پہلی بات(جاری ہے)
کسب معاش یعنی روزی کمانے کے لیے کوشش کرنا اسلام میں مطلوب ہے۔ بلکہ اللہ کے عائد کردہ اور فرائض کے بعد ایک فرض ہے۔ تمام انبیاء علیہم السلام نے اس فرض کو نبھایا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنی روزی خود کماؤ۔ مانگنا آپ ﷺ نے جائز قرار دیا مگر صرف اس صورت میں کہ وسائل نہ ہوں چاہے بیماری کے سبب سے یا تنگدستی کی وجہ سے۔ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، اور ان کے بعد آنے والے بڑے بڑے علماء نے اس فرض کو ادا کیا ہے۔ روزی کمانے کے تین طریقے ہیں: زراعت، تجارت اور اجارہ (نوکری)۔ ان میں تجارت سب سے زیادہ پسندیدہ طریقہ ہے اس لیے کہ اس کا فائدہ زیادہ لوگوں کو پہنچتا ہے۔ تجارت کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں جو ان شاءاللہ آپ اس کتاب میں پڑھیں گے۔ لیکن فرد کے لیے بھی اور جماعت کے لیے بھی اس کا سب بڑا فائدہ حریت فکر و عمل ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی اس عبارت پر غور کریں جو انہوں اپنی کتاب اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 443 پر لکھی ہے:
’’اقتصادی نظام کی ترقی و برتری کا راز سب سے زیادہ تجارت میں مضمر ہے جو قوم یا ملت جس قدر اس میں دلچسپی لیتی ہے وہ اسی قدر اپنی اقتصادی بہبود کی زیادہ خود کفیل بنتی ہے اور جس قوم یا ملک کے باشندے تجارت سے دلچسپی نہیں رکھتے وہ اقتصادی نظام میں ہمیشہ دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں اور اسی راہ سے دوسری اقوام ان کے تمدن، تہذیب، معیشت اور سیاست بلکہ ’’مذہب‘‘ پر قابض ہوجاتی ہیں اور ان کو غلام بنا کر مطلق العنان حکومت کرتی ہیں۔‘‘
سیدنا عمرؓ کا قول ہے:
علیکم بالتجارۃ لاتفتنکم ھذہ الحمراء علی دنیاکم
ترجمہ: تجارت اختیار کرو، یہ سرخ لوگ (یعنی عجمی غلام) تمہاری دنیا کے لیے تمہارا امتحان نہ بن جائیں(بحوالہ پیغمبر اسلام اور تجارت، از حکیم محمود احمد)
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ اپنی کتاب معاشیات اسلام صفحہ 18 پر رقمطراز ہیں:
’’قال النبی ﷺ ما من مسلم یزرع زرعا اور یغرس غرسا فیاکل منہ طیر او انسان او بھیمۃ الا کانت لہ صدقہ(صحیح البخاری)
ترجمہ: فرمایا رسول اللہ ﷺ نے: ’’نہیں کوئی ایسا مسلمان جس نے کھیتی کی ہو یا درخت لگایا ہو پھر اس کھیتی یا درخت سے پرند کھائے یا آدمی یا جانور مگر یہ کہ وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے
وجہ ظاہر کہ اس کھیت یا باغ لگانے والوں کو اگر نفع نہ پہنچا تو کیا ہوا، اس نے تو اپنا فرض ادا کیا اور جس نے خدا کے عائد کئے ہوئے فرض کو ادا کیا ثواب کا مستحق وہ نہ ہوگا تو اور کون ہوگا ماسوا اس کے حضور ﷺ نے ادھر بھی اشارہ فرمایا کہ کاشتکار اور باغبان نے خدا کی دی ہوئی قوتوں سے کام لے کر اس چیز کو جو معدوم (غیرموجود) تھی وجود کے لباس میں جلوہ گر ہونے کا موقع دیا۔ اس سے اگر فرد کو نفع اٹھانے کا موقع نہ ملا تو جماعت کی خدمت کا فرض تو وہ بجا لایا اور جماعت ہی نہیں خدا کی دوسری مخلوق مثلا پرند یا بہیمہ (چوپائے) اگر اس سے مستفید ہوئے تو قصدًا نہ سہی ضمنًا اپنے وجود اور اپنی توانائیوں کو اس نے مفید ثابت کیا اور اسلام یہی چاہتا ہے کہ خدا کی عطا کی ہوئی قوتوں کو بے کار اور ضائع ہونے سے بچایا جائے۔‘‘
ان دونوں عبارتوں کو ذہن میں رکھیے اور اس مسلسل مضمون کا مطالعہ کیجیے۔ اس مضمون میں تجارت کے فضائل اور اس سے متعلق دیگر امور جمع کیے گئے ہیں۔ قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور بزرگان دین کے اقوال سے اس کی فضیلت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو اللہ نے صلاحیت دی ہے وہ اپنے آپ کو اس کارخیر میں لگائیں اور دینی تعلیمات کے مطابق ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
یہ ایک مسلسل مضمون ہے جس میں مختلف عنوانات قائم کرکے تجارت اور اس سے متعلق بہت سے امور پر معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس کے چیدہ چیدہ عنوانات یہ ہیں: ’’اسلام میں مال کی حیثیت‘‘، جس میں اسلام کی نظر میں مال کی حیثیت واضح کی گئی جو درحقیقت رگ جان کی حیثیت ہے۔ ’’اسلام میں طلب رزق کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے طلب رزق میں لگنے کی اہمیت واضح کی گئی ہے، جو ہر اہل شخص پر لازم قرار دی گئی ہے۔ ’’اسلام میں تجارت اور تاجر کا مقام‘‘ میں ان دونوں کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ ’’ مال اپنی ذات میں برا نہیں ہے!‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ مال اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا تھا کہ اچھا مال اچھے شخص کے لیے اچھی چیز ہے۔’’ کون سی تجارت افضل ہے؟‘‘ کہ عنوان کے تحت تجارت کے تین طریقوں تجارت، زراعت اور صنعت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ ’’مال کی حفاظت اور سرمایہ کاری ‘‘ کے عنوان کے بارے دین کی تعلیم کو واضح کیا گیا ہے۔ ’’اعمال کے درجے‘‘ کے عنوان کے تحت اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے بارے میں کچھ باتیں پیش کی گئی ہیں۔ ’’شراکت میں کاروبار کرنا‘‘ اور ’’کتنا منافع لینا جائز ہے؟‘‘ کے عنوانات کے تحت ان دونوں کے بارے میں دینی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر عنوانات کے تحت تجارت کے موضوع پر دین کی تعلیمات پیش کی گئی ہیں۔