نیلسن منڈیلا عدالت کے خصوصی ’’پنجرے ‘‘میں ۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب
Nelson Mandela Jail Mein.jpg
یکم اکتوبر1957ء کے روز فضاء صبح سے ہی مکدر تھی۔اس روز میرے سمیت 156متوالوں کے خلاف غداری اوربغاوت کی کارروائی شرو ع ہونے والی تھی۔ ملک گیر سازش اور تشدد کے ذریعے حکومت گرانے اور کمیونسٹ حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کرنے کے الزام میں ہم سب کٹہرے میں کھڑے تھے ۔الزامات کی طویل فہرست میں یکم اکتوبر 1952ء سے 13 دسمبر 1956ء تک کے واقعات اکھٹے کئے گئے تھے۔تحریک نافرمانی () اور اعلان حقوق کی کانفرنس کا انعقاد الزامات کا اہم حصہ تھے۔ ''صوفیہ ٹائون‘‘ کا واقعہ بھی ہمارے ہی خلاف استعمال ہوا تھا حالانکہ جوہانس برگ میں سیاہ فاموں کی اس قدیم ترین بستی میں 1655ء سے 1660ء تک سیاہ فاموں کی املاک تباہ و برباد کی گئیں ،ان کے علاقوں میں لوٹ مار ، آتش زنی اور تشدد کے ناقابل فراموش واقعات تاریخ پر سیاہ دھبہ ہیں۔صد حیف، ہم ہی نشانہ بنے اور ملزم بھی گردانے گئے۔چلوشکرہے کچھ لوگ تو پہچانے گئے ، اسی بربادی سے نسلی تعصب کا حقیقی بدنما چہرہ بے نقاب ہوا تھا۔
مقدمے کی سماعت کیلئے فوجی عدالت بنی، جوہانس برگ کا وسیع و عریض ''ڈرل ہال‘‘ کارروائی کیلئے چنا گیا ، اس ہال میں پہلے کبھی عدالت نہیں لگی۔
پہلی پیشی 19دسمبر کو تھی۔سائوتھ افریقہ کا قانون غداری انگریزی قانون سے مشابہہ نہ تھا۔اس قانون کو رومن اور ڈچ قانون کی بگڑی ہوئی شکل کہا جا سکتا ہے۔ ''غداری ‘‘ کی تشریح یورپی معیار سے مختلف تھی،بلکہ وسیع تر معنوں میں ریاست کو نقصان پہنچانے، خطرہ بننے کی ڈھیلی ڈھالی تشریح غداری کے زمرے میں آتی تھی۔ حتیٰ کہ امن و امان کی خرابی جیسے معمولی نکات بھی غداری کہے جا سکتے تھے،اور ان کی سزا موت تھی۔از روئے قانون ،پہلے مرحلے میں میجسٹریٹ الزامات کا جائئزہ لیتا ہے،ہمارے کیس میں مسٹر ایف سی ویسل اس کارروائی کے لئے کمرہ عدالت میں براجمان تھے۔ میجسٹریٹ کی آواز اس قدر دھیمی تھی کہ ہم میں سے کوئی ایک بھی ان کی آواز نہ سن سکا۔ حکومت نے مائیکروفونز یا لائوڈ سپیکر کی ضرورت کو نظر انداز کیا۔ کمرہ عدالت کا ماحول کسی تفریح گاہ سے کم نہ تھا، چہل پہل اور گہما گہمی تھی، باہرسے کھانے پینے کی ہر شے لانے کی اجازت تھی،جیسے سبھی تفریح طبع کے لئے جمع ہوئے ہوں۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم عدالت میں کھڑے ہیں اور ان الزامات کا سامنا کر رہے ہیں جن کی سزا موت ہے۔شور شرابے کے بعد دو گھنٹے کے لئے کارروائی روک دی گئی،لیکن یہ چیزیں پھر بھی نہ مل سکیں ، چناں چہ کارروائی اگلے دن کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
اگلے روز کمرہ عدالت کے باہر ہجوم پہلے سے بھی زیادہ تھا۔پولیس کے 500مسلح دستے تعینات تھے لیکن ہجوم دیکھ کر پریشان تھے۔ کمرہ عدالت کے اندر تاروں اور پائپوں کی مدد سے ایک بڑا سا پنجرہ بنایا گیا تھا۔ یہ ہمارے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ پنجرے کے علامتی اورنفسیاتی اثرات تو تھے ہی، لیکن اہم مقصد ہمیں ہمارے ہی وکلاء سے بھی دور کرنا تھا، پنجرے میں بیٹھ کر ہم ان سے بات تو کیا، ان کے قریب بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ہمارے تمام وکلاء کو پنجرے کے باہر ہی روک لیا گیاتھا۔ میرے ایک دوست کو شرارت سوجھی، کاغذ پر جلی حروف میں کچھ لکھ کر پنجرے پر چسپاں کر دیا۔کیا خوب ترجمانی کی تھی،لکھا تھا۔۔۔ ''خطرناک۔۔۔براہ کرم ،کھانے کی کوئی چیزہر گز نہ دیں‘‘۔ (ایسا عموماََ چڑیا گھر میں جانوروں کے پنجروں کے باہر درج ہوتا ہے، پنجرے کے اندر وہ بھی جانوروں کی طرح پیش کئے گئے تھے) ۔
ہمارے ساتھیوں اور تنظیموں نے پائے کے وکلاء کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں، برام فشر،نارمن روزن برگ، اسرائیل میسلز،مارس فرینک اور ورمن بیرنجی کوئی چھوٹے نام نہ تھے۔کمرہ عدالت میں اس قسم کا پنجرہ ان سینئر وکلاء کی نظر سے بھی نہیں گزرا تھا۔ ہمارے ایک سینئر وکیل مارس فرینک نے عدالت میں اس انسانیت سوز،توہین آمیز اور فینٹاسٹک انتظامات پر صدائے احتجاج بلند کی، ان کی آواز سے کمرہ عدالت میں گونجی ،وہ کہہ رہے تھے، ''ریاست ہمارے کلائنٹس کے ساتھ درندوں جیسا سلوک کر رہی ہے‘‘۔
انہوںنے دو ٹوک انداز میں حکومت کو وارننگ دی،''اگر یہ پنجرہ نہ ہٹایا گیا تووکلائے صفائی کی پوری ٹیم واک آئوٹ کر جائے گی‘‘۔
سماعت ایک بار پھر روک دی گئی۔جج نے پنجرہ گرانے کاحکم صادر کیا، جس کے بعد ہی کارروائی کا آغاز ممکن ہوا۔ چیف پراسیکیوٹر مسٹر وین نیکرک نے 18ہزار الفاظ پر مشتمل کیس پڑھنا شروع کیا۔کمرہ عدالت کے باہر کافی شورشرابہ تھا،گانے چل رہے تھے،کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اچانک گولی چلنے کی آواز سن کر چند پولیس اہل کار باہر کی جانب لپکے ۔ چیخ و پکار کے ساتھ مزید گولیاں چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔فائرنگ سے 20افراد زخمی ہوئے ۔میجسٹریٹ نے کارروائی روک کر ہمارے وکلاء سے ملاقات کی،سماعت پھر ملتوی کر دی گئی۔ (نیلسن منڈیلا کی خود نوشت ''لانگ واک ٹو فریڈم‘‘ کا ایک حصہ )