نیکی اوربدی کے راستے۔۔۔۔۔ تحریر : علامہ ارشد حسین ثاقب
Naiki.jpg
ہرانسان کا کوئی نصب العین ہونا چاہیے اگر کسی کا نصب العین نہ ہو تو پھر نیک آدمی کو کس طرح نیکی پر آمادہ کیا جا سکے گا؟ برے شخص کو برائی سے کس طرح روکا جا سکے گا؟ اس لیے کہ نیک کام کی خواہش اور برے کام سے پرہیز جب ہی ممکن ہے
جب کوئی نصب العین ہو۔ اگر بے مقصد زندگی گزاری جائے تو پھر یہ انسان، انسانیت کے دائرے سے باہر نکل جاتا ہے جبکہ ایک بے شعور بچہ بھی ماں کی گود میں بے مقصد نہیں روتا۔ یا اسے بھوک لگتی ہے یا کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پھر ایک عقلمند انسان بے مقصد زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں کر سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اسی بات کو سوالیہ انداز میں انسان سے پوچھا:
وھدینہ النجدین (البلد)
ترجمہ:اور ہم نے اس (انسان ) کو دونوں راستے دکھادئیے ۔
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (الدھر: ۳)
ترجمہ :ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے کہ یا وہ شکر گذاربن کر رہے یا نا شکر ابن کر۔
جوچاہے ایمان لے آئے،جوچاہے انکار کر دے!
فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (سورۃ الکہف: ۲۹)
ترجمہ: پس جوچاہے ایمان لے آئے اور جوچاہے کفر اختیار کرلے ۔یا’’کوئی ایمان لے آتا ہے کوئی کفر اختیار کرتا ہے ‘‘۔
فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ(البقرہ: ۲۵۳)
ترجمہ:سوان میں سے کچھ ایمان لے آئے اور کچھ نے انکار کر دیا۔
مذکور ہ بالا چاروں آیاتِ مبارکہ میں دوامور مشتر کہ طور پرسامنے آرہے ہیں (۱) یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سامنے ایمان اور کفر کے دومتضاد راستوں کی نہایت واضح، نہایت روشن حد بندی بھی کردی اور ایمان کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور کفر کے راستے سے منع بھی فرمایا ۔(۲) یہ کہ انسان کو ایمان یاکفر میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کے بارے میں پابندیا مجبورنہیں کیا بلکہ اسے پوری آزادی اور اختیار دے کر اپنے ارادے اور اختیار سے ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کے انتخاب کے لئے آزاد چھوڑدیا ۔ چنانچہ ان آیاتِ کریمہ میں تر تیب وار انہی دونوں امور کی وضاحت نہایت حسنِ تر تیب سے کچھ اس اندازمیں ہوئی ہے کہ
پہلی آیت میں فرمایا کہ ہم نے انسان کے سامنے (ایمان اور کفرکے ) دونوں راستے رکھ دیئے ہیں۔ دوسری آیت مبارکہ میں ان راستوں کی نشاندہی کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی بتلایا کہ ایمان کے راستے پر چلنا اللہ کی شکر گذاری اختیار کرنے کے مترادف اور کفر کی راہ اپنا نا اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کے مترادف ہے۔تیسری آیت کریمہ میں انسانی اختیار کا تذکرہ ہے کہ جوشخص چاہے اپنی مرضی اور ارادے سے ایمان لے آئے اور جو چاہے اپنی مرضی اور اختیار سے کفر پر قائم رہے ۔ یعنی ایمان لانے یا نہ لانے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی قسم کا جبر وکراہ شامل نہیں۔چوتھی آیت کریمہ میں اپنے ارادے اور اپنی مرضی کو صحیح یا غلط استعمال کرنے والے دو مختلف انسا نی طبقات کاذکر ہے کہ کچھ ایمان لے آئے ہیں اور کچھ اپنے کفر پر ہی جمے ہوئے ہیں ۔یہاں آخری دونوں آیات میں یہ بات خاص طور سے قابل غور ہے کہ ایک میں ’’من شاء‘‘کہہ کر واضح طور پر اعلان فرمایا کہ ’’جو چاہے ‘‘ایمان کا راستہ اختیا ر کرلے اور ’’جوچاہے ‘‘کفر کا راستہ اختیار کرلے ۔یہاں چاہت اور اختیار کو بندے کی طرف منسوب فرمایا اور اگلی آیت میں اس چاہت اور اختیار کے دونوں طرح کے انسانی استعمال کا بھی ذکر فرمادیا کہ کسی نے اپنی مشیت اور اختیار کو مثبت اور حق کی راہ اختیار کرنے میں استعمال کیا ،کسی نے منفی اور باطل کاراستہ منتخب کرنے میں استعمال کیا ۔لیکن ہر انسان نے ایمان کابھی اور کفر کا بھی راستہ منتخب اپنی مرضی سے ہی کیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،
ترجمہ :’’پس اللہ تعالی جس آدمی کو راہ پر لانا چاہتے ہیں اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور جسے راہ سے بھٹکا نا چاہتے ہیں اس کا سینہ تنگ ،بہت تنگ کر دیتے ہیں گویا وہ زبردستی آسمان کو چڑھ رہا ہے ۔اسی طرح اللہ تعالی عذاب ڈالتے ہیں ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے ‘‘۔(الانعام: ۱۲۵)
ایمان قبول کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی نصرت شرحِ صدرکی صورت میں شاملِ حال ہوجاتی ہے ۔اورجولوگ کفر کو کسی صورت چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، قبولیت کے دروازے اللہ کی طرف سے بھی ان پر بند ہوجاتے ہیں ،جس کی وجہ سے ان کے دل گھٹن اور تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،
ترجمہ :’’پس جس نے دیا ،اور جو ( اللہ سے ) ڈرتارہا اور جس نے اچھی بات کی تصدیق کی تواسے ہم آسانی والی چیز کے لئے آسان کر دیں گے اور جس نے بخل کیا ،بے پر وائی برتی اور اچھی بات کو جھٹلایا ،اسے ہم مشکل بات کے لئے آسان کردیں گے‘‘ ۔(اللیل: ۵تا۱۰)
سعادت وشقاوت ،خوش بختی وبد بختی اور کامیابی وناکامی کے اعتبار سے دوانسانی گروہوں کے خصائص اور انکے نتیجے میں دونوں گروہوں کے انجام وعواقب کا ذکر ہو رہاہے ۔دونوں گر وہوں کے تین تین اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ دونوں گروہوں کے تینوں اوصاف ایک دوسرے کے مقابلے میں ’’لف ونشرمرتب ‘‘کے طور پر مذکور ہیں۔ چنانچہ پہلے اور خوش نصیب گروہ کے تین اوصاف تو یہ ہیں کہ ایسے لوگ اللہ کی راہ میں (صدقاتِ واجبہ ونافلہ ) خرچ کرتے ،اللہ سے ڈرتے اور اس کی نافرمانی سے بچتے اور کلمہ ٔ اسلام کی تصدیق کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں جبکہ دوسرے اور بد بخت گروہ کے تین اوصاف یہ ہیں کہ یہ لوگ اللہ کے نام پر (صدقاتِ واجبہ ونافلہ ) کی ادائیگی میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں ،اللہ سے ڈرنے اور معصیت ونافرمانی سے بچنے کی بجائے الٹااللہ کے معاملے میںبے خوفی ولاپر واہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کلمہ اسلام کوجھٹلاتے ہیں ۔ان دونوں گروہوں کے انجام کے بارے میں فرمایا کہ پہلے گروہ کو ہم آسانی والی بات کے لئے آسان کر دیں گے ( فَسَنُیَسِّرُ ہٗ لِلْیُسْرٰ ی )اور دوسرے کو مشکل بات کیلئے آسان کر دیں گے ۔یہاں دوباتو ں کا سمجھنا ضروری ہے ۔(۱) یہ کہ ’’یسری ‘‘اور عسری ‘‘ سے مراد ابتدائی طور پر نیک اور بد اعمال ہیں اور ان کے نتیجے میں جنت اور جہنم! (۲) یہ کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو ہم نیک اعمال یا بداعمال کے لئے آسان کر دیں گے ،حالا نکہ اسلوبِ زبان کا تقاضاہے کہ یوں کہا جاتا کہ ہم نیک یا بداعمال ان کے لئے آسان کردیں گے ۔ کیونکہ آسان یا مشکل ہونا اعمال کی صفت ہے نہ کہ انسان کی! نحو ی زبان میں اس اسلوب کو ’’قلب ‘‘ کہاجاتاہے ۔
اس منفرد اور انوکھے اسلوب بیان کی حکمت مفسرین کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ان مذکورہ خصائل واعمال کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نیک اعمال بند ے کے لئے آسان ہو جائیں گے بلکہ ان کی بدولت انسان پر اللہ کی نصرت یا غضب کا ایسا تر تب ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پہلے تین اوصاف کی وجہ سے آدمی کے مزاج اور خمیر ہی کو خیر اور نیکی کے سانچے میں ڈھال دیتے ہیں جس کی وجہ سے بندہ خود خیر اور نیکی کے لئے آسان ہو جاتا ہے کہ خود بخود اسے قبول کرتا اور اپناتا چلا جاتا ہے۔ جبکہ اس سانچے میں ڈھلنے کی وجہ سے بد ی اور شر سے خود بخود بیزار ونفورہو تا ہے کہ اسے اپنانے کے تصور سے بھی اس کے رونگٹے کھڑے ہو نا شروع ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ دوسرے تین اوصاف کے حامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی کے غضب کا ایساترتب ہو تا ہے کہ بد ی اور شر اس کا خمیر اور فطرت ثانیہ بن جاتاہے ،جس کی وجہ سے وہ خود برائی کا متلاشی رہتا ہے۔ اور ڈھونڈ ھ کر اسے اپنا تا ہے جبکہ اس بد نصیبی کی وجہ سے خیر وسعارت کا ہر دروازہ وہ زبر دستی اپنے لئے بند کرتا چلا جاتا ہے ۔ اس بحث اور ان آیات مبارکہ کی صراحت سے گذشتہ نمبر پر گذرنے والی آیت کا مفہوم بھی واضح ہو گیا ہوگا کہ سورۃ الانعام میں جوارشادفرمایا گیا ہے کہ ہم ایک طبقہ کا دل اسلام کے لئے کھول دیتے ہیں اور ایک طبقہ کا دل تنگ کردیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’چونکہ ہم نے دل کھولا ،اس لئے اس نے اسلام قبول کیا اور ہم نے دل تنگ کر دیا ،اسلئے وہ اسلام قبول کرنے سے عاجز رہا‘‘ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایک طبقہ کے اعمال ایسے تھے جن سے راضی ہو کر ہم نے اس کا دل اسلام کے لئے کھول دیا اور ایک طبقہ کے اعمال ایسے تھے کہ انکے نتیجے میں ہم نے ان کے دل قبولیت اسلام کے حوالے سے تنگ کر دئیے یعنی اللہ کی طرف سے ایک طبقے کا سینہ کھولنا اور ایک طبقہ کا دل تنگ کرنا ان طبقات کے ایمان وکفر کا’’ سبب ‘‘نہیں بلکہ ان طبقات کے اعمال کا ’’نتیجہ‘‘ ہے !ارشاد باری تعالیٰ ہے،
ترجمہ
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی نے کلمہ طیبہ کی کیسی (اچھی) مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے، جس کی جڑ ( زمین میں ) خوب گڑھی ہوئی ہو اور شاخیں آسمان کی طرف ( بلند اٹھی ہوئی) ہوں۔ وہ ہر وقت اللہ کے حکم سے اپنا پھل دیتا ہو ۔اور اللہ تعالیٰ (ایسی) مثالیں اس لئے بیا ن فرماتے ہیں تاکہ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں) ۔ (ابراہیم: ۲۴تا۲۵)
ترجمہ
اور بر ے کلمہ کی مثال خراب درخت کی طرح ہے جسے زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے اور جسے کوئی پختگی وقرار حاصل نہ ہو )۔(ابراہیم: ۲۶)
کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ ٔ اسلام اور کلمہ ٔ خبیثہ سے مراد کلمۂ کفر ہے۔ اور ان دونوں کلمات ( یعنی اعتقادات ) کی دو درختوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔لیکن قرآن کریم میں دونوں (مشبہ بہ ) درختوں کا نام معرضِ اجمال میں چھوڑ تے ہوئے محض ان کے اوصاف کے تذکرہ پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔جبکہ ذکرِ اوصاف سے مقصود دونوں تشبیہات میں ’’وجہِ شبہ ‘‘کا واضح اور عیاں کرنا ہے۔رہا یہ سوال کے ان دونوں درختوں سے کون سے درخت مراد ہیں؟ سواس سلسلہ میں امام نسائی ،امام تر مذی ،امام ابن حبان کی وہ روایت جو انہوں نے بروایت حضرت انس بن مالک ؓمرفوعاً نقل کی ہے ،مراد کا تعین کرنے میں نہایت واضح ہے ۔حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا ’’(جس شجر ہ طیبہ کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اس) شجرہ طیبہ سے مراد کھجور کا درخت ہے اور ( جس شجرۂ خبیثہ کا ذکر آیا ہے اس ) شجر ہ ٔخبیثہ سے مراد حنظل (تھور) کا درخت ہے‘‘ ۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضور اقدس ﷺکی مجلس مبارک میں حاضر تھا کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ’’ درختوں میں سے ایک درخت ہے جو مؤمن کی مثال ہے۔ بتلاؤوہ کونسادرخت ہے‘‘ ؟ (امام بخاریؒ نے اس پر ان الفاظ کا اضافہ نقل کیا ہے کہ اس درخت کے پتے کسی بھی موسم میں نہیں جھڑتے ) حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میراجی تو چاہاکہ عرض کر دوں کہ یہ کھجور کا درخت ہے ۔لیکن میں بھی خاموش رہا ۔پھر حضور انورﷺنے خود فرمایا ،وہ کھجور کا درخت ہے۔(مسند احمد )
جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں گہری ہیں ،اسی طرح مؤمن کے قلب میں کلمۂ ایمان بھی گہرا ہوتا ہے کہ حوادث زمانہ وابتلائے دنیا اسے اس کے دل سے اکھاڑنہیں سکتے ۔اور جس طرح کھجور کی شاخیں بلند ی میں آسمان کو چھوتی اور اس کی طرف ( ہر دوسرے درخت کے مقابلے میں بالخصوص پھل دار درختوں کے مقابلے میں ) زیادہ اٹھی ہوئی ہوتی ہیں ،اسی طرح مؤ من کے اعمال بھی آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ۔بعض احادیث میں ہر پیر اور جمعرات کے روز اعمال کا اٹھایا جانا، جبکہ بعض میں روزانہ صبح وشام دوبار اٹھایا جانا مذکور ہے ۔اور جس طرح کھجور کا درخت سدابہا ر ہے اور اس کے پھل کا استعمال پھل لگنے سے لے کر پکنے تک مختلف طریقوں سے ہو تا رہتا ہے بلکہ اس پھل کو دوسرے پھلوں کے مقابلے میں سال بھر کے لئے نہایت آسانی وسادگی سے ذخیر ہ بھی کر لیا جاتا ہے، اسی طرح بندۂ مؤمن کے اعمال بھی سدابہار اور گردشِ لیل ونہار کی قید وبند سے آزاد اور ہمہ وقتی جاری وساری رہتے ہیں ۔جبکہ حنظل کا درخت جو کلمۂ کفر کی مثال ہے ، ہراعتبا ر سے غلاظت، ناپائیداری اور عدمِ افادیت کا مظہر ہے۔ جڑیں اس کی زمین کے اوپر ہوتی ہیں کہ ہلکی سی حرکت وجنبش یا ہوا کا ایک تھپیڑ ا اسے جڑسے اکھاڑ دینے کے لئے کا فی ہوجاتا ہے ۔نہ اس کا پھل کام کا نہ پھول، نہ یہ سایہ کا کام دیتا ہے۔اپنے بھائی سے خوش روئی سے ملنا بھی نیکی ہے۔ارشاد نبوی ﷺہے:
’’بدخلق، بدخو، سخت گو آدمی جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ (عن حارثہ رواہ ابوداؤد)
خدمت خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کرنا، اس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جانور بھی شامل ہیں۔ خدمت خلق میں بنیادی بات یہ ہے کہ خدمت محض خدمت کے جذبہ سے ہو کوئی ذاتی غرض نہ ہو۔ شہرت، دکھلاوا اور نام و نمود شامل نہ ہو دادو تحسین، لوگوں کی واہ واہ مقصود نہ ہو۔ اگر کوئی شخص خدمت خلق سے متعلق کام کا ملازم ہو اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہو تب بھی وہ اپنا کام دیانتداری سے کرے اور عام شہریوں کو زیادہ سے اچھے سلوک سے پیش آئے اورشہریوں سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی فکر میں رہے تو یہ بھی خدمت خلق کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔خدمت خلق بنیادی طور پر تین انداز سے کی جا سکتی ہے ایک تو مالی خدمت، یعنی اپنا مال دوسرے ضرورت مند انسانوں پر خرچ کرنا اور دوسرا انداز بدنی خدمت کا ہے یعنی اپنے جسم سے ایسے کام انجام دینا جس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچتا ہو جیسے کمزور اور بیمار لوگوں کے ایسے کام کرنا جو وہ خود نہیں کر سکتے۔ خدمت خلق کا تیسرا انداز اخلاقی اور روحانی خدمت یعنی دوسروں کو برائی سے بچانا اور نیک راستے پر چلانا جہالت کی تاریکی دور کر کے علم کی روشنی سے منور کرناہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔