فلسفہ قربانی ..... تحریر : مفتی محمد یوسف کشمیری


بلا شبہ عمل کی بنیاد اخلاص پر ہے
قربانی قرب سے ہے۔ قرب کا معنی ہے قریب ہونا۔ بندے کی سستی، لا پرواہی اور غفلت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کمی آ جاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں قربانی پیش کرنے سے بندے کی اپنے رب سے دوریاں قربت میں بدل جاتی ہیں اسی لیے اس کو قربانی کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں مالی عبادت شامل ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے ذرائع میں سے قربانی ایک بہت مختصر ذریعہ ہے۔ واضح رہے قربانی کرنے والے کے لیے بھی شرائط ہیں اور قربانی کی بھی شرائط ہیں۔ قربانی کرنے والے کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ جب ہم جانور خریدنے کے دوران اس کے عیوب تلاش کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے نقائص پر نظر رکھتے ہیں، تو اس سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنے عیوب تلاش کریں۔ اپنی کمی کوتاہیوں پر غوروفکر کریں۔ جس طرح اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے صحیح سلامت، بے عیب جانور اللہ کے حضور پیش کرنا ہے۔ اسی طرح بندے کو خود بھی رب کے حضور پیش ہونا ہے۔


بلا شبہ عمل کی بنیاد اخلاص پر ہے۔ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، ظاہری ہو یا خفی، ہر طرح کے عمل کے لیے نیت خالص ہونی چاہیے۔ دین کا دارومدار بھی نیت پر ہے۔ اسی طرح قربانی کے لیے جس مال سے ہم جانور خریدتے ہیں وہ مال پاک ہونا چاہیے۔ قرآنِ حکیم میں اللہ رب العزت نے انبیائے کرامؑ کو حکم دیا کہ’’ پاکیزہ چیزیں کھائیں اور نیک عمل کریں۔‘‘ (سورۃ المومنون:51)


نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’ اللہ خود پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی پسند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)


قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ترجمہ ’’اللہ کی راہ میں گندا، ناپاک، حرام مال خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو۔ اگر کوئی ناپاک، گندا یا ناکارہ مال تم کو دے تو تم کھلی آنکھوں کے ساتھ کبھی نہیں لو گے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: 267)


اسی طرح عقیدے کا درست ہونا بھی بنیادی شرائط میں سے ایک ہے۔ عقیدے کا شرک، بدعات و خرافات سے پاک ہونا اولین شرط ہے ۔ قربانی کے تناظر میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ فرض ہے یا سنت؟ راجح بات یہ ہے کہ جو شخص صاحب استطاعت ہو اس پر قربانی لازم ہے۔ سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس آدمی کے پاس گنجائش ہے اور اس کے باوجود قربانی نہیں کرتا، وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔‘‘ عرفہ کے میدان میں اللہ کے نبی کریم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:’’ لوگو! ہر مسلمان خاندان پر ہر سال قربانی بھی ہے اور عتیرہ بھی۔‘‘ (ابو دائود) عتیرہ اس جانور کو کہتے ہیں جسے رجب کے پہلے10 دنوں میں ذبح کیا جاتا تھا۔ اسے رجبیہ بھی کہا جاتا تھا۔


قبل از اسلام لوگ رجب میں جانور ذبح کیا کرتے تھے۔حضرت امام ابودائودبیان کرتے ہیں کہ بعد میں عتیرہ اللہ کے نبی پاکﷺ نے منسوخ قرار دے دیا۔ البتہ قربانی کو قیامت تک کے لیے باقی رکھا۔ اسی طرح ایک صحابی نے بکرا قربانی کے لیے رکھا ہوا تھا۔ انہوں نے عید کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی وہ ذبح کردیا اور گوشت تقسیم کردیا۔ اللہ کے نبی پاک ؐ کو معلوم ہوا تو نماز عید پڑھانے کے بعد خطبے میں فرمایا’’ جس نے نماز عید پڑھنے سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرلیا، تو وہ عام گوشت ہے اور جو عید کی نماز پڑھنے کے بعد قربانی کرے گا، وہ انشاء اللہ مسلمانوں کے طریقے کو اور قربانی کو پالے گا۔‘‘ صحابی ؓنے کھڑے ہوکر کہا ، اے اللہ کے رسولﷺ مجھے علم نہیں تھا اور میں جانور ذبح کرچکا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا:’’ اس کی جگہ دوسرا جانور ذبح کرو۔ ‘‘(صحیح بخاری) اگر قربانی اختیاری معاملہ ہوتا، تو رسول اللہﷺ اُن صحابی کی لاعلمی پر ان کو دوسرا جانور ذبح کرنے کا حکم نہ دیتے۔


جن کو اللہ نے مال دیا ہے، ان کے ذمے قربانی کرنا بھی ایک حق ہے۔ اس میں لا پرواہی نہیں کرنی چاہیے۔ ہر سال عید الاضحیٰ قریب آتے ہی سوشل میڈیا پر ایک گروہ یہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ قربانی سے کیا ملے گا۔؟ اس مال سے کسی کی مدد کرلیں۔ جانور کاٹنے سے خون بہے گا، تعفن اٹھے گا، بیماریاں پھیلیں گی، گوشت بھی خراب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا پیسہ غریب کو دے دو۔ یہ لوگ قربانی پر تو اعتراض کرتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اتنی مہنگی گھڑی یا موبائل استعمال کیوں کر رہے ہو۔ بیٹے یا بیٹی کی شادی پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیوں کر رہے ہو، اس کے علاوہ بھی بے شمار اخراجات ہیں۔ ایک ایک گھر میں چار چار پانچ پانچ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں، کبھی کسی نے اس فضول خرچی پر غریبوں کو یاد کیا۔؟ مگر قربانی یا حج ان کو فضول خرچی دکھائی دیتا ہے۔ اللہ ایسے افکار باطلہ سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔ یاد رہے ،اللہ کو ہمارے قربان کیے گئے جانوروں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ ہی ان کا خون، اللہ تعالیٰ ہمارے تقویٰ کو دیکھتا ہے۔


قربانی کا گوشت ہم خود کھالیتے ہیں، رشتے داروں کو بھی دیتے ہیں اور غرباء و مساکین میں بھی تقسیم کرتے ہیں۔ بہت سارے گھرانے ایسے ہیں جنہیں سالہا سال گوشت میسر نہیں ہوتا، عید الاضحی کی برکت سے ان کے لیے بھی گوشت کا انتظام ہوجاتا ہے۔


دراصل قربانی قربت الٰہی کا ذریعہ ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت بھی۔جہاں تک قربانی کے جانور میں عیوب یا نقائص کی بات ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’ 4 قسم کے جانور یا جس جانور میں4 عیب ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔ نمبر1 جانور لنگڑا ہو یا لنگڑا پن واضح ہو۔ نمبر2بیمار جانور ہو، کھا پی نہیں سکتا، چل نہیں سکتا، شدید بیمار ہے اس کی قربانی جائز نہیں۔‘‘(ابو دائود) البتہ معمولی مرض ہو تو جائز ہے۔ جیسا کہ جانور کو پیچس لگ جاتے ہیں۔ نمونیا ہو جاتا ہے اور کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ معمولی عیب ہے اس میں قربانی درست ہے۔ اسی طرح کانا یا بھینگا جانور، جس کا کانا یا بھینگا پن بالکل واضح ہو تو ایسے جانور کی قربانی سے بھی منع کیا گیا ہے۔ چوتھے نمبر پر بوڑھا جانور ہے، اس کی قربانی بھی درست نہیں۔ اسی طرح ٹوٹے ہوئے سینگ یا کٹے ہوئے کان والے جانور کی قربانی بھی درست نہیں ہے۔ البتہ معمولی سینگ ٹوٹا ہو یا کان میں معمولی کٹ لگا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ عیب واضح ہونا ضروری ہے۔


مسنہ جانور کی قربانی کرنی چاہیے البتہ دنبہ، بھیڑیا مینڈھے کے لیے مسنہ کی شرط نہیں، ان کے لیے جوان ہونا شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بہتر اور قابل قبول عمل کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قربانی اور نیک اعمال قبول فرمائے۔ آمین