ماں! میں سانس نہیں لے سکتا۔۔۔۔۔ شاہد صدیقی

''ماں! میں سانس نہیں لے سکتا‘‘، یہ جارج فلائیڈ (George Floyd) کے آخری الفاظ تھے۔ مرتے وقت اس کی عمر صرف چھیالیس برس تھی۔ وہ سیاہ فام امریکی تھا جس کی زندگی کا سورج امریکہ کی ریاست مینیسوٹا میں ڈوب گیا۔ جارج فلائیڈ امریکی ریاست ہیوسٹن میں پیدا ہوا تھا۔ وہیں اس کی شادی ہوئی تھی‘ اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ پھر روزگار کی تلاش اسے مینیسوٹا لے آئی۔ اسے سیلویشن آرمی سٹور میں بطور سکیورٹی گارڈ نوکری مل گئی لیکن نوکری کے تقاضے اسے اپنی بیوی اور بیٹی کے شہر ہیوسٹن سے بہت دور لے آئے تھے۔ سکیورٹی گارڈ کی نوکری ختم ہوئی تو وہ ایک ٹرک چلانے لگا اور پھر اسے ایک ریستوران میں معمولی نوکری مل گئی۔ اس کے لیے یہی کافی تھا لیکن پھر کورونا کا آغاز ہو گیا۔ مقامی ریاستیں لاک ڈاؤن کی پالیسی پر عمل کرنے لگیں تو ڈیپارٹمنٹل سٹورز اور ریستوران بند ہونے لگے۔ ایک دن فلائیڈ کو بتایا گیا کہ وہ کل سے نوکری پر نہ آئے۔ فلائیڈ کے لیے یہ خبر کسی دھچکے سے کم نہ تھی۔ وہ سوچنے لگا‘ اب وہ کیا کرے گا؟
یوں تو کورونا کی وبا سب کے لیے خطرہ بن کر آئی تھی‘ لیکن امریکہ میں اس کے اثرات سفید فام لوگوں کے مقابلے میں غیر سفید فام لوگوں پر زیادہ پڑے تھے۔ یہ اثرات دو طرح سے اہم تھے۔ اول تو کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سفید فام لوگوں کے مقابلے میں غیر سفیدفام لوگوں کی زیادہ تھی۔ اس کی بہت سی وجوہ تھیں‘ جیسے تعلیم اور صحت کے مواقع کی غیر مساوی تقسیم۔ دوئم‘ کورونا وائرس کی وجہ سے نوکریوں سے ہاتھ دھونے والوں میں بھی سفید فام لوگوں کے مقابلے میں غیر سفید فام لوگوں کی تعداد زیادہ تھی یوں کورونا وائرس کے وار سے بچ جانے کی صورت میں بھی غیر سفید فام لوگوں کے معاشی قتل کے خدشات زیادہ تھے۔ فلائیڈ ایک سیاہ فام گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا‘ لیکن اس کے والد نے امریکی معاشرے میں ان تضادات کے بارے میں اسے تفصیل سے بتایا تھا۔
اب وہ مینیسوٹا میں اکیلا تھا۔ نوکری جا چکی تھی اور کورونا وبا کے وحشی پنجے ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ وہ پچیس مئی کا دن تھا جب اچانک اسے پولیس والوں نے گھیر لیا۔ اسے گاڑی سے نیچے اتارا‘ اس کے ہاتھوں کو پشت پر باندھ دیا اور اسے زمین پر گرا کر ایک پولیس افسر نے اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ افسر کے اس عمل میں اس کے دوسرے ساتھی بھی شریک ہو گئے۔ فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباؤ ڈالنے والے پولیس افسر کا نام ڈیرک شاون (Derek Chauvin) تھا۔ یہ مینیسوٹا پولیس کے کوڈ آف کنڈکٹ کی سراسر خلاف ورزی تھی‘ لیکن پولیس افسر شاون کو اس کی پروا نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا شکار ایک سیاہ فام شخص ہے جس کی اہمیت اس کے نزدیک کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہ تھی۔
پولیس افسر شاون کا قصور نہ تھا۔ یہ امریکی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت تھی۔ اس میں سفید فام اور غیر سفید فام لوگوں کے درمیان ایک خط کھینچ دیا گیا اور پھر یہ تفریق معاشرے کے مختلف اداروں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کر دی گئی۔ اس کا آغاز چار سو سال پہلے ہوا تھا۔ بحری جہازوں اور اسلحے کی برتری کے زور پر افریقہ کے ممالک پر تسلط جمایا گیا اور وہاں نہ صرف قیمتی معدنیات کو قبضے میں لے لیا گیا بلکہ جہاز بھر بھرکے ہزاروں کی تعداد میں سیاہ فام لوگوں کو امریکہ لایا گیا۔ امریکی صدر تھامس جیفرسن نے اس طرح کی سفید فام نسلی برتری کی تحقیق کی ضرورت پر زور دیا۔ اٹلانٹک سلیو ٹریڈ (Atlantic Slave Trade) کی بنیاد رکھی گئی‘ اور 1626ء سے 1860ء کے دوران 470,000 لوگوں کو افریقہ سے غلام بنا کر امریکہ لایا گیا۔ یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو گی کہ سول وار سے پہلے امریکہ کے 8 صدر بھی غلام رکھتے تھے۔ غلاموں کی اتنی بڑی تعداد پر کڑی نظر رکھنے کیلئے Slave Patrol کے نام سے سفید فام لوگوں کی ایک مسلح تنظیم بنائی گئی تھی۔ اس تنطیم کا کام غلاموں کو سخت ڈسپلن میں رکھنا تھا۔ امریکی تاریخ میں غلامی کے خلاف سب سے اہم اقدام امریکی صدر ابراہم لنکن کا تھا جس نے 1863ء میں Emancipation Proclamation کے ذریعے غلامی کے ادارے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ 1865ء میں سترہویں ترمیم کے ذریعے غلامی کا باقاعدہ خاتمہ کر دیا گیا۔ سول رائٹس ایکٹ کے اجرا سے غیر سفید فام لوگوں کو بھی کچھ مراعات ملنا شروع ہو گئیں‘ لیکن 1870ء میں سفید فام نسل پرست اقتدار میں آ گئے۔ غیر سفید فام لوگوں کو ووٹ کی سہولت سے محروم کر دیا گیا۔ بعد میں ووٹ کا حق اور دوسری سہولیات بحال تو ہو گئیں لیکن امریکی معاشرے میں امتیازی سلوک اور سفید فام برتری کا تاثر لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوچکا تھا۔ بارک اوباما امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام صدر بنا تھا۔ تب کچھ دیر کے لیے یہ احساس ہوا کہ شاید اب امریکی عوام نے نسلی امتیازات اور تعصبات کو پیچھے چھوڑ کر ایک نئے سفر کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن یہ خام خیالی تھی‘ نسلی برتری کے تصور کا رنگ اتنا کچا نہیں تھا۔ نسلی امتیاز کی پالیسی غیر محسوس طریقے سے معاشرے کے ہر ادارے میں سرایت کر چکی تھی۔ اکیسویں صدی کے اس دور میں امریکہ جیسے روشن خیال ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کا اعتقاد ہے کہ سفید فام لوگ واقعی ایک برتر مخلوق ہیں۔ اسی اعتقاد کا نام White Man's Burden ہے۔ 25مئی کو جب سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا تو امریکی آئین میں درج سب انسانوں کی برابری کا دعویٰ اپنی موت آپ مر رہا تھا۔
پولیس افسر کے گھٹنے کا دباؤ جارج فلائیڈ کی گردن پر بڑھ رہا تھا۔ جارج فلائیڈ دہائی دے رہا تھا، منتیں کر رہا تھا ''پلیز میں سانس نہیں لے پا رہا۔ میں سانس نہیں لے پا رہا‘‘ لیکن ڈیرک شاون اپنے گھٹنے کا دباؤ مزید بڑھا رہا تھا پھر جارج فلائیڈ نے آخری اپیل کی۔ بچپن میں جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی وہ ماں کو پکارتا تھا اور ماں پلک جھپکتے میں اپنے بیٹے کو آغوش میں لے لیتی تھی۔ پولیس افسر کے گھٹنے کے دباؤ سے جارج فلائیڈ کے دماغ کو خون کی سپلائی رک رہی تھی تو جارج فلائیڈ کی آنکھوں کی پتلیوں کی حرکت تب رک رہی تھی۔ اس نے آخری بار پوری قوت جمع کرکے کہا ''ماں! میں سانس نہیں لے سکتا، ماں! میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ لیکن سفید فام پولیس افسر ڈیرک شاون کا گھٹنا 8 منٹ 46 سیکنڈ تک اس کی گردن پر رہا اور پھر جارج کی آواز خاموش ہو گئی‘ اس کا تڑپتا ہوا جسم ساکت ہو گیا‘ اس کی آنکھوں کی پتلیاں ٹھہر گئیں۔ اس سارے منظر کو دو راہگیر اپنے کیمرے کی مدد سے محفوظ کر رہے تھے۔ جب یہ وڈیو اپ لوڈ ہوئی تو ہر طرف ایک ارتعاش پیدا ہو گیا۔ غم و غصے میں بپھرے ہوئے لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔ پہلے مینیسوٹا اور پھر امریکہ کی دوسری ریاستوں سے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں اس بہیمانہ اقدام کی مذمت کی۔ پھر یہ احتجاج امریکہ کی سرحدوں سے نکل کر دوسرے ملکوں تک آ گیا۔ برطانیہ کے شہر لندن میں ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا۔ سابقہ امریکی صدر بارک اوبامہ نے اس واقعے پر اپنا طویل رد عمل دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ مظاہرے ایک منصوبے کے تحت کرائے جارہے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے فوج طلب کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس طرح کے نسلی تشدد کی ان گنت مثالیں ہیں۔ امریکی دانشوروں اور سول سوسائٹی کے لیے یہ اہم سوال ہے۔ وہ ملک جو شخصی آزادیوں کا چیمپئن کہلاتا ہے وہاں غیر سفید فام لوگوں کا دم کیوں گھٹنے لگا ہے۔ انہیں کیوں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اب اس معاشرے میں آزادی سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔