‘تو دنیا کو مکمل تباہی سے روکنا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اچھا ہے کہ امریکی قیادت خود کو اسی دنیا کا حصہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھے۔