کس بات کا ڈر؟ ۔۔۔۔۔ بلال الرشید
کورونا کے منظر میں کچھ چیزیں بہت دلچسپ ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے ؟ وہ چیز ہے : محفوظ مستقبل کی ضمانت۔ انسان جب اس دنیا میں آیا تو اس نے لوگوں کو بھوکا مرتے دیکھا۔ اس دن سے یہ خوف اس کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا کہ ایک دن ایسا آئے گا‘ جب اسے بھی بھوک کے ہاتھ مرنا ہو گا۔آپ میں سے کتنے ہیں ‘ جنہیں زندگی میں ایک دن بھی واقعی فاقہ کرنا پڑا ہو۔شاید ہی کوئی‘ لیکن تقریباً ہر انسان کے دماغ میں بھوک کا خوف پنجے گاڑے بیٹھا ہے ۔ دنیا میں جو قحط رونما ہوتے رہے‘ وہ مجموعی انسانی یادداشت میں محفوظ ہیں ‘ جس طرح جاپانیوں کے ڈی این اے میں ایٹم بم کا خوف ۔انسان کو محفوظ مستقبل کی ضمانت چاہیے اور کورونا وائرس نے یہ ضمانت پھاڑ کر اس کے منہ پر دے ماری ہے ۔
انسان سوچتا ہے کہ میں ایسا کیا کام کروں کہ مجھے محفوظ مستقبل کی ضمانت مل جائے ۔ اسے ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ جتنی میں مال و دولت اکھٹی کروں ‘ یقینا میں اتنا ہی زیادہ محفوظ ہو جائوں گا۔ تو لوگ دولت اکھٹی کرنی شروع کر دیتے ہیں ۔ کیش‘بینک بیلنس اور پلاٹ ۔ نواز شریف‘ آصف علی زرداری اور ڈاکٹر عاصم کی طرح۔جیسے جیسے دولت اکھٹی ہوتی ہے ‘ یہ خوف کم ہونے کی بجائے بڑھتا جاتاہے ۔ اس کے اہل و عیال اس دولت پر ایک دوسرے سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ یہ دولت عدالت میں اس کے گلے کا پھندہ بن جاتی ہے ۔ بھوکے مرنے کے خوف میں پکڑے جانے کا خوف بھی شامل ہو جاتا ہے ۔ محفوظ مستقبل کا خواب ‘ خواب ہی رہ جاتاہے ۔ دوسری طرف آپ اگر عبد الستار ایدھی اور ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے لوگوں کا جائزہ لیں ‘ جو ایثار کرتے ہیں تو وہ خوف سے آزاد نظر آتے ہیں ۔
کسی زمین کی چار دیواری کر دیں تو اس کی قیمت بڑھ کیوں جاتی ہے ؟ وہی حفاظت یا محفوظ مستقبل ۔ اس چاردیواری کے اندر ایک اس سے بھی بڑی چاردیواری بنادیں ۔ اس کے اندر موجود پلاٹوں کی قیمت اور بڑھ جائے گی‘ کیونکہ دوسری چاردیواری محفوظ مستقبل کی دُو گنا ضمانت فراہم کر رہی ہے‘لیکن انسان یہ بات بھول جاتاہے کہ دنیا میں محفوظ مستقبل کی کوئی ضمانت ہو ہی نہیں سکتی ۔ میرے جسم میں‘ میری اولاد کے جسم میں خون کی نالیاں اور نرو ز ڈالی گئی ہیں ۔گوشت کے مسلز بنائے گئے ہیں ۔کیلشیم اورفاسفورس کی ہڈیاں۔ سب کچھ نازک اور وقت کے ساتھ گل سڑ جانے والا ہے ۔ محفوظ مستقبل کہاں سے ملے ؟ دل ‘ معدے اور آنتوں کے پٹھوں کی ایک عمر ہے۔ جب وہ عمر مکمل ہو جائے گی تو وہ کا م کرنا چھوڑ دیں گے ۔ کل نفس ذائقہ الموت۔ ہر ذی روح نے موت کا مزہ تو چکھنا ہی ہے ۔ بھلا زندہ چیز کا بھی کوئی محفوظ مستقبل ہوسکتاہے ؟ اگر مجھے اور میری آل اولاد کو ایک بنکر میں رکھ دیا جائے‘ جہاں ایٹم بم بھی اثر نہ کر سکتا ہو اور جہاں ہمارے لیے ایک ہزار سال کا راشن موجود ہو تو بھی ہم بے خوف نہیں ہو سکتے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ حملے کا جتنا خطرہ باہر سے ہے ‘ اس سے ہزار گنا زیادہ جسم کے اندر سے۔ میرا دشمن میرا اپنا جسم ہے ۔ آنے والا ہر لمحہ اس نازک جسم سے بھرپورخراج لیتے ہوئے اس کی شکست و ریخت (Deterioration) کا باعث بن رہا ہے‘ پھر عین ممکن ہے کہ بنکر کی ملکیت پر ہی لڑائی ہو جائے۔
آخر دنیا میں یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ جائیداد پہ جنگ کیوں ہوتی ہے ؟ جسم کے اندر توڑ پھوڑ کیوں ہوتی ہے ؟ اس لیے کہ یہ دنیا خیر و شر کی کشمکش کے لیے بنی ہے ۔ یہ آزمائش کی دنیا ہے ۔ موج مستی کے لیے جو دنیا بنائی جاتی‘ اس میں نہ عمر بڑھتی ‘ نہ اعضا ناکارہ ہو تے اور نہ اولاد میں رنجش پیدا ہوتی ۔ موج مستی کی دنیا میں کورونا اور پولیوجیسے وائرسز کا کیا کام؟ طمانیت سے بھرپور ایک دنیا تخلیق کرنا ہوتی تو خواہشات کی لا محدود ہوس ہوتی ہی نہ ۔ مثالی دنیا میں ہر دل خواہشات کے پہاڑ تلے دبے ہونے کی بجائے طمانیت سے لبریز ہوتا۔ جب میں اپنی بیٹی سے کھیلتا ہوں اور جب میں بہت خوش ہوتا ہوں تو اچانک ایک خیال آتا ہے : کتنا عارضی ہے یہ ساتھ اور اس قدر عارضی ساتھ میں کتنی زیادہ محبت ۔ ایک دن میں اس کی آنکھوں کے سامنے مر جائوں گا یا وہ میری آنکھوں کے سامنے ۔ تیسری صورت کوئی نہیں ‘ اگر آپ کہیں کہ انسان کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے تو میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا حقیقت یہی نہیں ؟ یا کوئی یہ کہے کہ اسے اور اس کی اولاد کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ جینا ہے ۔ موت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔ اس کے باوجود نفسِ انسان دنیا کی اس سب سے بڑی حقیقت پہ پردہ ڈالے رکھتا ہے ۔ انسان ساری زندگی اس سب سے بڑے دھوکے میں جیتا ہے ۔ بظاہر میں جانتا ہوں کہ ایک دن مجھے لازماً مرنا ہے ‘ پھر بھی علمی اور جذباتی سطح پر مجھے اپنی موت کا ایک فیصد بھی یقین نہیں۔ نفس کی طویل خواہشات ‘ لمحہ ٔ حاضر میں بھرپور صحت سے لطف اندوز ہوتے دماغ کو یقین دلا دیتی ہیں کہ موت باقیوں کے لیے ہے ‘ میرے لیے نہیں ۔ اسی لیے جب میت کو دیکھو تواس پر ترس آتا ہے‘ خود پر نہیں۔ بیچارے کو زمین کے اندر دفن کر دیاجا ئے گا۔ خوشی کا احساس بھی ہوتاہے کہ میں تو نہیں مرا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مردے کو دیکھ کر انسان کو اپنی اور اپنے پیاروں کی موت یاد آتی‘ لیکن نفسِ انسان اس لمحے اسے بڑا عجیب دھوکہ دیتاہے ۔ وہ اسے کہتاہے کہ تیری موت کا وقت ابھی بہت دُور ہے ؛حتیٰ کہ بہت بوڑھے شخص کو بھی وہ یقین دلائے رکھتاہے کہ اس کا وقت ابھی نہیں آیا۔ عمر رسیدہ ملکہ ٔ برطانیہ بھی آ پ کو اپنی زندگی کی حفاظت کرتی نظر آتی ہے ۔
خیراس وائرس سے ڈروں تو میں تب ‘ جب کورونا نہ ہونے کی صورت میں مجھے ہمیشہ کی زندگی عطاکر دی جاتی ۔ موت‘ اگر آکے رہنی ہے تو اس بات سے کیا فرق پڑتاہے کہ وہ آج آتی ہے یا پچاس سال بعد آئے گی!