Results 1 to 2 of 2

Thread: مقصد قیام امام Ø+سینؓ Û”Û”Û”Û”Û”Û” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی Ø’

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Islam مقصد قیام امام Ø+سینؓ Û”Û”Û”Û”Û”Û” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی Ø’

    مقصد قیام امام Ø+سینؓ Û”Û”Û”Û”Û”Û” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی Ø’

    maqsad e Hussain RA.jpg
    امام عالی مقام ؓ کی نگاہیں مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کے نظام میں کسی
    بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک
    ضروری تھا ، اس عظیم مقصد کی راہ میں شہادت کو بھی فرض سمجھتے تھے

    بادشاہی دور کے آتے ہی خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال بھی دل سے نکلنے لگا

    آپ ؓ نے اسلامی معاشرے میں پھیلتے ہوئے غیر اسلامی نظام کا رراستہ روکنے کے لئے شہادت دی
    یزید کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ء ہو رہی تھی‘ وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مقصد کی تبدیلی تھی

    مقصد شہادت:۔۔
    ہر سال Ù…Ø+رم میں کروڑوں مسلمان امام Ø+سین Ø“ Ú©ÛŒ شہادت پر اپنے رنج Ùˆ غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ بہت ہی Ú©Ù… لوگ اس مقصد Ú©ÛŒ طرف توجہ کرتے ہیں‘ جس Ú©Û’ لیے Ø+ضرت امام Ø+سین ؓنے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان Ú©ÛŒ بلکہ اپنے کنبے Ú©Û’ بچوں تک Ú©ÛŒ قربانی دی Û” کسی شخص Ú©ÛŒ مظلومانہ شہادت پر اس Ú©Û’ اہلِ خاندان کا‘ اور اس خاندان سے Ù…Ø+بت Ùˆ عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کا اظہارِ غم کرنا تو ایک فطری بات ہے۔ ایسا رنج Ùˆ غم دنیا Ú©Û’ ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں Ú©ÛŒ طرف سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس Ú©ÛŒ کوئی اخلاقی قدر Ùˆ قیمت اس سے زیادہ نہیں کہ اس شخص Ú©ÛŒ ذات Ú©Û’ ساتھ اس Ú©Û’ رشتہ داروں Ú©ÛŒ اور خاندان Ú©Û’ ہمدردوں Ú©ÛŒ Ù…Ø+بت کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امام Ø+سینؓ Ú©ÛŒ وہ کیا خصوصیت ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے سینکڑوں برس گزر جانے پر بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ قربانی ہی کیوں دیتے؟ ان Ú©ÛŒ یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد Ú©Ùˆ جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ لہٰذا اگر ہم اس مقصد Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ نہ کریں تو یہ اس مقصد Ú©Û’ ساتھ زیادتی ہوگی۔
    اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا؟ امام Ø+سین Ø“ Ù†Û’ سر دھڑ Ú©ÛŒ بازی لگائی اپنے عظیم تر مقصد Ú©Û’ لئے لگائی ØŒ ہر شخص امام Ø+سینؓ Ú©Û’ گھرانے Ú©ÛŒ بلند اخلاقی سیرت Ú©Ùˆ جانتا ہے‘ یہ پاک ہستیاں اپنی ذات Ú©Û’ لیے کوئی کام کر ہی نہیں سکتی تھیں۔ امام عالی مقام Ø“Ú©ÛŒ نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست Ú©ÛŒ روØ+ اور اس Ú©Û’ مزاج اور اس Ú©Û’ نظام میں کسی بڑے تغیر Ú©Û’ آثار دیکھ رہی تھیں‘ جسے روکنے Ú©ÛŒ جدوجہد کرنا ان Ú©Û’ نزدیک ضروری تھا‘ Ø+تیٰ کہ اس راہ میں Ù„Ú‘Ù†Û’ Ú©ÛŒ نوبت بھی آجائے تو وہ نہ صرف اسے جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے۔
    ریاست Ú©Û’ مزاج‘ مقصد اور دستور Ú©ÛŒ تبدیلی:وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں Ù†Û’ اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ Ø+کمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول کریم ï·º اور قرآن Ú©Ùˆ اسی طرØ+ مان رہے تھے‘ جس طرØ+ پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا۔ عدالتوں میں قرآن اور سنت ہی Ú©Û’ مطابق تمام معاملات Ú©Û’ فیصلے بنی اْمیّہ Ú©ÛŒ Ø+کومت میں بھی ہو رہے تھے‘ جس طرØ+ ان Ú©Û’ برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا Ú©ÛŒ مسلم Ø+کومتوں میں سے کسی Ú©Û’ دور میں بھی نہیں ہوا۔ وہ تغیر جسے روکنے Ú©Û’ لیے امام Ø+سین Ø“Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوئے تھے‘ یہ تھا کہ ایک بہت برا آدمی برسرِ اقتدار آگیا تھا۔اس Ù†Û’ امام Ø+سینؓ Ú©Ùˆ بے چین کیا تھا۔ تاریخ Ú©Û’ غائر مطالعہ سے جو چیز واضØ+ طور پر ہمارے سامنے آتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ یزید Ú©ÛŒ ولی عہدی اور پھر اس Ú©ÛŒ تخت نشینی سے دراصل جس خرابی Ú©ÛŒ ابتدا Ø¡ ہو رہی تھی‘ وہ اسلامی ریاست Ú©Û’ دستور اور اس Ú©Û’ مزاج اور اس Ú©Û’ مقصد Ú©ÛŒ تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی Ú©Û’ پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاØ+بِ نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے اور جس راہ پر یہ Ù…Ú‘ رہی ہے وہ آخرکار اسے کہاں Ù„Û’ جائے گا۔ یہی رخ Ú©ÛŒ تبدیلی تھی جسے امام Ø+سین ؓنے دیکھا اور گاڑی Ú©Ùˆ پھر سے صØ+ÛŒØ+ پٹڑی پر ڈالنے Ú©Û’ لیے اپنی جان دینے کا فیصلہ کیا۔
    نقطہ انØ+راف:Û”
    اس چیز Ú©Ùˆ ٹھیک ٹھیک سمجھنے Ú©Û’ لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہﷺ اور خلفاء راشدینؓ Ú©ÛŒ سربراہی میں ریاست کا جو نظام 40 سال تک چلتا رہا تھا‘ اس Ú©Û’ دستور Ú©ÛŒ بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید Ú©ÛŒ ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا‘ اس Ú©Û’ اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ Ùˆ بنی عباس اور بعد Ú©ÛŒ بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر Ú†Ù„ رہی تھی اور اس نقطۂ انØ+راف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر Ú†Ù„ پڑی‘ اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص Ù†Û’ رسول اللہﷺ اور سیدہ فاطمہؓ اور Ø+ضرت علیؓ Ú©ÛŒ آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس Ù†Û’ صØ+ابہؓ Ú©ÛŒ بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک Ú©ÛŒ منزلیں Ø·Û’ Ú©ÛŒ تھیں‘ وہ کیوں اس نقطہ انØ+راف Ú©Û’ سامنے آتے ہی گاڑی Ú©Ùˆ نئی لائن پر جانے سے روکنے Ú©Û’ لیے کھڑا ہو گیا‘ اور کیوں اس Ù†Û’ اس بات Ú©ÛŒ بھی پروا نہ Ú©ÛŒ کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے Ú©Û’ لیے اس Ú©Û’ آگے Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے؟
    انسانی بادشاہی کا آغاز:Û” اسلامی ریاست Ú©ÛŒ اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا‘ اور عملی رویہ سے اس عقیدہ Ùˆ یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے‘ باشندے خدا Ú©ÛŒ رعیت ہیں اور Ø+کومت اس رعیت Ú©Û’ معاملے میں خدا Ú©Û’ سامنے جوابدہ ہے۔ Ø+کومت اس رعیت Ú©ÛŒ مالک نہیں ہے۔ اور رعیت اس Ú©ÛŒ غلام نہیں ہے۔ Ø+کمرانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا Ú©ÛŒ بندگی Ùˆ غلامی کا قلاوہ ڈالنا ہے‘ پھر یہ ان Ú©ÛŒ ذمہ داری ہے کہ خدا Ú©ÛŒ رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید Ú©ÛŒ ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا‘ اس میں خدا Ú©ÛŒ بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک Ù…Ø+دود رہ گیا۔ عملاً اس Ù†Û’ وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے‘ یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت Ú©ÛŒ جان‘ مال‘ آبرو‘ ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا‘ بادشاہ اور ان Ú©Û’ خاندان اور امراء اور Ø+کام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔
    امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل:۔
    اسلامی ریاست کا مقصد خدا Ú©ÛŒ زمین میں ان نیکیوں Ú©Ùˆ قائم کرنا اور فروغ دینا تھا‘ جو خدا Ú©Ùˆ Ù…Ø+بوب ہیں اور ان برائیوں Ú©Ùˆ دبانا اور مٹانا تھا جو خدا Ú©Ùˆ ناپسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے Ú©Û’ بعد Ø+کومت کا مقصد فتØ+ ممالک اور تسخیر خلائق اور تØ+صیل باج Ùˆ خراج اور عیش دنیا Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے Ú©ÛŒ خدمت بادشاہوں Ù†Û’ Ú©Ù… ہی انجام دی۔ ان Ú©Û’ ہاتھوں اور ان Ú©Û’ امرا اور Ø+کام اور درباریوں Ú©Û’ ہاتھوں بھلائیاں Ú©Ù… اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں Ú©Û’ فروغ اور برائیوں Ú©ÛŒ روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی Ú©ÛŒ تØ+قیق Ùˆ تدوین Ú©Û’ لیے جن اللہ Ú©Û’ بندوں Ù†Û’ کام کیا‘ انہیں Ø+کومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ Ø+کمرانوں Ú©Û’ غضب ہی میں گرفتار رہے اور اپنا کام وہ ان Ú©ÛŒ مزاØ+متوں Ú©Û’ علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان Ú©ÛŒ کوششوں Ú©Û’ برعکس Ø+کومتوں اور ان Ú©Û’ Ø+کام Ùˆ متوسلین Ú©ÛŒ زندگیوں اور پالیسیوں Ú©Û’ اثرات مسلم معاشرے Ú©Ùˆ پیہم اخلاقی زوال ہی Ú©ÛŒ طرف Ù„Û’ جاتے رہے۔ Ø+د یہ ہے کہ ان لوگوں Ù†Û’ اپنے مفاد Ú©ÛŒ خاطر اسلام Ú©ÛŒ اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا‘ جس Ú©ÛŒ بدترین مثال بنو امیہ Ú©ÛŒ Ø+کومت میں نومسلموں پر جزیہ لگانے Ú©ÛŒ صورت میں ظاہر ہوئی۔
    اسلامی ریاست Ú©ÛŒ روØ+ تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری Ú©ÛŒ روØ+ تھی‘ جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ Ø+کومت Ú©Û’ عمال اور قاضی اور سپہ سالار‘ سب اس روØ+ سے سرشار ہوتے تھے اور پھر اس روØ+ سے وہ پورے معاشرے Ú©Ùˆ سرشار کرتے تھے‘ لیکن بادشاہی Ú©ÛŒ راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں Ú©ÛŒ Ø+کومتوں اور ان Ú©Û’ Ø+کمرانوں Ù†Û’ قیصر Ùˆ کسریٰ Ú©Û’ سے رنگ ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کر لیے۔ عدل Ú©ÛŒ جگہ ظلم Ùˆ جور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیزگاری Ú©ÛŒ جگہ فسق Ùˆ فجور اور راگ رنگ اور عیش Ùˆ عشرت کا دور دورہ شروع ہو گیا۔ Ø+رام Ùˆ Ø+لال Ú©ÛŒ تمیز سے Ø+کمرانوں Ú©ÛŒ سیرت Ùˆ کردار خالی ہوتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے Ú©ÛŒ بجائے Ø+اکم لوگ بندگانِ خدا Ú©Ùˆ اپنے آپ سے ڈرانے Ù„Ú¯Û’ اور لوگوں Ú©Û’ ایمان Ùˆ ضمیر بیدار کرنے Ú©Û’ بجائے ان Ú©Ùˆ اپنی بخششوں Ú©Û’ لالچ سے خریدنے Ù„Ú¯Û’Û”
    اسلامی دستور Ú©Û’ بنیادی اصول:یہ تو تھا روØ+ Ùˆ مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور Ú©Û’ بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور Ú©Û’7 اہم ترین اصول تھے‘ جن میں سے ہر ایک Ú©Ùˆ بدل ڈالا گیا۔
    ۔1۔ آزادانہ انتخاب:۔
    دستورِ اسلامی کا سنگِ بنیاد یہ تھا کہ Ø+کومت لوگوں Ú©ÛŒ آزادانہ رضا مندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار Ø+اصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی Ú©Ùˆ Ú†Ù† کر اقتدار اس Ú©Û’ سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ بیعت Ø+اصل ہونے میں آدمی Ú©ÛŒ اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے Ú©Û’ معاملے میں پوری طرØ+ آزاد ہوں۔ جب تک کسی شخص Ú©Ùˆ بیعت Ø+اصل نہ ہو وہ برسرِ اقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدین ؓمیں سے ہر ایک اسی قاعدے Ú©Û’ مطابق برسرِ اقتدار آیا تھا۔ آخرکار یزید Ú©ÛŒ ولی عہدی وہ بدترین کارروائی ثابت ہوئی جس Ù†Û’ اس قاعدے Ú©Ùˆ الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں Ú©ÛŒ موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا‘ جس Ú©Û’ بعد سے آج تک پھر مسلمانوں Ú©Ùˆ انتخابی خلافت Ú©ÛŒ طرف پلٹنا نصیب نہ ہو سکا۔ اب لوگ مسلمانوں Ú©Û’ آزادانہ اور Ú©Ú¾Ù„Û’ مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسرِ اقتدار آنے Ù„Ú¯Û’Û” اب بیعت سے اقتدار Ø+اصل ہونے Ú©ÛŒ بجائے اقتدار سے بیعت Ø+اصل Ú©ÛŒ جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا Ø+اصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے Ú©Û’ لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں Ú©ÛŒ اول تو یہ مجال نہ تھی کہ جس Ú©Û’ ہاتھ میں اقتدار تھا‘ اس Ú©ÛŒ بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس Ú©Û’ ہاتھ میں اقتدار آ گیا تھا‘ وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت Ú©Ùˆ کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی Ú©Û’ زمانہ میں امام مالکؒ سے سرزد ہوا تو ان Ú©ÛŒ پیٹھ پر Ú©ÙˆÚ‘Û’ برسائے گئے اور ان Ú©Û’ ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دئیے گئے۔
    ۔2۔ شورائی نظام:۔
    دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ Ø+کومت مشورے سے Ú©ÛŒ جائے اور مشورہ ان بزرگوں سے کیا جائے جن Ú©Û’ علم‘ تقویٰ اور اصابتِ رائے پر عام لوگوں Ú©Ùˆ اعتماد ہو۔ خلفائے راشدین Ø“Ú©Û’ عہد میں جو لوگ شوریٰ Ú©Û’ رکن بنائے گئے‘ اگرچہ ان Ú©Ùˆ انتخاب عام Ú©Û’ ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ جدید زمانے Ú©Û’ تصور Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے۔ لیکن خلفاءؓنے یہ دیکھ کر ان Ú©Ùˆ مشیر نہیں بنایا تھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے اور ہمارے مفاد Ú©ÛŒ خدمت کرنے Ú©Û’ لیے موزوں ترین لوگ ہیں۔ بلکہ انہوں Ù†Û’ پورے خلوص اور بے غرضی Ú©Û’ ساتھ قوم Ú©Û’ بہترین عناصر Ú©Ùˆ چنا تھا‘ جن سے وہ Ø+Ù‚ گوئی Ú©Û’ سوا کسی چیز Ú©ÛŒ توقع نہ رکھتے تھے‘ جن سے یہ امید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم Ùˆ ضمیر Ú©Û’ مطابق بالکل صØ+ÛŒØ+ ایماندارانہ رائے دیں گے‘ جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتا تھا کہ وہ Ø+کومت Ú©Ùˆ کسی غلط راہ پر جانے دیں Ú¯Û’Û” اگر اس وقت ملک میں آج Ú©Ù„ Ú©Û’ طریقے Ú©Û’ مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انہی لوگوں Ú©Ùˆ اپنے اعتماد کا مستØ+Ù‚ قرار دیتے۔ لیکن شاہی دور کا آغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی Ú©Û’ ساتھ Ø+کومت کرنے Ù„Ú¯Û’Û” اب شاہزادے اور خوشامدی اہل دربار‘ اور صوبوں Ú©Û’ گورنر اور فوجوں Ú©Û’ سپہ سالار ان Ú©ÛŒ کونسل Ú©Û’ ممبر تھے۔ اب وہ لوگ ان Ú©Û’ مشیر تھے‘ جن Ú©Û’ معاملہ میں اگر قوم Ú©ÛŒ رائے Ù„ÛŒ جاتی تو اعتماد Ú©Û’ ایک ووٹ Ú©Û’ مقابلہ میں لعنت Ú©Û’ ہزار ووٹ آتے اور اس Ú©Û’ برعکس وہ Ø+Ù‚ شناس Ùˆ Ø+Ù‚ Ú¯Ùˆ اہل علم Ùˆ تقویٰ جن پر قوم Ú©Ùˆ اعتماد تھا‘ وہ بادشاہوں Ú©ÛŒ نگاہ میں کسی اعتماد Ú©Û’ مستØ+Ù‚ نہ تھے‘ بلکہ الٹے معتوب یا Ú©Ù… از Ú©Ù… مشتبہ تھے۔
    ۔3۔ اظہارِ رائے کی آزادی:۔
    اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھا کہ لوگوں Ú©Ùˆ اظہارِ رائے Ú©ÛŒ پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف Ùˆ نہی عن المنکر Ú©Ùˆ اسلام Ù†Û’ ہر مسلمان کا Ø+Ù‚ ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست Ú©Û’ صØ+ÛŒØ+ راستہ پر چلنے کا انØ+صار اس بات پر تھا کہ لوگوں Ú©Û’ ضمیر اور ان Ú©ÛŒ زبانیں آزاد ہوں‘ وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی Ú©Ùˆ ٹوک سکیں اور Ø+Ù‚ بات برملا کہہ سکیں۔ خلافت راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ Ø+Ù‚ پوری طرØ+ Ù…Ø+فوظ تھا‘ بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض Ú©Û’ ادا کرنے میں ان Ú©ÛŒ ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان Ú©ÛŒ مجلسِ شوریٰ Ú©Û’ ممبروں ہی Ú©Ùˆ نہیں‘ قوم Ú©Û’ ہر شخص Ú©Ùˆ بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے Ú©ÛŒ مکمل آزادی تھی‘ جس Ú©Û’ استعمال پر لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اور تعریف سے نوازے جاتے تھے۔ یہ آزادی ان Ú©ÛŒ طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی جس Ú©Û’ لیے وہ قوم پر اپنا اØ+سان جتاتے‘ بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری Ø+Ù‚ تھا‘ جس کا اØ+ترام کرنا وہ اپنا فرض سمجھتے تھے‘ اور اسے بھلائی Ú©Û’ لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول کریم ï·º کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا‘ جس Ú©ÛŒ ادائیگی Ú©Û’ لیے معاشرے اور ریاست Ú©ÛŒ فضا Ú©Ùˆ ہر وقت سازگار رکھنا ان Ú©ÛŒ نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جزو تھا۔ لیکن بادشاہی دور کا آغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھا دئیے گئے اور منہ بند کر دئیے گئے۔

    اب قاعدہ یہ ہو گیا کہ زبان کھولو تو تعریف میں کھولو‘ ورنہ Ú†Ù¾ رہو۔ اور اگر تمہارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ Ø+Ù‚ گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل Ú©Û’ لیے تیار ہو جائو۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں Ú©Ùˆ پست ہمت‘ بزدل اور مصلØ+ت پرست بناتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ خطرہ مول Ù„Û’ کر سچی بات کہنے والے ان Ú©Û’ اندر Ú©Ù… سے Ú©Ù… ہوتے Ú†Ù„Û’ گئے۔ خوشامد اور چاپلوسی Ú©ÛŒ قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور Ø+Ù‚ پرستی Ùˆ راست بازی Ú©ÛŒ قیمت گرتی Ú†Ù„ÛŒ گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایماندار اور آزاد خیال لوگ Ø+کومت سے بے تعلق ہو گئے اور عوام کا Ø+ال یہ ہو گیا کہ کسی شاہی خاندان Ú©ÛŒ Ø+کومت برقرار رکھنے Ú©Û’ لیے ان Ú©Û’ دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک Ú©Ùˆ ہٹانے Ú©Û’ لیے جب دوسرا آیا تو انہوں Ù†Û’ مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی اور گرنے والا جب گرا تو انہوں Ù†Û’ ایک لات اور رسید کر Ú©Û’ اسے زیادہ گہرے Ú¯Ú‘Ú¾Û’ میں پھینکا۔ Ø+کومتیں جاتی اور آتی رہیں‘ مگر لوگوں Ù†Û’ تماشائی سے بڑھ کر اس آمد Ùˆ رفت Ú©Û’ منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔
    ۔4۔ خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی:۔
    چوتھا اصول‘ جو اس تیسرے اصول Ú©Û’ ساتھ لازمی تعلق رکھتا تھا‘ یہ تھا کہ خلیفہ اور اس Ú©ÛŒ Ø+کومت خدا اور خلق دونوں Ú©Û’ سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا Ú©Û’ سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ اس Ú©Û’ شدید اØ+ساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام Ø+رام ہو گیا تھا اور جہاں تک خلق Ú©Û’ سامنے جواب دہی کا تعلق ہے‘ وہ ہر وقت‘ ہر جگہ اپنے آپ Ú©Ùˆ عوام Ú©Û’ سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔ ان Ú©ÛŒ Ø+کومت کا یہ اصول نہ تھا کہ صرف مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیا جاسکتا ہے‘ وہ ہر روز 5مرتبہ نماز Ú©ÛŒ جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے۔ وہ ہر ہفتے جمعہ Ú©ÛŒ جماعت میں عوام Ú©Û’ سامنے اپنی کہتے اور ان Ú©ÛŒ سنتے تھے۔ وہ شب Ùˆ روز بازاروں میں کسی باڈی گاڑد Ú©Û’ بغیر‘ کسی ہٹو بچو Ú©ÛŒ آواز Ú©Û’ بغیر عوام Ú©Û’ درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان Ú©Û’ گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان Ú©Û’ Ú©Ú†Û’ مکان) کا دروازہ ہر شخص Ú©Û’ لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتا تھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کر سکتا تھا اور جواب طلب کر سکتا تھا۔ یہ Ù…Ø+دود جواب دہی نہ تھی بلکہ Ú©Ú¾Ù„ÛŒ اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی۔

    یہ نمائندوں Ú©Û’ واسطہ سے نہ تھی بلکہ پوری قوم Ú©Û’ سامنے براہِ راست تھی۔ وہ عوام Ú©ÛŒ مرضی سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور عوام Ú©ÛŒ مرضی انہیں ہٹا کر دوسرا خلیفہ ہر وقت لاسکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انہیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ Ù…Ø+سوس ہوتا تھا اور نہ اقتدار سے Ù…Ø+روم ہونا ان Ú©ÛŒ نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے Ú©ÛŒ کبھی فکر کرتے۔ لیکن بادشاہی دور Ú©Û’ آتے ہی جواب دہ Ø+کومت کا تصور ختم ہو گیا۔ خدا Ú©Û’ سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو‘ مگر عمل میں اس Ú©Û’ آثار Ú©Ù… ہی نظر آتے ہیں۔ رہی خلق Ú©Û’ سامنے جوابدہی‘ تو کون مائی کا لال تھا جو ان سے جواب طلب کر سکتا۔ وہ اپنی قوم Ú©Û’ فاتØ+ تھے۔ مفتوØ+ÙˆÚº Ú©Û’ سامنے کون فاتØ+ جواب دہ ہوتا ہے۔ وہ طاقت سے برسرِ اقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھا کہ جس میں طاقت ہو وہ ہم سے اقتدار چھین Ù„Û’Û” ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان Ú©Û’ قریب کہاں Ù¾Ú¾Ù¹Ú© سکتے تھے۔ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے Ú©Û’ ساتھ نہیں بلکہ اپنے Ù…Ø+لوں Ú©ÛŒ Ù…Ø+فوظ مسجدوں میں‘ یا باہر اپنے نہایت قابل اعتماد Ù…Ø+افظوں Ú©Û’ جھرمٹ میں۔ ان Ú©ÛŒ سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلØ+ دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کر دئیے جاتے تھے۔ عوام Ú©ÛŒ اور ان Ú©ÛŒ Ù…Úˆ بھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔
    ۔5۔ بیت المال۔ ایک امانت:۔
    پانچواں اصول اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں Ú©ÛŒ امانت ہے‘ جس میں کوئی چیز Ø+Ù‚ Ú©ÛŒ راہ Ú©Û’ سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے اور جس میں سے کوئی چیز Ø+Ù‚ Ú©Û’ سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا Ø+Ù‚ اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن Ú©ÛŒ رو سے مال یتیم میں اس Ú©Û’ ولی کا ہوتا ہے کہ من کان غنیا فلیستعفف ومن کان فقیرا فلیا Ú©Ù„ بالمعروف (جو اپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو‘ وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے اور جو واقعی Ø+اجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ Ù„Û’ جسے ہر معقول آدمی مبنی برانصاف مانے)Û” خلیفہ اس Ú©ÛŒ ایک ایک پائی Ú©Û’ آمد Ùˆ خرچ پر Ø+ساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں Ú©Ùˆ اس سے Ø+ساب مانگنے کا پورا Ø+Ù‚ ہے۔ خلفائے راشدینؓ Ù†Û’ اس اصول Ú©Ùˆ بھی کمال درجہ دیانت اور Ø+Ù‚ شناسی Ú©Û’ ساتھ برت کر دکھایا۔ ان Ú©Û’ خزانے میں جو Ú©Ú†Ú¾ بھی آتا تھا‘ ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون Ú©Û’ مطابق آتا تھا اور اس میں سے جو Ú©Ú†Ú¾ خرچ ہوتا تھا‘ بالکل جائز راستوں میں ہوتا تھا۔ ان میں سے جو غنی تھا‘ اس Ù†Û’ ایک Ø+بہ اپنی ذات Ú©Û’ لیے تنخواہ Ú©Û’ طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی‘ بلکہ اپنی گرہ سے قوم Ú©Û’ لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا اور جو تنخواہ Ú©Û’ بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے۔

    انہوں Ù†Û’ اپنی ضروریاتِ زندگی Ú©Û’ لیے اتنی Ú©Ù… تنخواہ Ù„ÛŒ کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے Ú©Ù… ہی مانے گا‘ زیادہ کہنے Ú©ÛŒ جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کر سکتا۔ پھر اس خزانے Ú©ÛŒ آمد Ùˆ خرچ کا Ø+ساب ہر وقت ہر شخص مانگ سکتا تھا اور وہ ہر وقت ہر شخص Ú©Û’ سامنے Ø+ساب دینے Ú©Û’ لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتا تھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں‘ ان کا طول Ùˆ عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا یہ لمبا کرتہ بن سکے‘ یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟ مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا‘ ہر جائز Ùˆ ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز Ùˆ ناجائز راستے میں بے غل Ùˆ غش صرف ہوتی تھی۔ کسی Ú©ÛŒ مجال نہ تھی کہ اس Ú©Û’ Ø+ساب کا سوال اٹھا سکے۔ سارا ملک ایک خوان یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے Ù„Û’ کر سربراہِ مملکت تک‘ Ø+کومت Ú©Û’ سارے Ú©Ù„ پرزے Ø+سبِ توفیق ہاتھ مار رہے تھے اور ذہنوں سے یہ تصور ہی Ù†Ú©Ù„ گیا تھا کہ اقتدار کوئی پروانہ اباØ+ت نہیں ہے جس Ú©ÛŒ بدولت یہ لوٹ مار ان Ú©Û’ لیے Ø+لال ہو اور پبلک کا مال کوئی شیر مادر نہیں ہے‘ جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی Ú©Û’ سامنے انہیں اس کا Ø+ساب دینا نہ ہو۔
    Û”6Û” قانون Ú©ÛŒ Ø+کومت:Û”
    چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھا کہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ Ú©Û’ قانون) Ú©ÛŒ Ø+کومت ہونی چاہیے۔ کسی Ú©Ùˆ قانون سے بالاتر نہ ہونا چاہیے۔ کسی Ú©Ùˆ قانون Ú©Û’ Ø+دود سے باہر جا کر کام کرنے کا Ø+Ù‚ نہ ہونا چاہیے۔ ایک ایک عامی سے Ù„Û’ کر سربراہِ مملکت تک سب Ú©Û’ لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف Ú©Û’ معاملے میں کسی Ú©Û’ ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں Ú©Ùˆ انصاف کرنے Ú©Û’ لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ خلفائے راشدینؓ Ù†Û’ اس اصول Ú©ÛŒ پیروی کا بھی بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے Ú©Û’ باوجود وہ قانون الٰہی Ú©ÛŒ بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے‘ نہ ان Ú©ÛŒ دوستی اور رشتہ داری قانون Ú©ÛŒ Ø+د سے Ù†Ú©Ù„ کر کسی Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ نفع پہنچا سکتی تھی‘ اور نہ ان Ú©ÛŒ ناراضگی کسی Ú©Ùˆ قانون Ú©Û’ خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان Ú©Û’ اپنے Ø+Ù‚ پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی Ú©ÛŒ طرØ+ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے اور کسی Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کر Ú©Û’ انہیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرØ+ انہوں Ù†Û’ اپنی Ø+کومت Ú©Û’ گورنروں اور سپہ سالاروں Ú©Ùˆ بھی قانون Ú©ÛŒ گرفت میں کس رکھا تھا‘ کسی Ú©ÛŒ مجال نہ تھی کہ عدالت Ú©Û’ کام میں کسی قاضی پر اثرانداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون Ú©ÛŒ Ø+د سے قدم باہر نکال کر مواخذہ سے بچ جاتا۔ لیکن خلافت سے بادشاہی Ú©ÛŒ طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے Ú©Û’ بھی چیتھڑے اڑ گئے۔

    اب بادشاہ اور شاہزادے اور امرا Ø¡ اور Ø+کام اور سپہ سالار ہی نہیں‘ شاہی Ù…Ø+لات Ú©Û’ منہ Ú†Ú‘Ú¾Û’ لونڈی غلام تک قانون سے بالاتر ہو گئے۔ لوگوں Ú©ÛŒ گردنیں، مال اور آبروئیں‘ سب ان Ú©Û’ لیے مباØ+ ہو گئیں۔ انصاف Ú©Û’ دو معیار بن گئے۔ ایک کمزور Ú©Û’ لیے اور دوسرا طاقت ور Ú©Û’ لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے Ù„Ú¯Û’ اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں Ú©ÛŒ شامت آنے لگی۔ Ø+تیٰ کہ خدا ترس فقہا Ø¡ Ù†Û’ عدالت Ú©ÛŒ کرسی پر بیٹھنے Ú©Û’ بجائے Ú©ÙˆÚ‘Û’ کھانا اور قید ہو جانا زیادہ قابلِ ترجیØ+ سمجھا تاکہ وہ ظلم Ùˆ جور Ú©Û’ آلہ کار بن کر خدا Ú©Û’ عذاب Ú©Û’ مستØ+Ù‚ نہ بنیں۔
    Û”7Û” Ø+قوق اور مراتب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کامل مساوات:Û”
    مسلمانوں میں Ø+قوق اور مراتب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کامل مساوات‘ اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت Ú©Û’ ساتھ قائم کیا گیا تھا۔ مسلمانوں Ú©Û’ درمیان نسل‘ وطن‘ زبان وغیرہ کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ قبیلے اور خاندان اور Ø+سب Ùˆ نسب Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے کسی Ú©Ùˆ کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسولؐ Ú©Û’ ماننے والے سب لوگوں Ú©Û’ Ø+قوق یکساں تھے اور سب Ú©ÛŒ Ø+یثیت برابر تھی۔ ایک Ú©Ùˆ دوسرے پر ترجیØ+ اگر تھی تو سیرت Ùˆ اخلاق اور اہلیت Ùˆ صلاØ+یت‘ اور خدمات Ú©Û’ Ù„Ø+اظ سے تھی۔ لیکن خلافت Ú©ÛŒ جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت Ú©Û’ شیاطین ہر گوشے سے سر اٹھانے Ù„Ú¯Û’Û” شاہی خاندان اور ان Ú©Û’ Ø+امی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند Ùˆ برتر ہو گیا۔ ان Ú©Û’ قبیلوں Ú©Ùˆ دوسرے قبیلوں پر ترجیØ+ÛŒ Ø+قوق Ø+اصل ہو گئے۔ عربی اور عجمی Ú©Û’ تعصبات جاگ اٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے Ú©Û’ درمیان Ú©Ø´ Ù…Ú©Ø´ پیدا ہو گئی۔ ملتِ اسلامی Ú©Ùˆ اس چیز Ù†Û’ جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ Ú©Û’ اوراق گواہ ہیں۔
    امام Ø+سینؓ کا مومنانہ کردار:Û”
    یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت Ú©Ùˆ خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی Ø+قیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید Ú©ÛŒ ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے Ú†Ù„ کر تھوڑی مدت Ú©Û’ اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان Ú©ÛŒ گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا‘ اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام Ùˆ کمال سامنے نہ آئی تھیں‘ مگر ہر صاØ+بِ بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام Ú©Û’ لازمی نتائج یہی Ú©Ú†Ú¾ ہیں اور اس سے ان اصلاØ+ات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام Ù†Û’ سیاست Ùˆ ریاست Ú©Û’ نظام میں Ú©ÛŒ ہیں۔ اسی لیے امام Ø+سینؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں Ù†Û’ فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی Ø+کومت Ú©Û’ خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں‘ ان کا خطرہ مول Ù„Û’ کر بھی انہیں اس انقلاب Ú©Ùˆ روکنے Ú©ÛŒ کوشش کرنی چاہیے۔

    اس کوشش کا جو انجام ہوا‘ وہ سب Ú©Û’ سامنے ہے۔ مگر امامؓ Ù†Û’ اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس Ú©Û’ نتائج Ú©Ùˆ انگیز کر Ú©Û’ جو بات ثابت Ú©ÛŒ وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست Ú©ÛŒ بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں‘ جسے بچانے Ú©Û’ لیے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں Ú©Ùˆ بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد Ú©Û’ مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات Ú©Û’ مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر نمبروار گنایا گیا ہے‘ دین اور ملت Ú©Û’ لیے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے Ú©Û’ لیے ایک مومن Ú©Ùˆ اگر اپنا سب Ú©Ú†Ú¾ قربان کر دینا Ù¾Ú‘Û’ تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے۔ Ø+سینؓ ابن علیؓ Ú©ÛŒ نگاہ میں یہ ایک دینی فریضہ تھا اسی لیے انہوں Ù†Û’ جان قربان کی۔




  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: مقصد قیام امام Ø+سینؓ Û”Û”Û”Û”Û”Û” مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی Ø’


Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •