مقصد قیام امام Ø+سینؓ Û”Û”Û”Û”Û”Û” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی Ø’
maqsad e Hussain RA.jpg
امام عالی مقام Ø“ Ú©ÛŒ نگاÛیں مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست Ú©Û’ نظام میں کسی
بڑے تغیر Ú©Û’ آثار دیکھ رÛÛŒ تھیں جسے روکنے Ú©ÛŒ جدوجÛد کرنا ان Ú©Û’ نزدیک
ضروری تھا ØŒ اس عظیم مقصد Ú©ÛŒ Ø±Ø§Û Ù…ÛŒÚº Ø´Ûادت Ú©Ùˆ بھی Ùرض سمجھتے تھے
بادشاÛÛŒ دور Ú©Û’ آتے ÛÛŒ خدا Ú©Û’ سامنے جواب دÛÛŒ کا خیال بھی دل سے نکلنے لگا
آپ Ø“ Ù†Û’ اسلامی معاشرے میں پھیلتے Ûوئے غیر اسلامی نظام کا Ø±Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø±ÙˆÚ©Ù†Û’ Ú©Û’ لئے Ø´Ûادت دی
یزید Ú©ÛŒ تخت نشینی سے دراصل جس خرابی Ú©ÛŒ ابتدا Ø¡ ÛÙˆ رÛÛŒ تھی‘ ÙˆÛ Ø§Ø³Ù„Ø§Ù…ÛŒ ریاست Ú©Û’ دستور اور اس Ú©Û’ مقصد Ú©ÛŒ تبدیلی تھی
مقصد Ø´Ûادت:Û”Û”
Ûر سال Ù…Ø+رم میں کروڑوں مسلمان امام Ø+سین Ø“ Ú©ÛŒ Ø´Ûادت پر اپنے رنج Ùˆ غم کا اظÛار کرتے Ûیں۔ لیکن اÙسوس ÛÛ’ Ú©Û Ø¨Ûت ÛÛŒ Ú©Ù… لوگ اس مقصد Ú©ÛŒ Ø·Ø±Ù ØªÙˆØ¬Û Ú©Ø±ØªÛ’ Ûیں‘ جس Ú©Û’ لیے Ø+ضرت امام Ø+سین ؓنے Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ù¾Ù†ÛŒ جان عزیز قربان Ú©ÛŒ Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ù¾Ù†Û’ کنبے Ú©Û’ بچوں تک Ú©ÛŒ قربانی دی Û” کسی شخص Ú©ÛŒ Ù…Ø¸Ù„ÙˆÙ…Ø§Ù†Û Ø´Ûادت پر اس Ú©Û’ اÛل٠خاندان کا‘ اور اس خاندان سے Ù…Ø+بت Ùˆ عقیدت یا Ûمدردی رکھنے والوں کا اظÛار٠غم کرنا تو ایک Ùطری بات ÛÛ’Û” ایسا رنج Ùˆ غم دنیا Ú©Û’ Ûر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں Ú©ÛŒ طر٠سے ظاÛر Ûوتا ÛÛ’Û” اس Ú©ÛŒ کوئی اخلاقی قدر Ùˆ قیمت اس سے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù†Ûیں Ú©Û Ø§Ø³ شخص Ú©ÛŒ ذات Ú©Û’ ساتھ اس Ú©Û’ Ø±Ø´ØªÛ Ø¯Ø§Ø±ÙˆÚº Ú©ÛŒ اور خاندان Ú©Û’ Ûمدردوں Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت کا ایک Ùطری Ù†ØªÛŒØ¬Û ÛÛ’Û” لیکن سوال ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù…Ø§Ù… Ø+سینؓ Ú©ÛŒ ÙˆÛ Ú©ÛŒØ§ خصوصیت ÛÛ’ جس Ú©ÛŒ ÙˆØ¬Û Ø³Û’ سینکڑوں برس گزر جانے پر بھی Ûر سال ان کا غم ØªØ§Ø²Û Ûوتا رÛÛ’ØŸ انÛیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ø¹Ø²ÛŒØ² Ûوتی تو ÙˆÛ Ù‚Ø±Ø¨Ø§Ù†ÛŒ ÛÛŒ کیوں دیتے؟ ان Ú©ÛŒ ÛŒÛ Ù‚Ø±Ø¨Ø§Ù†ÛŒ تو خود اس بات کا ثبوت ÛÛ’ Ú©Û ÙˆÛ Ø§Ø³ مقصد Ú©Ùˆ جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ Ù„Ûٰذا اگر ÛÙ… اس مقصد Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ú©Ø±ÛŒÚº تو ÛŒÛ Ø§Ø³ مقصد Ú©Û’ ساتھ زیادتی Ûوگی۔
اب دیکھنا چاÛیے Ú©Û ÙˆÛ Ù…Ù‚ØµØ¯ کیا تھا؟ امام Ø+سین Ø“ Ù†Û’ سر دھڑ Ú©ÛŒ بازی لگائی اپنے عظیم تر مقصد Ú©Û’ لئے لگائی ØŒ Ûر شخص امام Ø+سینؓ Ú©Û’ گھرانے Ú©ÛŒ بلند اخلاقی سیرت Ú©Ùˆ جانتا Ûے‘ ÛŒÛ Ù¾Ø§Ú© Ûستیاں اپنی ذات Ú©Û’ لیے کوئی کام کر ÛÛŒ Ù†Ûیں سکتی تھیں۔ امام عالی مقام Ø“Ú©ÛŒ نگاÛیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست Ú©ÛŒ روØ+ اور اس Ú©Û’ مزاج اور اس Ú©Û’ نظام میں کسی بڑے تغیر Ú©Û’ آثار دیکھ رÛÛŒ تھیں‘ جسے روکنے Ú©ÛŒ جدوجÛد کرنا ان Ú©Û’ نزدیک ضروری تھا‘ Ø+تیٰ Ú©Û Ø§Ø³ Ø±Ø§Û Ù…ÛŒÚº Ù„Ú‘Ù†Û’ Ú©ÛŒ نوبت بھی آجائے تو ÙˆÛ Ù†Û ØµØ±Ù Ø§Ø³Û’ جائز Ø¨Ù„Ú©Û Ùرض سمجھتے تھے۔
ریاست Ú©Û’ مزاج‘ مقصد اور دستور Ú©ÛŒ تبدیلی:ÙˆÛ ØªØºÛŒØ± کیا تھا؟ ظاÛر ÛÛ’ Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº Ù†Û’ اپنا دین Ù†Ûیں بدل دیا تھا۔ Ø+کمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول کریم ï·º اور قرآن Ú©Ùˆ اسی طرØ+ مان رÛÛ’ تھے‘ جس طرØ+ Ù¾ÛÙ„Û’ مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی Ù†Ûیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ÛÛŒ Ú©Û’ مطابق تمام معاملات Ú©Û’ Ùیصلے بنی Ø§Ù’Ù…ÛŒÙ‘Û Ú©ÛŒ Ø+کومت میں بھی ÛÙˆ رÛÛ’ تھے‘ جس طرØ+ ان Ú©Û’ برسر٠اقتدار آنے سے Ù¾ÛÙ„Û’ Ûوا کرتے تھے۔ Ø¨Ù„Ú©Û Ù‚Ø§Ù†ÙˆÙ† میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے Ù¾ÛÙ„Û’ دنیا Ú©ÛŒ مسلم Ø+کومتوں میں سے کسی Ú©Û’ دور میں بھی Ù†Ûیں Ûوا۔ ÙˆÛ ØªØºÛŒØ± جسے روکنے Ú©Û’ لیے امام Ø+سین Ø“Ú©Ú¾Ú‘Û’ Ûوئے تھے‘ ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø§ÛŒÚ© بÛت برا آدمی برسر٠اقتدار آگیا تھا۔اس Ù†Û’ امام Ø+سینؓ Ú©Ùˆ بے چین کیا تھا۔ تاریخ Ú©Û’ غائر Ù…Ø·Ø§Ù„Ø¹Û Ø³Û’ جو چیز واضØ+ طور پر Ûمارے سامنے آتی Ûے‘ ÙˆÛ ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û ÛŒØ²ÛŒØ¯ Ú©ÛŒ ولی عÛدی اور پھر اس Ú©ÛŒ تخت نشینی سے دراصل جس خرابی Ú©ÛŒ ابتدا Ø¡ ÛÙˆ رÛÛŒ تھی‘ ÙˆÛ Ø§Ø³Ù„Ø§Ù…ÛŒ ریاست Ú©Û’ دستور اور اس Ú©Û’ مزاج اور اس Ú©Û’ مقصد Ú©ÛŒ تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی Ú©Û’ پورے نتائج Ø§Ú¯Ø±Ú†Û Ø§Ø³ وقت سامنے Ù†Û Ø§Ù“Ø¦Û’ تھے لیکن ایک صاØ+ب٠نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل Ûوتے ÛÛŒ ÛŒÛ Ø¬Ø§Ù† سکتا ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø¨ اس کا Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø¨Ø¯Ù„ رÛا ÛÛ’ اور جس Ø±Ø§Û Ù¾Ø± ÛŒÛ Ù…Ú‘ رÛÛŒ ÛÛ’ ÙˆÛ Ø§Ù“Ø®Ø±Ú©Ø§Ø± اسے Ú©Ûاں Ù„Û’ جائے گا۔ ÛŒÛÛŒ رخ Ú©ÛŒ تبدیلی تھی جسے امام Ø+سین ؓنے دیکھا اور گاڑی Ú©Ùˆ پھر سے صØ+ÛŒØ+ پٹڑی پر ڈالنے Ú©Û’ لیے اپنی جان دینے کا ÙÛŒØµÙ„Û Ú©ÛŒØ§Û”
Ù†Ù‚Ø·Û Ø§Ù†Ø+راÙ:Û”
اس چیز Ú©Ùˆ ٹھیک ٹھیک سمجھنے Ú©Û’ لیے Ûمیں دیکھنا چاÛیے Ú©Û Ø±Ø³ÙˆÙ„ اللÛï·º اور خلÙاء راشدینؓ Ú©ÛŒ سربراÛÛŒ میں ریاست کا جو نظام 40 سال تک چلتا رÛا تھا‘ اس Ú©Û’ دستور Ú©ÛŒ بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید Ú©ÛŒ ولی عÛدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظام٠ریاست کا آغاز Ûوا‘ اس Ú©Û’ اندر کیا خصوصیات دولت بنی Ø§Ù…ÛŒÛ Ùˆ بنی عباس اور بعد Ú©ÛŒ بادشاÛیوں میں ظاÛر Ûوئیں۔ اسی تقابل سے ÛÙ… ÛŒÛ Ø¬Ø§Ù† سکتے Ûیں Ú©Û ÛŒÛ Ú¯Ø§Ú‘ÛŒ Ù¾ÛÙ„Û’ کس لائن پر Ú†Ù„ رÛÛŒ تھی اور اس نقطÛÙ” انØ+را٠پر Ù¾ÛÙ†Ú† کر آگے ÙˆÛ Ú©Ø³ لائن پر Ú†Ù„ پڑی‘ اور اسی تقابل سے ÛÙ… ÛŒÛ Ø³Ù…Ø¬Ú¾ سکتے Ûیں Ú©Û Ø¬Ø³ شخص Ù†Û’ رسول اللÛï·º اور Ø³ÛŒØ¯Û ÙاطمÛØ“ اور Ø+ضرت علیؓ Ú©ÛŒ آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس Ù†Û’ صØ+ابÛØ“ Ú©ÛŒ بÛترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک Ú©ÛŒ منزلیں Ø·Û’ Ú©ÛŒ تھیں‘ ÙˆÛ Ú©ÛŒÙˆÚº اس Ù†Ù‚Ø·Û Ø§Ù†Ø+را٠کے سامنے آتے ÛÛŒ گاڑی Ú©Ùˆ نئی لائن پر جانے سے روکنے Ú©Û’ لیے کھڑا ÛÙˆ گیا‘ اور کیوں اس Ù†Û’ اس بات Ú©ÛŒ بھی پروا Ù†Û Ú©ÛŒ Ú©Û Ø§Ø³ زور دار گاڑی کا رخ موڑنے Ú©Û’ لیے اس Ú©Û’ آگے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ÛÙˆ جانے کا کیا Ù†ØªÛŒØ¬Û ÛÙˆ سکتا ÛÛ’ØŸ
انسانی بادشاÛÛŒ کا آغاز:Û” اسلامی ریاست Ú©ÛŒ اولین خصوصیت ÛŒÛ ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø§Ø³ میں صر٠زبان ÛÛŒ سے ÛŒÛ Ù†Ûیں Ú©Ûا جاتا تھا Ø¨Ù„Ú©Û Ø³Ú†Û’ دل سے ÛŒÛ Ù…Ø§Ù†Ø§ بھی جاتا تھا‘ اور عملی Ø±ÙˆÛŒÛ Ø³Û’ اس Ø¹Ù‚ÛŒØ¯Û Ùˆ یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا Ú©Û Ù…Ù„Ú© خدا کا Ûے‘ باشندے خدا Ú©ÛŒ رعیت Ûیں اور Ø+کومت اس رعیت Ú©Û’ معاملے میں خدا Ú©Û’ سامنے Ø¬ÙˆØ§Ø¨Ø¯Û ÛÛ’Û” Ø+کومت اس رعیت Ú©ÛŒ مالک Ù†Ûیں ÛÛ’Û” اور رعیت اس Ú©ÛŒ غلام Ù†Ûیں ÛÛ’Û” Ø+کمرانوں کا کام سب سے Ù¾ÛÙ„Û’ اپنی گردن میں خدا Ú©ÛŒ بندگی Ùˆ غلامی کا Ù‚Ù„Ø§ÙˆÛ ÚˆØ§Ù„Ù†Ø§ Ûے‘ پھر ÛŒÛ Ø§Ù† Ú©ÛŒ Ø°Ù…Û Ø¯Ø§Ø±ÛŒ ÛÛ’ Ú©Û Ø®Ø¯Ø§ Ú©ÛŒ رعیت پر اس کا قانون ناÙØ° کریں۔ لیکن یزید Ú©ÛŒ ولی عÛدی سے جس انسانی بادشاÛÛŒ کا مسلمانوں میں آغاز Ûوا‘ اس میں خدا Ú©ÛŒ بادشاÛÛŒ کا تصور صر٠زبانی اعترا٠تک Ù…Ø+دود Ø±Û Ú¯ÛŒØ§Û” عملاً اس Ù†Û’ ÙˆÛÛŒ Ù†Ø¸Ø±ÛŒÛ Ø§Ø®ØªÛŒØ§Ø± کر لیا جو ÛÙ…ÛŒØ´Û Ø³Û’ Ûر انسانی بادشاÛÛŒ کا رÛا Ûے‘ یعنی ملک Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§Û Ø§ÙˆØ± شاÛÛŒ خاندان کا ÛÛ’ اور ÙˆÛ Ø±Ø¹ÛŒØª Ú©ÛŒ جان‘ مال‘ آبرو‘ Ûر چیز کا مالک ÛÛ’Û” خدا کا قانون ان بادشاÛتوں میں ناÙØ° Ûوا بھی تو صر٠عوام پر Ûوا‘ Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§Û Ø§ÙˆØ± ان Ú©Û’ خاندان اور امراء اور Ø+کام Ø²ÛŒØ§Ø¯Û ØªØ± اس سے مستثنیٰ ÛÛŒ رÛÛ’Û”
امر بالمعرو٠اور Ù†ÛÛŒ عن المنکر کا تعطل:Û”
اسلامی ریاست کا مقصد خدا Ú©ÛŒ زمین میں ان نیکیوں Ú©Ùˆ قائم کرنا اور Ùروغ دینا تھا‘ جو خدا Ú©Ùˆ Ù…Ø+بوب Ûیں اور ان برائیوں Ú©Ùˆ دبانا اور مٹانا تھا جو خدا Ú©Ùˆ ناپسند Ûیں۔ مگر انسانی بادشاÛت کا Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ø§Ø®ØªÛŒØ§Ø± کرنے Ú©Û’ بعد Ø+کومت کا مقصد ÙتØ+ ممالک اور تسخیر خلائق اور تØ+صیل باج Ùˆ خراج اور عیش دنیا Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ Ù†Û Ø±Ûا۔ خدا کا Ú©Ù„Ù…Û Ø¨Ù„Ù†Ø¯ کرنے Ú©ÛŒ خدمت بادشاÛÙˆÚº Ù†Û’ Ú©Ù… ÛÛŒ انجام دی۔ ان Ú©Û’ Ûاتھوں اور ان Ú©Û’ امرا اور Ø+کام اور درباریوں Ú©Û’ Ûاتھوں بھلائیاں Ú©Ù… اور برائیاں بÛت Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù¾Ú¾ÛŒÙ„ÛŒÚºÛ” بھلائیوں Ú©Û’ Ùروغ اور برائیوں Ú©ÛŒ روک تھام اور اشاعت٠دین اور علوم٠اسلامی Ú©ÛŒ تØ+قیق Ùˆ تدوین Ú©Û’ لیے جن Ø§Ù„Ù„Û Ú©Û’ بندوں Ù†Û’ کام کیا‘ انÛیں Ø+کومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر ÙˆÛ Ø+کمرانوں Ú©Û’ غضب ÛÛŒ میں گرÙتار رÛÛ’ اور اپنا کام ÙˆÛ Ø§Ù† Ú©ÛŒ مزاØ+متوں Ú©Û’ علی الرغم ÛÛŒ کرتے رÛÛ’Û” ان Ú©ÛŒ کوششوں Ú©Û’ برعکس Ø+کومتوں اور ان Ú©Û’ Ø+کام Ùˆ متوسلین Ú©ÛŒ زندگیوں اور پالیسیوں Ú©Û’ اثرات مسلم معاشرے Ú©Ùˆ Ù¾ÛŒÛÙ… اخلاقی زوال ÛÛŒ Ú©ÛŒ طر٠لے جاتے رÛÛ’Û” Ø+د ÛŒÛ ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ù† لوگوں Ù†Û’ اپنے Ù…Ùاد Ú©ÛŒ خاطر اسلام Ú©ÛŒ اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ Ù†Û Ú©ÛŒØ§â€˜ جس Ú©ÛŒ بدترین مثال بنو Ø§Ù…ÛŒÛ Ú©ÛŒ Ø+کومت میں نومسلموں پر Ø¬Ø²ÛŒÛ Ù„Ú¯Ø§Ù†Û’ Ú©ÛŒ صورت میں ظاÛر Ûوئی۔
اسلامی ریاست Ú©ÛŒ روØ+ تقویٰ اور خدا ترسی اور پرÛیزگاری Ú©ÛŒ روØ+ تھی‘ جس کا سب سے بڑا مظÛر خود ریاست کا Ø³Ø±Ø¨Ø±Ø§Û Ûوتا تھا۔ Ø+کومت Ú©Û’ عمال اور قاضی اور Ø³Ù¾Û Ø³Ø§Ù„Ø§Ø±â€˜ سب اس روØ+ سے سرشار Ûوتے تھے اور پھر اس روØ+ سے ÙˆÛ Ù¾ÙˆØ±Û’ معاشرے Ú©Ùˆ سرشار کرتے تھے‘ لیکن بادشاÛÛŒ Ú©ÛŒ Ø±Ø§Û Ù¾Ø± پڑتے ÛÛŒ مسلمانوں Ú©ÛŒ Ø+کومتوں اور ان Ú©Û’ Ø+کمرانوں Ù†Û’ قیصر Ùˆ کسریٰ Ú©Û’ سے رنگ ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل Ú©ÛŒ Ø¬Ú¯Û Ø¸Ù„Ù… Ùˆ جور کا ØºÙ„Ø¨Û Ûوتا چلا گیا۔ پرÛیزگاری Ú©ÛŒ Ø¬Ú¯Û Ùسق Ùˆ Ùجور اور راگ رنگ اور عیش Ùˆ عشرت کا دور Ø¯ÙˆØ±Û Ø´Ø±ÙˆØ¹ ÛÙˆ گیا۔ Ø+رام Ùˆ Ø+لال Ú©ÛŒ تمیز سے Ø+کمرانوں Ú©ÛŒ سیرت Ùˆ کردار خالی Ûوتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ سیاست کا Ø±Ø´ØªÛ Ø§Ø®Ù„Ø§Ù‚ سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے Ú©ÛŒ بجائے Ø+اکم لوگ بندگان٠خدا Ú©Ùˆ اپنے آپ سے ڈرانے Ù„Ú¯Û’ اور لوگوں Ú©Û’ ایمان Ùˆ ضمیر بیدار کرنے Ú©Û’ بجائے ان Ú©Ùˆ اپنی بخششوں Ú©Û’ لالچ سے خریدنے Ù„Ú¯Û’Û”
اسلامی دستور Ú©Û’ بنیادی اصول:ÛŒÛ ØªÙˆ تھا روØ+ Ùˆ مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ÛÛŒ تغیر اسلامی دستور Ú©Û’ بنیادی اصولوں میں بھی رونما Ûوا۔ اس دستور Ú©Û’7 اÛÙ… ترین اصول تھے‘ جن میں سے Ûر ایک Ú©Ùˆ بدل ڈالا گیا۔
Û”1Û” Ø§Ù“Ø²Ø§Ø¯Ø§Ù†Û Ø§Ù†ØªØ®Ø§Ø¨:Û”
دستور٠اسلامی کا سنگ٠بنیاد ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø+کومت لوگوں Ú©ÛŒ Ø§Ù“Ø²Ø§Ø¯Ø§Ù†Û Ø±Ø¶Ø§ مندی سے قائم ÛÙˆÛ” کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار Ø+اصل Ù†Û Ú©Ø±Û’ Ø¨Ù„Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ اپنے مشورے سے بÛتر آدمی Ú©Ùˆ Ú†Ù† کر اقتدار اس Ú©Û’ سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا Ù†ØªÛŒØ¬Û Ù†Û ÛÙˆ Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ø³ کا سبب ÛÙˆÛ” بیعت Ø+اصل Ûونے میں آدمی Ú©ÛŒ اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل Ù†Û ÛÙˆÛ” لوگ بیعت کرنے یا Ù†Û Ú©Ø±Ù†Û’ Ú©Û’ معاملے میں پوری طرØ+ آزاد ÛÙˆÚºÛ” جب تک کسی شخص Ú©Ùˆ بیعت Ø+اصل Ù†Û ÛÙˆ ÙˆÛ Ø¨Ø±Ø³Ø±Ù Ø§Ù‚ØªØ¯Ø§Ø± Ù†Û Ø§Ù“Ø¦Û’ اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو ÙˆÛ Ø§Ù‚ØªØ¯Ø§Ø± سے چمٹا Ù†Û Ø±ÛÛ’Û” خلÙائے راشدین ؓمیں سے Ûر ایک اسی قاعدے Ú©Û’ مطابق برسر٠اقتدار آیا تھا۔ آخرکار یزید Ú©ÛŒ ولی عÛدی ÙˆÛ Ø¨Ø¯ØªØ±ÛŒÙ† کارروائی ثابت Ûوئی جس Ù†Û’ اس قاعدے Ú©Ùˆ الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں Ú©ÛŒ موروثی بادشاÛتوں کا ÙˆÛ Ø³Ù„Ø³Ù„Û Ø´Ø±ÙˆØ¹ Ûوا‘ جس Ú©Û’ بعد سے آج تک پھر مسلمانوں Ú©Ùˆ انتخابی خلاÙت Ú©ÛŒ طر٠پلٹنا نصیب Ù†Û ÛÙˆ سکا۔ اب لوگ مسلمانوں Ú©Û’ Ø§Ù“Ø²Ø§Ø¯Ø§Ù†Û Ø§ÙˆØ± Ú©Ú¾Ù„Û’ مشورے سے Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ø·Ø§Ù‚Øª سے برسر٠اقتدار آنے Ù„Ú¯Û’Û” اب بیعت سے اقتدار Ø+اصل Ûونے Ú©ÛŒ بجائے اقتدار سے بیعت Ø+اصل Ú©ÛŒ جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا Ù†Û Ú©Ø±Ù†Û’ میں لوگ آزاد Ù†Û Ø±ÛÛ’ اور بیعت کا Ø+اصل Ûونا اقتدار پر قائم رÛÙ†Û’ Ú©Û’ لیے شرط Ù†Û Ø±Ûا۔ لوگوں Ú©ÛŒ اول تو ÛŒÛ Ù…Ø¬Ø§Ù„ Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø¬Ø³ Ú©Û’ Ûاتھ میں اقتدار تھا‘ اس Ú©ÛŒ بیعت Ù†Û Ú©Ø±ØªÛ’Û” لیکن اگر ÙˆÛ Ø¨ÛŒØ¹Øª Ù†Û Ø¨Ú¾ÛŒ کرتے تو جس Ú©Û’ Ûاتھ میں اقتدار آ گیا تھا‘ ÙˆÛ Ûٹنے والا Ù†Û ØªÚ¾Ø§Û” اسی جبری بیعت Ú©Ùˆ کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی Ú©Û’ Ø²Ù…Ø§Ù†Û Ù…ÛŒÚº امام مالکؒ سے سرزد Ûوا تو ان Ú©ÛŒ پیٹھ پر Ú©ÙˆÚ‘Û’ برسائے گئے اور ان Ú©Û’ Ûاتھ شانوں سے اکھڑوا دئیے گئے۔
۔2۔ شورائی نظام:۔
دوسرا اÛÙ… ترین Ù‚Ø§Ø¹Ø¯Û Ø§Ø³ دستور کا ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø+کومت مشورے سے Ú©ÛŒ جائے اور Ù…Ø´ÙˆØ±Û Ø§Ù† بزرگوں سے کیا جائے جن Ú©Û’ علم‘ تقویٰ اور اصابت٠رائے پر عام لوگوں Ú©Ùˆ اعتماد ÛÙˆÛ” خلÙائے راشدین Ø“Ú©Û’ عÛد میں جو لوگ شوریٰ Ú©Û’ رکن بنائے گئے‘ Ø§Ú¯Ø±Ú†Û Ø§Ù† Ú©Ùˆ انتخاب عام Ú©Û’ Ø°Ø±ÛŒØ¹Û Ø³Û’ منتخب Ù†Ûیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے Ú©Û’ تصور Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے ÙˆÛ Ù†Ø§Ù…Ø²Ø¯ Ú©Ø±Ø¯Û Ù„ÙˆÚ¯ ÛÛŒ تھے۔ لیکن خلÙاءؓنے ÛŒÛ Ø¯ÛŒÚ©Ú¾ کر ان Ú©Ùˆ مشیر Ù†Ûیں بنایا تھا Ú©Û ÛŒÛ Ûماری Ûاں میں Ûاں ملانے اور Ûمارے Ù…Ùاد Ú©ÛŒ خدمت کرنے Ú©Û’ لیے موزوں ترین لوگ Ûیں۔ Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ù†ÛÙˆÚº Ù†Û’ پورے خلوص اور بے غرضی Ú©Û’ ساتھ قوم Ú©Û’ بÛترین عناصر Ú©Ùˆ چنا تھا‘ جن سے ÙˆÛ Ø+Ù‚ گوئی Ú©Û’ سوا کسی چیز Ú©ÛŒ توقع Ù†Û Ø±Ú©Ú¾ØªÛ’ تھے‘ جن سے ÛŒÛ Ø§Ù…ÛŒØ¯ تھی Ú©Û ÙˆÛ Ûر معاملے میں اپنے علم Ùˆ ضمیر Ú©Û’ مطابق بالکل صØ+ÛŒØ+ Ø§ÛŒÙ…Ø§Ù†Ø¯Ø§Ø±Ø§Ù†Û Ø±Ø§Ø¦Û’ دیں گے‘ جن سے کوئی شخص بھی ÛŒÛ Ø§Ù†Ø¯ÛŒØ´Û Ù†Û Ø±Ú©Ú¾ØªØ§ تھا Ú©Û ÙˆÛ Ø+کومت Ú©Ùˆ کسی غلط Ø±Ø§Û Ù¾Ø± جانے دیں Ú¯Û’Û” اگر اس وقت ملک میں آج Ú©Ù„ Ú©Û’ طریقے Ú©Û’ مطابق انتخابات بھی Ûوتے تو عام مسلمان انÛÛŒ لوگوں Ú©Ùˆ اپنے اعتماد کا مستØ+Ù‚ قرار دیتے۔ لیکن شاÛÛŒ دور کا آغاز Ûوتے ÛÛŒ شوریٰ کا ÛŒÛ Ø·Ø±ÛŒÙ‚Û Ø¨Ø¯Ù„ گیا۔ اب Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§Û Ø§Ø³ØªØ¨Ø¯Ø§Ø¯ اور مطلق العنانی Ú©Û’ ساتھ Ø+کومت کرنے Ù„Ú¯Û’Û” اب شاÛزادے اور خوشامدی اÛÙ„ دربار‘ اور صوبوں Ú©Û’ گورنر اور Ùوجوں Ú©Û’ Ø³Ù¾Û Ø³Ø§Ù„Ø§Ø± ان Ú©ÛŒ کونسل Ú©Û’ ممبر تھے۔ اب ÙˆÛ Ù„ÙˆÚ¯ ان Ú©Û’ مشیر تھے‘ جن Ú©Û’ Ù…Ø¹Ø§Ù…Ù„Û Ù…ÛŒÚº اگر قوم Ú©ÛŒ رائے Ù„ÛŒ جاتی تو اعتماد Ú©Û’ ایک ووٹ Ú©Û’ Ù…Ù‚Ø§Ø¨Ù„Û Ù…ÛŒÚº لعنت Ú©Û’ Ûزار ووٹ آتے اور اس Ú©Û’ برعکس ÙˆÛ Ø+Ù‚ شناس Ùˆ Ø+Ù‚ Ú¯Ùˆ اÛÙ„ علم Ùˆ تقویٰ جن پر قوم Ú©Ùˆ اعتماد تھا‘ ÙˆÛ Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§ÛÙˆÚº Ú©ÛŒ Ù†Ú¯Ø§Û Ù…ÛŒÚº کسی اعتماد Ú©Û’ مستØ+Ù‚ Ù†Û ØªÚ¾Û’â€˜ Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ù„Ù¹Û’ معتوب یا Ú©Ù… از Ú©Ù… Ù…Ø´ØªØ¨Û ØªÚ¾Û’Û”
Û”3Û” اظÛار٠رائے Ú©ÛŒ آزادی:Û”
اس دستور کا تیسرا اصول ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº Ú©Ùˆ اظÛار٠رائے Ú©ÛŒ پوری آزادی ÛÙˆÛ” امر بالمعرو٠و Ù†ÛÛŒ عن المنکر Ú©Ùˆ اسلام Ù†Û’ Ûر مسلمان کا Ø+Ù‚ ÛÛŒ Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ùرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست Ú©Û’ صØ+ÛŒØ+ Ø±Ø§Ø³ØªÛ Ù¾Ø± چلنے کا انØ+صار اس بات پر تھا Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº Ú©Û’ ضمیر اور ان Ú©ÛŒ زبانیں آزاد Ûوں‘ ÙˆÛ Ûر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی Ú©Ùˆ ٹوک سکیں اور Ø+Ù‚ بات برملا Ú©ÛÛ Ø³Ú©ÛŒÚºÛ” خلاÙت Ø±Ø§Ø´Ø¯Û Ù…ÛŒÚº صر٠یÛÛŒ Ù†Ûیں Ú©Û Ù„ÙˆÚ¯ÙˆÚº کا ÛŒÛ Ø+Ù‚ پوری طرØ+ Ù…Ø+Ùوظ تھا‘ Ø¨Ù„Ú©Û Ø®Ù„Ùائے راشدینؓ اسے ان کا Ùرض سمجھتے تھے اور اس Ùرض Ú©Û’ ادا کرنے میں ان Ú©ÛŒ Ûمت اÙزائی کرتے تھے۔ ان Ú©ÛŒ مجلس٠شوریٰ Ú©Û’ ممبروں ÛÛŒ Ú©Ùˆ Ù†Ûیں‘ قوم Ú©Û’ Ûر شخص Ú©Ùˆ بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیÙÛ Ø³Û’ باز پرس کرنے Ú©ÛŒ مکمل آزادی تھی‘ جس Ú©Û’ استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ø¯Ø§Ø¯ اور تعری٠سے نوازے جاتے تھے۔ ÛŒÛ Ø§Ù“Ø²Ø§Ø¯ÛŒ ان Ú©ÛŒ طر٠سے کوئی Ø¹Ø·ÛŒÛ Ø§ÙˆØ± بخشش Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ جس Ú©Û’ لیے ÙˆÛ Ù‚ÙˆÙ… پر اپنا اØ+سان جتاتے‘ Ø¨Ù„Ú©Û ÛŒÛ Ø§Ø³Ù„Ø§Ù… کا عطا Ú©Ø±Ø¯Û Ø§ÛŒÚ© دستوری Ø+Ù‚ تھا‘ جس کا اØ+ترام کرنا ÙˆÛ Ø§Ù¾Ù†Ø§ Ùرض سمجھتے تھے‘ اور اسے بھلائی Ú©Û’ لیے استعمال کرنا Ûر مسلمان پر خدا اور رسول کریم ï·º کا عائد Ú©Ø±Ø¯Û Ø§ÛŒÚ© ÙØ±ÛŒØ¶Û ØªÚ¾Ø§â€˜ جس Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©Û’ لیے معاشرے اور ریاست Ú©ÛŒ Ùضا Ú©Ùˆ Ûر وقت سازگار رکھنا ان Ú©ÛŒ Ù†Ú¯Ø§Û Ù…ÛŒÚº Ùرائض٠خلاÙت کا ایک اÛÙ… جزو تھا۔ لیکن بادشاÛÛŒ دور کا آغاز Ûوتے ÛÛŒ ضمیروں پر Ù‚ÙÙ„ چڑھا دئیے گئے اور Ù…Ù†Û Ø¨Ù†Ø¯ کر دئیے گئے۔
اب Ù‚Ø§Ø¹Ø¯Û ÛŒÛ ÛÙˆ گیا Ú©Û Ø²Ø¨Ø§Ù† کھولو تو تعری٠میں کھولو‘ ÙˆØ±Ù†Û Ú†Ù¾ رÛÙˆÛ” اور اگر تمÛارا ضمیر ایسا زور آور ÛÛ’ Ú©Û Ø+Ù‚ گوئی سے تم باز Ù†Ûیں Ø±Û Ø³Ú©ØªÛ’ تو قید یا قتل Ú©Û’ لیے تیار ÛÙˆ جائو۔ ÛŒÛ Ù¾Ø§Ù„ÛŒØ³ÛŒ رÙØªÛ Ø±ÙØªÛ Ù…Ø³Ù„Ù…Ø§Ù†ÙˆÚº Ú©Ùˆ پست Ûمت‘ بزدل اور مصلØ+ت پرست بناتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ Ø®Ø·Ø±Û Ù…ÙˆÙ„ Ù„Û’ کر سچی بات Ú©ÛÙ†Û’ والے ان Ú©Û’ اندر Ú©Ù… سے Ú©Ù… Ûوتے Ú†Ù„Û’ گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی Ú©ÛŒ قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور Ø+Ù‚ پرستی Ùˆ راست بازی Ú©ÛŒ قیمت گرتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ Ø+کومت سے بے تعلق ÛÙˆ گئے اور عوام کا Ø+ال ÛŒÛ ÛÙˆ گیا Ú©Û Ú©Ø³ÛŒ شاÛÛŒ خاندان Ú©ÛŒ Ø+کومت برقرار رکھنے Ú©Û’ لیے ان Ú©Û’ دلوں میں کوئی Ø¬Ø°Ø¨Û Ø¨Ø§Ù‚ÛŒ Ù†Û Ø±Ûا۔ ایک Ú©Ùˆ Ûٹانے Ú©Û’ لیے جب دوسرا آیا تو انÛÙˆÚº Ù†Û’ مداÙعت میں انگلی تک Ù†Û Ûلائی اور گرنے والا جب گرا تو انÛÙˆÚº Ù†Û’ ایک لات اور رسید کر Ú©Û’ اسے Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ú¯Ûرے Ú¯Ú‘Ú¾Û’ میں پھینکا۔ Ø+کومتیں جاتی اور آتی رÛیں‘ مگر لوگوں Ù†Û’ تماشائی سے بڑھ کر اس آمد Ùˆ رÙت Ú©Û’ منظر سے کوئی دلچسپی Ù†Û Ù„ÛŒÛ”
Û”4Û” خدا اور خلق Ú©Û’ سامنے جواب دÛÛŒ:Û”
چوتھا اصول‘ جو اس تیسرے اصول Ú©Û’ ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا‘ ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø®Ù„ÛŒÙÛ Ø§ÙˆØ± اس Ú©ÛŒ Ø+کومت خدا اور خلق دونوں Ú©Û’ سامنے جواب Ø¯Û ÛÛ’Û” جÛاں تک خدا Ú©Û’ سامنے جواب دÛÛŒ کا تعلق Ûے‘ اس Ú©Û’ شدید اØ+ساس سے خلÙائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام Ø+رام ÛÙˆ گیا تھا اور جÛاں تک خلق Ú©Û’ سامنے جواب دÛÛŒ کا تعلق Ûے‘ ÙˆÛ Ûر وقت‘ Ûر Ø¬Ú¯Û Ø§Ù¾Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ عوام Ú©Û’ سامنے جواب Ø¯Û Ø³Ù…Ø¬Ú¾ØªÛ’ تھے۔ ان Ú©ÛŒ Ø+کومت کا ÛŒÛ Ø§ØµÙˆÙ„ Ù†Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û ØµØ±Ù Ù…Ø¬Ù„Ø³Ù Ø´ÙˆØ±ÛŒÙ° (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ÛÛŒ ان سے سوال کیا جاسکتا Ûے‘ ÙˆÛ Ûر روز 5Ù…Ø±ØªØ¨Û Ù†Ù…Ø§Ø² Ú©ÛŒ جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ ÙˆÛ Ûر ÛÙتے Ø¬Ù…Ø¹Û Ú©ÛŒ جماعت میں عوام Ú©Û’ سامنے اپنی Ú©Ûتے اور ان Ú©ÛŒ سنتے تھے۔ ÙˆÛ Ø´Ø¨ Ùˆ روز بازاروں میں کسی باڈی گاڑد Ú©Û’ بغیر‘ کسی Ûٹو بچو Ú©ÛŒ آواز Ú©Û’ بغیر عوام Ú©Û’ درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان Ú©Û’ گورنمنٹ Ûائوس (یعنی ان Ú©Û’ Ú©Ú†Û’ مکان) کا Ø¯Ø±ÙˆØ§Ø²Û Ûر شخص Ú©Û’ لیے کھلا تھا اور Ûر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر Ûر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کر سکتا تھا۔ ÛŒÛ Ù…Ø+دود جواب دÛÛŒ Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ø¨Ù„Ú©Û Ú©Ú¾Ù„ÛŒ اور ÛÙ…Û ÙˆÙ‚ØªÛŒ جواب دÛÛŒ تھی۔
ÛŒÛ Ù†Ù…Ø§Ø¦Ù†Ø¯ÙˆÚº Ú©Û’ ÙˆØ§Ø³Ø·Û Ø³Û’ Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ø¨Ù„Ú©Û Ù¾ÙˆØ±ÛŒ قوم Ú©Û’ سامنے براÛ٠راست تھی۔ ÙˆÛ Ø¹ÙˆØ§Ù… Ú©ÛŒ مرضی سے برسر٠اقتدار آئے تھے اور عوام Ú©ÛŒ مرضی انÛیں Ûٹا کر دوسرا خلیÙÛ Ûر وقت لاسکتی تھی۔ اس لیے Ù†Û ØªÙˆ انÛیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی Ø®Ø·Ø±Û Ù…Ø+سوس Ûوتا تھا اور Ù†Û Ø§Ù‚ØªØ¯Ø§Ø± سے Ù…Ø+روم Ûونا ان Ú©ÛŒ Ù†Ú¯Ø§Û Ù…ÛŒÚº کوئی Ø®Ø·Ø±Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û ÙˆÛ Ø§Ø³ سے بچنے Ú©ÛŒ کبھی Ùکر کرتے۔ لیکن بادشاÛÛŒ دور Ú©Û’ آتے ÛÛŒ جواب Ø¯Û Ø+کومت کا تصور ختم ÛÙˆ گیا۔ خدا Ú©Û’ سامنے جواب دÛÛŒ کا خیال چاÛÛ’ زبانوں پر Ø±Û Ú¯ÛŒØ§ Ûو‘ مگر عمل میں اس Ú©Û’ آثار Ú©Ù… ÛÛŒ نظر آتے Ûیں۔ رÛÛŒ خلق Ú©Û’ سامنے جوابدÛی‘ تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ ÙˆÛ Ø§Ù¾Ù†ÛŒ قوم Ú©Û’ ÙاتØ+ تھے۔ Ù…ÙتوØ+ÙˆÚº Ú©Û’ سامنے کون ÙاتØ+ جواب Ø¯Û Ûوتا ÛÛ’Û” ÙˆÛ Ø·Ø§Ù‚Øª سے برسر٠اقتدار آئے تھے اور ان کا Ù†Ø¹Ø±Û ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø¬Ø³ میں طاقت ÛÙˆ ÙˆÛ ÛÙ… سے اقتدار چھین Ù„Û’Û” ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے Ûیں اور عوام ان Ú©Û’ قریب Ú©Ûاں Ù¾Ú¾Ù¹Ú© سکتے تھے۔ ÙˆÛ Ù†Ù…Ø§Ø² بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے Ú©Û’ ساتھ Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ù¾Ù†Û’ Ù…Ø+لوں Ú©ÛŒ Ù…Ø+Ùوظ مسجدوں میں‘ یا باÛر اپنے Ù†Ûایت قابل اعتماد Ù…Ø+اÙظوں Ú©Û’ جھرمٹ میں۔ ان Ú©ÛŒ سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلØ+ دستے Ûوتے تھے اور راستے صا٠کر دئیے جاتے تھے۔ عوام Ú©ÛŒ اور ان Ú©ÛŒ Ù…Úˆ بھیڑ کسی Ø¬Ú¯Û Ûوتی ÛÛŒ Ù†Û ØªÚ¾ÛŒÛ”
۔5۔ بیت المال۔ ایک امانت:۔
پانچواں اصول اسلامی دستور کا ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø¨ÛŒØª المال خدا کا مال اور مسلمانوں Ú©ÛŒ امانت Ûے‘ جس میں کوئی چیز Ø+Ù‚ Ú©ÛŒ Ø±Ø§Û Ú©Û’ سوا کسی دوسری Ø±Ø§Û Ø³Û’ آنی Ù†Û Ú†Ø§Ûیے اور جس میں سے کوئی چیز Ø+Ù‚ Ú©Û’ سوا کسی دوسری Ø±Ø§Û Ù…ÛŒÚº جانی Ù†Û Ú†Ø§Ûیے۔ خلیÙÛ Ú©Ø§ Ø+Ù‚ اس مال میں اتنا ÛÛŒ ÛÛ’ جتنا قرآن Ú©ÛŒ رو سے مال یتیم میں اس Ú©Û’ ولی کا Ûوتا ÛÛ’ Ú©Û Ù…Ù† کان غنیا ÙلیستعÙ٠ومن کان Ùقیرا Ùلیا Ú©Ù„ بالمعرو٠(جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا Ûو‘ ÙˆÛ Ø§Ø³ مال سے ØªÙ†Ø®ÙˆØ§Û Ù„ÛŒØªÛ’ Ûوئے شرم کرے اور جو واقعی Ø+اجت مند ÛÙˆ ÙˆÛ Ø§ØªÙ†ÛŒ ØªÙ†Ø®ÙˆØ§Û Ù„Û’ جسے Ûر معقول آدمی مبنی برانصا٠مانے)Û” خلیÙÛ Ø§Ø³ Ú©ÛŒ ایک ایک پائی Ú©Û’ آمد Ùˆ خرچ پر Ø+ساب دینے کا Ø°Ù…Û Ø¯Ø§Ø± ÛÛ’ اور مسلمانوں Ú©Ùˆ اس سے Ø+ساب مانگنے کا پورا Ø+Ù‚ ÛÛ’Û” خلÙائے راشدینؓ Ù†Û’ اس اصول Ú©Ùˆ بھی کمال Ø¯Ø±Ø¬Û Ø¯ÛŒØ§Ù†Øª اور Ø+Ù‚ شناسی Ú©Û’ ساتھ برت کر دکھایا۔ ان Ú©Û’ خزانے میں جو Ú©Ú†Ú¾ بھی آتا تھا‘ ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون Ú©Û’ مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو Ú©Ú†Ú¾ خرچ Ûوتا تھا‘ بالکل جائز راستوں میں Ûوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا‘ اس Ù†Û’ ایک Ø+Ø¨Û Ø§Ù¾Ù†ÛŒ ذات Ú©Û’ لیے ØªÙ†Ø®ÙˆØ§Û Ú©Û’ طور پر وصول کیے بغیر Ù…Ùت خدمت انجام دی‘ Ø¨Ù„Ú©Û Ø§Ù¾Ù†ÛŒ Ú¯Ø±Û Ø³Û’ قوم Ú©Û’ لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ Ù†Û Ú©ÛŒØ§ اور جو ØªÙ†Ø®ÙˆØ§Û Ú©Û’ بغیر ÛÙ…Û ÙˆÙ‚ØªÛŒ خدمت گار Ù†Û Ø¨Ù† سکتے تھے۔
انÛÙˆÚº Ù†Û’ اپنی ضروریات٠زندگی Ú©Û’ لیے اتنی Ú©Ù… ØªÙ†Ø®ÙˆØ§Û Ù„ÛŒ Ú©Û Ûر معقول آدمی اسے انصا٠سے Ú©Ù… ÛÛŒ مانے گا‘ Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ú©ÛÙ†Û’ Ú©ÛŒ جرأت ان کا دشمن بھی Ù†Ûیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے Ú©ÛŒ آمد Ùˆ خرچ کا Ø+ساب Ûر وقت Ûر شخص مانگ سکتا تھا اور ÙˆÛ Ûر وقت Ûر شخص Ú©Û’ سامنے Ø+ساب دینے Ú©Û’ لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا Ú©Û Ø®Ø²Ø§Ù†Û’ میں یمن سے جو چادریں آئی Ûیں‘ ان کا طول Ùˆ عرض تو اتنا Ù†Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ø¬Ù†Ø§Ø¨ کا ÛŒÛ Ù„Ù…Ø¨Ø§ Ú©Ø±ØªÛ Ø¨Ù† سکے‘ ÛŒÛ Ø²Ø§Ø¦Ø¯ کپڑا آپ Ú©Ûاں سے لائے Ûیں؟ مگر جب خلاÙت بادشاÛÛŒ میں تبدیل Ûوئی تو Ø®Ø²Ø§Ù†Û Ø®Ø¯Ø§ اور مسلمانوں کا Ù†Ûیں Ø¨Ù„Ú©Û Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§Û Ú©Ø§ مال تھا‘ Ûر جائز Ùˆ ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور Ûر جائز Ùˆ ناجائز راستے میں بے غل Ùˆ غش صر٠Ûوتی تھی۔ کسی Ú©ÛŒ مجال Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø§Ø³ Ú©Û’ Ø+ساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوان یغما تھا جس پر ایک Ûر کارے سے Ù„Û’ کر سربراÛ٠مملکت تک‘ Ø+کومت Ú©Û’ سارے Ú©Ù„ پرزے Ø+سب٠توÙیق Ûاتھ مار رÛÛ’ تھے اور Ø°Ûنوں سے ÛŒÛ ØªØµÙˆØ± ÛÛŒ Ù†Ú©Ù„ گیا تھا Ú©Û Ø§Ù‚ØªØ¯Ø§Ø± کوئی Ù¾Ø±ÙˆØ§Ù†Û Ø§Ø¨Ø§Ø+ت Ù†Ûیں ÛÛ’ جس Ú©ÛŒ بدولت ÛŒÛ Ù„ÙˆÙ¹ مار ان Ú©Û’ لیے Ø+لال ÛÙˆ اور پبلک کا مال کوئی شیر مادر Ù†Ûیں Ûے‘ جسے ÙˆÛ Ûضم کرتے رÛیں اور کسی Ú©Û’ سامنے انÛیں اس کا Ø+ساب دینا Ù†Û ÛÙˆÛ”
Û”6Û” قانون Ú©ÛŒ Ø+کومت:Û”
چھٹا اصول اس دستور کا ÛŒÛ ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ù…Ù„Ú© میں قانون (یعنی خدا اور Ø±Ø³ÙˆÙ„Ø Ú©Û’ قانون) Ú©ÛŒ Ø+کومت Ûونی چاÛیے۔ کسی Ú©Ùˆ قانون سے بالاتر Ù†Û Ûونا چاÛیے۔ کسی Ú©Ùˆ قانون Ú©Û’ Ø+دود سے باÛر جا کر کام کرنے کا Ø+Ù‚ Ù†Û Ûونا چاÛیے۔ ایک ایک عامی سے Ù„Û’ کر سربراÛ٠مملکت تک سب Ú©Û’ لیے ایک ÛÛŒ قانون Ûونا چاÛیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے ناÙØ° Ûونا چاÛیے۔ انصا٠کے معاملے میں کسی Ú©Û’ ساتھ کوئی امتیازی سلوک Ù†Û Ûونا چاÛیے اور عدالتوں Ú©Ùˆ انصا٠کرنے Ú©Û’ لیے Ûر دبائو سے بالکل آزاد Ûونا چاÛیے۔ خلÙائے راشدینؓ Ù†Û’ اس اصول Ú©ÛŒ پیروی کا بھی بÛترین Ù†Ù…ÙˆÙ†Û Ù¾ÛŒØ´ کیا تھا۔ بادشاÛÙˆÚº سے بڑھ کر اقتدار رکھنے Ú©Û’ باوجود ÙˆÛ Ù‚Ø§Ù†ÙˆÙ† الٰÛÛŒ Ú©ÛŒ بندشوں میں جکڑے Ûوئے تھے‘ Ù†Û Ø§Ù† Ú©ÛŒ دوستی اور Ø±Ø´ØªÛ Ø¯Ø§Ø±ÛŒ قانون Ú©ÛŒ Ø+د سے Ù†Ú©Ù„ کر کسی Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ Ù†Ùع Ù¾Ûنچا سکتی تھی‘ اور Ù†Û Ø§Ù† Ú©ÛŒ ناراضگی کسی Ú©Ùˆ قانون Ú©Û’ خلا٠کوئی نقصان Ù¾Ûنچا سکتی تھی۔ کوئی ان Ú©Û’ اپنے Ø+Ù‚ پر بھی دست درازی کرتا تو ÙˆÛ Ø§ÛŒÚ© عام آدمی Ú©ÛŒ طرØ+ عدالت کا Ø¯Ø±ÙˆØ§Ø²Û Ú©Ú¾Ù¹Ú©Ú¾Ù¹Ø§ØªÛ’ تھے اور کسی Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ خلا٠شکایت Ûوتی تو ÙˆÛ Ø§Ø³ØªØºØ§Ø«Û Ú©Ø± Ú©Û’ انÛیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرØ+ انÛÙˆÚº Ù†Û’ اپنی Ø+کومت Ú©Û’ گورنروں اور Ø³Ù¾Û Ø³Ø§Ù„Ø§Ø±ÙˆÚº Ú©Ùˆ بھی قانون Ú©ÛŒ گرÙت میں کس رکھا تھا‘ کسی Ú©ÛŒ مجال Ù†Û ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø¹Ø¯Ø§Ù„Øª Ú©Û’ کام میں کسی قاضی پر اثرانداز Ûونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا ÛŒÛ Ù…Ø±ØªØ¨Û Ù†Û ØªÚ¾Ø§ Ú©Û Ù‚Ø§Ù†ÙˆÙ† Ú©ÛŒ Ø+د سے قدم باÛر نکال کر Ù…ÙˆØ§Ø®Ø°Û Ø³Û’ بچ جاتا۔ لیکن خلاÙت سے بادشاÛÛŒ Ú©ÛŒ طر٠انتقال واقع Ûوتے ÛÛŒ اس قاعدے Ú©Û’ بھی چیتھڑے اڑ گئے۔
اب Ø¨Ø§Ø¯Ø´Ø§Û Ø§ÙˆØ± شاÛزادے اور امرا Ø¡ اور Ø+کام اور Ø³Ù¾Û Ø³Ø§Ù„Ø§Ø± ÛÛŒ Ù†Ûیں‘ شاÛÛŒ Ù…Ø+لات Ú©Û’ Ù…Ù†Û Ú†Ú‘Ú¾Û’ لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ÛÙˆ گئے۔ لوگوں Ú©ÛŒ گردنیں، مال اور آبروئیں‘ سب ان Ú©Û’ لیے مباØ+ ÛÙˆ گئیں۔ انصا٠کے دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور Ú©Û’ لیے اور دوسرا طاقت ور Ú©Û’ لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے Ù„Ú¯Û’ اور بے لاگ انصا٠کرنے والے قاضیوں Ú©ÛŒ شامت آنے لگی۔ Ø+تیٰ Ú©Û Ø®Ø¯Ø§ ترس ÙÙ‚Ûا Ø¡ Ù†Û’ عدالت Ú©ÛŒ کرسی پر بیٹھنے Ú©Û’ بجائے Ú©ÙˆÚ‘Û’ کھانا اور قید ÛÙˆ جانا Ø²ÛŒØ§Ø¯Û Ù‚Ø§Ø¨Ù„Ù ØªØ±Ø¬ÛŒØ+ سمجھا ØªØ§Ú©Û ÙˆÛ Ø¸Ù„Ù… Ùˆ جور Ú©Û’ Ø§Ù“Ù„Û Ú©Ø§Ø± بن کر خدا Ú©Û’ عذاب Ú©Û’ مستØ+Ù‚ Ù†Û Ø¨Ù†ÛŒÚºÛ”
Û”7Û” Ø+قوق اور مراتب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کامل مساوات:Û”
مسلمانوں میں Ø+قوق اور مراتب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کامل مساوات‘ اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت Ú©Û’ ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں Ú©Û’ درمیان نسل‘ وطن‘ زبان ÙˆØºÛŒØ±Û Ú©Ø§ کوئی امتیاز Ù†Û ØªÚ¾Ø§Û” قبیلے اور خاندان اور Ø+سب Ùˆ نسب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کسی Ú©Ùˆ کسی پر Ùضیلت Ù†Û ØªÚ¾ÛŒÛ” خدا اور Ø±Ø³ÙˆÙ„Ø Ú©Û’ ماننے والے سب لوگوں Ú©Û’ Ø+قوق یکساں تھے اور سب Ú©ÛŒ Ø+یثیت برابر تھی۔ ایک Ú©Ùˆ دوسرے پر ترجیØ+ اگر تھی تو سیرت Ùˆ اخلاق اور اÛلیت Ùˆ صلاØ+یت‘ اور خدمات Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے تھی۔ لیکن خلاÙت Ú©ÛŒ Ø¬Ú¯Û Ø¬Ø¨ بادشاÛÛŒ نظام آیا تو عصبیت Ú©Û’ شیاطین Ûر گوشے سے سر اٹھانے Ù„Ú¯Û’Û” شاÛÛŒ خاندان اور ان Ú©Û’ Ø+امی خانوادوں کا Ù…Ø±ØªØ¨Û Ø³Ø¨ سے بلند Ùˆ برتر ÛÙˆ گیا۔ ان Ú©Û’ قبیلوں Ú©Ùˆ دوسرے قبیلوں پر ترجیØ+ÛŒ Ø+قوق Ø+اصل ÛÙˆ گئے۔ عربی اور عجمی Ú©Û’ تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے Ú©Û’ درمیان Ú©Ø´ Ù…Ú©Ø´ پیدا ÛÙˆ گئی۔ ملت٠اسلامی Ú©Ùˆ اس چیز Ù†Û’ جو نقصان Ù¾Ûنچایا اس پر تاریخ Ú©Û’ اوراق Ú¯ÙˆØ§Û Ûیں۔
امام Ø+سینؓ کا Ù…ÙˆÙ…Ù†Ø§Ù†Û Ú©Ø±Ø¯Ø§Ø±:Û”
ÛŒÛ ØªÚ¾Û’ ÙˆÛ ØªØºÛŒØ±Ø§Øª جو اسلامی خلاÙت Ú©Ùˆ خاندانی بادشاÛت میں تبدیل کرنے سے رونما Ûوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی Ø+قیقت کا انکار Ù†Ûیں کر سکتا Ú©Û ÛŒØ²ÛŒØ¯ Ú©ÛŒ ولی عÛدی ان تغیرات کا نقطÛÙ” آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن Ù†Ûیں ÛÛ’ Ú©Û Ø§Ø³ نقطے سے Ú†Ù„ کر تھوڑی مدت Ú©Û’ اندر ÛÛŒ بادشاÛÛŒ نظام میں ÙˆÛ Ø³Ø¨ خرابیاں نمایاں ÛÙˆ گئیں جو اوپر بیان Ú©ÛŒ گئی Ûیں۔ جس وقت ÛŒÛ Ø§Ù†Ù‚Ù„Ø§Ø¨ÛŒ قدم اٹھایا گیا تھا‘ اس وقت ÛŒÛ Ø®Ø±Ø§Ø¨ÛŒØ§Úº Ø§Ú¯Ø±Ú†Û Ø¨ØªÙ…Ø§Ù… Ùˆ کمال سامنے Ù†Û Ø§Ù“Ø¦ÛŒ تھیں‘ مگر Ûر صاØ+ب٠بصیرت آدمی جان سکتا تھا Ú©Û Ø§Ø³ اقدام Ú©Û’ لازمی نتائج ÛŒÛÛŒ Ú©Ú†Ú¾ Ûیں اور اس سے ان اصلاØ+ات پر پانی پھر جانے والا ÛÛ’ جو اسلام Ù†Û’ سیاست Ùˆ ریاست Ú©Û’ نظام میں Ú©ÛŒ Ûیں۔ اسی لیے امام Ø+سینؓ اس پر صبر Ù†Û Ú©Ø± سکے اور انÛÙˆÚº Ù†Û’ ÙÛŒØµÙ„Û Ú©ÛŒØ§ Ú©Û Ø¬Ùˆ بدتر سے بدتر نتائج بھی انÛیں ایک مضبوط جمی جمائی Ø+کومت Ú©Û’ خلا٠اٹھنے میں بھگتنے پڑیں‘ ان کا Ø®Ø·Ø±Û Ù…ÙˆÙ„ Ù„Û’ کر بھی انÛیں اس انقلاب Ú©Ùˆ روکنے Ú©ÛŒ کوشش کرنی چاÛیے۔
اس کوشش کا جو انجام Ûوا‘ ÙˆÛ Ø³Ø¨ Ú©Û’ سامنے ÛÛ’Û” مگر امامؓ Ù†Û’ اس عظیم خطرے میں کود کر اور Ù…Ø±Ø¯Ø§Ù†Û ÙˆØ§Ø± اس Ú©Û’ نتائج Ú©Ùˆ انگیز کر Ú©Û’ جو بات ثابت Ú©ÛŒ ÙˆÛ ÛŒÛ ØªÚ¾ÛŒ Ú©Û Ø§Ø³Ù„Ø§Ù…ÛŒ ریاست Ú©ÛŒ بنیادی خصوصیات امت Ù…Ø³Ù„Ù…Û Ú©Ø§ ÙˆÛ Ø¨ÛŒØ´ قیمت Ø³Ø±Ù…Ø§ÛŒÛ Ûیں‘ جسے بچانے Ú©Û’ لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں Ú©Ùˆ بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد Ú©Û’ مقابلے میں ÛŒÛ Ú©ÙˆØ¦ÛŒ Ù…Ûنگا سودا Ù†Ûیں ÛÛ’ اور ان خصوصیات Ú©Û’ مقابلے میں ÙˆÛ Ø¯ÙˆØ³Ø±Û’ تغیرات جنÛیں اوپر نمبروار گنایا گیا Ûے‘ دین اور ملت Ú©Û’ لیے ÙˆÛ Ø§Ù“Ùت عظمیٰ Ûیں جسے روکنے Ú©Û’ لیے ایک مومن Ú©Ùˆ اگر اپنا سب Ú©Ú†Ú¾ قربان کر دینا Ù¾Ú‘Û’ تو اس میں دریغ Ù†Û Ú©Ø±Ù†Ø§ چاÛیے۔ Ø+سینؓ ابن علیؓ Ú©ÛŒ Ù†Ú¯Ø§Û Ù…ÛŒÚº ÛŒÛ Ø§ÛŒÚ© دینی ÙØ±ÛŒØ¶Û ØªÚ¾Ø§ اسی لیے انÛÙˆÚº Ù†Û’ جان قربان کی۔