ڈرامے ہماری ثقافت سے دور کیوں ؟ ۔۔۔۔ تحریر : مرزا افتخار بیگ

Dramay.jpg
۔100 سے زیادہ سیریلز دیکھے گئے مگر ان میں چند ہی سیریلز سنجیدہ موضوعات سے متعلق تھے

کسی بھی ملک کی تہذیب و تمدن اور ثقافتی اقدار کو دنیا بھر میں متعارف کرانے میں ڈرامے اور فلمیں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ تہذیب و ثقافت کے رنگ ان ڈراموں میں بھی نظر آتے ہیں۔

ماضی میں ہمارے ملک کے متعدد ڈراموں اور فلموں نے عالمی سطح پر کئی اعزازات جیت کر ملک کا نام روشن کیا ۔ان ڈراموں و فلموں کی وجہ سے زرمبادلہ بھی ملک میں آیا ۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نئی صدی کے ساتھ ہی جو ں جوں معاشرتی و طبقاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں ملکی ٹی وی ڈرامے سے بھی اپنا پن رخصت ہوتا ہوا نظر آیا۔ کل تک ہمارے ڈرامے دشمن ملک میں بھی پسند کئے جاتے تھے وہاں سینما مقبول ہونے کے باوجود ہمارے ٹی وی ڈراموں کو ان کے بڑے بڑے فنکاراور لیجنڈری ہدایتکار اہمیت دیتے تھے۔ ان کہی ، و ا رث ، زیر زبر پیش، شہزوری، دیگر بے شمار ڈرامے دیکھنے کیلئے لوگ اپنی مصروفیات ترک کردیتے تھے ،ان کے نشر ہونے کے وقت سڑکیں سنسان ہوجاتی تھیں ۔

نظریاتی اساس کو مدنظر رکھ کر ٹی وی پالیسی بنائی گئی تو ڈراموں میں بھی زباں، تلفظ، معاشرتی اقدار اور مشترکہ خاندانی ثقافت ، حب الوطنی، باہمی بھائی چارہ اور اتحاد کہانیوں میں نظر آیا ۔ فنکار وںنے قومی وعلاقائی زبان کے ڈراموں میں کام کرکے ڈرامہ انڈسٹری کو ایک نئی زندگی دی جس میں ڈرامہ رائٹرز کا کردار سب سے اہم رہا انہوں نے معیاری ادب و زبان کو فروغ دینے کے لئے جاندار اسکرپٹس تحریر کئے ، پرانے دور میں ایسے ڈرامے نشر ہوتے تھے جب ناظرین ڈراموں کے توسط سے زندگی کے مختلف پہلوئوں پر غور و فکر کرتے تھے۔یہاں ہم اشفاق احمد کے ڈراموں کی مثال بھی دے سکتے ہیں، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے کہانی پر ڈرامہ نگار کا کوئی کنٹرول ہی نہیں رہا۔ ہمیں بڑے ڈرامہ نگاروں کا ورثہ منتقل ہوا مگر معلوم نہیں کہ نئے لکھنے والے اپنی ڈگر سے ہٹ کیوں گئے ۔ ورثہ تو اشفاق احمد،منو بھائی اور امجد اسلام امجد جیسے ڈرامہ نگاروں نے بھی چھوڑا تھا، لیکن نئے لکھنے والوں ے نئی لائن لینا پسند کی۔اب ہمارے شائقین ’’ساس بہو‘‘ جیسے ڈراموں کے سحر میں آچکے تھے ، اس قسم کے ڈرامے گھر گھر کی کہانی بن چکے تھے ۔

وی سی آر کے دور میں ہم غیر ملکی فلموں کے عادی تھے جس کے نتیجے میں ہماری شوبز انڈسٹری بحران سے نہیں نکل سکی۔یہ غیر ملکی ڈرامے ہم خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ بھی نہیں سکتے ۔ اب ہمارے معاشرے کو پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ کل کی فکر نہ کیجئے، یہ ایک ایسا پیغام ہے جو امریکا اور یورپ کی فلموں تک میں موجود نہیں۔ امریکا اور یورپ کی فلموں میں ایک ہیرو ہوتا ہے اور ہر ہیرو کسی نہ کسی درجے میں خیر نیکی اور اثباتی رویوں کی علامت ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے کی اچھائی ، خیر ، نیک عمل کی راہیں ان ڈرامہ نگاروں کو نظر کیوں نہیں آرہی ،وہ گھر کے جھگڑے ، طلاق، دوسری شادی ، سالی کا بہنوئی سے عشق دیگر عامیانہ مسائل کو ڈراموں کا موضوع کب تک بناتے رہیں گے؟

اس بارے میں ڈرامہ نگار اور ناول نویس آمنہ مفتی نے بتایا کہ ’’اب ڈراموں کے ناظرین کی اکثریت کی عمر 15 سے 45 سال کے درمیان ہے۔ سب سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے والے ڈرامے وہ ہوتے ہیں جو ساس بہو کے کرداروں اور بچوں کی پیدائش کے گرد گھومتے ہیں۔اب ڈراموں کی پالیسی شائقین کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہے۔ اہم ترین شائقین خواتین اور بچوں پر مشتمل ہیں۔ چند ہی ڈراموں میں معاشرے کے اہم اور سنجیدہ مسائل کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ہمارے 100 سے زیادہ سیریلز دیکھے گئے مگر ان میں چند ہی سیریلز سنجیدہ موضوعات سے متعلق تھے‘‘۔

سب سے المناک صورتحال یہ ہے کہ ڈرامے پر کچھ لوگوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور اس شعبے میں ایسے لوگ آگئے ہیں جنہیں نہ انگریزی آتی ہے نہ اردو، یہ محدود سوچ کے حامل لوگ ہیں۔ انہیں زندگی کے حقائق کا کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ جو ادراک رکھتے ہیں ان کے اسکرپٹس ایسے لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں ۔اب جو لوگ ڈرامہ لکھ رہے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کا ادب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا، مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب اگر ڈرامے کا موضوع سنجیدہ ہو تو پروڈیوسر کیا اداکار تک ڈرامے میں کام کرنے سے انکار کردیتے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کو اچھی ریٹنگ نہیں ملے گی۔دانش ورانہ مواد کے حامل ڈراموں کو تاریک یا ’Dark‘ کہا جاتا ہے۔ البتہ اگر کہانی میں گلیمر ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح ہلکی پھلکی کہانیوں پر مشتمل ڈرامے پسندیدہ بنے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی این جی او کے مفادات کی بنا ء پر ڈرامے پیش کئے جارہے ہیں۔این جی اوز بھی ڈراموں پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں ۔ہمارے ڈرامے پرکسی حد تک این جی اوز کا قبضہ ہوچکا ہے۔ این جی اوز بتارہی ہیں کہ کس موضوع پر ڈرامہ لکھا جائے اور کس موضوع پر ڈرامہ نہ لکھا جائے ،اسی لئے یہ سرمایہ کاری ڈرامے کو تباہ کررہی ہے۔ اسکرپٹ میں کیا لکھنا ہے، کچھ لوگ جزئیات کے بارے میں بھی ہدایات دے رہے ہیں۔کچھ ڈراموں میں دانستہ طور پر رشتوں کا احترام و تقدیس پامال کیا جارہا ہے۔

لیجنڈری اداکارہ بشریٰ انصاری نے بھی ایسے ڈراموں کے بارے میں اظہار خیا ل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ اب ہمارے ڈراموں میں ساس بہو، طلاق اوردوسری شادی کے علاوہ کچھ نہیں دکھایا جارہا ۔میں نے خود سیریل تحریر کی ہے جس کا نام بھی منفرد رکھا ہے جبکہ ڈراموں کے نام بھی عجب رکھے جارہے ہیں‘‘۔

اداکار ساجد حسن نے کہا کہ ’’ماضی کے مقابلے میں اب ڈراموں میں کہانی نام کی چیز نہیں رہی، نئی نسل کے ڈرامے کس کی نمائندگی کررہے ہیں ؟ اس کا کسی کو پتہ نہیں ۔ اسکرپٹس و کہانی کاروں کی اسکروٹننگ ہونی چاہئے آیا کہ وہ لکھاری ہے یا منشی؟ ایسا نہیں کیا گیا تو ڈرامہ گھر گھر دیکھا جاتا ہے اس کے ہولناک اثرات رونما ہوسکتے ہیں‘‘۔

اس بارے میں ڈرامہ رائٹر حامد دکنی کا کہنا ہے کہ ’’ اگر آپ کے ڈرامے میں عورت کا کردار منفی اور مرد کا کردار مثبت ہے تو ڈرامہ نگار کو حکم دیا جاتا ہے کہ مرد کے کردار میں بھی کوئی ٹیڑھا، کوئی منفی پہلو پیدا کرو۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ڈرامہ مسترد کردیا جاتا ہے۔دوسرے زوال زدہ شعبوں کی طرح ڈرامہ نگاری میں بھی زوال آتا جارہا ہے۔ اب ہمارے یہاں تاریخی ڈراموں کے لیے کوئی اسکوپ نہیں رہ گیا۔ڈرامے کو آگہی کا ذریعہ بنانے کے بجائے ایک افیون میں تبدیل کردیا گیا ہے ،اصول ہے کہ آرٹ کبھی سازشی نہیں ہوتا اور سازش کو کبھی آرٹ یا تفریح نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے ڈراما نگار شکایت کررہے ہیں کہ سنجیدہ موضوعات پر اول تو ڈرامے لکھے نہیں جارہے، لکھے جارہے ہیں تو انہیں پروڈیوس کرنے والا کوئی نہیں،گلیمر کی دنیا ہماری دنیا نہیں ہے۔ مگر یہی دنیا ہمارے ڈرامے پر چھائی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ انہیں آخری چٹان اتنا پسند تھا کہ جب رات یہ ڈرامہ نشر ہوتا تھا تووہ کام چھوڑ کر اپنے علاقے میں واپس آجاتے تھے۔ آخری چٹان 1980ء میں نشر ہوا تھا۔

تاریخی ڈرامے موجودہ حالات میں وقت کا تقاضہ بھی ہیں اور نئی نسل کی آگہی کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں ۔جیسا کہ شہرہ آفاق تْرک سیریز دنیا بھر کی طرح ملک میں بھی ناظرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ نئی نسل اس کے سحر میں مبتلا ہوچکی ہے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ہم مسلم امہ کی اسلامی تاریخی فتوحات سے روشناس کرانے کے لئے خود بھی ڈرامے بنائیں۔اداکار انگین آلتان نے پاکستانی فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان میں ملنے والی محبت کا تقاضا ہے کہ میں پاکستانی ڈراموں میں بھی کام کروں ۔پاکستان میں بڑی خوشی سے کام کروں گا، ڈرامے یا فلم کا پہلے اسکرپٹ دیکھوں گا اگر کردار اور کہانی میری خواہشات کے مطابق ہوئی تو ضرور اداکاری کروں گا اور پاکستانیوں کی محبت کا قرض بھی اْتارنے کی کوشش کروں گا۔پاکستان میں غیر ملکی ڈرامے کو جتنی مقبولیت پاکستان میں ملی ،اتنا تو کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا، پاکستان کے سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا اور پرنٹ میں ہمارے لئے جو کچھ بھی پیش کیا گیا وہ ہم تک پہنچا اور ان سب پیغامات سے آگاہ ہیں۔میں تمام پاکستانیوں کی محبت اور چاہت کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میرے کام کی اتنی تعریف کی اور دنیا بھر میں اسے کامیاب بنایا۔ پاکستان نے ہم پر اتنی محبت نچھاور کی ہے جسکی کوئی مثال نہیں ملتی، پاکستان ہمارا برادرانہ دوست ملک ہے۔ ہماری پرورش پاکستان سے محبت کے جذبات کے اظہار میں گزری ہے، اسکی محبت اور چاہت میں ہی ہم پلے بڑھے ہیں‘‘۔

لیکن میں سوچتا ہوں کہ کیا ترکی کے فنکاروں کوکام دیکر اپنی ڈرامہ پروڈکشن بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کے لئے پروڈکشنز ہائوسز منصوبہ بندی کریں گے،ان کے معیار کے اسکرپٹس لکھوائیں گے؟ ٹیلی ڈراموں کے ذریعے لوگوں کو جو مصنوعی زندگی دکھائی جا رہی ہے،اسی پر کام جاری رہے گا اچھے ڈرامے بھی بنائیں جائیں گے؟یہ جاننے میں کچھ وقت لگے گا۔