Results 1 to 2 of 2

Thread: خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

Hybrid View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    candel خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

    خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

    khamosh Nasal.jpg
    دوسری جنگ عظیم کے بعدنفسیاتی مسائل سے کیسے نکلی؟

    ٹم کک کا شمار معروف سماجی اور جنگی ماہرین میں ہوتا ہے،عالمی جنگوں نے انسانی شخصیت کو کیسے مجروح کیا، جنگ نے نوجوانوں اور بڑوں ،خواتین اور بچوں پر کیا اثرات چھوڑے، یہ اثرات ان پر کب تک قائم رہے؟
    اسی موضوع پر لکھے گئے ان کے مضمون کا عنوان ہے، '' دی سائلنٹ جنریشن،ہائو سوسائٹی ڈیلٹ ود دی آفٹر ماتھ آف دی سیکنڈ ورلڈ وار‘‘ ۔یہ وہی سابق فوجی اور اس دور کے عوام ہیں جنہوں نے خود جنگوں میں حصہ لیایااپنے ساتھیوں کو مرتے دیکھا ، ان کی لاشیں اپنے کاندھے پہ اٹھائیں،یا لاش بھی نہ ملی، گولہ بارود میں جل کر راکھ ہو گئی۔اس اذیت ناک ماحول سے گزرنے والے سابق فوجیوں کی تعداد 11لاکھ تو ہو گی۔ دکھوں اور غموں نے ان سابق فوجیوں یعنی پوری ا یک نسل کو کم گو بنا دیا، خاموشی ان کی پہچان بنی۔ اس ضمن میں مضمون نگار نے معروف کینیڈین مصور ایلیکس کوویل کے فنی شاہکاروں کا بھی سہارا لیا۔ مصور ایلیکس نے اپنے فن کو جنگوں کے بعد انسانی کیفیت کے اظہار کے لئے وقف کردیا تھا۔ان کے مصوری کے شہ پاروں سے یہی معلوم ہوا کہ جنگ کے بعد انسان دکھی تھا ، طویل عرصے تک وہ خود پہ قابو نہ پا سکا۔ان شہ پاروں میں بھی ان معاشروں کا انسان خاموش اور گم سم نظر آیا۔ایلیکس کے متعدد نمونے ہالینڈ میں محفوظ ہیں،اس نے انفٹری کے دستوں کے نفسیاتی حالات کو بھی رنگوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔اس قسم کے بہت سے شہکار ''کنیڈین وار میوزیم ‘‘ میں بھی رکھے گئے ہیں۔
    ان سابق فوجیوں میں یورپی باشندوں کے علاوہ کینیڈینز بھی شامل تھے جنہوں نے بیرون ملک لڑنے کے علاوہ اپنے ملک میں رہ کر بھی نیا مستقبل تعمیر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق دووسری جنگ عظیم میں تقریباََ66 ہزار کینیڈین سپاہی مارے گئے تھے،زخمیوں کی تعداد55ہزار تھی۔یورپ اور ایشیاء کا بڑا حصہ کھنڈر کا منظر پیش کررہا تھا۔فوجیوں سے کہیں زیادہ تعداد میں سویلینز کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ 6 کروڑ اموات ہوئیں،مرنے والوں میں 2.5کروڑ روسی بھی شامل ہیں۔نسل کشی کا نیا لفظ اسی جنگ میں پہلی بار سنا گیا۔بمباری کے بعدجرمنی میں 70فیصد مکانات سے شعلے اٹھنے لگے،سابقہ سویٹ یونین میں 1700شہر اور 70ہزار دیہات ہڑپہ جیسے نظر آنے لگے۔ شمالی چین میں جاپانی کی بمباری سے دریاکے حفاظتی پشتے ٹوٹنے سے 10لاکھ ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلوں کا نام و نشان مٹ گیا۔ یورپ میں کھڑی فصلیں برباد ہونے سے خوراک کی کی کس دستیابی1,000کیلوریز یومیہ رہ گئی۔نیدر لینڈز میں ٹیو لیپ بلب کھائے گئے،برطانیہ امریکہ اور فرانس دیوالیہ ہو گئے۔
    اگرچہ پہلی جنگ عظیم 1914ء تا 1918 ء نے بھی عظیم المیوں کو جنم دیا لیکن اس جنگ کے اثرات دوسری جنگ عظیم جتنے شدیدنہ تھے۔کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں قوم کابڑا حصہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔پھر ان کے ملک نے بھی جنگ میں کافی ہزیمت اٹھائی ،یہ درد الگ تھا۔بچنے والوں میںلیفٹیننٹ کرنل جان میکرائے نامی کینیڈین بھی شامل تھا۔وہ شاعر بھی تھا اور سرجن بھی اوربہادر سپاہی بھی۔ ''In Flanders Fields‘‘ پر لکھی گئی نظم کو ' ادبی میوریل‘ لکھاگیا ہے۔یہ جنگی نقصانات کا نوحہ بھی ہے۔
    جنگ کے بعد کینیڈا میں ہزار ہا یاد گاریں تعمیر کی گئی ہیں، پتھر کے شاہکاروں سے لے کر شیشوں کی یادگاروں تک ہر قسم کے نمونے شامل ہیں،حتیٰ کہ گرجاگھروں کی کھڑکیاںبھی جنگ کی کئی کہانیاں سناتی ہیں،ان کے شیشوں پر بھی جنگی کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ اوٹاوا میں ''پیس ٹاور‘‘ اور'' نیشنل میموریل‘‘ جیسی پرشکوہ یادگاروں کی تعمیر مکمل ہوئی۔ فرانس میںبھی جنگ کے نمونے کم نہیں ہوئے۔جہاں یہ جنگ کی یاد دلاتے ہیں وہیں اس ان فوجیوں کے دکھوں کی کہانیاں بھی سامنے لاتے ہیں۔ جنگ کے خاتمے کے روز مئی اور اگست 1945ء میں مختلف ممالک میںیوم فتح (یوم وکٹری ،وی جے ) منایا جاتا ہے۔ کینیڈین حکومت نے 50ہزار سابقہ فوجیوں کو ماضی کی کہانی سنانے کیلئے یونیورسٹیوں او رکالجوں سے منسلک کر دیا۔مقصد نئی نسل کو اس خطرے سے آگاہ کرنا تھا جن سے کینیڈین عوام گزرے تھے۔
    دوسری جنگ عظیم (1939-1945) میں بچنے والیفوجیوں کو ''خاموش نسل‘‘ کے علاوہ امریکی اینکر ٹام بروکوا نے ''عظیم نسل‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے ،وجہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سنگین ترین جنگی حالات سے گزر کر خود کوبھی سنبھالا، اور اپنے بچوں کی نفسیاتی تربیت بھی کی۔ انہیں بہتر زندگی کی راہ دکھائی، اور اچھا مستقبل چھوڑا۔
    ۔1945ء کو ''زیرو ایئر‘‘ کہا جاتا ہے، تما م ترقی جمود کا شکار تھی۔جب ان سابق فوجیوں اور شہریوں نے ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کیا تو خوشحالی کا باعث بننے پر انہیں ''Boomer Generation‘‘ بھی کہا جانے لگا۔ کینیڈینز نے ان لوگوں کو جنگ کے بعد زیادہ اہمیت نہیں دی۔ امریکہ جیسی اہمیت نہ ملی۔تاہم 1994ء اور1995ء کے بعدسابق کینیڈین فوجیوں کو وہ عزت ملی جسکے وہ حقدار تھے اور کینیڈامیں یہ احسا س جاگا کہ عوام کی محفوظ زندگی کیلئے سابق فوجیوں نے گلے کٹوائے اور اپنے خاندانوں کو کھویا، اب کینیڈا میں بھی اس نسل کو دوسرے ممالک جیسا مقام مل رہا ہے۔


    2gvsho3 - خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

    2gvsho3 - خاموش نسل ۔۔۔۔۔۔ تحریر : اسماء نوید

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •