سفید فام راجے کی مہم جوئی
raja.jpg
بہت سے یورپی لوگ راجہ کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں کہ کسی ہندوستانی ریاست یا صوبے کا حکمران ہو گا لیکن یہ ایک ایسا خطاب ہے جو مشرق کے دیگر حصوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بورنیو کے صوبے سراوک کے حکمرانوں کے لیے بھی برتا جاتا رہا۔ بورنیو ایشیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور اب سیاسی طور پر ملائیشیا، انڈونیشیا اور برونائی میں تقسیم ہے۔ سراوک اس جزیرے کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہاں ایک انگریز جس کا نام جیمز بروک تھا، اسے بورنیو کے سلطان کی گراں قدر خدمات کے صلے میں راجہ کے خطاب اور عہدے سے نوازا گیا۔
اس نے 1803ء میں برطانیہ میں جنم لیا۔ وہ ایک دولت مند زمیندار کا بیٹا اور اس کی جائیداد کا وارث تھا۔ اس کے خاندان کے کئی افراد ایسٹ انڈیا کمپنی میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس کی بھی یہ خواہش تھی کہ وہ اسی کمپنی میں ملازمت کرے لیکن اس نے اپنی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد فوج کی ایک رجمنٹ میں کمیشن حاصل کر لیا۔ 1825ء میں وہ عازم ہندوستان ہوا اور اسے اپنی رجمنٹ کے ہمراہ وادی برہما پترا روانہ کر دیا گیا تاکہ وہ شاہ برما کے خلاف جنگ میں حصہ لے سکے جس کا نام باگی ڈا تھا۔ باگی ڈا کے جدامجد الونگ پایا نے 18 ویں صدی کے وسط میں برمی بادشاہوں کی آخری سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اور اس کے جانشین برصغیر میں برطانوی حکومت کے لیے دردسر بنے رہے۔ یہ بادشاہ ہندوستان کے سرحدی صوبوں کو اکثر اپنے حملوں کا نشانہ بناتے تھے۔ وہ وہاں فصلوں پر قبضہ کر لیتے تھے اور قصبوں اور دیہاتوں کی آبادی کو مجبور کرتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ برما چلیں جہاں پر ان سے مشقت لی جاتی تھی۔ اہل برطانیہ نے کافی حد تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور وہ کئی برسوں تک ان برمی لوگوں کی حرکتوں کو برداشت کرتے رہے لیکن جب شاہ باگی ڈا نے 1824ء میں قصداً سرحد عبور کی اور اپنی معمولی کی لوٹ مار کی تب گورنر جنرل نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔
جیمز بروک ایک فطری سپاہی تھا اور برما کے خلاف سخت ترین مہم میں اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس نے جنگل کی لڑائی کا مشکل ترین فن سیکھا۔ سب سے بڑھ کر وہ ان لوگوں کے ذہنوں کو پڑھنے پر قادر ہو چکا تھا۔ وہ ان مشرقی لوگوں کے ساتھ گھل مل چکا تھا جبکہ برطانوی افسران آبائی باشندوں کو کمتر مخلوق سمجھتے تھے۔
۔1826ء کے آغاز میں بروک نے رنگ پور کے نزدیک ایک گھمسان کی جنگ میں حصہ لیا۔ اس لڑائی میں وہ اس قدر شدید زخمی ہوا تھا کہ اس کے روبہ صحت ہونے کے امکانات انتہائی کم تھے۔ اسے انگلستان واپس بھیج دیا گیا جہاں وہ آہستہ آہستہ روبہ صحت ہوا۔اس کا خیال تھا کہ سمندر کی ہوا اسے مکمل صحت یاب کرے گی۔ لہٰذا تین برس بعد وہ چین کے بحری سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کے یہ سفر تفریحی تھا۔
وہ اپنے مستقبل کے منصوبے کے ہمراہ انگلستان لوٹا۔ والد کے انتقال کے بعد اپنی جائیداد کے مناسب انتظام و انصرام کے بعد وہ 1838ء میں دوبارہ مشرق کے لیے روانہ ہوا۔
وہ بورنیو کے ساحل پر پہنچا جہاں مقامی حکمران کا چچا راجہ مداہاشم سراوک کے شمال مغرب میں ڈیاک قبیلے کی بغاوت کچلنے میں مصروف تھا۔ یہ علاقہ گوریلا جنگ کے لیے موزوں تھا اور ڈیاک قبیلے کے لوگ گوریلا جنگ لڑ رہے تھے۔ یہ علاقہ ایک طویل ساحل تھا۔ باغی لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر حملہ آور ہوتے تھے اور اس آبادی کو اپنا نشانہ بناتے تھے جو وسطی میدان میں آباد تھی۔ اس میدان کے عقب میں گھنے جنگلات تھے اور اس مقام پر بھی ڈیاک قبیلے کے لوگوں کا پلہ بھاری تھا کیونکہ وہ جنگل میں لڑنے کی مہارت رکھتے تھے۔ وہ دبلے پتلے مختصر جسامت کے حامل سخت جان لوگ تھے۔ وہ برق رفتاری کے ساتھ جنگل میں چھپ جاتے تھے۔ ان کا ہتھیار ''کرس‘‘ تھا۔ ایک خنجر جس کی دھار انتہائی تیز ہوتی تھی اور ان کو اس خنجر کو چلانے کی انتہائی مہارت بھی حاصل تھی۔ انہوں نے اپنے دشمنوں کے کتنے ہی سر قلم کیے۔
مداہاشم اور اس کی سرکاری افواج کی حالت قابل رحم تھی۔ جیمز بروک وہاں پہنچا اور اپنے پہنچنے کے فوراً بعد اپنی خدمات پیش کر دیں۔ اس نے اپنی امداد کی پیشکش اس وقت کی جب اس کی فوری ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اس موقع پر یہ امداد راجہ کے لیے بالکل ایسے ہی تھی جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا اگرچہ اسے یقین نہ تھا کہ ایک انگریز ڈیاک لوگوں سے نپٹ سکتا تھا۔ لیکن بروک برما کی جنگ میں حاصل کردہ تجربے کو نہیں بھولا تھا اور اور نہ اپنے زخموں کو۔ وہ ایک ماہ کے اندر اندر سرکاری افواج کے بہترین رہنما کے طور پر منظر عام پر آیا۔ مدا ہاشم اور اس کے کمانڈر اس کے احکامات کی تعمیل کرتے تھے۔ بروک نے ہمیشہ آبائی باشندوں جیسا طرززندگی اپنایا۔ بالآخر اس نے ڈیاک کو اس پہاڑی علاقے میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تھا جو بنجر اور ویران تھا۔ پھر انہوں نے بروک کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
مداہاشم بروک سے اس قدر خوش ہوا کہ اس کا شکریہ ادا کرتے نہ تھکتا تھا۔ وہ اس کا انتہائی ممنون تھا۔ اس نے صوبہ سراوک کا کنٹرول بروک کے حوالے کر دیا تھا اور اسے راجہ کے خطاب سے بھی نوازا۔ اس وقت سراوک ایک زرعی علاقہ تھا۔ اس علاقے میں چاول کے علاوہ دیگر اناج کی بھرپور فصل ہوتی تھی۔ لیکن ان فصلوں کا بیشتر حصہ ضائع ہو جاتا تھا کیونکہ ان اشیا کی طلب زیادہ نہ تھی۔ بروک نے کوشش کے بعد صوبے کی برآمدات کے لیے راہ ہموار کی۔ سراوک کی کئی ایک بندرگاہیں تھیں جن سے صوبہ کی معاشی حالت میں بہتری آئی۔
تجارتی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ بحری ڈاکو تھے جو جزیرے کی بندرگاہوں کو اپنا نشانہ بناتے تھے۔ بروک کا خیال تھا کہ جب تک ان بحری ڈاکوؤں سے نہ نپٹا جائے اس وقت تک تجارتی ترقی کی راہیں مسدود رہیں گی اور تجارتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو گا۔ اس نے ان کے خلاف ایک مہم تشکیل دی جس میں کئی برطانوی بحری کمانڈروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ 1845ء تک اس کی کوششیں رنگ لائیں اور حالات قابو میں آ گئے۔ 1847ء میں بحری قزاقوں نے ڈیاک سے مدد حاصل کی۔ ان لوگوں نے ڈیاک کو دوبارہ پرانے ہتھکنڈوں پر آمادہ کیا۔ انہوں نے بورنیو کے دارالخلافہ کا رخ کیا اور سلطان کی فوج پر چڑھائی کر دی۔
اسی برس اس نے برطانیہ کا ایک مختصر دورہ بھی کیا جہاں پر اس کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے لابان کا جزیرہ سلطان سے خرید لیا تھا اور انہوں نے بروک کو اس جزیرے کا گورنر کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔ انہوں نے اسے بورنیو میںکونسل جنرل بھی مقرر کر دیا۔ نئے عہدوں کے حصول کے بعد وہ دوبارہ عازم مشرق ہوا۔ بروک نے پوری طاقت کے ساتھ 1849ء میں ڈیاک اور قزاقوں کے خلاف کارروائی کی۔ 1850ء تک بروک کو اپنی محنت کا صلہ ملنا شروع ہو چکا تھا۔ سراوک اب ایک بہتر ریاست کے طور پر منظر عام پر آیا۔
۔1851ء میں پارلیمنٹ کا ایک رکن جس کا نام جوزف ہیوم تھا اس نے ہاؤس آف کامن میں اپنی ایک تقریر میں سر جیمز بروک پر کچھ الزامات لگائے۔ البتہ اس کے خلاف بدعنوانی اور غبن کے الزامات ثابت نہ ہو سکے۔
قزاق ایک بار پھر منظم ہوئے کیونکہ ان کا روزگار چھن گیا تھا اور سراوک کے دارالحکومت کیوچنگ پر اچانک حملہ کر دیا۔ انہوں نے بروک کا مکان جلا کر راکھ کر دیا۔ بروک کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی لیکن وہ جلد لوٹ آیا۔ اس کے ہمراہ برطانوی بحری قوت تھی۔ اس نے بحری ڈاکوؤں کو ایک بار پھر بھگا دیا۔ بروک نے اپنی خرابی صحت سے قبل دو مزید بغاوتیں کچلیں۔ خرابی صحت کی بنا پر وہ واپس انگلستان روانہ ہوا تاکہ علاج کروا سکے۔ اس مرتبہ اس کا استقبال ایک ہیرو کی مانند کیا گیا۔ اس پر فالج کا شدید حملہ ہوا اور 1868 ء میں وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کے جانشین کے طور پر اس کا بھتیجا سراوک کا راجہ بنا۔