رزق بانٹو بھوک مٹاؤ ۔۔۔۔۔ رسول بخش رئیس

عصرِ حاضر کے تمام معاشرے ناہموار ی کا شکار ہیں۔ امیر اور غریب کے وسائل‘ رہی سہی آمدنی اور اخراجات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ افریقہ‘ لاطینی امریکہ سے لے کر بر صغیر کے مختلف علاقوں تک میں ایسی غربت کہ کروڑوں انسان دو نوالوں کو ترسیں۔ امیروں کے وہ عیش اور ٹھاٹھ باٹ کہ مغرب کے آسودہ حال بھی ان پہ رشک کریں۔ آج کل تیزی سے ترقی کے مراحل سے گزرنے والے ممالک میں دوڑ اس بات کی ہے کہ ان کے ہاں ارب پتیوں کی کتنی تعداد ہے۔ غربت کا رونا تو سیاسی ڈرامے بازی ہے‘ اس لئے کہ اگر واقعی غریب لوگوں کے حالات وہ سدھارنے میں مخلص اور سنجیدہ ہیں تو پھر کرپشن کیوں؟ اور وہ بھی بے انتہا‘ نسل در نسل ۔ غربت مٹانا مقصود ہو تو پھر تعلیم‘ صحت ‘ خاندانی منصوبہ بندی اور فعال حکمرانی کیوں نہیں؟ عوام کے سامنے جلسے جلوسوں میں اور کیمروں کے سامنے جلوہ افروز ہوکر وہ جو باتیں کرتے ہیں‘ سب فریب‘ دغا اور جھوٹ کا پلندہ۔ اگر کبھی کوئی پوچھ لے تو کھسیانی بلی کی طرح ملامتی مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے ہیں‘ بھئی آپ سیاست کے راز کیا جانیں۔ جناب سب جانتے ہیں اور یہ بھی کہ جب آپ کے ہاتھ مضبوط‘ آپ کا طاقت کا نیٹ ورک فعال اور حکمران طبقات کا گٹھ جوڑوہی ہے‘ جو ہم گزشتہ کئی نسلوں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ یہ ڈرامہ بازی ہمارے ساتھ کرتے رہیں گے۔ ہمارے جیسے ممالک میں حکمرانوں نے ‘ جن کا تعلق سب سیاسی جماعتوں‘ نوکر شاہی‘ صنعت اور دیگر اہم شعبوں سے ہے‘ ملک کے اندر بھی اور بیرونِ ملک بھی اتنا سرمایہ اکٹھا کر رکھا ہے کہ کئی نسلوں تک حکمران رہنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن وقت کا دھارا ایک سمت نہیں بہتا‘ وقت بدلتا ہے تو رضا شاہ پہلوی کو کوئی ملک ٹکنے نہیں دیتا۔ شاہ کی تہران سے آخری پرواز کے مناظر کچھ دن پہلے دیکھے‘ ذرا غور سے دیکھیں تو سارے انجام کی کہانی چند لمحات میں سمٹی نظر آتی ہے۔
اپنے ہی ملک کے ماضی کے حکمرانوں کے انجام کی اذیت ناک کہانیاں ہمارے سامنے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ان کی اولادیں بھی نہ صرف پُرانی روش پہ گھوڑے دوڑائے چلی جا رہی ہیں بلکہ غریب اور پس ماندہ عوام اور علاقوں کا مال دہائیوں سے لوٹ کر اپنے خزانے بھرنے میں مصروف ہیں۔ یہ ایسے خزانے ہیں‘ جن کی نہ کوئی تہہ ہے‘ نہ دھانے کی تنگی۔ اہل دانش کا وہ منہ ہی چڑاتے ہیں‘ جب غربت‘ بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کی ڈینگیں ہانکتے ہیں۔ ہمیں تو ترس آتا ہے غریب عوام پر کہ وہی ہر بار دھوکے میں آتے ہیں۔ پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس بھوک اور افلاس کے مارے یہ لوگ اپنے کندھوں پر اٹھا ئے انہیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ غربت کیسے ختم ہو گی‘ غریب کے بچے کب پڑھ لکھ کر معاشرے کا توانا حصہ بنیں گے۔ کب ان کی عزتِ نفس بحال ہو گی اور کب وہ یہ سوال کرنے کی جرأت کر سکیں گے کہ آپ جواب دہ کیوں نہیں؟ آپ نے مال کیوں اور کیسے بنایا؟ اور پھر غریب کیوں غریب اور امیر کیوں امیر ہوتے ہیں؟
ان سب سوالوں کا جواب سیاست میں ہے‘ اس لئے کہ سیاست کا تعلق طاقت کے حصول‘ اس کے استعمال اور معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور معاشی انصاف پیدا کرنے یا نہ کرنے سے ہے۔ کوئی بھی ملک ہو‘ غربت اور افلاس بد سیاست اور بدعنوان حکمرانوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ کوئی خدائی آفت‘ عذاب یا ہاتھوں میں کندہ قسمت کی لکیر نہیں ہے۔ قسمت کا درس دے کر عوام کو خاموش رکھا جاتا رہا ہے۔ نہ جانے کب لوگ سیاسی چالوں کو سمجھ سکیں گے۔ کم از کم کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں کے بارے میں تو لوگ بیدار ہوں۔ متبادل قیادت ایسی ہی بیداری کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہر جگہ‘ ہر دور اور ہر زمانے میں جب عوام نے شعور کی کچھ سیاسی منزلیں طے کر لیں تو لوٹ کھسوٹ کرنے اور نسلوں تک حکمرانی کا خواب آنکھوں میں سجانے والے جعلی حکمران نہ صرف عوامی سیاست سے غائب ہو گئے بلکہ تاریخ کے سیاہ باب کا حصہ بھی بنے اور اگر سب نہیں تو ان میں سے زیادہ تر عبرت کا نشان بھی بنے۔ کچھ تو وطن عزیز میں اس وقت بھی میرے سامنے ذلت اور رسوائی کی علامت بن چکے ہیں۔ اپنے ارد گرد دیکھیں تو لوٹ مار کرنے والوں کی شکلیں آپ کے ذہن میں گھوم جائیں گی۔
میرا مؤقف یہ ہے کہ سیاست کو ٹھیک کرنے اور ریاست کو صحیح سمت میں چلانے سے ہی ہمارے اور دیگر معاشروں میں بھوک ختم ہو گی‘ لیکن معاشی عدم مساوات اور غربت ایسے مسائل ہیں کہ ترقی یافتہ‘ صنعتی ممالک میں بھی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر لوگ بھوکے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہوئے ملتے ہیں۔ ایسے میں نہ سب کچھ ریاست اور حکومت پہ چھوڑا جا سکتا ہے ‘ اور نہ ہی بھوک میں انتظار کیا جا سکتا ہے کہ نہ جانے کتنے لوگ سانسوں کا سلسلہ برقرار نہ رکھ سکیں۔ اس لئے معاشرے کا متحرک ہونا بے حد ضروری ہے‘ اور ہمارے ہاں تو ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں‘ جنہیں دیکھ کر اور ان کے بارے میں پڑھ اور سن کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ رزق فوڈ بینک کے بارے میں اتنا معلوم ہے کہ چند سال پہلے میری جامعہ کے تین طلبا‘ حذیفہ احمد‘ قاسم جاوید اور موسیٰ عامر نے اس کی بنیاد رکھی۔ اس کے پس منظر میں ایک ماں کی پچیس سال تک کھانا خود تیار کر کے روزانہ سینکڑوں لوگوں میں تقسیم کرنے کی مثال اور جذبہ کارفرما تھا۔ یہ ہیں حذیفہ احمد کی والدہ محترمہ۔ اپنی ماں کی کاوش کو حذیفہ آگے بڑھانا چاہتے تھے۔ بس فیس بک پر اعلان کر دیاکہ اگر کسی کے پاس بچا ہوا کھانا ہے تو وہ ان سے خود اکٹھا کر کے غریب لوگوں میں تقسیم کریں گے۔ انہوں نے ہزاروں گھروں میں غریب لوگوں کے دسترخوان پر کھانا مہیا کرنا شروع کر دیا۔ پانچ برس میں ستر لاکھ سے زیادہ کھانے تقسیم کر چکے ہیں۔ انہوں نے پندرہ ہزار ٹن پکا ہوا کھانا ضائع ہونے سے بچایا۔
کمال کا تصور ہے کہ کھانا ہوٹل کا ہو ‘ کسی شادی گھر کا‘ یا کسی بھی عام گھر میں‘ اگر ضرورت سے زیادہ ہے تو اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ ماہرینِ معیشت و سماجی علوم بھی یہی کہتے ہیں کہ جتنی خوراک دنیا میں ہم پیدا کر رہے ہیں‘ اس کا ایک بڑا حصہ کھیتوں میں‘ منڈیوں میں‘ بازاروں میں اور گھروں میں بے دردی سے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ یہ خاکسار استاد ہونے کے علاوہ کاشت کار بھی ہے۔ کاشت کار سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ خوراک یعنی اجناس‘ پھل‘سبزیاں‘ کھانے پینے کی دوسری چیزیں سب محنت مانگتی ہیں۔ سرمایہ کاری کے علاوہ ان کے اگانے میں وقت بھی صرف ہوتا ہے۔ ہوٹلوں میں بیٹھے لوگ جس طرح روٹی کا ایک حصہ کھا کر باقی پھینک دیتے ہیں‘ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اس خطے میں اور عالمی لحاظ سے بھی خوراک کی قیمتیں پاکستان میں نسبتاً سستی ہیں۔ خود مشاہدہ کرکے دیکھ لیں‘ کتنی خوراک ہر جگہ دیہات سے لے کر شہروں تک روزانہ ضائع ہوتی ہے۔ رزق کے علاوہ بھی اب ملک میں ایسی تنظیمیں بن چکی ہیں‘ جو رضاکارانہ طور پر کھانا‘ پھل اور جو بھی کھانے پینے کی دیگر اشیا دستیاب ہیں‘ ضائع کرنے کے بجائے مستحق لوگوں میں تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے رضا کاری میں دنیا میں ایک نہیں کئی مثالیں قائم کر دیں۔ پاکستان میں چھبیس ملین ٹن کھانا جمع کر کے غربا کو منظم طریقے سے فراہم کیا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز میں اس کھانے کی مالیت امریکی ڈالروں میں دو ارب کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یہ بات میں وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کیونکہ دستاویزات اس کے بارے میں موجود ہیں۔ غیر دستاویزی کھانے کی تقسیم اس کے علاوہ ہے۔
وبا کے دور میں رزق اور بھی زیادہ فعال ہے‘ تقریباً پندرہ ہزار خاندانوں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔ گندی سیاست کی گندی زبان اور لوٹ کھسوٹ کی داستانوں سے دل بھر چکا ہے۔ اس کے بارے میں ہم بہت کچھ سیکھ‘ سن اور کہہ چکے‘ اور ایسا کرتے ہی رہیں گے کہ یہ تو فرض اور عوام کا ہم پہ قرض ہے۔ سیاست کے اجڑے میدان میں کہاں کوئی ایسی مثال‘ کہاں کوئی ایسی کہانی اور ایسی کاوش کہ دل میں بہار کے رنگ اتر آئیں۔ معاشرتی سطح پر رضا کاری کی تحریک سے حوصلہ بڑھا ہے کہ سماج مجموعی طور پر اور مکمل شکست خوردہ نہیں۔ ایک نہیں‘ اس ملک میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جو کوئی بھی خلوص نیت سے قدم بڑھاتا ہے‘ عوام ٹوٹ کر مدد کو اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر شہر میں نوجوان آگے ہیں‘ وہ اپنا وقت‘ سرمایہ اور تعلیم بھوک مٹانے کی کاوش میں بروئے کار لا رہے ہیں۔ کئی دفعہ دہرا چکا ہوں‘ مستقبل ہمارا نوجوان ہی ہیں۔