اِدھر کشمیری ‘ اُدھر افغان ۔۔۔۔۔۔ منیر احمد بلوچ

چند دن ہوئےStep Backکے عنوان سے لکھے اپنے آرٹیکل میں تفصیل سے بتاچکا ہوں کہ انڈین آرمی چیف کے حکم سے مقبوضہ کشمیر سے لائن آف کنٹرول(ایل او سی) کے دوسری جانب آزاد کشمیرپر گولہ باری کرنے کیلئے بھارتی فوج کو حکم دے دیا گیاہے کہ انڈین آرمی اپنی توپیں مسلم اکثریتی دیہات کے اند ر نصب کرتے ہوئے دشمن پرگولہ باری کریں گی‘ تاکہ پاکستان اگر جوابی فائر کرے تو اس کا نشانہ مقبوضہ کشمیر کی مسلم آبادی بننے سے مسلمان بھائی ہی مارے جائیں اور انہی کے گھر بار تباہ ہوں۔ اس سے بھارت دو فائدے حاصل کرے گا ؛ایل او سی سے آنے والے گولوں اور میزائلوں سے زیادہ تر کشمیر کے مسلمانوں کے ہی جان و مال کا نقصان ہو گا‘ جس پر یہاں کے کشمیری مسلمان اپنی جان و مال کی تباہی پر پاکستان کے خلاف ہو جائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ انڈین فوج یہ سلسلہ ایل اوسی کے ہر سیکٹر میں اپنا رہی ہے ۔
دوسری طرف حیران کن طو رپر دیکھنے میں آ رہا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان کی سرحدوں کے اندر دیہی آبادیوں پر گولہ باری کرتے ہوئے وہی انڈیا والا طریقہ آزمارہا ہے ۔یہ شاید اس وجہ سے ہے کہ ان دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کی کمانڈ ایک ہی ہاتھ میں ہے اور اب تو کوئی شک ہی نہیں رہا ‘ جب پانچ روز ہوئے افغان سکیورٹی فورسز کی توپوں اور میزائلوں کا نشانہ پاک افغان سرحد کے اس طرف کی آبادیاں بننا شروع ہو گئیں‘ جس سے تین افراد اور ایک بچہ شہید ہوچکے۔ دشمن کی چالاکی اور مکاری دیکھئے کہ اگر پاکستان جواب میں فائرنگ یا گولہ باری کرتا ہے تو اس کی زد میں افغان مسلمان بھائیوں نے ہی آنا ہے‘ جس پر افغانستان اور بھارت کی مشترکہ مفادات کی مبینہ تنظیم پی ٹی ایم‘ پشتون کارڈ کھیلتے ہوئے فوراً آسمان سر پر اٹھا لے گی کہ پشتونوں کو ماراجا رہا ہے۔ اب‘ ظاہر ہے کہ دونوں طرف بسنے والے ان پشتونوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں؛ کسی کے دوست یا عزیز کے مرنے سے منظور پشتین اور علی وزیر جیسے لوگوں نے پشتونوں کے جذبات کو آگ لگانے کی پوری کوشش کرنی ہوتی ہے۔ ان کا دوغلا پن دیکھئے کہ افغان فورسز کی گولہ باری سے پاکستانی حدود میں زخمی ہونے والے ایک بچے سمیت تین پشتونوں کی شہادت پران کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا‘ جس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی ایم کی قیادت کے نزدیک پشتون صرف وہی ہیں‘ جو ان کے ساتھ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کام کر تے ہیں ۔کیا محسن داوڑ ‘ علی وزیر اور منظور پشتین کی طرف سے ان تین پشتونوں کی شہادت پر افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف اب تک ایک لفظ بھی سننے میں آیا ہے؟نیزکیا انہوں نے وزیرستان میں ان تین پشتونوں کی افغان فوجیوں کی گولہ باری سے ہونیو الی شہادت کے خلاف کوئی جلسہ یا جلوس کیا ہے؟
کچھ عرصہ قبل عارف وزیر کا قتل ہوا تو کہا جانے لگا کہ اب دیکھئے گا نقیب اﷲ محسود کی طرح پورے کے پی کے میں پشتون جوانوں کو احتجاج کیلئے سڑکوں پر لے آئیں گے‘ لیکن شاید سمجھ دار پشتون عارف وزیر کے قتل کے اصل محرکات تک پہنچ چکے تھے‘ اس لئے ان کا یہ خواب ادھورا رہ گیا ۔ عارف وزیر کے پراسرار قتل کی آڑ میں پی ٹی ایم وزیرستان میں سادہ لوح پشتونوں کے جذبات ابھارتے ہوئے انہیں پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف مظاہروں پر پوری شدت سے آمادہ کررہی تھی تو کراچی ‘ انڈیا اورکابل میں بیٹھے اپنے سوشل میڈیا ایجنٹوں کے ذریعے جھوٹ پر مبنی نفرت انگیز مواد پھیلایا گیا ‘جبکہ ان کے جھوٹ کا بھانڈا خراسان گروپ سمیت ازبک‘ تاجک اور ہزارہ گروہوں نے یہ کہتے ہوئے پھوڑ دیا کہ پی ٹی ایم قیادت جھوٹ بول رہی ہے۔ اصل میں عارف وزیر کے قتل کے پیچھے افغان صدر کے گروہ کا ہاتھ ہے ۔ پی ٹی ایم دوست پشتونوں کی بنتی ہے‘ لیکن حکومت مخالف ریلیاں نکالتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے کورونا وائرس کیلئے بتائی گئی احتیاطی تدبیر کا ذرا برا بر بھی خیال نہیں رکھ رہی‘ جو انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔پی ٹی ایم کے جلسوں اور ریلیوں میں بے احتیاطیوں سے اگر کورونا وائرس پھیل گیا تو پھر انتظامیہ پر الزام تراشی شروع کر دیں گے کہ پشتونوں کا علاج نہیں کیا جارہا اور کے پی کے میں موذی کورونا وائرس کے پھیلنے میں ان کے جلسوں کا بہت ہاتھ ہے۔
کراچی کے باخبر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ نقیب اﷲ محسود کی شہادت کے اگلے دن جب کراچی پہنچنے پر طلبا تنظیم سے تعلق رکھنے والے منظم طریقے سے منظور پشتین کو ائیر پورٹ سے ہی اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہیرو بنا کر پیش کر رہے تھے ‘ تو کچھ باخبر حلقوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ سوشل میڈیا پر پشتون نوجوانوں میں انتہائی مقبول سمجھے جانے والے نقیب اﷲ محسود کا قتل تو کراچی پولیس کے ہاتھوں ہوا ‘جہاں پی پی پی کی حکومت ہے‘ لیکن یہ نوجوان نعرے سکیورٹی فورسز کے خلاف لگا رہے ہیں۔ سب سے حیران کن منظر نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے سروں پر ہر طرف پی ٹی ایم کی مخصوص ٹوپیوں کا دکھائی دینا تھا۔کیا یہ سب کچھ پہلے سے ہی تیار کردہ کوئی کھیل تھا؟ کیا پی ٹی ایم کو پہلے سے ہی کسی نے نقیب اﷲ محسود کے قتل کا بتا دیاتھا ؟اگر ایسا نہیں توپی ٹی ایم یہ ٹوپیاں اس سے پہلے کراچی میں کیوں دکھائی نہیں دیں ؟ کیا پی ٹی ایم کی پہچان کرانے کیلئے یہ مخصوص ٹوپیاں پہلے سے ہی کہیں تیار کر ائی گئی تھیں؟ یہ سوال کراچی میں آج بھی پوچھا جا رہا ہے کہ نقیب اﷲ محسود کا پر اسرار قتل‘ مبینہ طور پرانتہائی پسندیدہ پولیس افسر کے کھاتے میں ڈالا گیا‘ نہ جانے اس میں کیا راز پنہاں ہے کہ اسی قتل کی کوکھ سے پی ٹی ایم جنم لیتے ہی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف نفرت ابھارنے اور افغان ایجنسیوں کا ساتھ دینا اپنا ایمان بنا چکی ہے۔
الغرض ہمیں کسی بھی مرحلے پر غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ملک کی حساس ایجنسیاں اور خفیہ ادارے‘ وطن ِعزیز کے جانی دشمنوں سے چومکھی لڑائی نہیں لڑ سکتے۔ ہم سب کو اپنی سکیورٹی فورسز کا دست و بازو بننا ہو گا۔ آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ہمارا ازلی اور مکار دشمن کس طرح پینترے بدل بدل کر ہم پر حملہ آور ہو رہا ہے۔ اس وقت اس کی سب سے بڑی کوشش پشتون نوجوانوں کو اپنے دام میں لاتے ہوئے پاکستان کیخلاف اکسانے میں مصروف ہے ‘کیونکہ بلوچستان میں مسلسل15 برسوں سے اس نے ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لیا ‘ لیکن سوائے چند سوافراد کے کوئی اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہو رہا اور اب حالت یہ ہو چکی ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کیلئے افغانستان میں موجود بھارتی فوج اپنے کمانڈوز کو استعمال کر رہی ہے‘ جس کا امریکہ اور برطانیہ سمیت افغان صدر اشرف غنی اورافغانستان کی سکیورٹی فورسز کو بخوبی علم ہے۔