امریکہ کی ابتدائی نسلیں ۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب
اپنے آباء اجداد کی تلاش ہر قوم کا اولین مقصد رہا ہے ، انکا تعلق کس نسل سے ہے ،وہ کن کی اولاد ہیں، کہاں سے آئے ہیں،رہن سہن کیسا تھا،ہزاروں برس قبل بڑے بزرگوں کا ذریعہ معاش کیا تھا، کیا کھاتے، پیتے تھے؟کچھ ماہرین نے یہی جاننے میں اپنی ساری زندگی وقف کر دی ۔ان میں یونیورسٹی آف الاسکا سے منسلک بین پوٹر بھی شامل ہیں۔بین پوٹر کا شمار اس صدی کے مایہ ناز ماہرین آثار قدیمہ میں ہوتا ہے۔ان کی تحقیق کا مرکزی نقطہ امریکہ کی ابتدائی نسلوں اور ان کی ہجرت کا سراغ لگانا ہے۔وہ امریکی عوام کی شناخت کی تلاش میں ہیں۔
3جنوری 2018ء کا دن امریکی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس روز آثار قدیمہ کے محققین نے الاسکا کے مرکزی حصے میں 11.5 ہزار سال پرانی امریکی نسل کا پتہ چلایا تھا۔دوران تحقیق الاسکا کے ساحل پر دو نوزائیدہ بچوں کی کھوپڑیاں ملی تھیں۔ اس سے ان کے خاندان کی امریکہ ہجرت کا سراغ ملا۔ انہیں نایاب کھوپڑیاں قرار دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ،
''دنیا کے اس مغربی حصے پر قدیم ترین زندگی کے اب تھوڑے ہی آثار باقی بچے ہیں، پرانی نسلیں کب کی ناپید ہو چکیں، ان کی تہذیبی اور ثقافتی باقیات کے علاوہ باقیات بھی ختم ہو چکی ہیں لیکن ہم نے ان کی دو ہڈیوں کا پتہ چلا لیا ہے جس سے ہم قدیم امریکی نسل تک پہنچ سکتے ہیں ‘‘۔
بقول بین پوٹر ،
''نوزائیدہ بچوں کے دونوں ڈھانچے بہت زیادہ خستہ حال نہیں، ان کے جینیاتی تعلق اور ڈی این اے سے بزرگوں کا پتہ چلایا گیا ہے۔ ان کے آباو اجداد مشرقی ایشیاء سے 35 ہزارسال قبل امریکہ پہنچے تھے۔ امریکی ساحل پر انہوں نے مشرق کی جانب سفر کیا ،یہ پوری نسل اپنی دوسری روسی اور ایشیائی قوموں سے الگ تھلک ہو گئی اس زمانے میں ان کا ایک گروپ سائبیریا سے الاسکا پہنچا تھا، سائبیریا کا یہ برفانی علاقہ کہلاتا ہے اسی نسبت سے یہ لوگ امریکہ میں بھی 'بیرنجینی‘ کہلائے‘‘۔ بقول پوٹر
''ہجرت کے دوران یہ لوگ زمینی خطہ سے د ریائی علاقے میں داخل ہوئے ،پھر سا حلوں کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں پر بکھر گئے ۔ ان کا ایک گروپ ورجینیا چلا گیا اور کچھ لوگ اسی کے ارد گرد بھی پھیل گئے تھے، اس زمانے میں (بقول پوٹر) یہ خطہ بنجر ، سرد اور رہنے کے قابل نہیں ہو گا۔ گھوڑے اور دوسرے سخت جان طاقتو ر جانور ہی یہاں رہ سکتے ہوں گے یعنی بڑے جانور۔ ا سی نسل کے کچھ لوگ ایک اور گروپ کی صورت میں شمالی اور جنوبی امریکہ کی جانب نقل مکانی کرگئے انہی لوگوں کو موجودہ پیدائشی امریکیوں کا آبائو اجداد تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے اب برفانی ا یج کی باقیات کی کھوج اور تحقیق بھی کرنا ہو گی ‘‘۔
ڈیوڈ ریخ ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک جینیاتی محقق ہیں۔ ڈی این اے پر تحقیق ان کی خاص پہچان ہے۔ وہ ڈی این اے کے ذریعے سے امریکیوں کے آبائو اجداد پر پہنچنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
''تمام کڑیاں جوڑنا کوئی آسان بات نہیں۔ یہی گروپ پہلے جنوب کی جانب گیا ہوگا اور پھر یہ پورے جنوب میں پھیل گیا ہو گا۔ ان کی نسلوں نے ہزاروں سال تک یہیں قیام کیا‘‘۔
بین پوٹر کے مطابق
'‘' یہی نسل کینیڈا سمیت مشرق اور جنوبی امریکہ میں پھیل گئی ،یہی آج کی امریکی نسل کے براہ راست آبائو اجداد ہیں۔ ابھی تحقیق مکمل نہیں ہوئی، مزید سراغ لگانے سے الاسکا میں کافی راز کھلیں گے۔ ان نسلوں کا تعلق برفانی ایج کے آخری حصے کی نسلوں سے جا ملتا ہے۔ اسی وقت یہ کہیں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ لوگ نقل مکانی کر گئے ہوں گے، کیونکہ برفانی ایج کے خاتمے کے بعد دودھ دینے والے جانوروں کی کئی نسلیں جیسا کہ دیو ہیکل جانور ناپید ہو نا شروع ہو گئے تھے ۔ اس زمانہ میں کہیں جا کر انہوں نے امریکہ کو کو اپنا مسکن بنا لیاتھا۔ تاہم یہ نسلیں کیسے ختم ہوئیں اس بارے میں کچھ وثوق سے کہنا مشکل ہے۔ لیکن اب اس پر بھی تحقیق کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کثیر القومی ملک ہے، عین ممکن ہے کہ پوری کہانی پھر بھی انسان کی نظروں سے پوشیدہ رہے ۔