The Memoirs of Aga Khan
ÛŒÛ Ú©ØªØ§Ø¨ 1954Ø¡ میں Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئی تھی اور اس Ú©ÛŒ اÛÙ… خوبی ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ کا پیش Ù„Ùظ انگریزی Ú©Û’ بڑے ادیب سمرسٹ ماÛÙ… Ù†Û’ لکھا ÛÛ’ اور کیا خوب لکھا ÛÛ’Û” سمرسٹ ماÛÙ… 1930Ø¡ Ú©ÛŒ دÛائی میں انگلینڈ میں سب سے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù…Ø¹Ø§ÙˆØ¶Û Ù„ÛŒÙ†Û’ والے لکھاری تصور Ûوتے تھے۔اسماعیلیوں Ú©Û’ روØ+انی پیشوا سر آغا خان سوم Ú©ÛŒ ÛŒÛ Ú©ØªØ§Ø¨ اپنے اندر ایک شاندار تاریخ سموئے Ûوئے ÛÛ’Û” قائداعظم اور آغا خان سوم میں عمر کا صر٠ایک برس کا Ùرق تھا۔ آغا خان 1877Ø¡ میں کراچی میں پیدا Ûوئے۔ ان Ú©Û’ دادا ایران سے Ø´Ø§Û Ø§ÛŒØ±Ø§Ù† سے اختلا٠کی ÙˆØ¬Û Ø³Û’ بلوچستان Ú©Û’ راستے بمبئی اور پونا جا کر اپنے ایک Ûزار Ùالورز Ú©Û’ ساتھ سیٹل Ûوگئے تھے اور بÛت جلد انÛیں انگریز سلطنت میں بھی ایک اÛÙ… شخصیت کا Ø¯Ø±Ø¬Û Ù…Ù„ گیا تھا۔آغا خاںسوم Ú©ÛŒ عمر ابھی آٹھ برس تھی Ú©Û ÙˆØ§Ù„Ø¯ Ùوت Ûوگئے اور ان Ú©ÛŒ Ø¬Ú¯Û Ú¯Ø¯ÛŒ پر بیٹھنا پڑا۔ اس کتاب Ú©Ùˆ پڑھیں تو آپ Ú©Ùˆ لگتا ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ بچے Ù†Û’ کیسے خود Ú©Ùˆ بچپن میں باپ سے Ù…Ø+روم Ûونے Ú©Û’ بعد سنبھالا۔ ایک Ø°Ûین‘ پڑھا لکھا اور ماڈریٹ انسان‘ان Ú©ÛŒ ماںکا اپنے چھوٹے سے بیٹے Ú©Ùˆ ان Ø+الات میں سنبھالے رکھنا اپنی Ø¬Ú¯Û Ø§ÛŒÚ© داستان ÛÛ’Û” مجھے Ù†Ûیں معلوم Ú©Û Ø§Ù“Ø¬ Ú©ÛŒ نسل Ú©Ùˆ کتنا Ù¾ØªÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù“ØºØ§ خان سوم Ù†Û’ ÛÛŒ 1906Ø¡ میں آل انڈیا مسلم لیگ Ú©ÛŒ ÚˆÚ¾Ø§Ú©Û Ù…ÛŒÚº دیگر ساتھیوں Ú©Û’ ساتھ مل کر بنیاد رکھی تھی جو بعد میں پاکستان بنانے کا Ù†Ø¹Ø±Û Ù„Û’ کر چلی۔ سر آغا خان کا پاکستان بنانے میں جو اÛÙ… رول ÛÛ’ اسے کسی اور وقت پر اÙٹھا رکھتے Ûیں‘اس وقت ÛŒÛ Ø¨Ø§Øª بتانے والی ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ کتاب میں درج ÛÛ’ Ú©Û Ú©ÛŒØ³Û’ Ûندوستان میں ایک وبا اچانک پھیلنا شروع Ûوگئی جس Ù†Û’ انگریزوں تک Ú©Ùˆ چکرا کر رکھ دیا تھا۔
Û”1896 Ø¡ میں ÛŒÛ Ø§ÙÙˆØ§Û Ûندوستان میں پھیل رÛÛŒ تھی Ú©Û Ûانگ کانگ میں ایک وبا پھیل رÛÛŒ ÛÛ’ جو Ù…Ú©Ú¾ÛŒ Ú©Û’ کاٹنے سے انسانوں Ú©Ùˆ لگتی ÛÛ’ اور اس کا رخ مغربی ایشیاکی جانب ÛÛ’Û” آخر ÛŒÛ ÙˆØ¨Ø§ 1897Ø¡ Ú©ÛŒ ختم Ûوتی گرمیوں میں بمبئی Ù¾ÛÙ†Ú† گئی‘ مگر جیسا Ú©Û Ûندوستانیوں کا مزاج Ûے‘ کسی Ù†Û’ اس وبا Ú©Ùˆ Ø³Ù†Ø¬ÛŒØ¯Û Ù†Û Ù„ÛŒØ§Ø§ÙˆØ± اÙلٹا اس پر سوالات اٹھانے شروع کر دیے Ú©Û Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ûیں Ûوتا‘ لیکن بÛت جلد سب گھبرا گئے Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ø§Ø³ Ú©Û’ Ù…ÛÙ„Ú© اثرات پھیلنا شروع Ûوگئے تھے۔ اس وقت کسی Ú©Ùˆ Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù¾ØªÛ Ø¨Ú¾ÛŒ Ù†Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û ÛŒÛ ÙˆØ¨Ø§ کس بلا کا نام ÛÛ’Û” بمبئی Ú©Û’ سب Ûسپتال اور ڈاکٹر اس وبا Ú©ÛŒ ØªØ¨Ø§Û Ú©Ø§Ø±ÛŒÙˆÚº سے گھبرا گئے تھے۔ ان Ú©Û’ پاس اس کا کوئی علاج Ù†Û ØªÚ¾Ø§Û” ان Ú©Û’ پاس اس وبا کا‘ جو تیزی سے لوگوں Ú©Ùˆ کھا رÛÛŒ تھی‘ ایک ÛÛŒ Ø+Ù„ تھا Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ صا٠ستھرے رÛیں۔ ÛŒÛ Ø§Ø¹Ù„Ø§Ù† Ûونا شروع Ûوگئے Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ اپنی جھونپڑیوں اور گھروں Ú©Ùˆ کھول دیں‘ ØªØ§Ø²Û Ûوا اندر آنے دیں اور گھروں میں جراثیم Ú©Ø´ ادویات Ú©Û’ سپرے کریں۔ لیکن ان سب اقدامات سے بھی کوئی Ùرق Ù†Ûیں Ù¾Ú‘ رÛا تھا۔ Ûندوستانی مزاج میں صÙائی تھی ÛÛŒ Ù†Ûیں ‘ Ù„Ûٰذا انÛیں خود Ú©Ùˆ صا٠رکھنے اور جراثیم Ú©Ø´ سپرے Ú©ÛŒ Ù†Û Ø³Ù…Ø¬Ú¾ تھی اور Ù†Û ÛÛŒ ÙˆÛ Ø³Ù…Ø¬Ú¾Ù†Ø§ چاÛتے تھے۔ وبا ایسی شدید تھی Ú©Û Ø§Ø³ پر کوئی سپرے بھی اثر Ù†Ûیں کررÛا تھا۔ Ø±ÙˆØ²Ø§Ù†Û Ù…Ø±Ù†Û’ والوں Ú©ÛŒ تعداد میں اضاÙÛ Ûونا شروع Ûوگیا تھا‘ جس پر لوگوں میں اشتعال پیدا Ûوناشروع ÛÙˆ گیا۔ اس وبا Ù†Û’ لوگوں Ú©Û’ مورال پر بÛت برا اثر ڈالا۔ موت Ú©Ùˆ سامنے دیکھ کر لوگوں Ú©Û’ دلوں سے قانون کا خو٠ختم Ûوگیا تھا۔ جب موت Ûر دروازے پر دستک دے رÛÛŒ ÛÙˆ تو پھر کس Ú©Ùˆ خو٠رÛÛ’ گا۔ جوں جوں وبا Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ اموات بڑھنا شروع Ûوئیں‘ اس Ú©Û’ ساتھ ÛÛŒ لوٹ مار اور تشدد بھی شروع Ûوگیا۔ اچانک لوگوں میں شراب نوشی اور غیراخلاقی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ وبا Ú©ÛŒ ØªØ¨Ø§Û Ú©Ø§Ø±ÛŒØ§Úº دیکھ کر لوگوں Ú©Ùˆ لگا Ú©Û Ø¬Ø¨ مرنا ÛÛŒ ÛÛ’ تو کیوں Ù†Û Ú©Ú†Ú¾ عیاشی کر Ú©Û’ مریں۔انگریز سرکار Ú©Û’ خلا٠بھی ØºØµÛ Ø¨Ú‘Ú¾ رÛا تھا Ú©Û ÛŒÛ Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ûیں کررÛی۔ رÛÛŒ سÛÛŒ کسر اس وقت پوری Ûوگئی جب ایک انگریز اÙسر Ú©Ùˆ قتل کر دیا گیا ‘جب ÙˆÛ Ø§ÛŒÚ© سرکاری Ùنکشن سے گھر جارÛا تھا۔ ÙˆÛ Ø§Ø¹Ù„ÛŒÙ° اÙسر اس وبا سے نمٹنے Ú©Û’ انتظامات دیکھ رÛا تھا مگرکسی Ú©Ùˆ ØºØµÛ Ø§Ù“ÛŒØ§ Ú©Û Ø§Ù†Ú¯Ø±ÛŒØ² اÙسران وبا Ú©Ùˆ کیوں Ù†Ûیں روک رÛÛ’ اور یوں اس اÙسر Ú©Ùˆ قتل کر دیا گیا۔
اب انگریز سرکار پریشان Ûوگئی Ú©Û ØµÙˆØ±ØªØ+ال خراب ÛورÛÛŒ تھی‘ لوگ Ûر طر٠مررÛÛ’ تھے۔ ان Ø+الات میں آغا خان سوئم Ú©Ùˆ Ù¾ØªÛ Ú†Ù„Ø§ Ú©Û Ø¬Ûاں سینکڑوں Ú©ÛŒ تعداد بمبئی Ú©Û’ دیگر لوگ اس وبا Ú©Û’ Ûاتھوں شکار ÛورÛÛ’ تھے ÙˆÛیں ان Ú©Û’ اپنے Ùالورز Ú©ÛŒ بھی بڑی تعداد اس وبا Ú©Û’ Ûاتھوں Ùوت ÛورÛÛŒ تھی۔ آغا خان صاØ+ب Ù¾ÛÙ„Û’ ÛÛŒ بمبئی پر نازل Ûونے والی اس مصیبت سے پریشان تھے مگر اب تو ان Ú©Û’ اپنے Ùالورز بھی اس کا شکار Ûونا شروع Ûوگئے تھے۔ آغا خان صاØ+ب Ú©Ùˆ سمجھ Ù†Ûیں آ رÛÛŒ تھی Ú©Û Ø§Ù† Ø+الات میں ÙˆÛ Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº Ú©ÛŒ اس وبا سے کیسے جان چھڑائیں۔آخر آغا خان صاØ+ب Ú©Û’ Ø°ÛÙ† میں ایک خیال بجلی Ú©ÛŒ طرØ+ کوندا۔ بیس Ø³Ø§Ù„Û Ù†ÙˆØ¬ÙˆØ§Ù† امام Ú©Ùˆ لگا Ú©Û Ø§Ú¯Ø± اسے لوگوں Ù†Û’ اپنا امام چنا ÛÛ’ تو پھر اسے اس وقت سب خطرات مول Ù„Û’ کرانÛیں لیڈ بھی کرنا Ûے‘ سب Ú©ÛŒ جانیں بچانی Ûیں جو وبا Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ خطرے میں Ûیں۔
Ú©Ú†Ú¾ غور Ùˆ Ùکر Ú©Û’ بعد آغا خان سوم Ù†Û’ اپنی جان Ú©Ùˆ خطرے میں ڈال کر ÙˆÛ Ø§Ù†ØªÛائی'' پراسرار اورخطرناک ‘‘ قدم اٹھانے کا ÙÛŒØµÙ„Û Ú©Ø± لیا جو 1897 Ø¡ میں اÙس وقت Ú©Û’ Ûندوستان میں کوئی سوچ بھی Ù†Ûیں سکتا تھا۔
جو بات سازشی تھیوریز سے شروع ÛÙˆ کر Ûندوستانی عوام Ú©ÛŒ بے نیازی تک Ù¾ÛÙ†Ú†ÛŒ تھی اتنی خوÙناک Ø´Ú©Ù„ اختیار کر Ú†Ú©ÛŒ تھی Ú©Û Ø®ÙˆØ¯ عوام کا Ø+ÙˆØµÙ„Û Ø¬ÙˆØ§Ø¨ دے گیا تھا۔ ÙˆÛÛŒ عوام جو Ù¾ÛÙ„Û’ اس وبا Ú©Ùˆ سنجیدگی سے Ù†Ûیں Ù„Û’ رÛÛ’ تھے اب Ûر طر٠موت کا راج دیکھ کر اشتعال میں آنا شروع Ûوگئے تھے Ú©Û Ø§Ù†Ú¯Ø±ÛŒØ² سرکار Ú©Ú†Ú¾ کر کیوں Ù†Ûیں رÛی۔
بمبئی (Ù…ÙˆØ¬ÙˆØ¯Û Ù…Ù…Ø¨Ø¦ÛŒ)Ø+کومت Ú©Û’ پاس ایک بÛترین ریسرچر اور سائنسدان تھا جس کا نام پروÙیسر Ûا٠کین تھا۔ پروÙیسر ایک روسی ÛŒÛودی تھا۔ ÙˆÛ Ø§Ø³ وقت Ûندوستان آیا Ûوا تھا ØªØ§Ú©Û ÛÛŒØ¶Û Ù¾Ø± کام کر سکے Û” اس ÛŒÛودی پروÙیسر Ù†Û’ سرکاری Ø+کام Ú©Ùˆ اس بات پر راضی کر لیا تھا Ú©Û ÛÛŒØ¶Û Ú©Ùˆ کنٹرول کرنے کا ایک ÛÛŒ Ø·Ø±ÛŒÙ‚Û ÛÛ’ Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº Ú©Û’ جسموں میں اس بیماری Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم انجیکٹ کئے جائیں Û” ÙˆÛ Ø§Ø³ بات کا قائل تھا Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº میں Immunityپیدا Ú©ÛŒ جائے جو اس وبا کا Ù…Ù‚Ø§Ø¨Ù„Û Ú©Ø±Û’ Û” اس Ú©Û’ لیے ضروری تھا کسی تندرست انسان میں اس بیماری Ú©Û’ چند جراثیم ڈالے جائیں۔ انسان Ú©Û’ اندر موجود Immunity ان کمزور جراثیم Ú©Ùˆ مار دے Ú¯ÛŒ اور یوں ÙˆÛ ÙˆØ¨Ø§ اس پر Ø¯ÙˆØ¨Ø§Ø±Û Ø+Ù…Ù„Û Ø¢ÙˆØ± Ù†Ûیں Ûوسکے گی۔
ÛŒÛودی پروÙیسر بمبئی میں ÛŒÛ Ø¨Ø§Øª سب Ú©Ùˆ سمجھانے Ú©ÛŒ کوششوں میں لگا Ûوا تھا‘ لیکن اس Ú©ÛŒ بات کوئی سننے اور سمجھنے Ú©Ùˆ تیار Ù†Ûیں تھا۔ اس Ú©ÛŒ سائنسی اپروچ Ú©Ùˆ ÙˆÛ Ù¾Ø°ÛŒØ±Ø§Ø¦ÛŒ Ù†Ûیں مل رÛÛŒ تھی جو ملنی چاÛیے تھی۔ اس Ú©ÛŒ ایک ÙˆØ¬Û ÛŒÛ ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø¹Ø§Ù… Ûندوستانی ÛŒÛ Ù…Ø§Ù†Ù†Û’ Ú©Ùˆ تیار Ù†Û ØªÚ¾Û’ Ú©Û Ø¬Ø³ بیماری سے بندے Ú©Ùˆ Ù…Ø+Ùوظ رکھنا ÛÛ’ ‘الٹا اسی Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم انجیکٹ کیے جائیں۔ Ûندوستانیوں کا خیال تھا Ú©Û Ø§Ú¯Ø± ÙˆÛ Ø¬Ø±Ø§Ø«ÛŒÙ… Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ø·Ø§Ù‚ØªÙˆØ± Ù†Ú©Ù„Û’ تو پھر Ø¨Ù†Ø¯Û ÙˆÛŒØ³Û’ ÛÛŒ مرجائے گا‘ اورایک طرØ+ سے ÛŒÛ Ø®ÙˆØ¯ موت Ú©Ùˆ Ú¯Ù„Û’ لگانے والی بات Ûوگی۔ بجائے اس Ú©Û’ Ú©Û ÛŒÛودی سائنسدان Ú©ÛŒ بات پر غور کیا جاتا‘ الٹا اس پر تنقید شروع Ûوگئی۔ سازشی تھیوریز Ú¯Ú¾Ú‘ Ù„ÛŒ گئیں اور ÛŒÛودی پروÙیسر تنازعوں میں گھر گیا۔
جب ÛŒÛودی سائنسدان کا سب مل کر Ø+شر نشر کررÛÛ’ تھے اس وقت بھی لوگ دھڑا دھڑ مررÛÛ’ تھے اور اب تو لوگ گنتی تک بھول گئے تھے Ú©Û Ø±ÙˆØ² کتنی اموات ÛورÛÛŒ تھیں۔ نوجوان آغا خان Ú©Û’ لیے دکھ Ú©ÛŒ بات ÛŒÛ ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ù…Ø±Ù†Û’ والوں میں ان Ú©Û’ اپنے مریدین بھی شامل تھے Û” ÛŒÛ Ø®Ø·Ø±Ù†Ø§Ú© Ø+الات دیکھ کر نوجوان آغا خان Ù†Û’ سوچا Ú©Û Ø§Ù†Ûیں ÛÛŒ Ø®Ø·Ø±Û Ù…ÙˆÙ„ لینا Ûوگا ØªØ§Ú©Û ÙˆÛ Ø¹Ø§Ù… لوگوں اور اپنے مریدین Ú©Ùˆ اس وبا سے بچاسکیں‘ ÙˆØ±Ù†Û ØªÙˆ سب Ú©Ú†Ú¾ ختم Ûوجائے گا۔ ان خطوط پر سوچنے Ú©ÛŒ ایک ÙˆØ¬Û ÛŒÛ ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø¢ØºØ§ خان Ù†Û’ سائنسی تعلیم بھی اپنے استادوں سے Ù„Û’ رکھی تھی جو انÛیں پڑھانے Ø±ÙˆØ²Ø§Ù†Û Ø§Ù† Ú©Û’ گھر آتے تھے Û” آغا خان Ù†Û’ اپنے سائنس Ú©Û’ مضمون میں Ùرانس Ú©Û’ مشÛور کیمسٹ لوئی پاسچر Ú©Ùˆ پڑھا Ûوا تھا۔ لوئی پاسچر Ù†Û’ ÛÛŒ ÛŒÛ Ø¹Ù„Ø§Ø¬ ایجاد کیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں Ú©ÛŒ زندگیاں بچ گئی تھیں۔ اس Ù†Û’ ثابت کیا تھا Ú©Û Ø¬Ø±Ø§Ø«ÛŒÙ… ÛÛŒ انسان میں بیماری پیدا کرتے Ûیں۔ اس Ù†Û’ ÛÛŒ ان جراثیم Ú©Ùˆ مارنے Ú©Û’ لیے بÛت سی اÛÙ… ویکسین ایجاد Ú©ÛŒ تھیں۔ کتے Ú©Û’ کاٹنے کا علاج بھی پاسچر Ù†Û’ ÛÛŒ ایجاد کیا تھا۔ ایک نو Ø³Ø§Ù„Û Ù„Ú‘Ú©Ø§Ø¬ÙˆØ²Ù‘ جسے کتے Ù†Û’ کاٹا تھا ‘پر Ù¾ÛÙ„ÛŒ دÙØ¹Û ÛŒÛ Ø·Ø±ÛŒÙ‚Û Ø¢Ø²Ù…Ø§ کر لوئی پاسچر Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ جان بچائی تھی۔ اس لیے نوجوان آغا خان Ú©Ùˆ Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø²Û Ûوچلا تھا Ú©Û Ø¨Ù…Ø¨Ø¦ÛŒ کا سرجن جنرل غلط انداز میں اس وبا Ú©Û’ مسئلے Ú©Ùˆ Ø+Ù„ کرنے Ú©ÛŒ کوشش کررÛا ÛÛ’ اور اس کا Ù†ØªÛŒØ¬Û Ù…Ø²ÛŒØ¯ اموات Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں Ù†Ú©Ù„Û’ گا۔ نوجوان آغا خان Ù†Û’ سرجن جنرل Ú©Ùˆ بائی پاس کرتے Ûوئے Ø¨Ø±Ø§Û Ø±Ø§Ø³Øª اس ÛŒÛودی سائنسدان سے Ø±Ø§Ø¨Ø·Û Ú©ÛŒØ§Û” ÛŒÛودی سائنسدان آغا خان Ú©Ùˆ اچھا لگا اور دونوں Ú©ÛŒ بÛت جلد دوستی Ûوگئی۔ وبا ان دونوں Ú©Û’ درمیان ایک نیا تعلق بنا گئی۔ دونوں Ù†Û’ مل کر اس وبا سے Ù„Ú‘Ù†Û’ کا ÙÛŒØµÙ„Û Ú©ÛŒØ§Û” دونوں Ú©Û’ پاس وقت بÛت Ú©Ù… تھا۔ آغا خان Ù†Û’ اس ÛŒÛودی پروÙیسر Ú©Ùˆ ÙˆÛ ØªÙ…Ø§Ù… سÛولتیں Ùوراً ÙراÛÙ… کر دیں جو لیبارٹری بنانے اور ریسرچ Ú©Û’ لئے ضروری تھیں۔
آغا خان Ú©Ùˆ علم تھا Ú©Û Ø§Ù† Ú©Û’ پاس بÛت Ú©Ù… وقت ÛÛ’ Û” آغا خان Ú©Û’ پاس ایک ÛÛŒ Ø+Ù„ تھا Ú©Û ÙˆÛ Ø®ÙˆØ¯ Ú©Ùˆ اپنے لوگوں Ú©Û’ سامنے ایک رول ماڈل بنا کر پیش کریں Û” آغا خان Ù†Û’ ÙÛŒØµÙ„Û Ú©ÛŒØ§ Ú©Û ÙˆÛ Ø§Ø³ بیماری Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم‘ جو لوگوں Ú©Ùˆ Ù†Ú¯Ù„ رÛÛ’ تھے ØŒ اپنے جسم میں انجیکٹ کرائیں Ú¯Û’Û” ÛŒÛ Ø¨Ûت بڑا Ø®Ø·Ø±Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø§ÛŒÚ© صØ+ت مند نوجوان اپنے جسم میں اس بیماری Ú©Û’ جراثیم ڈلوائے گا جس سے لوگ بڑی تعداد میں جان سے Ûاتھ دھو رÛÛ’ تھے Û” ÛŒÛ Ø®Ø·Ø±Û Ù…ÙˆØ¬ÙˆØ¯ تھا Ú©Û Ø¨Ù†Ø¯Û’ Ú©Ùˆ بخار ÛÙˆ جائے۔ جسم میں درد شروع Ûوسکتا تھا اور جس Ø¬Ú¯Û Ø³Û’ جراثیم جسم Ú©Û’ اندر انجیکٹ کیے جاتے ÙˆÛ Ø¬Ú¯Û Ø¨Ú¾ÛŒ سرخ Ûوکر سوجھ جاتی اور کئی دن تک دکھتی رÛتی۔ اور اگر انسانی جسم میں ÛŒÛ Ø¬Ø±Ø§Ø«ÛŒÙ… پھیل گئے تو پھر کیا Ûوگا؟ اگر ÛŒÛودی سائنسدان Ú©ÛŒ سب باتیں غلط نکلیں تو کیا بنے Ú¯Ø§ØŸÛŒÛ Ø³ÙˆÚ† کر سب ڈرے ڈرے اور خوÙØ²Ø¯Û ØªÚ¾Û’ Û”
اپنی جان Ú©Ùˆ لاØ+Ù‚ تمام تر خطرات Ú©Û’ باوجود نوجوان آغا خان Ù†Û’ خود Ú©Ùˆ اس ''پراسرار اور خطرناک‘‘عمل سے گزارنے کا ÙÛŒØµÙ„Û Ú©ÛŒØ§Û” آغا خان Ù†Û’ ÛŒÛودی سائنسدان Ú©Ùˆ بتایا Ú©Û Ø¬Ø³ علاج سے بمبئی Ú©Û’ عام لوگ تو چھوڑیں‘ یورپین سے Ù„Û’ کر ایشین تک سب ڈرے Ûوئے Ûیں‘ ÙˆÛ Ø§Ø³ علاج Ú©Ùˆ خود پر آزمانے کیلئے تیار Ûیں۔ جب ÛŒÛ Ø®Ø¨Ø± پھیلی Ú©Û Ø¢ØºØ§ خان ÛŒÛودی سائنس دان Ú©Û’ Ø·Ø±ÛŒÙ‚Û Ø¹Ù„Ø§Ø¬ کیلئے خود Ú©Ùˆ پیش کررÛÛ’ Ûیں تو ان Ú©Û’ اپنے گھر سے Ù„Û’ کر ان Ú©Û’ مریدین اور عام لوگوں تک ایک خو٠کی Ù„Ûر دوڑ گئی ۔جب آغا خان Ú©Û’ جسم میں ÙˆÛ Ø¬Ø±Ø§Ø«ÛŒÙ… داخل کیے جارÛÛ’ تھے تو انÛÙˆÚº Ù†Û’ ÛŒÛ ÛŒÙ‚ÛŒÙ†ÛŒ بنایا Ú©Û Ø§Ù† Ú©Û’ مریدین Ú©ÛŒ ایک تعداد ÙˆÛاں موجود ÛÙˆ اور ÙˆÛ ÛŒÛ Ø³Ø¨ عمل اپنی آنکھوں سے خود دیکھیں‘اور بعد میں ÛŒÛ Ø®Ø¨Ø± Ûر طر٠پھیلائی بھی جائے Û”
نوجوان آغا خان Ú©ÛŒ اپنی ImmunityبÛت اچھی تھی Ù„Ûٰذا وبا Ú©Û’ جراثیم انجیکٹ کرانے Ú©Û’ باوجود ÙˆÛ Ø§Ø«Ø±Ø§Øª نمودار Ù†Û Ûوئے جس کا خو٠عام بندے Ú©Û’ دل میں تھا۔ جب ان سب Ù†Û’ دیکھا اس بیماری Ú©Û’ جراثیم Ù†Û’ آغا خان Ú©Û’ اندر داخل Ûوکر انÛیں بیمار Ù†Ûیں کیا اور ÙˆÛ ØªÙ†Ø¯Ø±Ø³Øª Ûیں تو لوگوں کا ڈر اور خو٠ختم Ûوگیا۔ اس Ú©Û’ بعد اسماعیلیوں Ù†Û’ بھی اپنے امام Ú©Û’ نقش قدم پر چلتے Ûوئے جراثیم Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ مقدارانجیکٹ کرانا شروع کردی اور اس عمل Ù†Û’ انÛیں موت Ú©Û’ Ù…Ù†Û Ù…ÛŒÚº جانے سے بچا لیا۔ دیگر لوگ ابھی تک شش Ùˆ پنج کا شکار تھے؛ تاÛÙ… اسماعیلیوں میں اس بیماری سے اموات Ûونا Ú©Ù… Ûوگئیں Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û Ø§Ù†Ûیں Ø+ÙˆØµÙ„Û Ù…Ù„Ø§ تھا Ú©Û Ø§Ú¯Ø± ان Ú©Û’ امام Ú©Ùˆ اس پورے میڈیکل عمل سے Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ûیں Ûوا تو انÛیں بھی Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ûیں Ûوگا۔ باقی عوام Ù†Û’ بعد میں اس پر عمل شروع کر دیا۔ ÙˆÛ ÛŒÛودی سائنسدان دو سال تک آغا خان Ú©Û’ Ù…Ø+Ù„ میں کام کرتا رÛا اور پھر انگریز سرکار Ù†Û’ اس پراجیکٹ کا کنٹرول Ù„Û’ لیااور اسے Ø¨Ø§Ù‚Ø§Ø¹Ø¯Û Ø§ÛŒÚ© ادارے کا Ø¯Ø±Ø¬Û Ø¯Û’ دیا گیا۔
اس واقعے Ú©Û’ چھپن برس بعد جب آغا خان 1954میں اپنی آپ بیتی Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ بیٹھے تو انÛیں خود پر ایک Ùخر سا Ù…Ø+سوس Ûوا Ú©Û Ø§Ù†ÛÙˆÚº Ù†Û’ ایک نوجوان ÛÙˆ کر کیسے اس خوÙØ²Ø¯Û Ù…Ø§Ø+ول میں بھی ایک ایسا Ø¯Ù„ÛŒØ±Ø§Ù†Û Ù‚Ø¯Ù… اٹھایا تھا جس Ú©Ùˆ اٹھانے سے عام یورپین ØŒ ایشین تو چھوڑیں خود ڈاکٹرز تک ڈرے Ûوئے تھے Û” ÛŒÛ Ø³Ø± آغا خان Ú©ÛŒ قیادت کا Ù¾Ûلا بڑا امتØ+ان تھا Ú©Û ÙˆÛ Ú¯Ú¾Ø± میں بند ÛÙˆ کر اپنے اردگرد عام انسانوں اور اپنے مریدوں Ú©Ùˆ وبا کا شکار Ûوتے دیکھتے رÛتے یا پھر Ø®Ø·Ø±Û Ù…ÙˆÙ„ Ù„Û’ کر اس ÛŒÛودی سائنسدان پر اعتبار کر لیتے اور بÛت سی جانیں بچانے کا سبب بنتے Û” یوں آغا خان Ú©Û’ ایک Ø¯Ù„ÛŒØ±Ø§Ù†Û Ùیصلے Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ دھیرے دھیرے اس وبا پر قابو پالیا گیا۔
آغا خان جب 77 سال Ú©ÛŒ عمر میں اپنی یادداشتیں Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ بیٹھے اور اپنی زندگی کا ÙˆÛ Ø¯Ù† یاد کیا تو ایک ÛÛŒ بات Ø°ÛÙ† میں آئی Ú©Û Ø§Ù†Ø³Ø§Ù† Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ Ù¾ÛÙ„ÛŒ جنگ ÛÛŒ بÛت اÛÙ… Ûوتی ÛÛ’Û” اس Ù¾ÛÙ„ÛŒ جنگ کا Ù†ØªÛŒØ¬Û ÛÛŒ انسان Ú©ÛŒ پوری زندگی کا ÙÛŒØµÙ„Û Ø§ÙˆØ± رخ متعین کر دیتا ÛÛ’ Û” بیس Ø³Ø§Ù„Û Ø¢ØºØ§ خان Ú©ÛŒ Ù¾ÛÙ„ÛŒ جنگ کا ÙÛŒØµÙ„Û Ø¨Ú¾ÛŒ اسی دن Ûوگیا تھا‘ جب خوÙØŒ دÛشت اور Ûر طر٠جاری موت Ú©Û’ رقص Ú©Û’ درمیان انÛÙˆÚº Ù†Û’ اپنی جان Ú©Ùˆ لاØ+Ù‚ سنگین خطرات مول Ù„Û’ کر Ú©ÙˆÛ Ù‚Ø§Ù Ú©Û’ دوردراز دیس سے آئے ایک ÛŒÛودی سائنسدان پر یقین کرنے کا ÙÛŒØµÙ„Û Ú©Ø± Ú©Û’ Ûزاروں انسانی جانیں بچا Ù„ÛŒ تھیں۔
Ûندوستان Ú©ÛŒ پرانی وبا از رؤ٠کلاسرا سے انتخاب