بحری لٹیروں نے شہنشاہ اورنگ زیب کا خزانہ لوٹ لیا ....تحریر : عذراجبین
Khazana Aurangzaib.jpg
بھارتی جریدہ 'دی ہندو‘ نے اپنی 17فروری 2018ء کی اشاعت میں لکھاکہ ''انگریز قذاق کی چوری نے مغل بادشاہ کو آگ بگولہ کر دیا۔ نہ صرف یہ کہ ان کا خزانہ چوری ہوا بلکہ ان کی رعایا کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی ،بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا‘‘۔
ہنری ایوری 1653ء میں نزدیک برطانیہ کے جنوب مغربی حصے میں پیداہوا ،اسے قذاقوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے ۔پہلے پہل وہ برطانوی بحریہ میں تنخواہ دار افسر تھا۔اس نے 1671ء میں رائل نیوی جوائن کی اور اپنی فنی مہارت اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ سے کئی ا عزازات حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔1690ء میں وہ برطانوی بحریہ سے فارغ ہو گیا۔ بحریہ چھوڑنے کے بعد ہنری ایوری نے 1694 ء میں انسانی سمگلنگ شروع کر دی ،اس نے اٹلانٹک کے علاقے میں ہسپانوی سمندری جہازوں میں انسانی سمگلنگ شروع کر دی ۔ یہیں اس نے طاقت ور گروہ بھی منظم کرنا شروع کیا۔ اس زمانے میں ہسپانوی سمندری جہاز ''چارلس ٹو‘‘ پربھی ہنری ایوری نے ہی قبضہ کیا تھا۔ جب بھی سمندرمیں نقل و حمل زیادہ ہوتی تو اس کی ''قذاقی‘‘ بھی خوب چمک اٹھتی ۔
وقت کے ساتھ ساتھ وہ اس قدر مضبوط ہوگیا کہ ایک روز اس نے سمندری جہاز ''فینسی ‘‘ میں بغاوت کرا دی۔ لگ بھگ 150 قذاق اس کے ساتھ تھے۔ اس نے دیگر سمندری کشتیوں پر قبضہ بھی کیا ۔
اسی زمانہ میں مغل بادشاہ اورنگ زیب کے خزانے کا بڑا چرچہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ کا ایک جہاز مکہ سے ہندوستان میں ''سورت‘‘ کے علاقے کی طرف لوٹ رہا تھا۔بحری قذاق کو خبر ملی کہ اس میں شہنشاہ اورنگزیب کا سونا اور دوسرا خزانہ بھی ہے۔ جس کی اس وقت مالیت 52لاکھ پائونڈ تھی۔یہ سونا جہاز کے عملے کی نگرانی میں تھا۔مغربی بھارت میں واقع سورت نامی بندرگاہ اس زمانے کی مصروف بندرگاہوں میں سے ایک تھی ۔ مغربی ایشیا ء جانے والے جہازیہی راستہ اختیار کیا کرتے تھے۔ اسی بندرگاہ سے حاجی بھی سعودی عرب روانہ ہوا کرتے تھے ۔
قذاقوں کی لوٹ مار
۔1695ء میں شہنشاہ کا جہاز بحر قلزم کے کنارے پر پہنچا ہی تھا کہ عملے نے ایک اورسمندری جہازکو منتظر پایا۔بحری قذاقوں نے سب سے پہلے '' فتح محمدی‘‘ نامی سمندری جہاز میں لوٹ مار کی۔عملے کے ساتھ لڑائی میں 3بحری قذاق مارے گئے لیکن ان کی لوٹ مار جاری رہی۔ 7ستمبر کوقذاقوں نے ''گنج سوائی‘‘ نامی سمندری جہاز پر دھاوا بول دیا۔ ''لونگ بر‘‘ نامی ایک اور سمندری قذاق بھی ان کے ساتھ تھا۔ مغل بادشاہ کے سمندری جہاز کے کیپٹن ابراہیم نے تلوار نکال لی ، گھمسان کی جنگ ہوئی۔ لیکن تمام مسافر قید کر لئے گئے۔
اس سمندری جہاز پر ایوری کے ساتھی قبضہ کرنے کے بعد کئی روز تک لوٹ مار کرتے رہے۔انہوں نے مسافر مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم ڈھائے ۔ مسلمان عورتوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، ظلم و جبر سے بچنے کے لئے متعدد مسلمان عورتوں نے سمندرمیں چھلانگ لگا کر اپنی جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دی۔اس لوٹ مار کا پورا قصہ محمد خفی خان نے ''دی ہسٹری آف انڈیا ایز ٹولڈ بائی انڈین ہسٹورین‘‘ میں بھی بیان کیا ہے۔
اس زمانے میں جان گئیر نامی شخص ممبئی کا گورنر ہوا کرتا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کا کرتا دھرتا بھی وہی تھا۔ اس نے برطانیہ میں اپنی ''پریوی کونسل ‘‘کو خط میں لکھا کہ
''یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ 'گنج سوائی‘ اور دوسرے جہازوں میں بہیمانہ لوٹ مار ہوئی ، اس میں قذاق ملوث تھے ، انہوں نے خزانے کا راز جاننے کیلئے لوگوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایوری نامی قذاق لوٹ مار اور انسان سوز سلوک کے بعدوہاں سے فرار ہوگیاجبکہ 'گنج سائی‘ کا لٹا ہوا قافلہ شہنشاہ اورنگ زیب کے دربارمیں پیش ہوا ،خزانے کے لٹنے ، خواتین کی بے حرمتی کے واقعات نے اورنگ زیب کو رنجیدہ بھی کیا اور غضبناک بھی ۔ خزانے کی چوری تو ایک طرف اس کو دکھ تھا کہ اس کی رعایا کے ساتھ اس قدر براسلوک ہوا اور ان کو قتل بھی کیا گیا اور بے حرمتی بھی کی گئی۔بادشاہ کو یقین تھا کہ ہو نہ ہویہ کام ایسٹ انڈیا کمپنی کے کسی کارندے نے کیا ہے۔ اتنی جرأت کسی میں نہیں کہ مغل بادشاہ کے جہاز میں آنے جانے والوں کوقذاق لوٹ سکیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کو کام بند کرنے کا حکم
جوں ہی گنج سوائی نامی یہ جہاز آیا ،اور غمناک کہانیاں بادشاہ کے کانوں میں پڑیں،تو بادشاہ نے فوراً ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتا ئوں کو پکڑ کر جیل میں ڈالنے کا حکم دیا۔ بادشاہ غضبناک تھا ، اپنی رعایا کے ساتھ یہ ظلم و جبر ناقابل برداشت تھا ،اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی چار بڑی فیکٹریوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔کچھ افسروں کو ملک بدری کا حکم ملا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی پہلے ہی ''چائلڈز وار‘‘ کے نقصانات کا خمیازہ بھگت رہی تھی ،اب اس کی خوشحالی مغلوں کے ساتھ تجارت پر منحصر تھی۔ اس لئے انگریز مغل بادشاہ کو رام کرنا چاہتے تھے ۔
برطانیہ نے ایوری کو استثنیٰ دے رکھا تھا ۔ بادشاہ کو راضی کرنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ نے 1686ء میں ایوری کو دی گئیں تمام استثنات واپس لے لیں۔ ساتھ ہی شہنشاہ اورنگ زیب کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کا تمام خزانہ واپس کیا جائے گا۔ ایوری ان دنوں بہاہاماس میں کہیں چھپا بیٹھا تھا جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا کوئی تعلق نہ تھا مگر برطانوی حکومت کا تو عمل دخل تو تھا۔ اس کی گرفتاری مغلوں کو راضی کرنے کیلئے انتہائی ضروری تھی ورنہ اورنگ زیب ایسٹ انڈیا کمپنی کو کام بند کرنے کا حکم دے چکے تھے۔ لیکن وہ برطانیہ کے ہاتھ نہ لگا۔
قذاقو ں کی ''سلطنت‘‘
فرار ہونے کے بعدہنری ایوری کے حوصلے بہت بلند ہو گئے ،اس نے میڈاگاسکر میں اپنی نام نہاد'' سلطنت ‘‘ قائم کرلی۔ وہ دراصل ڈینیئل ڈیفوے ) کے ادبی کردار کی مانند تھا جس پر 1720ء میں ایک ناول بھی لکھا گیا۔ اس پر ایک اور کتاب لکھی گئی جس کا عنوان تھا ''کیپٹن ہینگری کی مہم جوانہ زندگی ‘‘۔ 1709ء میں لکھے گئے اس ناول میں نا صرف مغل بادشاہ کا خزانہ لوٹنے کا اعتراف شامل ہے بلکہ وہ خواتین کی بے حرمتی کا گناہ بھی مان گیا۔ بعدازاں اس نے ہندوستان کے شاہی خاندان کی ایک پوتی سے شادی کرلی۔ دونوں نے میڈا گاسکر میں ہی زندگی بسر کی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت سے پہلے اس کا خزانہ تاجروں نے چھین لیا حتیٰ کہ وہ پائی پائی کا محتاج ہوگیا ،اس کی موت گٹر میں گرنے سے ہوئی۔مرتے وقت جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ تاہم اس کے مرنے کے بعد بھی قذاقوں کی ''بادشاہت ‘‘ دیر تک قائم رہی۔
چوری شدہ خزانے کی تلاش میں شہنشاہ اورنگ زیب نے خود بھی کوشش کی۔ تاہم وہ انگریزوں کو نکالنے کی دھمکیوں کے سوا کچھ نہ کر سکے کیونکہ قذاق ان کی دسترس سے باہر تھے۔ حقیقت کیا ہے ،اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔