قائداعظمؒ ،خاندان اور شخصیت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ایم اے صوفی
Quaid-e-Azam, Family And Personalty.jpg
قائداعظم محمد علی جناحؒ کا تعلق راجپوت خاندان سے تھا۔ آپ کے پردادا کا نام’’میگھ جی‘‘ تھا اور وہ ہندوستان کی ریاست کاٹھیاواڑ کے صدر مقام گوندل کے ایک گائوں پانیلی کے رہنے والے تھے۔’’میگھ جی‘‘ کے ایک بیٹے کا نام پونجا بھائی تھا جو قائداعظم ؒ کے دادا تھے۔
قائداعظمؒ کے والد جناح پونجا بھائی کی شادی ریاست کاٹھیاواڑ کے گائوں ڈمرتی کی ایک خاتون شیریں بائی سے 1874ء میں ہوئی۔1875ء میں جناح پونجا بھائی کراچی آگئے اور یہاں چمڑے کی تجارت شروع کی۔
محمدعلی جناحؒ بچپن ہی سے دُبلے پتلے تھے پھرکھیل کود،دوڑنے بھاگنے میں لگے رہتے،خوراک کی طرف توجہ کم دیتے۔مزاج میں نفاست تھی۔وہ موٹا ہونا پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک دِن کیاہُوا؟محمدعلی جناح نے سوچا کہ بنٹے گولیاں کھیلنے سے مٹّی ہاتھوں کولگتی ہے اور ہر بار جھکنا پڑتاہے۔انہوں نے کرکٹ کاسن رکھاتھا،چناںچہ وہ کرکٹ کی گینداورلکڑی لے آئے اور نیا کھیل اپنا لیا۔جوں جوں بڑے ہوتے گئے،اُن میں نکھارپیداہوتاگیا۔والد صاحب کے ہاں گھوڑے تھے۔کاروبارکے سلسلہ میں سفرگھوڑے پرکِیا جاتا تھا۔ چناںچہ گھوڑسواری کا شوق پیدا ہو گیا۔جب اُن کوپڑھائی کا شوق پیدا ہُوا وہ رات دیرتک لالٹین جلاکر پڑھتے رہتے۔ ایک رات والدہ مٹھی بائی نے دیکھا تو محمد علی جناح سے کہاکہ ’’تم دیر سے پڑھ رہے ہو، سو جائو‘‘ توذہین بچے نے کہا ، ’’بڑاآدمی بننے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔‘‘ محمدعلی جناح نے چہارم گجراتی سٹینڈرڈ پاس کرنے کے بعد سندھ مدرستہ الاسلام میں داخلہ لیا۔یہاں ساڑھے چار سال تک پڑھااور16برس کی عمرمیںدسویں پاس کرنے کے بعد انگلستان روانہ ہوگئے۔
۔1893ء میں جناح لندن تعلیم کے لیے روانہ ہوئے۔ بیرسٹری کے چار اداروں میں سے ’’لنکنزاِن‘‘ () کو اس لیے منتخب کِیا کہ وہاں ہر ایک فریسکو پر دنیا کے قانون دانوں کے نام تحریر تھے۔ سب سے اوپر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسم مبارک تھا۔ تو آپ نے ’’گریز اِن‘‘)، ’’مڈل اِن‘‘ ) اور ’’انران‘‘)کو چھوڑ کر ’’لنکنز اِن‘‘کو چنا۔ سوچئے 16سال کی عمر کےبچے کے دل میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے کتنی محبت تھی اور کتنی شناخت تھی۔ مطالعہ تھا۔ لندن تعلیم کے دوران آپ فالتو وقت اسلامی لائبریری میں صَرف کرتے تھے اور اسلام کے بارے میں مکمل معلومات رکھتے تھے۔
لندن میں تعلیم کے دوران
شروع ہی سے محمد علی جناحؒ کے ذہن کے پردے بالکل شفاف تھے۔ وہ اظہار میں بے مثل تھے۔ اُن کا قانونی سٹائل دلیل سے بھرپور تھا۔اگر ہم ان کے اظہار اور لاجک کا ان کی اس درخواست میں جائزہ لیں جو انہوں نے 25اپریل1883ء کو بارایٹ لاء کے داخلے کے وقت ’’لنکنزاِن‘‘لندن کو تحریر کی تو آپ ایک 16سالہ بچے کی تحریر کا انداز ملاحظہ فرمائیں:
ماسٹر زآف بینچ آف آنرایبل سوسائٹی آف لنکنزاِن
جناب عالی!مَیں نہایت عزت و احترام کے ساتھ آپ کے گوش گزار انٹری ٹیسٹ کے بارے میں ضروری گزارش کرتا ہوں کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرا امتحان اس ادارے میں لاطینی زبان میں لیا جائے گا اور مَیں اس امتحان سے مبرّا ہونے کے لیے ذیل کی دلیل پیش کرتاہوں۔
۔1۔میرا تعلق ہندوستان کی سرزمین سے ہے اور مجھے اس زبان میں تعلیم نہیں دی گئی۔
۔2۔چوںکہ ہمارا وقت دیگر زبانوں کے جاننے میںگذرتا ہے اس لیے ہم لاطینی زبان نہیں سیکھ سکے اور اگر مجھے لاطینی زبان کے امتحان میں مجبور کِیا گیا تو میرے کئی سال اس زبان کو جاننے میں لگ جائیں گے فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔
۔3۔مَیں ہندوستان کی کئی زبانیں جانتا ہوں۔ جو ہمیں وہاں نصاب میں پڑھائی جاتی ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ میری درخواست اور میری دلیل پر غور کریں گے۔محمد علی جناح ، 40۔ گلازبری روڈ ویسٹ کنگسٹن لندن
مسلم لیگ سے محبت
بیرسٹر محمد علی جناحؒ نے مسلم لیگ کے فارم پر10 اکتوبر 1913ء کو رکنیت کیلئے دستخط کیے اور 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس لکھنؤ میں صدر مقرر ہوئے۔آپ کی ذہانت، مسلم قوم کا درد اور سیاسی شعور نے لوگوں کے دِلوں میں مقام پیدا کِیا۔ انڈین نیشنل کانگریس اور انگریز سرکار خوفزدہ ہونے لگے۔ آپ سیاست کے میدان میں بڑے نڈر،بہادر اور ارادہ کے پختہ انسان تھے۔ انگریز حکومت کا کوئی عمل،قانون جو مسلمانوں اور عام انسانوں کے خلاف ہو،اُس پر آپ نے فوراً ردِّ عمل ظاہر کِیا۔رولٹ ایکٹ کے تحت جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائرکے حکم سے 400بے گناہ انسان بے دردی سے مارے گئے تو بطور احتجاج امپریل کونسل سے مستعفی ہو گئے۔گاندھی جی اور کانگریس کی حکمتِ عملی سے ان کا ٹاکرا ہونے لگا۔ تاہم آل پارٹیز کانفرنس منعقدہ 1927 ء میں شرکت کی۔
بیرسٹر محمد علی جناح کا نکھار، سیاست میں ابھارنہرو رپورٹ 1928ء کے بعد آیا کہ کس قدر آپ نے عمدہ طریقے سے مسلمانوں کے حقوق کی پاسبانی اپنے 14 نکات 1929ء کے ذریعہ کی اور ہندوستان کی سیاست میں بڑا اہم موڑ آگیا۔ لوگ کانگریس کی ہندووانہ روش سے آشنا ہونے لگے کہ کانگریس تو صِرف ہندو نواز سیاسی ڈھانچہ ہے۔اب مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری نوجوان بیرسٹر ایم اے جناح نے کرنی ہے۔
۔1931-1939ء کی پہلی اور دوسری گول میز کانفرنس میں آپ نے شرکت کی۔ آپ کو علامہ اقبالؒ کا دوسری گول میز کانفرنس میں تعاون رہا اور آپ ہندوستان کے مسلم زعما کی عدم دلچسپی سے مایوس ہوئے اور لندن میں قیام کر لیا اور لیگل پریکٹس شروع کردی۔
رعب داروکیل کاروپ
جب وکالت چل نکلی اورآپ بطورقابل وکیل مشہورہوئے۔مقدمات جیتنے لگے تو کسی قسم کااحساسِ کمتری نہ تھا اورایک بارجج کوللکاردیا۔
یہ بمبئی میں جناح کے ابتدائی دوروکالت کی بات ہے۔جسٹس مارٹن کی عدالت میں مقدمہ درپیش تھا۔وہ وکیل صفائی تھے۔اُن کی بحث کے دوران ایک نکتہ پرجج بھڑک اٹھا۔
مارٹن:ذہن میں رکھیں کہ آپ کسی تھرڈکلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔
جناح:جناب والا!آپ کے روبروبھی کوئی تھرڈ کلاس وکیل نہیں ہے۔
اِسی طرح جب1900ء میں تین ماہ تک مجسٹریٹی کی اورمزیدنوکری کی آفرسراولینٹ نے پندرہ سوروپیہ کی دی توجواب یوںدیا،’’جناب والااِس پیشکش کے لیے ممنون ہوں،لیکن میری خواہش ہے کہ اتنی رقم مَیں روزانہ کمائوں۔‘‘ایک روزجب قائدِاعظم دہلی میں لیاقت علی خاں کی کوٹھی گلِ رعنامیں ٹھہرے ہوئے تھے تو کھانے کے بعد کسی طرح فضول خرچی کاذکرچھڑگیا۔
رعنا:اس معاملے میں آپ کی احتیاط پروری کودیکھ کرحیرت ہوتی ہے۔
قائدِاعظم:مَیں سٹریٹ لائٹ میں پڑھا ہوں۔ اِس لیے میں پیسوں کی قدرکرتاہوں۔
جب وہ لنکنزاِن،لندن پہنچے تودیکھاکہ اس کے صدردروازے پرلاطینی میںکچھ عبارت کندہ ہے۔ اُس وقت اُن کی اپنے گائیڈسے یہ گفتگوہوئی:
جناح:یہ کیاہے؟
گائیڈ:یہ فریسکو ہے(دیواری نقش ونگار)
جناح:اس پرلکھا کیاہے؟
گائیڈ:دنیامیں جتنے عظیم مقنن آئے ہیں اُن کے نام کھدے ہوئے ہیں۔
جناح:سب سے اوپرکس کانام ہے؟
گائید:پیغمبرمحمدﷺکا۔
مفت مقدمہ بھی لڑتے تھے:
یہ واقعہ بڑانصیحت آموزہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ کس قدرغریبوں کا خیال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص اپنامقدمہ لے کرقائدِاعظمؒ کے آفس میں آیااورقاعدے کے مُطابِق پہلے اُن کے منشی سے مِلا۔منشی نے ضروری کوائف معلوم کرنے کے بعدقائدِاعظمؒ سے بات کی۔
منشی:ایک مؤکل ہے۔کہتا ہے بڑی امیدلے کرآیاہوں۔لیکن یہ شخص مطلوبہ فیس ادا نہیں کرسکتا۔
قائدِاعظم:کیوں؟
منشی:یہ شخص بہُت غریب ہے۔یہی جائیداداس کاواحد سہاراہے۔
قائدِاعظم:کاغذات ٹھیک ہیں؟
منشی:مقدمہ صحیح ہے،کاغذات ٹھیک ٹھاک ہیں۔
قائد ِاعظم:فیس نہ سہی۔کوئی بات نہیں۔ مقدمہ لے لو۔
چناںچہ منشی نے مقدمہ لے لیا۔مگر عدالت میں اس مقدمے کافیصلہ اس غریب مؤکل کے خلاف ہُوا۔ قائد ِاعظم کے خیال میںیہ فیصلہ درست نہ تھا۔ انہوں نے مؤکل سے کہا،’’تم ہائی کورٹ میں اپیل کرو،جیت جائوگے۔‘‘
بیرسٹرمحمدعلی جناح ؒکادشمنوں کوقائل کرنے کااپناطریقہ تھا۔اُنہوں نے ایک کٹڑ مسلم دُشمن ہندوکواپنااصول توڑکرسبق دیا۔
ایک بار قائدِاعظمؒ کو ایک مقدمہ آیا دو لاکھ اس وقت فیس آفر ہوئی۔ چوںکہ محمد علی جناح بیرسٹر اِس سے قبل جن لوگوں سے فیس حاصل کر چکے تھے ان مقدمات کی تیاری مقصود تھی اوراُن کو مایوس نہیں کر نا چاہتے تھے۔ مقدمے اور رقم سے انکار کر دیا۔ جب محمد علی جناح ؒکے دوسرے وکیل کو علم ہُواتو اس نے بیرسٹر محمد علی جناحؒ سے انکار کی وجہ دریافت کی کہ اتنی بڑی رقم دو لاکھ کی آفر کو آپ نے ٹھکرا دیا۔ اصولوں کے بادشاہ، دیانت کے عظیم شاہکار محمد علی جناح ؒنے جواب مسکراہٹ سے دیا، ’’روپیہ بے معنی چیز ہے۔ یہاں ایک اُصول ہے۔ اگر مَیں اِس مقدمے کی تیاری کے لیے وقت نہیں نکال سکتاتو پھر یہ سراسرا پیشہ کے ساتھ دھوکا ہے۔‘‘
ایک بااُصول انسان
مسٹرعبدالحئی1926ء سے1940ء تک قائدِاعظم محمدعلی جناحؒ کے ڈرائیورتھے۔وہ بیان کرتے ہیںکہ جب مسلم لیگ اورکانگریس کی صوبائی حکومتیں بنی تھیں سب چھوٹے موٹے لیڈروں کی کاروںپرمسلم لیگ کے جھنڈے لگنے شروع ہوگئے۔تمام ڈرائیور ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے۔دوسرے ڈرائیوروںنے مجھ سے کہاکہ آپ بھی قائدِاعظم محمد علی جناحؒکی گاڑی پرمسلم لیگ کا جھنڈا لگائیں، چناںچہ مَیںنے راڈ لگا کر جھنڈا لگا دیا۔ دوسرے روز کورٹ میںجانے کے لیے قائد ِاعظمؒ گاڑی کی طرف آئے توجھنڈے پرنظرپڑی۔ اُلٹے پائوںواپس ہوئے اورنوکر سے کہہ کر مجھے میٹنگ روم میں بلوایااورفرمانے لگے،’’یہ گاڑی کے آگے جھنڈا کس کے حکم سے تم نے لگایاہے؟‘‘
گرج کرکہا،’’فوراًہٹائو!میری گاڑی پراُس وقت تک جھنڈانہیں لگے گاجب تک پاکستان نہیں بنے گا۔‘‘ڈرائیورعبدالحئی بیان کرتاہے کہ مَیں نے جھنڈااُتاردیا۔حکم ہُوا،’’راڈبھی نکالو۔‘‘عبدالحئی کابیان ہے کہ پھرمجھے ایسی جرأت نہیں ہوئی۔
پاکستان بن جانے کے بعدآپ اپنی گورنرجنرل کی گاڑی پرسوارتھے۔جھنڈالگا ہُوا تھا۔ کوئی آگے نہ تھا۔ریلوے کراسنگ آگئی۔پرنسپل سیکرٹری نیچے اترے اورگیٹ مین سے کہا، ’’پھاٹک کھولو،ابھی گاڑی آنے میں بڑاوقت ہے۔گورنرجنرل صاحب کی گاڑی ہے۔‘‘پھاٹک والے نے گیٹ ڈرکے مارے کھول دیا۔ مگر…
قائدِاعظمؒ نے فرمایا،’’یہ اُصول کے خلاف ہے۔گاڑی گذرے گی توہم جائیںگے۔‘‘
گاندھی کے گھر سے الرجی
قائد ِاعظمؒ گاندھی کے گھرجاکرملناپسند نہیں کرتے تھے اورمُصرتھے کہ گاندھی ان سے ملنے کیلئے آیا کریں۔ ایک توقائدِاعظمؒوقت کے بڑے پابند تھے۔ دوسراوقت کی بڑی قدر کرتے تھے۔گاندھی جی کے کئی روپ تھے۔محمدعلی جناحؒقانون دان تھے۔جب وہ گاندھی جی کے ہاںجایاکرتے تھے تو گاندھی جی کا سیکرٹری آجاتااورخودگاندھی رفعِ حاجت کیلئے آنا جانا شروع کردیتے تھے۔طرح طرح کے عُذر پیش کرتے تھے اورکبھی نوجوان ہندو لڑکیاںآجاتی تھیں۔ اپنی سائنس کی باتیںکرتیں۔قائدِاعظمؒ ایسی باتوںسے ناخوش تھے۔ لہٰذاآپ نے گاندھی کی طرف جاناپسندنہ کِیا۔
ایک بارگاندھی قائدِاعظمؒ سے ملاقات کے لیے وقت سے10منٹ قبل آگئے۔ آپ نے گاندھی کو برآمدے میں بٹھائے رکھا۔وقت ہُوا تو آپ نے ملاقات کی۔اسی طرح ایک گروپ آپ سے ملنے آیا۔ دُور سے آیاتھا۔ آپ نے کھاناکھاناتھا۔ آپ نے کہا،’’آپ 15منٹ انتظار کریں۔‘‘چناںچہ ٹھیک15منٹ کے بعد قائد ِاعظمؒ تشریف لے آئے۔اس بات کومخالفین نے اُچھالاکہ قائدِاعظمؒ مغرور ہیں۔لوگوںسے ملناپسندنہیں کرتے۔حال آںکہ وہ بڑے شفیق تھے مگر ڈسپلن رکھتے تھے۔
۔1941ء میں قائدِاعظمؒ مسلم لیگ کے اجلاس مدراس سے واپس آرہے تھے، راستے میں ایک قصبہ سے آپ کاگذرہُوا۔وہاںکے مسلمانوںنے پُرجوش استقبال کِیا۔ ایک8برس کا لڑکاتھاجس کے تن پرایک لنگی تھی۔بہُت زورشورسے پاکستان زندہ بادکانعرہ لگا رہا تھا۔ قائد ِاعظمؒ کی نظراس جوشیلے لڑکے پرپڑی۔ آپ نے اپنی گاڑی رُکوائی،لڑکے کوقریب لانے کے لیے کہا۔جب وہ قریب آیاتوآپ نے کہا،’’تم پاکستان کامطلب سمجھتے ہو؟‘‘
لڑکاگھبرایا۔کہا،’’گھبرائونہیں ،بتائو۔‘‘ آپ نے اسے شاباش دی اس کاحوصلہ بڑھا۔ لڑکے نے کہاکہ پاکستان کامطلب آپ بہترجانتے ہیں۔ہم تو اتنا جانتے ہیںجہاں مسلمانوںکی حکومت وہ پاکستان، جہاں ہندوئوںکی حکومت وہ ہندوستان۔ قائد ِاعظمؒ کے ساتھ صحافی تھے۔ آپ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ مدراس کا 8 سال کابچّہ پاکستان کا مطلب سمجھتا ہے ، لیکن گاندھی جی نہیں سمجھ سکتے۔دوسرے دن سارے اخبارات میںیہ خبر چھپی توگاندھی جی اپناسامنہ لے کررہ گئے۔
ایک کانفرنس میںکسی صحافی نے قائدِاعظمؒ سے پوچھا،’’آپ شیعہ ہیں یا سنی؟‘‘تو قائدِاعظمؒنے برجستہ اُس سے سوال کِیاکہ ’’حضوراکرمﷺ کیاتھے؟اگروہ شیعہ تھے تومَیںشیعہ ہوں۔ اگروہ سنی تھے تومَیں سنی ہوں۔اگروہ صِرف مسلمان تھے تومَیں بھی صِرف مسلمان ہوں۔‘‘
آج پاکستان برِّصغیرکے تمام مسلمانوںکی بے نظیرقربانیوں کانتیجہ ہے۔10کروڑ مسلمانوں کی مشترکہ جدوجہدکاحاصل ہے۔یہ کسی شیعہ، سنی، حنفی، وہابی، بلوچی،پنجابی،پٹھان یا سندھی کا نہیں۔ قائد ِاعظمؒنہ صِرف لوگوں کے لیے قانون دان تھے بلکہ اپنی ذات کی بھی حفاظت کرنے کی جرأتِ جلیلہ رکھتے تھے۔اُن کے نزدیک قانون کا مفہوم حفاظت تھا۔