حج کی فضیلت اور طریقۂ کار ....علامہ ابتسام الہی ظہیر
Hajj.jpg
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے اور ہر صاحب حیثیت مسلمان پر حج کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید کے مطابق جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایسے منکرین کے افعال سے غنی ہے۔ کتب احادیث میں حج کی عظمت اور فضیلت کے حوالے سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
بخاری شریف اور صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا کہ (دین اسلام میں) کون سا عمل بہت بہتر ہے؟ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے) اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا (کہ یہ دل کا عمل ہے)۔ پھرعرض کیا گیا اس کے بعد کون سا عمل (سب سے بہتر ہے)؟ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھرعرض کیاگیا کہ اس کے بعد کون سا عمل (سب سے بہتر ہے)؟ حضور کریمﷺ نے ارشاد فرمایا (اس کے بعد) حج مبرور (سب سے بہتر عمل ہے)۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے: اُم المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ سے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی (کہ اگر آپ حکم دیں تو میں بھی جہاد کے لیے نکلوں) تو حضور اکرمﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ تم خواتین کے لیے حج کا سفر ہی جہاد ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور دورانِ حج (بحالت احرام) اپنی بیوی سے صحبت نہ کرے اور (دورانِ سفر اپنے ساتھیوں سے) بیہودہ کلام یا لڑائی جھگڑا نہ کرے اورکبائر (گناہوں) سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے) جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا۔
عمرہ اور حج میں طریقہ ادائیگی کے علاوہ ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ عمرہ سال کے دوران کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے جبکہ حج ماہ ذوالحجہ کے دوران ہی کیا جاتا ہے۔ حج کی تین قسمیں ہیں: حج افراد، حج تمتع اور حج قران۔ حج تمتع چونکہ افضل ترین حج ہے اور اس میں حاجی کو اضافی عمرے کا موقع بھی ملتا ہے، اس لیے حج تمتع کا طریقہ بیان کیا جائے گا۔
حج تمتع کی نیت کرنے والے حاجیوں کو شوال، ذی القعد یا ذی الحج میں میقات پر پہنچ کر احرام پہننا چاہیے۔ اگر وہ احرام اپنے گھر سے پہن کر نکلتے ہیں تو اس صورت میں انہیں میقات پر پہنچ کر احرام کی نیت کر نا ہو گی۔ رسول اللہﷺ نے حج اور عمرے کے لیے مختلف ممالک اور شہروں سے آنے والوں کے لیے مختلف مقامات کو میقات مقرر فرمایا۔ حج تمتع کی نیت کرنے والا شخص جب احرام پہننا چاہے تو اس کو غسل کرنے کے بعد دو اَن سلی چادریں پہن لینا چاہئیں اور ایسے جوتے پہننے چاہئیں جن میں اس کے ٹخنے ننگے ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تمہیں تہہ بند، چادر اور جوتوں میں احرام باندھنا چاہیے۔ اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہن لو لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لو۔ مسلم شریف میں حدیث مذکور ہے، حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جسے جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے اور جسے تہہ بند نہ ملے وہ پائجامہ پہن لے۔
احرام باندھنے کے ساتھ ہی بہ آواز بلند تلبیہ پڑھنا چاہیے۔ تلبیہ کے الفاظ کا سلیس ترجمہ یہ ہے:
''حاضر ہوں اے اللہ، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ہے، بے شک ہر قسم کی تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور بادشاہت بھی تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے‘‘۔
تلبیہ پڑھنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت کا سوال کرنا چاہیے اور (جہنم کی) آگ سے پنا ہ مانگنی چاہیے، اس لیے کہ یہ عمل مسنون ہے۔ بلند آواز سے تلبیہ پڑھنے سے حج اورعمرے کے اجر و ثواب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مسجد الحرام میں داخل ہوتے ہوئے وہی دعا مانگنی چاہیے جو رسول اللہﷺ مساجد میں داخل ہوتے ہوئے مانگتے کہ ''اللہ کے نام سے داخل ہوتا ہوں، اللہ کے رسولﷺ پر سلام ہو۔ اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لیے کھول دے‘‘۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے حج کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بتایا کہ جب رسول کریمﷺ مکہ میں تشریف لائے تو سب سے پہلے آپﷺ نے وضو کیا، پھر بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ طواف کی ابتداء حجراسود کو بوسہ دینے، چھونے یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے ہوتی ہے۔ طواف سات چکروں میں مکمل کیا جاتا ہے اور یہ سات چکر گھڑی کی سوئیوں کی حرکت سے الٹی جہت پر لگائے جاتے ہیں۔ طواف کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین چکر تیزی سے اور باقی چکر عام رفتار سے مکمل کیے جائیں۔
رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان ''ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاٰخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ کا کثرت سے ورد کرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہو جائیں تو اس کے بعد مقامِ ابراہیم پر آکر دو نوافل ادا کرنے چاہئیں اوراگر مقامِ ابراہیم پر جگہ نہ مل سکے تو اس جگہ کے دائیں، بائیں یا عقب میں جہاں بھی جگہ ملے دو نوافل ادا کر لیں۔ طواف مکمل کرنے کے بعد حجاج کو صفا پہاڑی کا قصد کرنا چاہیے اور صفا پہاڑی پر پہنچ کر وہ دعا مانگنی چاہیے جو نبی کریمﷺ نے مانگی تھی۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ باب الصفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔ جب پہاڑی کے قریب پہنچے تو آپﷺ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: ''بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: میں سعی کی ابتدا اسی پہاڑی سے کرتا ہوں جس کے ذکر سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابتدا کی ہے۔ پس آپ ﷺ نے سعی کی ابتدا صفا سے کی۔ آپﷺ صفا پہاڑی کی اتنی بلندی پر چڑھے کہ بیت اللہ شریف نظر آگیا پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی توحید اور تکبیر ان الفاظ میں بیان فرمائی: ''اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہی اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے‘ اس نے وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تمام لشکروں کو تنہا شکست دی‘‘۔ اس کے بعد آپﷺ نے دعا فرمائی اور یہ عمل آپﷺ نے تین مرتبہ کیا۔ صفا پر کی جانے والی دعائوں سے سعی کا آغاز ہوتا ہے اور حاجی مروہ تک جاتا ہے۔ صفا کی طرف جاتے ہوئے جب نشیبی علاقہ آئے تو حاجی کو تیز قدم اٹھانے چاہئیں اور جب نشیبی علاقہ ختم ہو جائے تو حاجی کو رفتار دوبارہ معمول پر لے آنی چاہیے۔ تیز رفتار سے چلنے والے علاقے کے تعین کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان چھت پر سبز نشان لگا دیے گئے ہیں، ان نشانات کے درمیان تیز چلنا چاہیے اور باقی حصے میں آرام سے چلنا چاہیے۔ اگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے کوئی تیز نہ چل سکے تو آرام سے چلنا بھی درست ہے۔ صفا سے مروہ تک ایک چکر اور مروہ سے صفا تک دوسرا چکر مکمل ہوتا ہے۔ ان چکروں کے درمیان حاجی کوکثرت سے اللہ کا ذکرکرنا چاہیے۔ جب سات چکر مکمل ہو جائیں تو حاجی کو اپنے بال منڈوانے یا کتروانے چاہئیں اور خواتین کو سر کے بال اکٹھے کرکے آخر سے کاٹ یا کٹوا لینے چاہئیں۔ بال کٹوانے کے بعد عمرہ مکمل ہو جاتا ہے اور حاجی عمرے کا احرام اتارکر احرام کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
8 ذوالحجہ تک حاجی کو چاہیے کہ کثرت سے دعائیں، استغفار، درود شریف کا ورد، بیت اللہ شریف کا طواف کرتا رہے۔ جب 8 ذوالحجہ آ جائے تو حاجیوں کو اپنی قیام گاہوں میں ہی دوبارہ احرام باندھ لینے چاہئیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے میقات کے اندر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی رہائش گاہ سے احرام باندھیں، حتیٰ کہ مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر لوگ مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھیں۔ احرام باندھنے کے بعد حاجیوں کو ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضرت جابرؓ سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ جب یوم ترویہ آیا تو صحابہ کرامؓ نے مکہ مکرمہ سے ہی احرام باندھا اور منیٰ کے لیے روانہ ہوئے۔ رسول کریمﷺ سواری پر نکلے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں، پھر تھوڑی دیر رکے‘ یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔ اگرچہ 8ذوالحجہ کو ظہر سے قبل منیٰ پہنچنا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص وقت پر نہ پہنچ سکے تو بھی اس کا حج ادا ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ سے جب منیٰ پہنچیں تو ایک تہائی رات بیت چکی تھی۔ 8ذوالحجہ کو منیٰ پہنچنے کے بعد پانچ نمازوں کی ادائیگی مکمل ہونے پر 9ذوالحجہ کا آغاز ہو جاتا ہے۔ (جاری)
عرفات میں وقوف
۔8۔ذی الحجہ کو نمازِ ظہرکے وقت منیٰ میں داخل ہونے سے لے کر 9 ذی الحجہ کی صبح نمازِ فجر تک 5 نمازیں منیٰ میں ادا کرنا مسنون ہے۔ جب 9 ذی الحجہ کو سورج طلوع ہو جائے، تو اس کے بعد تمام حاجیوں کو میدانِ عرفات کا قصد کرنا چاہیے۔ میدانِ عرفات کی طرف جاتے ہوئے بلند آواز سے تلبیہ یا تکبیرات کا ورد کرنا چاہے۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے نکلے، ہم میں سے کوئی تلبیہ کہہ رہا تھا اور کوئی تکبیر۔
منیٰ سے میدانِ عرفات کا قصد کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ زوال آفتاب تک وادیٔ نمرہ میں رُکے تھے اور خطبہ دینے کے بعد آپﷺ ظہر اور عصرکی نماز ادا کر کے میدانِ عرفات میں داخل ہوئے تھے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں فرماتے ہیں: ''پھر رسول اللہﷺ (منیٰ سے عرفات کی سمت چلے تو قریش کاگمان تھاکہ نبی کریمﷺ مزدلفہ ہی قیام فرمائیں گے جیسا کہ قریش زمانۂ جاہلیت میں کیا کرتے تھے) لیکن آپﷺ آگے تشریف لے گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے جہاں وادیٔ نمرہ میں آپ کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا۔ آپﷺ نے وہاں قیام فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے اپنی اونٹنی قصویٰ کو تیارکرنے کا حکم دیا۔ آپﷺ اس پر سوار ہوکروادیٔ نمرہ کے بیچ میں تشریف لائے۔ وہاں آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا‘‘۔
نبی کریمﷺ کا یہ خطبہ‘ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے معروف ہے۔ اس خطبہ میں آپ نے دینی اور دنیاوی اعتبار سے اپنی امت کی رہنمائی کے لیے بہت سے اہم ارشادات فرمائے۔ آپ نے اپنی امت کو یہ پیغام دیا کہ میں تم میں دوچیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں‘ تم جب تک ان کو تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے؛ ایک اللہ کی کتاب، دوسری میری سنت ہے۔ آپﷺ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کے ساتھ۔ آپﷺ نے جائز اور معروف کاموں میں حکمرانوں کی تابعداری کا حکم دیا‘ چاہے حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ آپﷺ نے اس موقع پر عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرمائی، آپﷺ نے اس موقع پر سودی نظام کے کلی خاتمے کا اعلان کیا اور جاہلیت کی قتل و غارت گری کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے مسلمان کے خون کو انتہائی مقدس قرار دیا اور کسی بھی طور اس کی حرمت کی پامالی کی اجازت نہ دی۔
پھر اذان اور اقامت ہوئی، آپﷺ نے ظہرکی نماز پڑھائی، دوبارہ اقامت ہوئی۔ آپﷺ نے عصرکی نماز پڑھائی۔ ان دونوں نمازوں کے درمیان آپﷺ نے کوئی نماز ادا نہیں کی، پھر آپﷺ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور عرفات میں کھڑے ہونے کی جگہ تشریف لائے۔ حج کے خطبہ کو نہایت توجہ کے ساتھ سننا چاہیے لیکن اگر ہجوم کی وجہ سے خطبہ حج نہ سنا جا سکے تو خاموشی کے ساتھ خطبہ کی طرف متوجہ رہنا بھی کفایت کرے گا۔ اگرچہ میدانِ عرفات میں ظہر اور عصرکی نمازکی ادائیگی کے بعد داخل ہونا مسنون اور افضل عمل ہے لیکن اگر رش اور مجبوری کے سبب کوئی شخص تاخیر سے میدانِ عرفات میں داخل ہو تو اس کاحج ادا ہو جائے گا۔
سنن نسائی میں حضرت عبدالرحمن بن یعمرؓ سے روایت نقل کی گئی ہے، آپؓ کہتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کے پاس تھا کہ کچھ لوگ آئے اور حج کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: حج عرفات میں ٹھہرنے کا نام ہے جو شخص مزدلفہ کی رات یعنی 9اور 10ذی الحج کی درمیانی رات طلوع فجر سے پہلے عرفات میں پہنچ جائے اس کاحج ادا ہو جائے گا۔
نمازِ ظہر اور عصرکی ادائیگی کے بعد جبل رحمت کے قریب آنا چاہیے‘ اگر جگہ نہ ملے تو میدانِ عرفات میں کسی بھی جگہ وقوف (رُکنا‘ قیام کرنا) کرنا درست اور جائز ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہاں قربانی کی ہے اور منیٰ کا میدان سارے کا سارا قربانی کی جگہ ہے لہٰذا تم لوگ اپنی قیام گاہوں پر قربانی کر لو اور میں نے یہاں پر وقف کیا اور میدانِ عرفات سارے کا سارا وقوف کی جگہ ہے۔ میدان عرفات میں قبلہ رُو ہو کر کھڑے ہونا سنت ہے۔
مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبداللہؓ حجۃ الوداع والی حدیث میں روایت فرماتے ہیں: نبی کریمﷺ قبلہ رو ہوئے اور آپﷺ نے غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔ میدانِ عرفات میں حاجی کو کثرت سے دعا مانگنی چاہیے۔ دعا کے لیے ہاتھوں کو اٹھانا بھی سنت ہے۔
سنن نسائی میں حدیث ہے: حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں عرفات میں نبی کریمﷺ کے پیچھے تھا۔ آپﷺ نے دعا مانگنے کے لیے دونوں ہاتھ اٹھا رکھے تھے۔ اسی دوران آپ کی اونٹنی کی نکیل آپﷺ کے دست مبارک سے چھوٹ گئی تو آپﷺ نے ایک ہاتھ سے اس کی نکیل تھام رکھی تھی اور دوسرا ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے رکھا۔ وقوفِ عرفات کے دوران حاجیوں کو اس بات کی تحقیق بھی کر لینی چاہے کہ وہ میدانِ عرفات میں قیام پذیر ہوں۔ اگر وہ عرفات کے میدان کے بجائے وادیٔ نمرہ میں ہی ٹکے رہتے ہیں تو اس سے وقوفِ عرفات کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔
امام طحاویؒ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: میدانِ عرفات سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادی عرنہ یعنی نمرہ سے بچو اور مزدلفہ سارے کا سارا موقف ہے لیکن وادیٔ محسر سے بچو اور منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔
میدانِ عرفات میں اگرچہ بہت سی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن میدانِ عرفات کی بہترین دعا یہ ہے ''لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئٍ قدیر‘‘
رسول اللہﷺ نے اس دعا کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ دعا یوم عرفہ کی بہترین دعا ہے اور یہ وہ بہترین کلمات ہیں جو نبی کریمﷺ اور آپﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کرام نے کہے تھے۔ دعا کا ترجمہ کچھ یوں ہے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ اکیلا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ بادشاہت اور تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
یوم عرفہ آگ سے برأت کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ اس دن کثیر تعداد میں اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں۔ مسلم شریف میں روایت ہے‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ عرفہ کے علاوہ کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کثرت سے بندوں کو آگ سے آزاد کرے۔ اس روز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے بہت قریب ہوتا ہے اور فرشتوں کے سامنے ان کی وجہ سے فخر کرتا ہے اور فرشتوں سے پوچھتا ہے ''(ذرا بتائو تو) یہ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟‘‘
وقوفِ عرفات کا دن حاجیوں کے لیے تو روزے کا دن نہیں ہوتا؛ تاہم عام مسلمانوں کواس دن روزہ رکھنے کا بہت زیادہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ گزشتہ ایک برس اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔
عرفات میں وقوف کے دوران جب سورج ڈوب جاتا ہے تو مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بجائے عرفات سے کوچ کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حج کا ایک بڑا درس اتباع رسول اللہﷺ ہے۔ رسول اللہﷺ عام ایام میں سورج ڈوبنے پر نمازِ مغرب ادا کرتے تھے‘ اس لیے مسلمان بھی سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں لیکن میدانِ عرفا ت میں آپﷺ نے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا نہ کی‘ اس لیے مسلمان بھی آپﷺ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے سورج ڈوبنے پر مغرب کی نماز ادا کرنے کے بجائے مزدلفہ کی طرف چل پڑتے ہیں۔
مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز یں ادا کرنا چاہئیں۔ نبی کریمﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز ادا فرمائی اور طلوعِ فجر تک آرام فرمایا۔ جب صبح نمودار ہوئی تو آپﷺ نے اذان اور اقامت کے بعد فجرکی نماز ادا فرمائی‘ پھر اپنی اونٹنی قصویٰ پر سوار ہوکر مشعر الحرام تک تشریف لائے اور قبلہ رخ ہوکر دعائیں مانگیں‘ تکبیر وتہلیل کی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت بیان فرمائی حتیٰ کہ صبح روشن ہوگئی۔ پھر آپﷺ سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔
خواتین، بچوں اور بوڑھے افراد کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ وقت سے پہلے بھی مزدلفہ سے کوچ کر سکتے ہیں۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھاری بھرکم خاتون تھیں۔ انہوں نے رسول اللہﷺ سے رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے کی اجازت چاہی تو نبی کریمﷺ نے ان کو اجازت دے دی۔ رسول اللہﷺ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آ تے ہوئے بڑے سکون اور وقار سے چلے اور لوگوں کو بھی سکون سے چلنے کا حکم دیا، تاہم آپﷺ وادیٔ محسر سے تیزی کے ساتھ گزرے، وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان میں وہ وادی ہے جہاں اصحابِ فیل پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے وہاں سے لوگوں کو جلد گزرنے کا حکم دیا۔ مزدلفہ سے منیٰ کی طرف آتے ہوئے تلبیہ کو جاری رکھنا چاہیے اس لیے کہ نبی کریمﷺ رمی کرنے تک بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے رہے۔
یوم النحراور ایام تشریق
۔10 ذوالحجہ‘ حجاج اور تمام مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اس دن حاجی میدانِ منیٰ میں اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سابق اُمتوں پر بھی قربانی کو لازم کیا تھا اور واجب قرار دیا تھا کہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ قربانی کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن اسے اپنے کردار اور اعمال سے جس قدر روشن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا‘ اس کی مثال ان سے پیشتر نہیں ملتی۔ بڑھاپے کے عالم میں اللہ تعالیٰ سے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسا حلیم بیٹا عطا فرما دیا۔ بیٹا ابھی گود میں ہی تھا کہ اللہ کے حکم پر جناب ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب وگیاہ وادی میں تنہا چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ اور جناب اسماعیل علیہ السلام کے لیے چشمۂ زمزم رواں فرمایا اور اچھے رفقا اور ساتھی بھی عطا فرما دیے۔
جب اسماعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے تو سیّدنا ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ جناب اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو اپنے خواب سے آگاہ کیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے پورے خلوص اور احترام سے کہا: اے میرے بابا آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور جناب اسماعیل علیہ السلام نے جب کامل تابعداری کا ذہن بنا لیا تو جناب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل لٹایا‘ جب آپ چھری چلانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو آواز دی کہ آپ نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے جناب اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے آنے والے جانور کو ذبح کروا دیا۔
یوم النحر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد گار ہے۔ حضرت رسول اللہﷺخود بھی قربانی کرتے رہے اور آپؐ نے اپنی امت کو بھی قربانی کرنے کی تلقین کی۔ حضرت رسول اللہﷺنے زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف طرح کی قربانی کی۔ کشادگی ہوئی تو سو اونٹ بھی قربان کیے‘ جب عسرت کے ایام آئے تو دو مینڈھے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ذبح کیے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو جانوروں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کرنے والے کا تقویٰ پہنچتا ہے‘ اس لیے جب بھی کوئی شخص قربانی کرنے کے لیے جانور کو لٹائے تو اس کو چھری صرف جانور کے گلے پر نہیں چلانی چاہیے بلکہ یہ چھری جھوٹی امنگوں، غلط آرزوئوں اور سرکش خواہشات پر بھی چلنی چاہیے۔
یوم النحرمیں جمرات کو کنکریاں مارنا،اپنے سرکے بالوں کو مونڈنا اور طوافِ زیارت کرنا بھی شامل ہے۔ ان کی مسنون ترتیب یہ ہے کہ پہلے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماری جائیں، اس کے بعد قربانی کی جائے‘ اس کے بعد حجامت کی جائے اور اس کے بعد طوافِ زیارت کیا جائے۔ اگرچہ یہ ترتیب افضل ہے لیکن اگر کوئی غیر ارادی طور پر اس کا اہتمام نہ کر سکے تو شریعت اس کا مواخذہ نہیں کرتی‘ اس لیے کہ رسول اللہﷺ نے اس ترتیب پر سختی نہیں برتی۔
یوم النحرکو ماری جانے والی کنکریوں کی وضاحت کچھ یوں ہے: جب حاجی مزدلفہ میں 9ذوالحجہ کی رات وقوف کرتا ہے تو اس کو وہاں سے چنے کے حجم کے برابر کی سات کنکریاں چن لینی چاہئیں۔
سنن نسائی میں حدیث ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ میں نے آپﷺکے لیے سات کنکریاں اکٹھی کیں جنہیں دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکا جا سکے۔ جب وہ کنکریاں آپؐ کے ہاتھ میں رکھ دیں تو آپ ؐنے فرمایا: ہاں ایسی ہی کنکریاں ٹھیک ہیں اور آپ ؐنے یہ بھی فرمایا کہ دین میں غلو کرنے سے بچو، تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کیاتھا۔
بیمار بوڑھوں اور بچوں کی طرف سے صحت مند نوجوان کنکریاں مار سکتے ہیں۔ کنکری جمرہ عقبہ کو نشانہ بنا کر مارنا چاہیے۔ جب تک رسول اللہﷺ نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں نہیں مارنا شروع کیں اس وقت تک آپ تلبیہ کہتے رہے اور جب کنکریاں مارنے کی باری آئی تو آپ نے ہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا۔ اس رمی کا بنیادی مقصد بھی اللہ کا ذکر کرنا ہی ہے۔
10ذوالحجہ کو طواف زیارت کرنے کے بعد حاجی پر احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ایام تشریق 10ذوالحجہ کے بعد کے تین دن ہیں۔ ان ایام میں کم از کم دو دن منیٰ میں گزارنے ضروری ہیں اوربہتر ہے کہ تین دن ہی منیٰ میں گزارے جائیں۔ اگر کوئی شخص کسی مجبوری کی وجہ سے 10ذوالحجہ کو طواف زیارت نہیں کر سکا تو وہ ایام تشریق میں بھی طوافِ زیارت کر سکتا ہے۔ طوافِ زیارت کے بعد حاجی کے لیے حج کی سعی کرنا بھی ضروری ہے اور اس کوصفا اور مروہ کی سعی اسی طرح مکمل کرنی چاہیے جس طرح اس نے عمرے کی سعی کی تھی۔
طوافِ زیارت اور حج کی سعی کرنے کے بعد حاجی کے لیے منیٰ میں واپس آنا ضروری ہے۔ اگر کوئی خاص مجبوری ہو تو ایام تشریق کے دوران مکہ مکرمہ میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔ مسلم شریف کی ایک روایت میں ایام تشریق کو کھانے پینے کے دن اور ایک روایت میں اللہ کا ذکر کرنے کے دن قرار دیا گیا ہے۔ ان ایام میں بیت اللہ شریف کا جس حد تک ممکن ہو طواف کرنا چاہیے اور راتوں کو کثرت سے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور یاد میں مشغول رہنا چاہیے۔
ان ایام میں حاجیوں اور عام مسلمانوں کے لیے روزہ رکھنا درست نہیں تاہم جو شخض حج تمتع کر چکا ہو اور اضافی عمرہ کرنے کے بعد وسائل کی تنگی کی وجہ سے قربانی کرنے سے قاصر ہو تو ایسے شخص کو ایام تشریق کے دوران تین روزے رکھنے چاہئیں اور اپنے وطن واپس آکر اس کو سات روزے مزید رکھنے چاہئیں۔ یہ دس روزے اس کی قربانی کا کفارہ بن جاتے ہیں۔
عرفات، مزدلفہ اور منیٰ بنیادی طور پر کھلے میدان ہیں۔ ان میدانوں میں خیمہ زن حاجی مہاجروں اور مسافروں کی طرح کھلے آسمان کے نیچے قدرتی ماحول میں جب اپنے اللہ سے رازونیاز کی باتیں کرتا ہے تو اس پر اپنی اور کائنات کی بے وقعتی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اسی فطری ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اجرامِ سماویہ کی حقیقت کا تجزیہ کیا تھا اور ستارے، چاند اورسورج کو ڈوبتا ہوا دیکھ کر کہا تھا کہ میں اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف موڑتا ہوں جو زمین اور آسمان کا بنانے والا ہے اور آپ نے ہرچیزسے اپنا تعلق منقطع کر کے صرف خالقِ کل اور مالکِ کل سے اپنا تعلق استوار کر لیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہلِ ایمان کی اس کیفیت کا ذکر کیا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوئوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کر کے یہ بات کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! آپ نے جو کچھ بھی بنایا ہے باطل نہیں بنایا، آپ کی ذات پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔
ایامِ تشریق کے گزرنے پر حج کے جملہ ارکان مکمل ہو جاتے ہیں لیکن اپنے وطن واپسی سے قبل ضروری ہوتا ہے کہ حاجی بیت اللہ شریف کا الوداعی طواف کرے؛ البتہ حائضہ کو اس کی رخصت دی گئی ہے۔ طوافِ وداع حاجی کے لیے جہاں باعث اطمینان و سکون ہوتا ہے کہ وہ ارکانِ حج کو مکمل کر چکا ہے، وہیں طوافِ و داع اس کے لیے باعثِ غم بھی ہوتا ہے کہ اللہ کے گھر سے جدائی کا وقت آن پہنچا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جنہوں نے تیرے گھر کی زیارت نہیں کی‘ ان کو اپنے گھر کی زیارت سے شرف یاب فرما اور جن لوگوں نے زیارت کی ہے ان کو دوبارہ زیارت کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہم تمام مسلمانوں کو ارکانِ اسلام کو سمجھنے اور ان پر عمل پیراہونے کی توفیق عطا فرما۔ آمین!