Results 1 to 3 of 3

Thread: The Memoirs of Aga Khan

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel The Memoirs of Aga Khan

    The Memoirs of Aga Khan

    یہ کتاب 1954Ø¡ میں Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئی تھی اور اس Ú©ÛŒ اہم خوبی یہ ہے کہ اس کا پیش لفظ انگریزی Ú©Û’ بڑے ادیب سمرسٹ ماہم Ù†Û’ لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے۔ سمرسٹ ماہم 1930Ø¡ Ú©ÛŒ دہائی میں انگلینڈ میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے لکھاری تصور ہوتے تھے۔اسماعیلیوں Ú©Û’ روØ+انی پیشوا سر آغا خان سوم Ú©ÛŒ یہ کتاب اپنے اندر ایک شاندار تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ قائداعظم اور آغا خان سوم میں عمر کا صرف ایک برس کا فرق تھا۔ آغا خان 1877Ø¡ میں کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان Ú©Û’ دادا ایران سے شاہ ایران سے اختلاف Ú©ÛŒ وجہ سے بلوچستان Ú©Û’ راستے بمبئی اور پونا جا کر اپنے ایک ہزار فالورز Ú©Û’ ساتھ سیٹل ہوگئے تھے اور بہت جلد انہیں انگریز سلطنت میں بھی ایک اہم شخصیت کا درجہ مل گیا تھا۔آغا خاںسوم Ú©ÛŒ عمر ابھی آٹھ برس تھی کہ والد فوت ہوگئے اور ان Ú©ÛŒ جگہ گدی پر بیٹھنا پڑا۔ اس کتاب Ú©Ùˆ پڑھیں تو آپ Ú©Ùˆ لگتا ہے کہ اس بچے Ù†Û’ کیسے خود Ú©Ùˆ بچپن میں باپ سے Ù…Ø+روم ہونے Ú©Û’ بعد سنبھالا۔ ایک ذہین‘ پڑھا لکھا اور ماڈریٹ انسان‘ان Ú©ÛŒ ماںکا اپنے چھوٹے سے بیٹے Ú©Ùˆ ان Ø+الات میں سنبھالے رکھنا اپنی جگہ ایک داستان ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج Ú©ÛŒ نسل Ú©Ùˆ کتنا پتہ ہے کہ آغا خان سوم Ù†Û’ ہی 1906Ø¡ میں آل انڈیا مسلم لیگ Ú©ÛŒ ڈھاکہ میں دیگر ساتھیوں Ú©Û’ ساتھ مل کر بنیاد رکھی تھی جو بعد میں پاکستان بنانے کا نعرہ Ù„Û’ کر چلی۔ سر آغا خان کا پاکستان بنانے میں جو اہم رول ہے اسے کسی اور وقت پر اُٹھا رکھتے ہیں‘اس وقت یہ بات بتانے والی ہے کہ اس کتاب میں درج ہے کہ کیسے ہندوستان میں ایک وبا اچانک پھیلنا شروع ہوگئی جس Ù†Û’ انگریزوں تک Ú©Ùˆ چکرا کر رکھ دیا تھا۔
    Û”1896 Ø¡ میں یہ افواہ ہندوستان میں پھیل رہی تھی کہ ہانگ کانگ میں ایک وبا پھیل رہی ہے جو Ù…Ú©Ú¾ÛŒ Ú©Û’ کاٹنے سے انسانوں Ú©Ùˆ لگتی ہے اور اس کا رخ مغربی ایشیاکی جانب ہے۔ آخر یہ وبا 1897Ø¡ Ú©ÛŒ ختم ہوتی گرمیوں میں بمبئی پہنچ گئی‘ مگر جیسا کہ ہندوستانیوں کا مزاج ہے‘ کسی Ù†Û’ اس وبا Ú©Ùˆ سنجیدہ نہ لیااور اُلٹا اس پر سوالات اٹھانے شروع کر دیے کہ Ú©Ú†Ú¾ نہیں ہوتا‘ لیکن بہت جلد سب گھبرا گئے کیونکہ اس Ú©Û’ مہلک اثرات پھیلنا شروع ہوگئے تھے۔ اس وقت کسی Ú©Ùˆ زیادہ پتہ بھی نہ تھا کہ یہ وبا کس بلا کا نام ہے۔ بمبئی Ú©Û’ سب ہسپتال اور ڈاکٹر اس وبا Ú©ÛŒ تباہ کاریوں سے گھبرا گئے تھے۔ ان Ú©Û’ پاس اس کا کوئی علاج نہ تھا۔ ان Ú©Û’ پاس اس وبا کا‘ جو تیزی سے لوگوں Ú©Ùˆ کھا رہی تھی‘ ایک ہی Ø+Ù„ تھا کہ لوگ صاف ستھرے رہیں۔ یہ اعلان ہونا شروع ہوگئے کہ لوگ اپنی جھونپڑیوں اور گھروں Ú©Ùˆ کھول دیں‘ تازہ ہوا اندر آنے دیں اور گھروں میں جراثیم Ú©Ø´ ادویات Ú©Û’ سپرے کریں۔ لیکن ان سب اقدامات سے بھی کوئی فرق نہیں Ù¾Ú‘ رہا تھا۔ ہندوستانی مزاج میں صفائی تھی ہی نہیں ‘ لہٰذا انہیں خود Ú©Ùˆ صاف رکھنے اور جراثیم Ú©Ø´ سپرے Ú©ÛŒ نہ سمجھ تھی اور نہ ہی وہ سمجھنا چاہتے تھے۔ وبا ایسی شدید تھی کہ اس پر کوئی سپرے بھی اثر نہیں کررہا تھا۔ روزانہ مرنے والوں Ú©ÛŒ تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا‘ جس پر لوگوں میں اشتعال پیدا ہوناشروع ہو گیا۔ اس وبا Ù†Û’ لوگوں Ú©Û’ مورال پر بہت برا اثر ڈالا۔ موت Ú©Ùˆ سامنے دیکھ کر لوگوں Ú©Û’ دلوں سے قانون کا خوف ختم ہوگیا تھا۔ جب موت ہر دروازے پر دستک دے رہی ہو تو پھر کس Ú©Ùˆ خوف رہے گا۔ جوں جوں وبا Ú©ÛŒ وجہ سے اموات بڑھنا شروع ہوئیں‘ اس Ú©Û’ ساتھ ہی لوٹ مار اور تشدد بھی شروع ہوگیا۔ اچانک لوگوں میں شراب نوشی اور غیراخلاقی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ وبا Ú©ÛŒ تباہ کاریاں دیکھ کر لوگوں Ú©Ùˆ لگا کہ جب مرنا ہی ہے تو کیوں نہ Ú©Ú†Ú¾ عیاشی کر Ú©Û’ مریں۔انگریز سرکار Ú©Û’ خلاف بھی غصہ بڑھ رہا تھا کہ یہ Ú©Ú†Ú¾ نہیں کررہی۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب ایک انگریز افسر Ú©Ùˆ قتل کر دیا گیا ‘جب وہ ایک سرکاری فنکشن سے گھر جارہا تھا۔ وہ اعلیٰ افسر اس وبا سے نمٹنے Ú©Û’ انتظامات دیکھ رہا تھا مگرکسی Ú©Ùˆ غصہ آیا کہ انگریز افسران وبا Ú©Ùˆ کیوں نہیں روک رہے اور یوں اس افسر Ú©Ùˆ قتل کر دیا گیا۔
    اب انگریز سرکار پریشان ہوگئی کہ صورتØ+ال خراب ہورہی تھی‘ لوگ ہر طرف مررہے تھے۔ ان Ø+الات میں آغا خان سوئم Ú©Ùˆ پتہ چلا کہ جہاں سینکڑوں Ú©ÛŒ تعداد بمبئی Ú©Û’ دیگر لوگ اس وبا Ú©Û’ ہاتھوں شکار ہورہے تھے وہیں ان Ú©Û’ اپنے فالورز Ú©ÛŒ بھی بڑی تعداد اس وبا Ú©Û’ ہاتھوں فوت ہورہی تھی۔ آغا خان صاØ+ب پہلے ہی بمبئی پر نازل ہونے والی اس مصیبت سے پریشان تھے مگر اب تو ان Ú©Û’ اپنے فالورز بھی اس کا شکار ہونا شروع ہوگئے تھے۔ آغا خان صاØ+ب Ú©Ùˆ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان Ø+الات میں وہ لوگوں Ú©ÛŒ اس وبا سے کیسے جان چھڑائیں۔آخر آغا خان صاØ+ب Ú©Û’ ذہن میں ایک خیال بجلی Ú©ÛŒ طرØ+ کوندا۔ بیس سالہ نوجوان امام Ú©Ùˆ لگا کہ اگر اسے لوگوں Ù†Û’ اپنا امام چنا ہے تو پھر اسے اس وقت سب خطرات مول Ù„Û’ کرانہیں لیڈ بھی کرنا ہے‘ سب Ú©ÛŒ جانیں بچانی ہیں جو وبا Ú©ÛŒ وجہ سے خطرے میں ہیں۔
    کچھ غور و فکر کے بعد آغا خان سوم نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر وہ انتہائی'' پراسرار اورخطرناک ‘‘ قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا جو 1897 ء میں اُس وقت کے ہندوستان میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
    جو بات سازشی تھیوریز سے شروع ہو کر ہندوستانی عوام Ú©ÛŒ بے نیازی تک پہنچی تھی اتنی خوفناک Ø´Ú©Ù„ اختیار کر Ú†Ú©ÛŒ تھی کہ خود عوام کا Ø+وصلہ جواب دے گیا تھا۔ وہی عوام جو پہلے اس وبا Ú©Ùˆ سنجیدگی سے نہیں Ù„Û’ رہے تھے اب ہر طرف موت کا راج دیکھ کر اشتعال میں آنا شروع ہوگئے تھے کہ انگریز سرکار Ú©Ú†Ú¾ کر کیوں نہیں رہی۔
    بمبئی (موجودہ ممبئی)Ø+کومت Ú©Û’ پاس ایک بہترین ریسرچر اور سائنسدان تھا جس کا نام پروفیسر ہاف کین تھا۔ پروفیسر ایک روسی یہودی تھا۔ وہ اس وقت ہندوستان آیا ہوا تھا تاکہ ہیضہ پر کام کر سکے Û” اس یہودی پروفیسر Ù†Û’ سرکاری Ø+کام Ú©Ùˆ اس بات پر راضی کر لیا تھا کہ ہیضہ Ú©Ùˆ کنٹرول کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں Ú©Û’ جسموں میں اس بیماری Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم انجیکٹ کئے جائیں Û” وہ اس بات کا قائل تھا کہ لوگوں میں Immunityپیدا Ú©ÛŒ جائے جو اس وبا کا مقابلہ کرے Û” اس Ú©Û’ لیے ضروری تھا کسی تندرست انسان میں اس بیماری Ú©Û’ چند جراثیم ڈالے جائیں۔ انسان Ú©Û’ اندر موجود Immunity ان کمزور جراثیم Ú©Ùˆ مار دے Ú¯ÛŒ اور یوں وہ وبا اس پر دوبارہ Ø+ملہ آور نہیں ہوسکے گی۔
    یہودی پروفیسر بمبئی میں یہ بات سب Ú©Ùˆ سمجھانے Ú©ÛŒ کوششوں میں لگا ہوا تھا‘ لیکن اس Ú©ÛŒ بات کوئی سننے اور سمجھنے Ú©Ùˆ تیار نہیں تھا۔ اس Ú©ÛŒ سائنسی اپروچ Ú©Ùˆ وہ پذیرائی نہیں مل رہی تھی جو ملنی چاہیے تھی۔ اس Ú©ÛŒ ایک وجہ یہ تھی کہ عام ہندوستانی یہ ماننے Ú©Ùˆ تیار نہ تھے کہ جس بیماری سے بندے Ú©Ùˆ Ù…Ø+فوظ رکھنا ہے ‘الٹا اسی Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم انجیکٹ کیے جائیں۔ ہندوستانیوں کا خیال تھا کہ اگر وہ جراثیم زیادہ طاقتور Ù†Ú©Ù„Û’ تو پھر بندہ ویسے ہی مرجائے گا‘ اورایک طرØ+ سے یہ خود موت Ú©Ùˆ Ú¯Ù„Û’ لگانے والی بات ہوگی۔ بجائے اس Ú©Û’ کہ یہودی سائنسدان Ú©ÛŒ بات پر غور کیا جاتا‘ الٹا اس پر تنقید شروع ہوگئی۔ سازشی تھیوریز Ú¯Ú¾Ú‘ Ù„ÛŒ گئیں اور یہودی پروفیسر تنازعوں میں گھر گیا۔
    جب یہودی سائنسدان کا سب مل کر Ø+شر نشر کررہے تھے اس وقت بھی لوگ دھڑا دھڑ مررہے تھے اور اب تو لوگ گنتی تک بھول گئے تھے کہ روز کتنی اموات ہورہی تھیں۔ نوجوان آغا خان Ú©Û’ لیے دکھ Ú©ÛŒ بات یہ تھی کہ مرنے والوں میں ان Ú©Û’ اپنے مریدین بھی شامل تھے Û” یہ خطرناک Ø+الات دیکھ کر نوجوان آغا خان Ù†Û’ سوچا کہ انہیں ہی خطرہ مول لینا ہوگا تاکہ وہ عام لوگوں اور اپنے مریدین Ú©Ùˆ اس وبا سے بچاسکیں‘ ورنہ تو سب Ú©Ú†Ú¾ ختم ہوجائے گا۔ ان خطوط پر سوچنے Ú©ÛŒ ایک وجہ یہ تھی کہ آغا خان Ù†Û’ سائنسی تعلیم بھی اپنے استادوں سے Ù„Û’ رکھی تھی جو انہیں پڑھانے روزانہ ان Ú©Û’ گھر آتے تھے Û” آغا خان Ù†Û’ اپنے سائنس Ú©Û’ مضمون میں فرانس Ú©Û’ مشہور کیمسٹ لوئی پاسچر Ú©Ùˆ پڑھا ہوا تھا۔ لوئی پاسچر Ù†Û’ ہی یہ علاج ایجاد کیا تھا جس سے لاکھوں لوگوں Ú©ÛŒ زندگیاں بچ گئی تھیں۔ اس Ù†Û’ ثابت کیا تھا کہ جراثیم ہی انسان میں بیماری پیدا کرتے ہیں۔ اس Ù†Û’ ہی ان جراثیم Ú©Ùˆ مارنے Ú©Û’ لیے بہت سی اہم ویکسین ایجاد Ú©ÛŒ تھیں۔ کتے Ú©Û’ کاٹنے کا علاج بھی پاسچر Ù†Û’ ہی ایجاد کیا تھا۔ ایک نو سالہ لڑکاجوزف‘ جسے کتے Ù†Û’ کاٹا تھا ‘پر پہلی دفعہ یہ طریقہ آزما کر لوئی پاسچر Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ جان بچائی تھی۔ اس لیے نوجوان آغا خان Ú©Ùˆ اندازہ ہوچلا تھا کہ بمبئی کا سرجن جنرل غلط انداز میں اس وبا Ú©Û’ مسئلے Ú©Ùˆ Ø+Ù„ کرنے Ú©ÛŒ کوشش کررہا ہے اور اس کا نتیجہ مزید اموات Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں Ù†Ú©Ù„Û’ گا۔ نوجوان آغا خان Ù†Û’ سرجن جنرل Ú©Ùˆ بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست اس یہودی سائنسدان سے رابطہ کیا۔ یہودی سائنسدان آغا خان Ú©Ùˆ اچھا لگا اور دونوں Ú©ÛŒ بہت جلد دوستی ہوگئی۔ وبا ان دونوں Ú©Û’ درمیان ایک نیا تعلق بنا گئی۔ دونوں Ù†Û’ مل کر اس وبا سے Ù„Ú‘Ù†Û’ کا فیصلہ کیا۔ دونوں Ú©Û’ پاس وقت بہت Ú©Ù… تھا۔ آغا خان Ù†Û’ اس یہودی پروفیسر Ú©Ùˆ وہ تمام سہولتیں فوراً فراہم کر دیں جو لیبارٹری بنانے اور ریسرچ Ú©Û’ لئے ضروری تھیں۔
    آغا خان Ú©Ùˆ علم تھا کہ ان Ú©Û’ پاس بہت Ú©Ù… وقت ہے Û” آغا خان Ú©Û’ پاس ایک ہی Ø+Ù„ تھا کہ وہ خود Ú©Ùˆ اپنے لوگوں Ú©Û’ سامنے ایک رول ماڈل بنا کر پیش کریں Û” آغا خان Ù†Û’ فیصلہ کیا کہ وہ اس بیماری Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ جراثیم‘ جو لوگوں Ú©Ùˆ Ù†Ú¯Ù„ رہے تھے ØŒ اپنے جسم میں انجیکٹ کرائیں Ú¯Û’Û” یہ بہت بڑا خطرہ تھا کہ ایک صØ+ت مند نوجوان اپنے جسم میں اس بیماری Ú©Û’ جراثیم ڈلوائے گا جس سے لوگ بڑی تعداد میں جان سے ہاتھ دھو رہے تھے Û” یہ خطرہ موجود تھا کہ بندے Ú©Ùˆ بخار ہو جائے۔ جسم میں درد شروع ہوسکتا تھا اور جس جگہ سے جراثیم جسم Ú©Û’ اندر انجیکٹ کیے جاتے وہ جگہ بھی سرخ ہوکر سوجھ جاتی اور کئی دن تک دکھتی رہتی۔ اور اگر انسانی جسم میں یہ جراثیم پھیل گئے تو پھر کیا ہوگا؟ اگر یہودی سائنسدان Ú©ÛŒ سب باتیں غلط نکلیں تو کیا بنے گا؟یہ سوچ کر سب ڈرے ڈرے اور خوفزدہ تھے Û”
    اپنی جان Ú©Ùˆ لاØ+Ù‚ تمام تر خطرات Ú©Û’ باوجود نوجوان آغا خان Ù†Û’ خود Ú©Ùˆ اس ''پراسرار اور خطرناک‘‘عمل سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔ آغا خان Ù†Û’ یہودی سائنسدان Ú©Ùˆ بتایا کہ جس علاج سے بمبئی Ú©Û’ عام لوگ تو چھوڑیں‘ یورپین سے Ù„Û’ کر ایشین تک سب ڈرے ہوئے ہیں‘ وہ اس علاج Ú©Ùˆ خود پر آزمانے کیلئے تیار ہیں۔ جب یہ خبر پھیلی کہ آغا خان یہودی سائنس دان Ú©Û’ طریقہ علاج کیلئے خود Ú©Ùˆ پیش کررہے ہیں تو ان Ú©Û’ اپنے گھر سے Ù„Û’ کر ان Ú©Û’ مریدین اور عام لوگوں تک ایک خوف Ú©ÛŒ لہر دوڑ گئی ۔جب آغا خان Ú©Û’ جسم میں وہ جراثیم داخل کیے جارہے تھے تو انہوں Ù†Û’ یہ یقینی بنایا کہ ان Ú©Û’ مریدین Ú©ÛŒ ایک تعداد وہاں موجود ہو اور وہ یہ سب عمل اپنی آنکھوں سے خود دیکھیں‘اور بعد میں یہ خبر ہر طرف پھیلائی بھی جائے Û”
    نوجوان آغا خان Ú©ÛŒ اپنی Immunityبہت اچھی تھی لہٰذا وبا Ú©Û’ جراثیم انجیکٹ کرانے Ú©Û’ باوجود وہ اثرات نمودار نہ ہوئے جس کا خوف عام بندے Ú©Û’ دل میں تھا۔ جب ان سب Ù†Û’ دیکھا اس بیماری Ú©Û’ جراثیم Ù†Û’ آغا خان Ú©Û’ اندر داخل ہوکر انہیں بیمار نہیں کیا اور وہ تندرست ہیں تو لوگوں کا ڈر اور خوف ختم ہوگیا۔ اس Ú©Û’ بعد اسماعیلیوں Ù†Û’ بھی اپنے امام Ú©Û’ نقش قدم پر چلتے ہوئے جراثیم Ú©ÛŒ Ú©Ú†Ú¾ مقدارانجیکٹ کرانا شروع کردی اور اس عمل Ù†Û’ انہیں موت Ú©Û’ منہ میں جانے سے بچا لیا۔ دیگر لوگ ابھی تک شش Ùˆ پنج کا شکار تھے؛ تاہم اسماعیلیوں میں اس بیماری سے اموات ہونا Ú©Ù… ہوگئیں کیونکہ انہیں Ø+وصلہ ملا تھا کہ اگر ان Ú©Û’ امام Ú©Ùˆ اس پورے میڈیکل عمل سے Ú©Ú†Ú¾ نہیں ہوا تو انہیں بھی Ú©Ú†Ú¾ نہیں ہوگا۔ باقی عوام Ù†Û’ بعد میں اس پر عمل شروع کر دیا۔ وہ یہودی سائنسدان دو سال تک آغا خان Ú©Û’ Ù…Ø+Ù„ میں کام کرتا رہا اور پھر انگریز سرکار Ù†Û’ اس پراجیکٹ کا کنٹرول Ù„Û’ لیااور اسے باقاعدہ ایک ادارے کا درجہ دے دیا گیا۔
    اس واقعے Ú©Û’ چھپن برس بعد جب آغا خان 1954میں اپنی آپ بیتی Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ بیٹھے تو انہیں خود پر ایک فخر سا Ù…Ø+سوس ہوا کہ انہوں Ù†Û’ ایک نوجوان ہو کر کیسے اس خوفزدہ ماØ+ول میں بھی ایک ایسا دلیرانہ قدم اٹھایا تھا جس Ú©Ùˆ اٹھانے سے عام یورپین ØŒ ایشین تو چھوڑیں خود ڈاکٹرز تک ڈرے ہوئے تھے Û” یہ سر آغا خان Ú©ÛŒ قیادت کا پہلا بڑا امتØ+ان تھا کہ وہ گھر میں بند ہو کر اپنے اردگرد عام انسانوں اور اپنے مریدوں Ú©Ùˆ وبا کا شکار ہوتے دیکھتے رہتے یا پھر خطرہ مول Ù„Û’ کر اس یہودی سائنسدان پر اعتبار کر لیتے اور بہت سی جانیں بچانے کا سبب بنتے Û” یوں آغا خان Ú©Û’ ایک دلیرانہ فیصلے Ú©ÛŒ وجہ سے دھیرے دھیرے اس وبا پر قابو پالیا گیا۔
    آغا خان جب 77 سال Ú©ÛŒ عمر میں اپنی یادداشتیں Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ بیٹھے اور اپنی زندگی کا وہ دن یاد کیا تو ایک ہی بات ذہن میں آئی کہ انسان Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ پہلی جنگ ہی بہت اہم ہوتی ہے۔ اس پہلی جنگ کا نتیجہ ہی انسان Ú©ÛŒ پوری زندگی کا فیصلہ اور رخ متعین کر دیتا ہے Û” بیس سالہ آغا خان Ú©ÛŒ پہلی جنگ کا فیصلہ بھی اسی دن ہوگیا تھا‘ جب خوف، دہشت اور ہر طرف جاری موت Ú©Û’ رقص Ú©Û’ درمیان انہوں Ù†Û’ اپنی جان Ú©Ùˆ لاØ+Ù‚ سنگین خطرات مول Ù„Û’ کر کوہ قاف Ú©Û’ دوردراز دیس سے آئے ایک یہودی سائنسدان پر یقین کرنے کا فیصلہ کر Ú©Û’ ہزاروں انسانی جانیں بچا Ù„ÛŒ تھیں۔
    ہندوستان کی پرانی وبا از رؤف کلاسرا سے انتخاب
    2gvsho3 - The Memoirs of Aga Khan

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: The Memoirs of Aga Khan

    2gvsho3 - The Memoirs of Aga Khan

  3. #3
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel Re: The Memoirs of Aga Khan

    Agha.png
    The Memoirs of Aga Khan
    2gvsho3 - The Memoirs of Aga Khan

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •