نظام آف حیدرآباد کے متعلق خفیہ دستاویز ۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم
ریاست حیدر آباد کے والی میر عثمان علی خان پر عزم اور با ہمت انسان تھے۔ عمر رسیدہ تھے مگر عقل و دانش کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔قیام پاکستان کے وقت انہوں نے بھارت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔انہوں نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کئے ۔وہ ورکنگ ریلیشن قائم کر نا چاہتے تھے ،ان کا جھکائو پاکستان کی جانب تھا تاہم تاج برطانیہ نے ان کی آزادرہنے کی تجویز یکسر مسترد کر دی تھی۔ بھارت کی ایک ڈویژن فوج نے '' آپریشن پولو ‘‘ کے ذریعے حیدر آباد کی آزادی کو ٹینکوں تلے کچل دیا۔
نہروکے فوجی ایکشن سے پہلے انہوں نے پرتگال سے تعلقات قائم کر لیے تھے۔وہ غیرملکی تجارت کے لیے پرتگال سے مورموگائو () نامی بندرگاہ خریدنے کے لیے کافی پیش رفت کر چکے تھے۔نظام میر عثمان علی نے فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی خریداری کے لیے مذاکرات کئے تھے ۔ قریب تھا کہ یہ معاہدہ ہوجاتا اور پرتگال کی یہ خوبصورت بندرگاہ نظام آف حید ر آباد میر عثمان کے قبضے میں آجاتی۔مورموگائونامی بندرگاہ کی خریداری کے بعد حیدر آباد کو ایک سو میل مغرب کی جانب ایک راستہ مل جاتا۔ 2سال تک اس میں پیش رفت ہوئی ۔
۔15اپریل 1948ء کی ایک اور دستاویز سے برطانیہ کے ساتھ خرید و فروخت بھی عیاں ہوتی ہیں۔ یعنی حیدر آباد کو بھارت میں ضم کرنے کی سازش سے تقریباً 6مہینے پہلے برطانیہ گوا کی بندر گاہ بیچنے پر آمادہ تھا ، ایک دستاویز میں مائونٹ بیٹن کا ایک خفیہ خط بھی شامل ہے۔ اس خط کا تعلق اکتوبر 1945ء میں نظام آف حیدر آباد کی جانب سے گوا کی خریداری سے متعلق ہے۔یوں میر عثمان علی کو بھارت سے آزادی کا راستہ مل جاتا۔
ریاست حیدر آباد کی یہ انتہائی اہم دستاویزات اب تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھیں۔میر عثمان علی اور پرتگال کے حکمرانوں کے مابین ہونے والی خط و کتابت اور ممکنہ معاہدہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتا اپنے ساتھ لے گئے تھے ۔ڈی کلاسی فائیڈ ہونے والی دستاویزات کے مطابق لسبن میں پرتگالی سفارت خانہ بھی مذاکراتی عمل میں شریک تھا۔ ان دستاویزات سے معلوم ہوا کہ نظام صاحب قومی ترقی میں بندرگاہ کی اہمیت سے آشنا تھے۔ انہوں نے پرتگال کی ایک بندرگاہ خریدنے کے سر الیگزینڈر راجرکو 17ہزار پائونڈ بھی دے دیئے تھے ۔جس کے بعد حیدر آباد حکومت کے ایک ایجنٹ نے لسبن دور ہ بھی کیاتھا۔جہاں انہوں نے نظام آف حیدر آباد کی ہدایت پر تیار کردہ معاہدہ پرتگالی حکومت کو پیش کیا۔
مئی 1947ء میں سر الیگزینڈر راجر کالکھا ہوا ایک خط بھی ملا ہے۔ الیگزینڈر راجر نامی شخص برطانوی صنعت کار تھا۔ پرتگال میں اس کے کئی معاشی مفادات تھے۔ وہ اینگلو ۔پرتگال ٹیلی فون کمپنی کا کرتا دھرتا تھا اس نے مورموگائوکے عوض 27مارچ 1947ء کو 7ہزار پائونڈ اور 26 اگست 1947ء کو 10ہزار پائونڈ لئے تھے ۔ موجودہ کرنسی میں یہ 6لاکھ 25ہزار 658پائونڈ بنتے ہیں۔ یہ پائونڈ نظام آف حیدرآباد نے براہ راست امپیریل بینک آف امریکہ میں سر راجر کے اکائونٹ میں منتقل کر دئیے تھے۔ پائونڈزکی وصولی سے پہلے جون تک معاہدہ کی دستاویز کا خاکہ مرتب کر لیا تھا۔دستاویزات میں لکھا ہے کہ ''حکومت پرتگال ری پبلک اور نظام کی حکومت مورموگائو کی بندرگاہ میں نقل و حمل میں اضافے کے متمنی ہیں۔ دونوں ممالک پرتگالی بھارت اور دوسری ٹیریٹریز میں ریلوے کے ذریعے نقل و حمل میں اضافے کے لیے ایک معاہدے تک پہنچی ہے ‘‘۔
مورموگائو کی بندرگاہ ، حیدر آباد کو مل جاتی تو اس کی ترقی کو چار چاند لگ جاتے۔ حیدر آباد کہیں زیاد ہ طاقتور اور بندرگاہ کا حامل ملک بن جاتا۔ بظاہر یہ معاہدہ کاروباری نوعیت کا تھا لیکن دستاویزات کی کئی شقیں اسے کاروباری معاہدے سے ممتاز کرتی تھیں، مثلاً پرتگال مورموگائو کی بندرگاہ میں اس قسم کی سہولت کسی اور ملک کو نہیں دے گا۔ یعنی اس پر خالصتاً حیدر آباد کا حق ہوگا۔
۔1947ء تک الیگزینڈر راجر معاہدے کی تکمیل میں لگا رہا۔ سابق پرتگالی وزیراعظم انتونیو ڈی اولی ویرا سالا زارنے اسے معاہدہ کر نے کا مکمل اختیار دے رکھا تھا۔ اسی موضوع پر انڈیا میں ''جنرل آف انڈین ہسٹری ‘‘ میں بھی ایک تحقیقی مضمون شائع ہواتھا۔ جس کے مطابق نظام آف حیدر آباد کے مشیروں نے معاہدے کو انجام تک پہنچانے کی بہت کوشش کی ۔نظام میر عثمان علی کے نمائندے نے پرتگالی نمائندوں سے کہا کہ '' کوئی عبوری معاہدہ ہی ہو جائے ‘‘۔
نظام میر عثمان علی نے انگریزوں کے ساتھ بھی کئی معاہدے کئے تھے ۔جن کا مقصد حیدر آباد کو معاشی استحکام اور سماجی تحفظ مہیا کرنا تھا۔ انہوں نے اپنی ریاست میں انگریز مشیر بھرتی کر رکھے تھے، ایک مشیر سر والٹر مائونٹن نامی شخص شامل تھا۔ یہی شخص برطانیہ میں وزیر دفاع بن گیا تھا۔ پرتگال کے ساتھ ''سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ ‘‘میں اس مشیر کی کوششوں کا بھی دخل ہے۔