’’انڈیا‘‘ کب ملک بنا؟۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب

India kab mulak bana.jpg
یہ ہندوئوں نے بنایا یا مسلمانوں نے ،نئی بحث شروع
انڈیا میں تاریخ اور تاریخی کرداروں کے کردار میں تبدیلی سے متعلق ہندوتوا کی تحریک پر عمل درآمد جاری ہے۔معروف ہندوتاریخ دان شونا لیکا کول ( نے اسی برس یوم آزادی سے پہلے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ انہوں نے اپنے طویل مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ
''موجودہ بھارت قدیم ترین ملک ہے، اس کا ذکر''مہا بھارتا‘‘ میں بھی ملتا ہے اورقدیم چینی راہبوں نے بھی ذکر کیا ہے۔ قدیم ترین نقشوں اور ڈرائنگس میں بھی بھارت ایک ملک کے طور پر قائم دکھائی دیتا ہے۔ زمانہ قدیم میں بھی اس ملک کے باشندے مشترکہ اقدار اور رسوم و رواج کی لڑی میں پروئے ہوئے تھے‘‘۔
مسز شونا لیکا کول کے جواب میں کئی مفکرین نے لکھا ہے : '' بڑی اہم بات ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر ''بھارت کب موجودہ جغرافیے کی شکل میں قائم ہوا؟‘‘کی بحث چھڑ چکی ہے اس سے ہمیں بہت کچھ جاننے میں مدد ملے گی‘‘۔مسز کول کی تحریر کے جوا ب میں متعدد تحقیقات منظر عام پر آ چکی ہیں۔جواب الجواب کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔لیکن کئی سوالات تاحال تشنہ ہیں۔نئی بحث کا مقصد انڈین قوم کو یہ بتانا ہے کہ (اول) بھارت موجودہ جغرافیہ پر مشتمل ملک کب بنا ؟دوم، اس وقت بھارت یا انڈیا میں کون کون سے علاقے شامل تھے اور وہاں کن (یا کن کن) کی حکومت تھی؟۔سوم،اسے ہندوئوں نے بنایا یا کسی اور قوم نے؟
ان سوالوں کے جواب کی تلاش میں قدیم ترین نقشوں ،نسخوں ، مخطوطوں اور تحریروں پر تحقیق جاری ہے۔جوہانس برگ میں ''یونیورسٹی آف دی وٹواٹر سرینڈ ‘‘ کے ''سنٹر فار انڈین سٹڈیز‘‘ میں میلن چیئر کے ڈائریکٹر دلیپ مینن لکھتے ہیں۔۔۔''بحث کا ہونا اچھی بات ہے لیکن مسز کول کی تحریر میں کئی سوالات کاسرے سے کوئی جواب نہیں ملا۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آج جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں ، کیا ہمارے بڑے بزرگ یہ جانتے تھے کہ وہ اس ملک کے باشندے ہیں جسے انڈیا کہا جاتا ہے؟ کیا وہ انڈیا کی سرحدی حدود سے واقف تھے ؟ ان کی رسوم و رواج اور رہن سہن کیسا تھا؟ یایوں کہہ لیجئے کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے بحر ہند تک وسعت رکھنے والا انڈیاکب قائم ہواتھا؟‘‘
مسز کول کا کہنا ہے کہ ''جب سے لفظ ہندو سامنے آیا اسی وقت سے ہندوستان بھی قائم ہے‘‘۔ا س میں ذرا برابر صداقت نہیں۔ان باشندوں کے لئے ایک قوم کا لفظ مستعمل نہ تھا۔ پروفیسر بی ڈی چٹوپاڈھیا یا کے بقول : '' یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہر زمانے میں''بھارت ورشا‘‘ کی سرحدیں اور تصور بدلتا رہا ہے ، آج درسی کتب میں پڑھایا جانے والا ایک نقشہ کبھی ہمیشہ نہیں رہا ۔ اس کی سرحدوں کو کبھی ایک قوم نے چیلنج کیا تو کبھی دوسری قو م نے ۔ مہابھارتا میں جو ''بھارت ورشا‘‘مذکور ہے، اس کا نقشہ ایک ہزار برس لکھے جانے والے (Puranas) سے قطعی مختلف ہے‘‘ ۔
انڈیا بطور ایک ملک کب قائم ہوا، سیاسی تقسیم کاشکار ،نظریاتی پس منظر رکھنے اور بند دماغوں والے ہندو مفکرین و مؤرخین اس حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔وہ یہ سوچنا بھی نہیں چاہتے کہ انڈیا موجودہ نقشے کے ساتھ ہزاروں برس قبل از مسیح سے قائم نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ اب کہنے لگے ہیں۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ہندوآنہ تخیل اور تشخص کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ انڈیا مہا بھارتا کے زمانے سے قائم ہے یہ بھی حقائق کے منافی ہے، اور یہ محض خواہشات پر مبنی ہے،جیسے انڈین قوم نہ تھی، کوئی ڈائنو سار تھے!
ہندوتوا کے ایک مفکر کا کہنا ہے کہ
''سرجری سے جوتشیوں کی پیش گوئیوں تک ہندوئوں کا ہی سکہ چلتا تھا وہ تو مسلمانوں کی فتوحات اور بعد ازاں نوآبادیاتی نظام تلے ہندوئوں کی تاریخ اور ہندوئوں کی چکا چوند ثقافت ماند پڑ گئی۔ ہم نسیان کے کسی مریض کی مانند وہی کچھدریافت کرتے رہے جو پہلے سے ہی ہمارے سامنے تھا‘‘۔
ان مضامین سے معلوم ہوا کہ ہندوئوں کی سوچ اس وقت محدود ہونے لگی، جب انہوں نے بحث کاآغاز ہی یہاں سے کرنا شروع کیا کہ جنوب میں سمندر اور شمال میں پہاڑی سلسلے رکھنے والا انڈیا نامی ملک اسی جغرافیے کے ساتھ کئی سو برس قبل از مسیح سے قائم ہے ، اور یہ کہ شمال مغربی راستے سے مسلمانوں اور یونانیوں سمیت تمام غیر ملکیوں کو یہاں آنے کا راستہ ملا۔وہ ثبوت کے طور پر مصوری کے شاہکار پیش کرتے ہیں، لیکن ان کا زمانہ بھی 20 ویں صدی کا ہی ہے۔ اس ضمن میں ''میری ایوانز پکچر لائبریری‘‘ میں محفوظ ایک''ڈھو‘‘ میں سوار درجنوں مسافر والی شاہکار تصویر کا حوالہ دیاجاتاہے لیکن وہ بھی 20ویں صدی سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ یہ تصویر مصور کے تخیل کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی جغرافیائی یا تاریخی تحقیق کا۔
۔7جون 2020ء کو ''دی کنزرویشن ‘‘ نے ''Exploring the Indian Ocean as a rich archive of history - above and below the water line‘‘ کے زیر عنوان تحقیق شائع کی۔اس نے سمندر میں کئی سو برس قدیم برتنوں اور ایسی دوسری اشیاء کی مدد سے ہندوستان کی تاریخ کا راز جاننے کی کوشش کی ہے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ۔۔۔''ساحل سمندرکے قریب قائم ہونے والے شہروں کے باشندے نفیس پلیٹوں اور برتنوں میں کھانے پینے کے شوقین تھے۔ ان باشندوں میں زیادہ تربحر ہند کے راستے تجارت کرنے والے سوداگر شامل تھے۔ان کا نیٹ ورک مشرقی افریقہ سے انڈونیشیاء ، مشرق وسطیٰ اور چین تک وسیع تھا۔ تجارت کا بڑا ذریعہ مون سون کی ہوائوں سے چلنے والی کشتیاں تھیں،اور یہ تجارت کئی ہزار برس سے جاری تھی۔مون سون ہوائیں سال بھر صرف ایک ہی سمت میں ،یعنی بحر ہند کی جانب چلتی تھیں۔ اس سے بحر ہند کی تجارتی اہمیت ناقابل بیان حد تک بڑھ گئی تھی۔ امیتا گھوش ) نے 12 ویں صدی میں تیونسی سوداگر ابرام بن یجو کی ا ٓمد کا قصہ درج کیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ بحر ہند کے ساحلی شہر ان ممالک میں بھی قائم تھے جو کسی بھی دور میں بھی بھارت کا حصہ نہیں رہے۔چنانچہ بحر ہند کو قدیم انڈیا کی سرحد سمجھنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ بحر ہند کے قدیم کاسموپولیٹن شہروں کی ترقی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیاء سے آمد و رفت اور تجارت کا نتیجہ تھی جس کا ہندو کلچر سے قطعاََ کوئی تعلق نہ تھا۔
اس خطے میں پرتگالی 15ویں صدی میں پہنچے ۔انہوں نے ہندوستان کو ''مسلمانوں کی جھیل‘‘ قرار دیاجس کے شمال میں ترک خلافت عثمانیہ ،فارس میں صفوی اور انڈیا میں مغل سلطنت قائم و دائم تھی۔ ولندیزی 17ویں صدی میں پہنچے،لیکن انہیں بھی''ملک‘‘ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے لئے مسلمان سلطانوں کے تعارفی اور سفارشی خطوط درکار تھے۔نہرو نے اپنی ''خود نوشت ‘‘ میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ''نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد انڈیا کو ایک مربوط نقشہ بھی مل جاے گا‘‘۔جبکہ مسلمانوں کی مدد سے بننے والی یہ سرحدیں انڈیا کو انگریزوں سے ورثے میں ملی ہیں۔پس ثابت ہوا کہ انڈیا کو ایک ملک بنانے یعنی موجودہ نقشے کی صورت دینے میں سب سے زیادہ کردار مسلمانوں کا ہی ہے۔