عید الالضحیٰ ،


امیر اور غریب کے ملاپ کاذریعہ

تحریر : مولانامرزا محمد الیاس

عید الاضحی مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی اور ایثار کی علامت ہے۔ یہ اپنے اندر انسانی تربیت کا ایک اہم مقصد لیے ہوئے ہے، ایک ایسی تربیت جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے محبت کے جذبات بیدار کرتی ہے۔

اسے دوسرے کے قریب کرتی ہے۔ اور یوں پورے معاشرے کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ قربانی کے جانور کے تین حصے کر نے سے ہی ہمیں بہت بڑا سبق ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس دن ہمیں دوسروں کے قریب تر کرتاہے تاکہ ہم ان کے دکھوں کو پہچان سکیں
قربانی انفرادی عمل ہے لیکن گوشت کا بڑا حصہ عزیزو احباب اور غرباء و مساکین میں تقسیم کرنے سے یہ اجتماعی عمل بن جاتا ہے
ایک حصہ رشتہ داروں کا ہوتا ہے۔ اس میں سبق یہ ہے کہ ہمیں اپنے رشتہ داروں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ خواہ امیر ہو ں یا غریب رشتے رشتے ہی ہوتے ہیں ، انہیں قائم رہنا چاہیے۔ دوسرا حصہ غریبوں اور ناداروں کے لیے رکھنے سے ہمیں ان سے انسیت کا سبق ملتا ہے۔ یہ غریبوں کے لیے ایثار اور قربانی کے جذبات بیدار کرتا ہے۔ یہ جذبات محض عید الاضحی کے موقع پر ہی بیدار نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہمیں آج کے دن پوری مخلوق سے محبت کا درس دیتا ہے۔ پاکستان میں ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ کھانے کو روٹی ہے نہ پینے کو پانی۔ تعلیم کی سہولت میسر ہے نہ علاج معالجے کے لیے کسی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بیچارے تو بیماری سے لا علمی میں ہی مر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عید الاضحی کے دن ہمیں ان کے قریب تر کرتاہے۔ تاکہ ہم ان کے دکھوں اور غم کو پہچان سکیں۔ یہ آگاہی حاصل کرنے کے بعد ہم ان کے لیے کچھ کرنے کی کوشش بھی کر سکتے ہیں۔ تیسرا حصہ ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں یہ حکم دیتاہے کہ ہم خود کا بھی اتنا ہی خیال رکھیں جتنا ہم دوسروں کا رکھتے ہیں قربانی کے جانور کے تین یکساں حصے کرنے سے ہمیں معاشرے کے ان تین اہم طبقات سے یکساں سلوک کرنے کا حکم ملتا ہے۔ کتنا حسین یہ پیغام ہے۔ قربانی کے وقت ہر مسلمان خواہش رکھتا ہے اور اس کی یہ نیت ہوتی ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے، اس کی بزرگی اور اپنی بندگی کا اظہار کر رہا ہے۔ اس کی منزل تقویٰ اور اس کا حاصل سچی کامیابی اور اخروی فلاح ہے۔ اسی سارے عمل کا نام عید ہے۔
حضرت احمد بن اسحاقؒ فرماتے ہیں، میرا بھائی باوجود غربت، ہر سال بقرۂ عید میں قربانی کیا کرتا تھا، اسکے انتقال کے بعدمیں نے خواب دیکھا کہ قیامت برپا ہوگئی ہے اور لوگ اپنی اپنی قبروں سے نکل آئے ہیں، یکایک میرا مرحوم بھائی ایک اَبلق گھوڑے پر سوار نظر آیا، اسکے ساتھ اور بھی بہت سارے گھوڑے تھے۔ میں نے پوچھا اے میرے بھائی! اللہ تعالیٰ نے آپ کیساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہنے لگا: اللہ عزوجل نے مجھے بخش دیا۔ میں نے پوچھا کس عمل کے سبب؟ اس نے کہا ایک دن کسی غریب بڑھیا کو بہ نیت ثواب میں نے ایک درہم دیا تھا وہی کام آ گیا۔ میں نے پھر پوچھا یہ گھوڑے کیسے ہیں؟ وہ بولا یہ سب میری بقرہ عید کی قربانیاں ہیں اور جس پر میں سوار ہوں یہ میری سب سے پہلی قربانی ہے۔
عید خوشی لاتی ہے، غم دور کرتی ہے اور ہر ایک صاحبِ ایمان کے لیے یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ تنگی اور تونگری کا ملاپ ہو، امیر و غریب باہم ملیں، خوشیاں بانٹیں اور دکھ درد کریں۔دیکھا جائے تو یہ کام کسی اور وقت بھی ہو سکتے ہیں۔ ہر مسلمان ان کاموں کے کرنے سے ہی مسلمان نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ عمومیت اہمیت نہیں رکھتی۔ خصوصیت ہی حسن پیدا کرتی ہے۔ اس عید کی عمومیت یہ ہے کہ یہ ہر سال 10 ذی الحجہ کو آتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہزاروں سال پرانی سنتِ ابراہیمی کو زندہ کرتی ہے۔ گویا اس کا عنوان ہی زندگی ہے۔ یہ ایسی زندگی ہے جو محبت جگاتی ہے اور قربانی سکھاتی ہے۔
عیدالاضحیٰ کا دن اور دوسرے ایام التشریق قربانی کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں۔ اگر ہم اس سنت اور حکم کو دیکھیں جو اللہ کے رسول خاتم النبیین محمدﷺ نے ہمیں دیا ہے تو ہمارے گلی محلے، مساجد اور ادارے ایک ہی صدا سے یکم ذوالحجہ سے گونجتے رہنے چاہئیں، اگر اس سال ایسا نہیں ہو سکا توا گلے سال ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔وہ صدا تکبیر ہے۔ یہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے ہی تمہاری زبان کو ایک ذکر سے تر رہنا چاہیے۔ وہ ذکر ہے:اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔یہ اللہ کی بزرگی، کبریائی اور بڑائی کا اظہار بھی ہے اور اقرار بھی ہے۔ اسے بار بار پڑھتے رہنے اور بآواز بلند پڑھنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کا دل اس کی بڑائی کے اعلان سے مضبوط ہو۔ جب وہ قربانی دے لیں تو ان کے دل اس کی رحمت کے جذبے سے اور ذہن ایثار و محبت کے لطیف احساسات سے منور ہوں۔
قربانی انفرادی عمل ہے لیکن اس کا انعقاد اور قربانی کرنے کا عمل اس صورت میں انفرادی سے اجتماعی ہو جاتا ہے کہ گوشت کا بڑا حصہ عزیزو احباب اور غرباء و مساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس میں گھر کے افراد تو شرکت کرتے ہیں، باہر سے بھی شرکت ہوتی ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ جو قربانی کرے وہ اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرے یا کم از کم قریب رہے اور قربانی کے عمل کو دیکھے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ ابھرے اور ایثارو محبت کے لطیف احساس کو تقویت ملے تاکہ ایسا گھرانہ، علاقہ اور معاشرہ بنے جس میں اپنے مال سے دوسروں کی ضرورت پوری ہو اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے کی فضا پیدا کرنے کی روایت مضبوط ہو سکے۔
ذوالحجہ کے دس دن، جن میں سے آخری دن عیدالاضحی کا ہے، بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دس دنوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یکم ذوالحجہ سے 9 ذوالحجہ تک روزہ رکھا جائے، رات کو قیام کیا جائے، اذکار اور تلاوت قرآن میں وقت صرف کیا جائے۔ اگر نو دن روزہ نہ رکھا جاسکے تو 9 ذوالحجہ کا روزہ ضرور رکھا جائے۔ یہ بھی نفلی روزہ ہے، فرض نہیں ہے۔ لیکن اس دن روزہ رکھنے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اچھے اعمال کے لیے ان دس دنوںکے عمل سے بہتر کوئی اور دن اللہ کے نزدیک نہیں ہیں۔ حضرت رسول پاک ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کیا جہاد بھی نہیں؟آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ جہاد بھی ان دنوں سے زیادہ اللہ کواتنا افضل اور محبوب نہیں ہے۔ گویا ان دس دنوں کی اہمیت اس سے معلوم کی جاسکتی ہے کہ رمضان المبارک اور اس کے آخری عشرے اور لیلۃ القدر سے بھی ان دنوں میں اللہ سے تعلق قائم کرنا زیادہ افضل ہے۔
حضور اکرم ﷺ عید کے دن خوبصورت اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے ۔ یمن کی بنی ہوئی چادر زیب تن فرماتے ۔ آپؐ نماز عید عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے ۔ نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے اور بعد از نماز خطبہ ارشاد فرماتے۔عیدین کے خطبہ میں پہلے تکبیر سے ابتدا کریں۔ اول خطبہ میں نو مرتبہ اللہ اکبر کہے اور دوسرے خطبہ میں سات مرتبہ۔
عید الاضحی کے دن یہ چیزیں مسنون ہیں:
اس دن نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن اور تسبیحات کے بعد سورج نکلتے ہی عازمین حج میدان عرفات کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بہت روح پرور منظر ہوتا ہے۔ لاکھوں انسان دو چادروں میں ملبوس اور خواتین اپنے لباس حج کے احرام کی شرائط کے مطابق ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
جب حاجی 10 ذوالحجہ کو منیٰ اور مزدلفہ سے عازمین واپس ہوتے ہیں تو شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔ علماء و محدثین نے لکھا ہے کہ یہ کنکریاں مارتے ہوئے مسلمان یہ عہد کرتا ہے کہ اس کے اپنے اندر کی برائی کو کنکریاں مار کر ختم کرنے کااس نے آج عہد کیا ہے ، وہ اس پر کاربند رہے گا۔ اس طرح ان دس دنوں میں یومِ حج اور یومِ النحر آتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ یہ عہد فراموش کر دیتے ہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے بعد انسان کو ویسا بن جا نا چاہیے جیسا پیدائش کے وقت تھا ۔ پاک اور صاف مگر ایسا نہیں ہوتا ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں برائیاں کسی طور پر کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ ہزاروں لاکھوں لوگ ہر سال حج کرتے ہیں ۔ اس مقصد کی تکمیل ہمیں معاشرے میں بھلائی کی صورت میں بھی دکھائی دینا چاہیے ایسا کیوں نہیں ہوتا۔
نبی آخر الزماں محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق ہر قربانی دینے والے سے کہا گیا ہے کہ وہ یکم سے 10 ذوالحجہ تک ناخن نہ ترشوائے، بال نہ کاٹے۔ حضور ﷺ اس کا اہتمام کرتے رہے ہیں مسلمان بھی اس کا اہتمام کرتے ہیں،حتیٰ کہ جو مسلمان قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بھی اس پر عمل کرتے ہیں تاکہ وہ کم از کم ان مسلمانوں کی مشابہت کر سکیں جو حج پر گئے ہیں یا قربانی کرنے والے ہیں۔ جب نبی آخر الزماں محمد ﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ اہل مدینہ میں عجیب عادت تھی۔ وہ جانوروں کے مختلف حصوں کو ذبح کیے بغیر اتار کر کھا جاتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ زندہ بکرے یا بکری کی ران اتار لیتے یا اونٹ کے جسم سے زیادہ گوشت والی جگہ کاٹ لیتے اور اسے کھانے کے کام لاتے تھے۔ جب ان جانوروں کے جسم سے گوشت اتار لیا جاتا تو انہیں مردار کہا جاتا تھا۔
اسلام نے ان طریقوں کو ظالمانہ قرار دیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جانوروں کے ساتھ یہ سلوک بند کریں۔ جب انہیں جانور قربان کرنے کا حکم دیا گیا تو بڑے واضح اصول اور احکامات بھی دیئے گئے۔اسلام نے جانور کو جھٹکا دینے کے طریقے سے مارنے سے سختی سے روکا ہے۔ جھٹکا سے مارنے والے جانور کی ریڑھ کی ہڈی پر زور سے ضرب لگاتے ہیں جس سے جانور فوراً مر جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود خون کا نکاس نہیں ہوتا۔ ریڑھ کی ہڈی کٹ جانے سے شریانیں خون جم جانے سے بند ہو جاتی ہیں۔
قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں کے بارے میں بعض حلقے کہتے ہیں کہ اس طرح ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے یا یہ کہ یہ غیر ضروری عمل ہے۔ اس سے قطع نظر یہ بات بہت اہم ہے کہ ہر سال گزشتہ سال کی نسبت زیادہ جانور مویشی منڈی میں فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔ کبھی عید کے تیسرے دن مویشی منڈی جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو دیکھ کر حیرت ہوگی کہ اکا دکا جانور باقی رہ گئے ہیں۔ ان میں بھی خاصی تعداد ان جانورو ں کی ہے جن میں کوئی ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے وہ قربانی کے قابل نہیں رہے۔
ہماری معیشت میں 3 کروڑسے زائد مویشی، سوا 3 کروڑکے قریب بھینسیں،9 کروڑبکرے اوربکریاں اور 9 لاکھ اونٹ لائیو سٹاک میں شامل ہیں۔ گوشت کی پیداوار 44.20 لاکھ ٹن ہے اس کے باوجود ملک میں لائیو سٹاک کی رسد کم ہے اور سپلائی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ ہر سال بہت بڑی تعداد میں مویشی فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں اور عید کے دوسرے دن ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ ان کی فروخت برقرار رہتی ہے جس سے ان کی قیمتوں پر پہلے سے زیادہ اثرات پڑتے ہیں۔ اسی عید کے حوالے سے دیکھ لیں کہ بہت عام سا بکرا بھی 25,30 ہزار روپے سے کم میں نہیں ملتا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ لوگ اب فراغت کے لمحات ڈھونڈتے ہیں۔ ریڈی میڈ قربانی چاہتے ہیں۔ ان کی اپنی رائے اور پسند ہے۔ اسلام کا حکم یہ ہے کہ خود قربانی کریں، جانور کے حلق پر اللہ اکبر کہہ کر چھری چلائیں یا کم از کم پاس موجود رہیں۔ جب ہم ریڈی میڈ قربانی کرتے ہیں تو ان لمحات کو کھو دیتے ہیں۔ ہم اس جذبے کو کس حد تک اپنے اندر اجاگر کر پاتے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ کی رضا جوئی کریں۔ اس راہ میں خرچ کریں اور قربانی بھی کریں۔اس بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔