کورونا وائرس کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟ ...... تحریر : رضوان عطا
corona.jpg
چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی وبا پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس نے سماجی اور معاشی نظام کو تہ و بالا اور نظام زندگی معطل کر دیا ہے۔اس کے خاتمے یا کم از کم اس کی رفتار کم کرنے کے لیے دنیا بھر میں غیرمعمولی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ان میں اجتماع اور نقل و حرکت پر پابندی، احتیاطی تدابیر سے آگہی اور ''لاک ڈاؤن‘‘ شامل ہیں۔ یہ تمام اقدامات بے سود ثابت ہو سکتے ہیں اگر کووڈ19- کی بروقت اور مناسب پیمانے پر تشخیص نہ کی جائے۔
کسی ملک میں وائرس کا پھیلاؤ ابتدائی مراحل میں ہو یا بہت زیادہ ہو چکا ہو، دونوں صورتوں میں ٹیسٹ کے ذریعے تشخیص کی اہمیت مسلمہ ہے۔ مختلف ممالک میں اس مرض کے ٹیسٹوں کی شرح مختلف ہے۔ اس کا انحصار جہاں مریضوں کی تعداد پر ہے وہیں حکومتی ترجیحات اور سہولیات کی دستیابی پر بھی ہے۔ بعض ممالک نے ٹیسٹنگ ترجیحی بنیادوں پر کی۔ ان میں چین اور جنوبی کوریا کے نام شامل ہیں۔ ان ممالک نے ٹیسٹنگ کے لیے ضروری سامان کی پیداوار کو جلد ممکن بنایا۔ زیادہ مشتبہ افراد کے ٹیسٹ کرنے سے انہیں وبا کی روک تھام میں مدد ملی۔
کس کا ٹیسٹ کرنا ہے اور کس کا نہیں، اس کا ایک عمومی پیمانہ ہے البتہ بعض ممالک میں تھوڑے سے شبے پر ٹیسٹ کر لیے جاتے ہیں اور بعض میں واضح علامات آنے پر ہوتے ہیں۔ ٹیسٹ کے بغیر یہ ممکن نہیں کہ کسی فرد میں اس وائرس کی موجودگی کا حتمی فیصلہ کر لیا جائے۔
کسی کا ٹیسٹ کرنے کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ فرد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو جائیں یا اس کے مریض سے اس کا رابطہ ہوا ہو۔
کووڈ19- کی اہم علامات بخار، خشک کھانسی اور سانسوں میں تیزی ہیں۔ یہ نزلہ یا عام زکام جیسی ہوتی ہیں اس لیے صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا کسی ایسے مریض سے واسطہ نہیں پڑا۔ اسی سے پتا چلتا کہ یہ کتنا بڑا چیلنج ہے۔
ٹیسٹوں کی سہولت کم ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے کہ کس کا ٹیسٹ کیا جائے اور کس کا نہیں۔ ٹیسٹوں میں معمراور پہلے سے بیمار افراد کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ذیابیطس، بلند فشارِخون، امراض قلب اور سرطان میں مبتلا افراد میں کورونا وائرس سے پیچیدگیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کووڈ19- کی علامات انفیکشن کے فوری بعد ظاہر نہیں ہوتیں، ان میں وقت لگتا ہے جو دو ہفتے تک ہو سکتا ہے۔ اس دوران وائرس کا شکار فرد دوسروں میں وائرس منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی چھینک یا کھانسی انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر وہ قریب بیٹھے زیادہ لوگوں میں کھانسے یا چھینکے گا تو ان سب میں وائرس کی منتقلی کا خدشہ ہو گا۔ ناک اور منہ سے نکلنے والے چھینٹوں یا قطروں سے یہ وائرس دوسروں میں براہِ راست داخل ہو سکتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وائرس والے چھینٹے کسی جگہ مثلاً میز یا کاغذ پر گریں اور وہاں کسی کا ہاتھ لگے اور وہ ہاتھ پھر ناک یا منہ پر لگ جائے۔ یوں بھی وائرس کسی کے جسم میں داخلے کا راستہ بنا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں نئے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کو دیکھ کر بآسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بہت جلد پھیلتا ہے اور بہت متعدی ہے۔ علامات کے نمودار ہونے میں تاخیر اور بعض افراد میں علامات کا ظاہر نہ ہونا اسے مزید خطرناک اور پریشان کن بنا دیتا ہے۔ اگر کسی میں علامات ظاہر نہ ہوں اور اسے شبہ ہو کہ وہ اس وائرس کا شکار ہو چکا ہے تو حقیقت جاننے کے لیے ٹیسٹ ہی کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
جتنی جلدی کوروناوائرس کے شکار فرد کی بیماری کا پتا چلے گا اتنا ہی بہتر ہے۔ ٹیسٹ مثبت آئے گا تو مریض کو الگ کر دیا جائے گا، اس کا خیال رکھا جائے گا تاکہ وہ صحت یاب ہو جائے اور وہ دوسروں میں مرض پھیلانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔
کورونا وائرس کی تشخیص کے ٹیسٹ کا ایک اور فائدہ حکمت عملی اور پالیسی میں ہوتا ہے۔ اگر متعلقہ اداروں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں علاقے میں کووڈ19- کے مریض زیادہ ہیں تو وہ اس پر توجہ مرکوز کریں گے اور یہ کوشش ہو گی کہ وائرس وہاں سے دوسرے علاقوں میں نہ پھیلے۔ علاقائی اور ملکی دونوں سطحوں پر ٹیسٹ کے ذریعے مریضوں کی تشخیص حالات کی درست تصویر کشی اور اس کے مطابق ردعمل میں معاون ہوتی ہے۔
یہ وائرس جسے سارس- کوو2- کانام دیا گیا ہے، نیا ہے اور اس کے بارے میں تحقیق پورے زور و شور سے جاری ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اس کی تشخیص کے ٹیسٹوں کو بہتر اور کم وقت میں نتائج حاصل کرنے کے قابل بنایا جا رہا ہے۔
جب کسی کا ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا جائے تو پھر نمونہ لیا جاتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فیصلے کے بعد نمونہ لینے اور ٹیسٹ کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ ادارہ نمونہ درست طور پر لینے کی بھی تاکید کرتا ہے۔
ٹیسٹ کا نمونہ ناک کے اندرونی حصے سے لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے گلے سے بھی لیا جا سکتا ہے۔ کووڈ19- وائرس پاخانے میں پایا گیا ہے، تاہم پاخانے اور پیشاب میں اس کی موجودگی حتمی طور پر طے نہیں۔ خون کے نمونے سے بھی اس وائرس کی موجودگی ثابت کی جا سکتی ہے۔
نمونے کو جلد از جلد لیبارٹری یا ٹیسٹنگ کے آلے تک پہنچنا چاہیے۔ اگر نمونے نے سفر طے کرنے کے بعد پہنچنا ہے تو اسے تجویز کردہ درجہ حرارت میں رکھا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں لیبارٹری میں حفظان صحت یا بائیو سیفٹی کے تمام معیارات کو اپنانا بھی انتہائی اہم ہے۔
ناک اور گلے کے اندر سے نمونہ لینا آسان ہے لیکن اس میں وائرس کی موجودگی ثابت کرنا مشکل ہے ۔نمونے میں وائرس کے جینیاتی مواد یعنی آر این اے اور اس کی ترتیب کو تلاش کیا جاتا ہے، وہ مل جائے تو ٹیسٹ مثبت ہوتا ہے۔ نظام تنفس سے لیے گئے نمونوں میں یہ تلاش ''پولیمریز چین ری ایکشن‘‘ (pcr) کے طریقے سے ممکن ہے۔ بعض ابتدائی پی آر سی ٹیسٹ جنوری 2020ء میں جرمنی میں تیار ہوئے اور انہیں کی بنیاد پر عالمی ادارۂ صحت نے کٹس تیار کیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وائرس کی تشخیص کے ٹیسٹ تیار کیے جا چکے ہیں۔ ان میں چین، جنوبی کوریا، جرمنی، برطانیہ، امریکا اور دیگر شامل ہیں۔ جو ممالک بروقت ٹیسٹ کی سہولیات میسر کرنے میں کامیاب ہوئے وہ وبا کا مقابلہ بہتر انداز میں کرنے کے بھی قابل ہوئے۔
کورونا وائرس کا ٹیسٹ ایک پیچیدہ ٹیسٹ ہے اس لیے اس میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ مثال کے طور پر چین میں کیے گئے ٹیسٹوں میں تین فیصد کے نتائج منفی آئے جبکہ دراصل وہ مثبت تھے۔ دوسرے الفاظ میں پہلے ٹیسٹ سے ان کی تشخیص نہ ہو سکی۔بہرحال عموماً یہ ٹیسٹ ٹھیک نتائج دیتے ہیں اور ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ تھوڑے سے غلط نتائج کا یہ مطلب نہیں کہ ٹیسٹ ہی نہ کرائے جائے، یقینا ٹیسٹ کرانا بہت مفید رہتا ہے۔
ٹیسٹ کرنے کے لیے صرف نمونے کافی نہیں ہوتے، اس کے لیے ٹیسٹ کرنے کے آلات اور تربیت یافتہ عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیسٹوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ان تمام میں اضافہ ضروری ہے۔
چین نے اینٹی باڈی ٹیسٹ بھی بنائے ہیں جن میں ناک یا گلے سے نمونے لینے کے بجائے خون کے نمونے لیے جاتے ہیں اور انہیں سے وائرس کی تشخیص کی جاتی ہے۔ خون سے ہونے والے ٹیسٹ میں ان اینٹی باڈیز کو دیکھا جاتا ہے جو اس وائرس سے لڑنے کے جسم میں باعث پیدا ہوتی ہیں۔ اگر یہ موجود ہوں تو ٹیسٹ مثبت ہو گا۔ خون کا ٹیسٹ ایک لحاظ سے زیادہ مفید ہے کیونکہ اس سے اس مریض کا بھی پتا چل جاتا ہے جو کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ٹھیک ہو چکا ہو۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ مریض کی طبیعت ناساز نہیں ہوتی، معمولی علامات کو وہ نظر انداز کر دیتا ہے اور کچھ عرصے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے مگر اس دوران وہ بعض علاقوں میں مرض پھیلا چکا ہوتا ہے۔ دوسری طرف پی سی آر ٹیسٹ میں صرف بیمار فرد کی کھوج لگائی جا سکتی ہے۔
دونوں ٹیسٹوں میں نمونہ لینے میں اگر زیادہ جلدی کی جائے تو ان سے بیماری کے پتا چلنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ تھوڑے عرصے میں وائرس جسم میں کم ہوتا ہے، یوں وہ نظام تنفس کے مادے میں بھی کم ہوتا ہے۔ اگر اس مادے کے نمونے کا ٹیسٹ انفیکشن کے فوراً بعد لے لیا جائے تو غلط طور پر اس کے منفی آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ خون میں اینٹی باڈیز بھی فوری پیدا نہیں ہوتیں۔ اینٹی باڈیز کے بننے میں ایک ہفتے تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
ٹیسٹ کی سہولیات کم ہونے کے باوجود بھی حالات کا نقشہ بنایا جا سکتا ہے اگرچہ یہ مبہم اور غیر واضح ہوتا ہے۔ اگر کہیں تھوڑے ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں اور بیشتر مثبت آ رہے ہیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں مریضوں کی تعداد دراصل زیادہ ہے۔ اسی کے مطابق حکومت کو پالیسی بنانی چاہیے۔جیسا کہ چین میں اس وائرس کے شروعاتی شہر ووہان کو کچھ عرصے کے لیے سیل کر دیا گیا تھا تاکہ وہ سے لوگ باہر نہ جائیں اور باہر مرض کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بنیں، اس سے چین کے اندر وبا کنٹرول کرنے میں خاصی مدد ملی۔
حالات کے پیش نظر اب یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایسے ٹیسٹ ہوں جن کے نتائج فوری میسر ہوں۔ اس سلسلے میں امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے ایک ٹیسٹ کی منظوری دی ہے جس میں نتیجہ پانچ منٹ میں آ جاتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی مشین کے ذریعے کیا جائے گیا جسے ایک سے دوسری مقام پر لے جانا آسان ہو گا۔ منٹوں میں نتائج حاصل کرنے والے آلے بنانے کے بہت دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ انہیں رائج کرنے سے پہلے ٹیسٹ کی درستی یا ایکوریسی کی تصدیق کرنا انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان میں مقامی طور پر ٹیسٹ کی سہولت بھی تیارکی گئی ہے۔ یہ حوصلہ افزا امر ہے کیونکہ یہ سہولت سستی بھی ہو گی اور اگر تھوڑا جتن کر لیا جائے تو اس کی فراوانی بھی ممکن ہو گی۔ پاکستان کے تحقیقاتی اداروں اور یونیورسٹیوں کو آگے آنا چاہیے اور ثابت کرنا چاہیے کہ وہ دورِجدید کی ضروریات سے ہم آہنگ ہیں اور ہنگامی حالات میں کارآمد۔