طنز و مزاح ۔۔۔۔ بلال الرشید
کیا مزاح نگاری بہت مشکل ہے ؟ یقینا ‘لیکن کچھ لوگ پیدائشی طور پرطنزیہ گفتگو کے ماہر ہوتے ہیں ۔ حیران کن یہ ہے کہ ان کے جس طنزیہ جملے پر دوسرے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائیں ‘ خود وہ مسکراتے بھی نہیں ۔ چار سال قبل کی بات ہے ‘ میں ٹی وی پروگرام دیکھ رہا تھا ۔ تین ٹی وی میزبان سندھ میں ہونے والے کسی ضمنی الیکشن پر بحث کر رہے تھے ۔شدید گرمی کے ایام تھے ۔ ان میں سے ایک بات کرتے ہوئے ذرا جذباتی ہوا تو ساتھیوں سے کہنے لگا : یہ باتیں اس ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر سمجھ نہیں آ سکتیں ۔پینل میں ہمارے ایک دوست بھی شامل تھے ۔ گفتگو آگے بڑھتی گئی ۔ اس ٹی وی میزبان نے دوبارہ یہ جملہ دہرایا ۔ بات آگے بڑھتی گئی ۔ کافی گرما گرم بحث ہو رہی تھی کہ ٹی وی میزبان نے ایک بار پھر کہا : یہ باتیں اس ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر سمجھ نہیں آسکتیں ۔ہمارے دوست کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ بولے : یہ ٹھنڈا کمرہ آپ ہمارے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ بغیر کولر والے گرم کمرے میں چارپائی پہ لیٹے رہتے ہیں ۔
اگر آپ غور کریں تو انہوں نے اس جملے میں تین miseries پیدا کی ہیں ۔ ایک تو انہوں نے اے سی کی بجائے کولر کا لفظ استعمال کیا۔ دوسرا انہوں نے بیڈ کی بجائے چارپائی کا ذکر کیا۔ تیسرا بیٹھنے کی بجائے لیٹنے کی بات کی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر وہ مزاح نگاری کے شعبے میں آتے تو کیسی قیامت ڈھاتے !
ایک شادی میں جانا ہوا۔ ویٹر آئے اور ہماری میزپر سالن او ر چپاتیاں رکھ دیں۔ معلوم ہوا کہ اس شادی میں منفرد انتظام یہ ہے کہ آپ کو خود جا کر کھانا لینے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ ویٹر ہر میز پر کھانا لگائیں گے ۔ ہماری میز پر ایک کاروباری صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔ انہوں نے یہ دیکھا تو چوڑے ہو گئے ۔کہنے لگے کہ ہم تو ایسی شادیوں میں جاتے ہی نہیں ‘ جہاں خود جا کر کھانا لانا پڑے۔ اس طرح کی تین چار ڈینگیں انہوں نے ماریں‘ ''ہم تو وہاں جاتے ہیں ‘ جہاں کھانا لا کر ہمارے سامنے رکھ دیا جائے ‘‘۔ ساتھ بیٹھا ہوا ایک شخص ان کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہا تھا ۔ خدا کی کرنی کیا ہوئی کہ وہی ویٹر آیا‘ جس نے ہماری میز پر کھانا رکھا تھا ۔ اس نے ہماری میز سے برتن اٹھائے اور جا کر کسی اور میزپر رکھ دیے ۔ ان صاحب کا چہرہ دیکھنے والا ہو گیا۔میں بے اختیار ہنس پڑا اور ساتھ بیٹھے دوست سے کہا : قسمت ہی ایسی ہے ‘ دو ڈونگے آئے تھے‘ وہ بھی ویٹر اٹھا کر لے گئے ۔وہ صاحب خفیف ہو کر کہنے لگے کہ ابھی آجائے گا کھانا۔ میں نے کہا : کھانا تو آجائے گا‘ لیکن جو ہونا تھا‘ وہ تو ہو گیا۔
ولیمے کی اسی تقریب میں ایک شخص بانسری سے میوزک دے رہا تھا۔ طویل تقریب میں کوئی گانا اس نے چھوڑا نہیں۔ بجا بجا کر جب تھک گیا تو یہ دھن چھیڑی ''مائے نی میں کینو ں آکھاں ‘‘ اب ‘خدا جانے وہ دولہے کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا یا اپنی تھکاوٹ کا اظہار ۔
میں آٹھویں جماعت میں تھا ۔ ایک نئے استاد ہمیں پڑھانے آئے ۔ لڑکوں نے انہیں ذرا بے تکلف ہوتے دیکھا تو لطیفے سنانے کی فرمائش کی ۔جب وہ کوئی لطیفہ شروع کرتے تو لڑکے بے ہنگم آوازوں میں ہنستے ۔ دوسری طرف جب لطیفہ مکمل ہوتا کلاس میں مکمل خاموشی طاری ہو جاتی ۔آخر انہوں نے بیٹ اور نسوار کا ایک لطیفہ سنانا شروع کیا ۔ اس موقع پر لڑکوں نے شور مچا دیا ۔ دانش نامی میرا ایک ہم جماعت پوچھنے لگا: سر بیٹ کیا ہوتی ہے ۔ انہوں نے اس بات کی پوری وضاحت کی کہ بیٹ پرندوں کا فضلہ ہوتاہے ۔ یہ وضاحت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے لطیفہ دوبارہ شروع کیا ۔ دانش نے ایک بار پھر سر نکالا اور زور سے بولا : سر بیٹ کیا ہوتی ہے ؟سر یہ سمجھے کہ لڑکوں کو واقعی سمجھ نہیں آرہی کہ بیٹ کیا ہوتی ہے ۔ انہوں نے ایک بار پھر کھل کراور زیادہ وَاشگاف الفاظ میں وضاحت کی ۔ میرے ساتھ بیٹھے سعد کو بہت غصہ آرہا تھا۔ وہ پورا لطیفہ سننا چاہتا تھا‘ لیکن دانش نے سر کو بیٹ پر روک رکھا تھا ۔
انہوں نے دوبارہ لطیفہ شروع کیا۔ جیسے ہی ''بیٹ ‘‘ کا لفظ آیا۔ دانش زور سے بولا ''سر بیٹ کیا ہوتی ہے ؟ ‘‘سعد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ بولا: او دانش ‘ او تینوں پتا لگ تے گیا ‘بیٹ کی ہندی آ۔ اس کے بعد اس نے ایک مناسب جملے میں پوچھا کہ وہ بیٹ کو کس طرح سے چیک کرنا چاہتا ہے کہ وہ کیا ہوتی ہے ؟
ایک دفعہ میں نے اپنے دوست محمد علی مرزا کو پیغام بھیجا: ایک کتا ہے ‘ اگر تم لینا چاہو۔ اس نے پوچھا : کتنے کی عمر کتنی ہے ؟ میں نے کہا : سمجھو ‘ تمہارے جتنی ہی ہے ۔ بولا: بس مجھے سمجھ آگئی ۔ کتا ہے ہی نہیں ‘ تو نے صرف مجھے ذلیل کرنے کے لیے یہ ذکر چھیڑا ہے ۔پھر پوچھنے لگا کہ عمر کتنی ہے ۔ میں نے کہا :40۔ پوچھنے لگا: 40دن ؟ میں نے کہا نہیں چالیس سال ۔ دوسری طرف خاموشی چھا گئی ۔ اس با ت کو کئی دن گزر چکے ہیں۔ کتے کی خصوصیات پر دو طرفہ مذاکرات جاری ہیں ۔
زرداری دور کا موسم ِ گرما تھا۔ بجلی کی شدید کمی تھی ۔ بار بار لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی ۔ ہم ایک جنریٹر لے کر آئے ۔ اسے آٹو میٹک کرایا کہ جیسے ہی بجلی جائے‘ وہ خود ہی آن ہو جائے ۔ کچھ عرصہ تو یہ نظام بخیر و خوبی چلتا رہا ۔ اس کے بعد خراب ہو گیا۔ بار بار اسی مکینک کو بلایا جاتا۔ہر دفعہ وہ آتا‘ جنریٹر ٹھیک ہونے کا اعلان کرتا‘ پیسے لیتا اور چلا جاتا۔ پھر وہ آخری بار آیا ۔ اس نے کہا : جناب‘ اب جیسے ہی بجلی جائے گی‘ جنریٹر آن ہو جائے گا۔
مکینک چلا گیا۔ بجلی گئی ۔ کچھ دیر سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے کہ جنریٹر آن ہونے کی آواز آتی ہے یا نہیں؟ بڑے بھائی نے کہا : نہیں چلا نا؟ پھر جیب سے موبائل نکالا ۔اس ملازم کا نمبر ملایا جو ہردفعہ اس مکینک کو لے کر آتا تھا‘ اسے بڑے پرسکون لہجے میں کہا : اُس سائنسدان سے کہنا کہ جو تجربہ وہ کر کے گیا تھا‘ وہ ناکام ہو گیا ہے