بلا امتحان کامیابی ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات عین تقاضائے فطرت اور تقاضائے ضرورت ہے۔ نظریۂ ضرورت کے تحت روزمرہ کے مسلمہ ضابطے اور قاعدے معطل بھی کر دیئے جاتے ہیں۔ ''نظریۂ ضرورت‘‘ پڑھ کر قارئین کا دھیان مشہور زمانہ یا بدنام زمانہ نظریہ ٔضرورت کی طرف گیا ہو گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اکثر حکمران نظریۂ ضرورت کا سہارا لیتے رہے ہیں۔ اس نظریہ کی توثیق کیلئے ڈکٹیٹر عدالتوں سے بھی رجوع کرتے رہے ہیں۔ ''نظریۂ ضرورت‘‘ کے امتحان میں عدالتیں کبھی سرخرو اور کبھی سرنگوں ہوتی رہی ہیں۔
اس وقت ساری دنیا میں کورونا کی حشر سامانیوں سے جہاں صنعت و تجارت کا پہیہ رک گیا ہے‘ وہاں تعلیمی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ یورپ و امریکہ میں بڑی حد تک تعلیم کا سلسلہ آن لائن جاری ہے ‘ وہاں مقامی حالات کے مطابق کہیں کہیں سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیاں کھلی ہوئی بھی ہیں ‘مگر زیادہ تر تعلیمی ادارے بند ہیں۔ جہاں تک افریقہ اور ایشیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک کا تعلق ہے‘ وہاں ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی کی بنا پر آن لائن تدریس بھی ممکن نہیں۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے‘ کیونکہ بعض دیہاتی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں اور کم آمدنی والے شہری علاقوں کے طلبا و طالبات کو بھی انٹرنیٹ اور لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل نہیں‘ تاہم تعلیمی معاملات میں بھی نظریۂ ضرورت کو بروئے کار لایا جا سکتاہے‘ مگر اس احتیاط اور اہتمام کے ساتھ کہ نہ انصاف کے تقاضے مجروح ہوں اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہو۔
۔7مئی کو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے حد سے بڑھی ہوئی سادگی سے کام لیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ تعلیمی ادارے 15جولائی تک بند رہیں گے‘ نیز تمام تعلیمی بورڈز کے امتحانات منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ وزیر موصوف نے یہ بھی فرمایا کہ گزشتہ سال کی بنیاد پر طلبا کی پروموشن دے دی جائے گی۔ بغیر امتحان دیئے نہم کے طلبا دہم میں اور دہم کے طلبا گیارہویں جماعت میں پروموٹ ہوں گے اور گیارہویں کے طلبا بارہویں جماعت میں۔ جناب شفقت محمود کو اندازہ نہیں کہ میٹرک اور ایف ایس کے نتائج کس طرح سے طلبا و طالبات کے میرٹ کا تعین کرتے ہیں اور اسی میرٹ کی بنا پر طلبا کا داخلہ کالجوں سے پروفیشنل اداروں میں ہوتا ہے‘ اس اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر لامتناہی سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
چونکہ عمر گزری ہے‘ اسی دشت کی سیاحی میں‘ ہم گزشتہ تین چار دہائیوں سے تعلیم و تدریس سے ملک کے اندر اور ملک سے باہر وابستہ ہیں‘ لہٰذا موبائل فون پر کالوں کا تانتا بندھ گیا اور واٹس ایپ پیغامات کی بھرمار بھی ہو گئی۔ سب سے پہلا فون طائف یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ڈاکٹر چودھری زاہد کا آیا۔ ڈاکٹر صاحب کا ایک بیٹا پاکستان کے سرکاری میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہے‘ جبکہ دوسرے بیٹے نے اس سال سیکنڈ ایئر کا امتحان دینا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے کے فرسٹ ایئر میں نمبر قدرے کم تھے‘ مگر سارا سال شدید محنت کے نتیجے میں ان کا صاحبزادہ بہت اچھے نمبروں کی توقع لگائے بیٹھا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ اب سیکنڈ ایئر کا امتحان نہیں ہوگا۔ بس فرسٹ ایئر جیسے نمبر ملیں گے تو وہ اس وقت سے آنسو بہا رہا ہے کہ یہ کیسا انصاف ہے؟ اسی طرح جس کی فرسٹ ایئر میں سپلی تھی تو کیا اب سیکنڈ ایئرمیں بھی اسے ایک اور سپلی سے نوازا جائے گا۔ جو بچے میرٹ پر آنے کیلئے دوبارہ امتحان دینے والے تھے اُن کا کیا بنے گا؟ جن بچوں نے فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کا امتحان اکٹھا دینا تھا‘ ان کا کیا مستقبل ہوگا؟ انہی وجوہات کی بنا پر آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن اور پنجاب ٹیچرز یونین نے حکومت سے بھرپور اپیل کی ہے کہ وہ عجلت اور وسیع تر مشاورت کے بغیر کئے گئے اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔
میں نے ان مشکل و پیچیدہ حالات کے بارے میں ماہرانہ رائے لینے کیلئے شعبہ تعلیم سے وابستہ دوستوں پر ایک نظر ڈالی تو تھوڑے سے ہی غور و خوض کے بعد میری نگہ انتخاب ڈاکٹر محمد بشیر صاحب پر جا کر ٹھہری۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت یونیورسٹی آف سرگودھا کے کنٹرولر آف امتحانات ہیں۔ وہ اس سے پہلے ڈی جی خان‘ ملتان اور سرگودھا کے تعلیمی بورڈوں کے چیئرمین رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب کے آل بورڈز چیئرمین کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔امتحانات کے سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انعقاد کے بارے میں ماہرانہ رائے کیلئے اُن سے بڑھ کر کوئی اور موزوں ترین شخصیت نہیں ہو سکتی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا تو انہوں نے بڑی گرم جوشی کا اظہار کیا۔ میں نے امتحانات کی منسوخی کے بارے میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہر مصیبت جہاں بہت سی مشکلات لاتی ہے ‘وہاں کئی امکانات بھی لے کر آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں دسویں جماعت کا امتحان ہو چکا ہے۔ جہاں تک نویں جماعت کے امتحانات کا تعلق ہے ‘وہ ابھی بھی لئے جا سکتے ہیں ا ور انہیں مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ نویں کے امتحان و نتائج کا براہ راست کالجوں کے داخلے سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ البتہ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات ضرور ہونے چاہئیں‘ تاکہ انصاف اور میرٹ کے تقاضے پورے ہو سکیں ‘نیز سپلی اور گریڈ بہتر کرنے کیلئے امتحان دینے والے بھی باآسانی ان مراحل سے گزر سکیں ‘تاکہ کسی کی کوئی حق تلفی نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ان دنوں سکول اور کالجز خالی ہیں‘ لہٰذا کورونا سے بچنے کیلئے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ پہلے جس کمرہ میں پینتیس چالیس طلبا و طالبات ہوتے تھے اب وہاں صرف 20طلبا کی نشستیں لگا لی جائیں۔ طلبا کو گھر سے ماسک لانے پر پابند کیا جائے‘ تاہم بورڈ کی طرف سے طلبا کو سینی ٹائزر فراہم کیا جائے۔کورونا سے پہلے بھی یہی طریق کار تھا کہ طلبا اپنے اپنے پرچے مکمل کر کے میزوں پر چھوڑ دیتے تھے‘ جنہیں بعد میں نگران حضرات جمع کر لیتے تھے۔ اب‘ اسی طریق کار کی زیادہ شدت کے ساتھ پابندی کروائی جا سکتی ہے۔
یونیورسٹیوں میں تو سمسٹر سسٹم ہے‘ اس لئے ان امتحانات کے بارے میں تقدیم و تاخیر اختیار کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک بورڈوں میں سنٹرل مارکنگ کے نظام کا تعلق ہے‘ اسے موجودہ ایمرجنسی کے پیش نظر اس سال کیلئے معطل کیا جا سکتا ہے اور پرانے طریق کار کے مطابق خفیہ رول نمبروں کے ساتھ پرچے اساتذہ کو گھروں میں بھجوائے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر بشیر صاحب نے نہایت ہی قابل عمل تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز پر عمل درآمد سے میرٹ متاثر ہوگا اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہوگی۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی دہائی بھی قابلِ توجہ ہے۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ 15جولائی تک سکولوں کی بندش سے نجی تعلیمی اداروں کا معاشی قتل عام ہو جائے گا۔ ٹیچرز کی تنخواہیں مقرر ہیں۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ 90فیصد سکولوں کی عمارتیں کرائے پر ہیں‘ جب فیسیں نہیں آئیں گی تو اساتذہ کو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی اور عمارتوں کا کرایہ کیسے ادا ہوگا؟ پرائیویٹ سکولز کا کہنا ہے کہ 15جولائی تک سکولوں کی بندش سے 50فیصد ادارے مکمل بند ہو جائیں گے اور کم از کم دس لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ یہی دہائی پرائیویٹ کالجز والے بھی دے رہے ہیں۔ رول نمبر سلپ وصول کرنے کا مرحلہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ جب طلبا بقایا واجبات ہر صورت ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
غیر معمولی حالات میں یقینا غیر معمولی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں‘ مگر ایسے اقدامات سے ضرور اجتناب کیا جائے ‘جن سے میرٹ اور انصاف کا خون ہو جائے۔