دور ِقدیم کی 8 بدترین وبائیں ۔۔۔۔۔ رضوان عطا
wabain.jpg
کووڈ 19 سے قبل تاریخ انسانی میں بہت وبائیں آئیں اور بے انتہا جانی و مالی نقصان کا سبب بنیں۔ چند وباؤں نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔ آئیے دورِقدیم اور عہدوسطی کی چند بدترین وباؤں کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
قبل ازتاریخ کی چینی وبا
چین کے شمال مشرق میں تقریباً پانچ ہزار برس قدیم ایک چھوٹے سے گھر سے 97 انسانوں کے ڈھانچے ملے۔ مرنے والوں میں بچے، جوان اور ادھیڑ عمر سب شامل تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ افراد کسی وبا کا شکار بنے۔ اس دور میں چین کے اس مقام پر لکھنے پڑھنے کا آغاز نہیں ہوا تھا، لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہتے تھے اور کھیتی باڑی اور شکار سے غذا کا اہتمام کرتے تھے۔ اس مقام سے برتن، غلہ پیسنے کے آلات، تیر اور نیزے ملے ہیں جن سے ان لوگوں کے رہن سہن کا پتا چلتا ہے۔ اس اثریاتی مقام کو ''ہامن منگہا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین اثریات و بشریات کا خیال ہے کہ وبا اتنی تیزی سے پھیلی کہ تجہیزوتدفین کا بھی وقت نہ ملا۔ ''ہامن منگہا‘‘ سے قبل اسی دور کا ایک اور مقام شمال مشرقی چین کے علاقے میاؤزیگو میں دریافت ہو چکا تھا۔ ان دونوں دریافتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وبا نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوگا۔
ایتھنز میں ایک لاکھ ہلاکتیں
قدیم یونان کی شہری ریاست ایتھنز میں آنے والی وبا نے اسے جانی و مالی طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ قدیم یونان کی دو ریاستوں ایتھنز اور سپارٹا کے مابین جنگ جاری تھی کہ 430 قبل مسیح کے لگ بھگ یہ وبا پھوٹ پڑی۔ بعض اندازوں کے مطابق اس سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس وبا کا سبب کون سی بیماری تھی، اس پر ماہرین میں مکمل اتفاق نہیں۔ بہت سے امکانات ظاہر کیے گئے ہیں جن میں میعادی بخار اور ایبولا شامل ہیں۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ نے اہل ایتھنز کو بڑی تعداد میں اکٹھا ہونے پر مجبور کیا۔ سپارٹا کی مضبوط فوج کے حملوں سے بچنے کے لیے اہل ایتھنز فصیلوں کے پیچھے مجتمع ہو جاتے۔ یوں مرض کی منتقلی تیز ہو گئی۔ اس وبا کے باوجود جنگ جاری رہی لیکن آخر کار ایتھنز کو شکست ہوئی۔
۔50 لاکھ کی قاتل اناطونی وبا
اس وبا کا سبب سلطنت روم کے وہ سپاہی بنے جو مشرق قریب کی جنگی مہمات سے لوٹے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس وبا کا سبب چیچک یا خسرہ تھے۔ وبا سلطنت روم کے وسیع علاقوں میں پھیل گئی اور 50 لاکھ افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ بہت سے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ پارتھیا سے جنگ کر کے لوٹنے والوں کے ساتھ یہ بیماری آئی اور اس نے سلطنت روم کے انحطاط میں اہم کردار ادا کیا۔
روم میں سیپرین وبا
اس وبا کا نام قرطاج (تیونس) کے بشپ سینٹ سیپرین کے نام پر رکھا گیا جس نے اسے دنیا کے خاتمے کی علامت قرار دیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف روم میں اس سے اندازاً پانچ افراد روزانہ مرا کرتے تھے۔ وبا سلطنت روم میں 249ء سے 262ء کے درمیان شدت کے ساتھ رہی۔ اس کی وجہ سے اتنے مرد ہلاک ہوئے کہ رومی فوج میں سپاہیوں کی قلت پیدا ہو گئی اور اس کی عسکری طاقت بہت کم ہو گئی۔ یہ کون سی بیماری تھی اس بارے میں ماہرین یقینی طور پر نہیں بتا سکے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ چیچک، انفلوئنز یا وائرس سے پھیلنے والا کوئی اور مرض تھا۔
جسٹینین کا طاعون
بازنطینی سلطنت کو خیارکی طاعون نے ہلا کر رکھ دیا، اور اس کے بعد سلطنت کمزور ہوتی گئی۔ بعض اندازوں کے مطابق اس سے دنیا کی 10 فیصد آبادی موت کے منہ میں چلی گئی۔ اس وبا کا نام بازنطینی شہنشاہ جسٹینین پر رکھا گیا۔ اس کے دور میں بازنطینی سلطنت انتہائی وسیع ہو چکی تھی اور مشرق وسطیٰ سے مغربی یورپ تک اس کی سرحدیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ خود بھی اس مرض کا شکار ہوا مگر صحت یاب ہو گیا۔ البتہ وبا اس کی سرحدوں کو سکیڑنے کا سبب بنی۔ وبا کا عرصہ 165ء تا 180ء بتایا جاتا ہے۔
یورپ میں سیاہ موت
سیاہ موت ایشیا سے شاہراہ ریشم پر سفر کرتے ہوئے یورپ پہنچی۔ اس نے یورپ کی آبادی میں غیرمعمولی کمی کر دی۔ بعض ماہرین کے مطابق یورپ کی آدھی آبادی اس وبا سے ہلاک ہو گئی۔ اس وبا نے یورپ میں رائج مضبوط جاگیردارانہ نظام کو بھی دھچکا پہنچایا کیونکہ افرادی قوت ناپید ہو گئی تھی۔ حیرت انگیز طور پر اس وبا کے نتیجے میں محنت کش طبقے کی اجرت میں اضافہ ہو گیا۔ یہ 1346ء سے 1353ء کے درمیان موجود رہی۔ اس کا شمار عہدوسطیٰ کی مہلک ترین وباؤں میں ہوتا ہے۔
امریکا میں کوکولسٹلی وبا
اس وبا نے میکسیکو اور وسطی امریکا کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ ہیمریجک بخار کی کوئی شکل تھی جسے میکسیکو کی تاریخ کی بدترین وبا قرار دیا جاتا ہے۔ اس نے مقامی آبادی کو تعداد کو بہت گھٹا دیا۔ براعظم امریکا پر ہسپانویوں کے قبضے کے بعد مقامی افراد کی حالت زار اور قحط سالی نے اس وبا کو بہت مہلک بنا دیا۔ مرنے والوں کے ڈی این اے پر ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ بیکٹیریا سالمونیلا کی ایک ذیلی قسم ایس پیراٹیفی سی تھی جس سے معیادی بخار، اسہال اور آنتوں کے مسائل پیدا ہوتے تھے۔
امریکی پلیگ
امریکی پلیگ سے مراد وہ بیماریاں لی جاتی ہیں جو یورپی مہم جُو اپنے ساتھ براعظم شمالی و جنوبی امریکا لائے اور انہوں نے وبائی صورت اختیار کر لی۔ ان میں چیچک بھی شامل تھی جو امریکا میں موجود اِنکا اور ازٹک تہذیبوں کے انحطاط کا باعث بنی۔ بعض اندازوں کے مطابق شمالی کُرے کی 90 فیصد آبادی یورپ سے آنے والی بیماریوں سے ماری گئی۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ قدیم امریکی باشندوں میں ان بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت موجود نہیں تھی اور یہ ان کے جسموں کے لیے نئی تھیں۔