شاپنگ کی پیاسی قوم ..... عمار چوہدری

سوموار کو حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کیا کی‘ عوام نے شاید یہ سمجھا کہ لاک ڈائون نہیں بلکہ کورونا ختم ہو گیا ہے۔ سڑکوں اور بازاروں میں گھمسان کا یوں رن پڑا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ وہ جو کہا جا رہا تھا کہ لوگوں کے پاس کھانے پینے کے پیسے ختم ہو گئے ہیں وہی لوگ بانو بازار انارکلی سے لے کر خواتین کے برانڈڈ سٹوروں تک میں ایک دوسرے کو پچھاڑتے شاپنگ کرتے دکھائی دئیے۔ انہیں دیکھ کو کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی قوم ہے جو ایک روز قبل تک گھروں میں یوں دُبکی ہوئی تھی جیسے بلی کو خالی پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو۔ ایسا لگتا تھا پوری قوم اندھا دھند خریداری کے ذریعے کورونا وائرس سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ یہ فارمولا دنیا کے کسی ملک کے پاس نہیں تھا جو ہمارے عوام کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ نہ ماسک کی پروا‘ نہ سماجی فاصلوں کی فکر اور نہ ہی جراثیم لگ جانے کا ڈر۔ یہ ایک فطری امر تھا کیونکہ جو قوم رات کو دس گیارہ بجے ہوٹلوں میں کھانا کھانے نکلتی تھی‘ جو آدھی رات کو کچے پیزے اور باسی برگر کھا کر خوش رہتی تھی اور جو وقت‘ پیسہ‘ پٹرول اور توانائی کو ضائع کرنا قومی ذمہ داری سمجھتی تھی‘ اس قوم کیلئے ایک ڈیڑھ ماہ گھروں میں قید رہنا واقعی بہت بڑی سزا تھی‘ جس کا اندازہ انہیں اب مارکیٹوں میں بے رحمانہ شاپنگ کرتے ہوئے دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ابھی تو ریسٹورنٹ کھلنے ہیں۔ اصل مناظر تو ابھی سامنے آنے ہیں۔ وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر ہر دوسرے روز ہوٹلنگ اور دعوتوں کی تصاویر شیئر کرکے اپنی زندگی کو ''مثبت‘‘ انداز میں گزار رہے تھے ان کیلئے گھروں کے کھانے کھانا کسی سزا سے کم نہیں ہے۔ سزا کے یہ دن کب پورے ہوں گے یہ تو خدا جانتا ہے کہ اس دوران رمضان المبارک آ گیا ہے اور وہ بھی شوبازی سے بھرپور افطار پارٹیوں کے بغیر گزر رہا ہے‘ جس سے زندگی انتہائی پھیکی گزر رہی ہے۔ حکومت نے لاک ڈائون میں بتدریج نرمی کا اعلان کرکے ایسے طبقے کیلئے جینے کی نئی امید پیدا کر دی ہے۔ کئی طرح کے کاروبار کھل گئے ہیں۔ عوام نے اصول و ضوابط پر عمل کیا یا پھر یہ کہہ لیں کہ قدرت نے مہربانی کی اور عوام کی لاپروائیوں اور بداحتیاطیوں کے باوجود اس قوم پر اپنا کرم برقرار رکھا اور وبا ترقی یافتہ ممالک کے برعکس کنٹرول میں رہی تو پھر زندگی سو فیصد نہیں تو کم از کم ساٹھ ستر فیصد تو معمول پر آ ہی جائے گی۔ اتنا ہو گیا تو بھی بہت ہے کہ اب گھر میں رہنا لوگوں‘ بالخصوص مردوں کیلئے انتہائی مشکل ہے۔ پارکوں کو کھولا جائے تو بھی بہت سا ریلیف مل جائے گا۔ آ جا کر ساری بات عوام پر آ جاتی ہے کہ حکومت تو کل چھوڑ‘ آج ہی سب کچھ کھولنے کو تیار ہے لیکن عوام ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے تو پھر بات نہیں بن پائے گی بلکہ بات بگڑ کر واپس لاک ڈائون یا کرفیو تک آ جائے گی‘ جس کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ اب پتہ چلا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام جس لاک ڈائون اور بھارتی بربریت سے گزر رہے ہیں اس سے ملتی جلتی کیفیت سے ساری دنیا کو گزرنا پڑا ہے۔ ہم تو پھر اچھے حال میں رہے‘ کشمیریوں کو تو گھر سے باہر نکلنے پر سیدھے فائر مار دئیے جاتے ہیں‘ کاروبار‘ معیشت‘ روزگار سب کچھ بند ہے‘ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے بھی بند پڑے ہیں نہ جانے بچے‘ خواتین اور بوڑھے کس حال میں زندہ ہوں گے؟ یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
دنیا کے بیشتر حکمران ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ شاید ہمیں آئندہ زندگی یا پھر کئی سال کورونا کے ساتھ ہی جینا پڑے‘ اس لئے دنیا کو اس کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ جب تک وائرس کی ویکسین تیار نہیں ہوتی یونہی بار بار ہاتھ دھو دھو کر اور سینی ٹائزر اور ماسک لگا لگا کر مخبوط الحواس قسم کی زندگی گزارنا پڑے گی۔ عجیب زندگی ہو گی یہ بھی۔ نہ کسی سے ہاتھ ملا سکیں گے نہ گلے مل سکیں گے۔ پہلے ہی نمازیوں کے درمیان مساجد میں کئی فٹ کا فاصلہ ہو چکا ہے۔ بوڑھوں اور بچوں کے مساجد جانے پر پابندی ہے۔ آگے عید آ رہی ہے۔ عید پر گلے ملنا اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ اس کے بغیر عید عید نہیں لگتی۔ اس بار مصافحہ اور گلے ملنے‘ دونوں پر پابندی ہو گی تو پھر یہ کیسی عید ہو گی؟ بچے ابھی سے پوچھ رہے ہیں عید کیسے منائیں گے۔ سنا ہے سعودی عرب نے عیدالفطر کے پانچ روز کرفیو لگا دیا ہے۔ نہ کوئی گھر سے باہر نکل سکے گا‘ نہ عید کی نماز پڑھے گا‘ نہ ہی مصافحے اور گلے ملنے کی اجازت ہو گی۔ یہ سب کورونا کے پھیلائو کو روکنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ عوام بھی گومگو کا شکار ہیں۔ حکومت کا کہنا نہ مانیں تو پھنستے ہیں‘ مانیں تو نفسیاتی مسائل کی دلدل میں مزید اترتے جاتے ہیں۔ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ پابندیاں لے کر آ رہا ہے۔ بازار کھل تو گئے ہیں لیکن لوگوں کے چہروں پر خوشی اور اطمینان دکھائی نہیں دیتا۔ ہر کوئی انجانے خوف اور اندھے وائرس سے ڈر کر ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر اپنی اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے۔ ایک منزل میں اوپر نیچے دو کرایہ دار یا مالک مکان ساتھ رہتے ہیں اور ایک منزل میں کسی فیملی کو کورونا ہو گیا ہے تو دوسری منزل والے عجیب عذاب میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ ایسے کئی لوگ گھر چھوڑ رہے ہیں کہ جس گلی یا محلے میں کورونا نکل آئے وہاں تو جیسے دشمن ملک کا حملہ ہو جاتا ہے۔ ایسی افراتفری مچتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ یہی لوگ آج سے ہفتہ دس دن پہلے تک ایک دوسرے سے پوچھتے تھے: یار بتائو بھلا تمہارے کسی قریبی یا جاننے والے کو کورونا ہوا ہے؟ یہ سب بکواس ہے‘ کورونا کوئی بیماری نہیں ہے۔ یہ جملے کہنے والے لوگ آج آپ کو یہ کہتے ملیں گے کہ بھائی کورونا واقعی سچ ہے۔ ہمارے ہمسائے میں فلاں کیس نکل آیا ہے۔ فلاں کے فلاں کی وفات کورونا سے ہوئی ہے۔ آگے اس کے گھر والوں کو بھی وائرس ہو گیا ہے۔ حکومت نے سب کو قرنطینہ میں شفٹ کر دیا ہے۔ گھروں کو تالے لگ گئے ہیں۔ یہی لوگ اس وائرس کے پھیلائو کی وجہ بنے ہیں۔ جو کل تک اس کا مذاق اڑاتے تھے آج سوتے اور کھاتے وقت بھی منہ پر ماسک چڑھا لیتے ہیں۔
انسان بڑا شکی مزاج ہے۔ کسی چیز پر اس وقت تک یقین نہیں کرتا جب تک اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے یا کوئی بہت ہی اپنا اور قریبی اسے نہ بتائے‘ تب تک وہ وہم کا شکار رہتا ہے۔ پاکستان میں بیس روز قبل تک کورونا کیسز کی تعداد دس ہزار تھی لیکن ان بیس دنوں میں پچیس ہزار مزید کیس آ گئے ہیں۔ پہلے دس ہزار کیس آنے میں ڈیڑھ ماہ یا پینتالیس دن لگے۔ جبکہ اگلے پچیس ہزار کیس بیس دن میں آ گئے۔ یہ انتہائی الارمنگ سچوئیشن ہے۔ حکومت اپنے تئیں عوام کو ریلیکس کرنا چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے یہ جنگ عوام خود جیتیں۔ یہ جنگ عوام نے لڑنی ہے اس لئے جیتنی بھی انہی نے ہے۔ حکومت آج کرفیو لگا دے تو لوگوں کو بھوک کے لالے پڑ جائیں۔ مگر حکومت لاک ڈائون میں نرمی کرتی ہے تو عوام اس کو سیریس نہیں لیتے اور اٹکھیلیاں کرنے بازاروں کو نکل جاتے ہیں۔ یہ رویہ بھی درست نہیں۔ کیسز کی تعداد میں جب تک کمی نہ آئے یا پھر ویکسین ایجاد نہ ہو جائے یا پاکستان میں کورونا ٹیسٹنگ کی کیپسٹی نہ بڑھ جائے تب تک ہم معمول کی زندگی یا بداحتیاطی والی زندگی میں واپس نہیں آ سکتے۔ قدرت نے اگر اس ملک پر رحم کیا ہے اور پاکستان کا حال امریکہ‘ اٹلی‘ برطانیہ اور ایران جیسا ہونے سے بچایا ہے تو اس پر قدرت کا شکر بجا لانا چاہیے نہ کہ لاک ڈائون میں نرمی کے اعلان پر رسیاں تڑا کر بے لگام جنگلی بیل کی طرح ایسے شاپنگ کا آغاز کر دینا چاہیے‘ جیسے یہ زندگی کی آخری عید اور شاپنگ کا کوئی واحد موقع ہے جو ہاتھ سے نکل گیا تو جنت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا!
قدرت نے اگر اس ملک پر رحم کیا ہے اور پاکستان کا حال امریکہ‘ اٹلی‘ برطانیہ اور ایران جیسا ہونے سے بچایا ہے تو اس پر قدرت کا شکر بجا لانا چاہیے نہ کہ لاک ڈائون میں نرمی کے اعلان پر رسیاں تڑا کر بے لگام جنگلی بیل کی طرح ایسے شاپنگ کا آغاز کر دینا چاہیے۔