قائدِ اعظمؒ: شکوک و شبہات کے کانٹے اور اُن کا ازالہ۔۔ ڈاکٹر حسین احمد پراچہ
آج 11 ستمبر قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ وفات ہے۔ اس موقع پر بابائے قوم کی خدمت میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہوگا کہ آج ہم قائد کی تعلیمات و ہدایات کو عملاً پسِ پشت ڈالنے پر اُن کی روح سے معافی کے طلبگار ہوں اور آئندہ کیلئے عہد کریں کہ ہم قائد کے جمہوری، سیاسی، معاشی، تعلیمی اور سفارتی اصولوں کی دل و جان سے پیروی کریں گے۔ یہ خراجِ عقیدت اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک ہم قائد کے بارے میں ارادتاً پھیلائے گئے شکوک و شبہات کے کانٹوں کا ازالہ نہیں کرلیتے۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں کچھ ایسے دانشور موجود ہیں جن کے قلوب و اذہان میں دوقومی نظریہ کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ وہ سرحد کے دونوں اطراف دو قومیں نہیں ایک قوم دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اپنے اس ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کیلئے وہ قائداعظمؒ کی تقاریر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے اپنے مطلب کے چند فقرے تلاش کرتے ہیں۔ پھر کوئی ٹھوس علمی و تحقیقی حوالہ دیئے بغیر اُن فقروں پر اپنی خواہشات کے محلات تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے خالی اذہان میں قائداعظمؒ کی شخصیت اور اُن کی بے مثال جدوجہد کے بارے میں شکوک و شبہات کے کانٹے بوتے ہیں اور ارادتاً قائد کے ساتھ وہ کچھ منسوب کرتے ہیں جس کاکوئی وجود نہیں ہوتا۔
ممتاز عالمِ دین اور مفسر قرآن مولانا مودودیؒ نے ایک بار فرمایا تھا: اس قوم میں پتّہ مار کر کام کرنے کی عادت نہیں‘ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ ابھی تک ہمارے درمیان چند شخصیات ایسی ہیں جو پتّہ مارکر کام کرتی ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود اگرچہ ایک سینئر نیک نام بیوروکریٹ تھے مگر اُن کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ ایک ایسے محقق و مصنف ہیں جن کی اوّل و آخر محبت پاکستان اور بانیانِ پاکستان قائد و اقبال ہیں۔ وہ جہاں کہیں کسی دانشور کو تحریکِ پاکستان کے خلاف کوئی بہتان طرازی یا الزام تراشی کرتے دیکھتے ہیں تو تڑپ اُٹھتے ہیں۔ اپنی تازہ تصنیف میں انہوں نے قائد کی ذات اور اُن کی روزِ روشن کی طرح اُجلی شخصیت سے منسوب طرح طرح کی بے سروپا باتوں کا تحقیق و دلائل سے ابطال کیا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نے قیامِ پاکستان کو انگریزوں کی خواہش قرار دیتے ہوئے یہ لکھاکہ 23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور کو وائسرائے ہند کی ہدایت پر سر ظفراللہ خاں نے ڈرافٹ کیا اور مسلم لیگ نے اسے من و عن قبول کرلیا۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے اس کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا سارا سورس آف انفارمیشن ولی خان کی کتاب ہے جبکہ پروفیسر وارث میر کے ساتھ ایک انٹرویو میں ولی خان نے اعتراف کیا تھاکہ اس حوالے سے اُن کی معلومات و تحقیق ابھی ادھوری ہے۔ اپنی بات کی تاریخی و تحقیقی سچائی ثابت کرنے کیلئے وہ اپنی کتاب میں تحریر کرتے ہیں: ''ڈاکٹر مبارک علی کبھی آزاد ذہن سے سوچیں کہ تحریکِ پاکستان اور قائداعظمؒ پر سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اوران مصنفین میں عالمی سطح کے برطانوی، امریکی، فرانسیسی اور پاکستانی مؤرخین شامل ہیں۔ سب نے قائداعظمؒ کی عظمت، کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ سٹینلے والپرٹ کا کہنا ہے کہ موجودہ تاریخ میں اتنا عظیم لیڈر پیدا ہی نہیں ہوا۔ عالمی سطح کے ان مصنفین میں سے کسی کو ظفراللہ خان کے قراردادِ پاکستان سے تعلق کا اشارہ تک نہیں ملا جو ولی خان کے ذریعے ڈاکٹر مبارک تک پہنچا‘‘۔ مصنف کے بقول ڈاکٹر مبارک علی نے نہ تو قائداعظمؒ کے بارے میں ثقہ عالمی و پاکستانی مصنفین کی کوئی کتاب پڑھی ہے اور نہ ہی قائداعظمؒ کی تقاریر کا مطالعہ کیا ہے جو تحقیق کے حوالے سے اوّلین سورس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ کبھی ولی خان، کبھی ڈاکٹر اشتیاق اور کبھی پرویز پروازی کی کتب یا نیٹ پر موجود تحریروں کے حوالے دیتے ہیں مگر اتنا بڑا دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے کسی ایک بھی اوریجنل سورس کا حوالہ نہیں دیا۔ قراردادِ پاکستان ڈرافٹ کرنے کے کریڈٹ کی تردید خود سر ظفراللہ خان 25 دسمبر 1981ء کو کرچکے ہیں۔ اُن کا یہ بیان اس روز کے ڈان سمیت تمام اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ ظفراللہ خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: نہ جانے ولی خان مجھے اس کارنامے کا کریڈٹ کیوں دے رہے ہیں جس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ''صاحبِ کریڈٹ‘‘ جب خود اپنی زبان سے اس کی تردید کررہا ہے تواس کے بعد اس بات کو دُہرانا کسی دانشور کو زیب نہیں دیتا۔ ٹھوس حقائق سے کسی تحریر کی تردید آجائے تو اس کے بعد کسی صاحبِ علم کو شکریہ کے ساتھ اعترافِ حقیقت کر لینا چاہئے مگر بدقسمتی سے مخصوص ایجنڈا رکھنے والے دانشوروں کو اس کی کم ہی توفیق نصیب ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صفدر اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 71 پر لکھتے ہیں ''ایک پرائیویٹ چینل پر مجھے ایک سکالر کی یہ بات سن کر حیرت ہوئی کہ ریڈکلف ایوارڈ اور خاص طور پر پنجاب کی تقسیم مسلم لیگ کے مطالبات کے عین مطابق تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایوارڈ مسلم لیگی تصورِ تقسیم اور مطالبات کے مطابق تھا تو پھر قائداعظمؒ اور مسلم لیگی قیادت نے اس کے خلاف اتنا شدید احتجاج کیوں کیا؟‘‘ مزید حیرت تو یہ ہے کہ جب اس کے برعکس قائداعظمؒ کی اپنی احتجاجی تقریر موجود ہے تو پھر کسی اورکی بات خود بانیٔ پاکستان کے بیان پر مقدم کیونکر سمجھی جاسکتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ نے اپنی براڈ کاسٹ تقریر میں شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا ''اس عظیم اور آزاد مسلم ریاست کی تشکیل میں ہمارے ساتھ انتہائی ناانصافیاں کی گئیں اور ہمیں ہر طرح سکیڑنے کی کوشش کی گئی۔ یہ غیرمنصفانہ اور ناقابل فہم ہے۔ چونکہ ہم اسے قبول کرنے کے پابند ہیں اس لیے ایک معزز قوم کی طرح اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔ ان گنت تحقیقی کتابیں یہ ثابت کرچکیں کہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر اس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے ایوارڈ تبدیل کروایا اور گورداسپور، بٹالہ اور پٹھان کوٹ کی تحصیلیں ہندوستان کو دے دی گئیں تاکہ اس کا جموں و کشمیر سے رابطہ قائم ہو سکے۔ اتنے واضح تاریخی شواہد کو نظرانداز کرکے یہ کہناکہ ریڈکلف ایوارڈ اور پنجاب کی تقسیم مسلم لیگ کے اپنے مطالبات کے عین مطابق تھی، کسی طرح درست نہیں ہیں۔ یہ علمی دیانت نہیں خیانت ہے۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ یہی بات بقول مصنف قائداعظمؒ نے قیامِ پاکستان سے قبل 101 بار اور قیامِ پاکستان کے بعد 14 بار کہی۔ اس سب کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمارے ''آزادی پسند‘‘ دوست اپنے تمام تر سیکولرازم کی عمارت قائداعظمؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر پر تعمیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس تقریر میں شامل بہت سی باتوں کے علاوہ اقلیتوں کو باور کرایا گیاکہ انہیں برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور ریاست اُن پراپنے مذہبی ضابطے نافذ نہیں کرے گی۔ شاید 11 اگست کی تقریر کے بارے میں مختلف موشگافیوں کا قلع قمع کرنے کیلئے قائداعظمؒ نے 25 جنوری 1948ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے بلند آہنگ الفاظ میں اعلان کیا ''شرارتی عناصر ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئین پاکستان کی بنیاد شریعت پر نہیں ہوگی۔ اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی پراسی طرح لاگو ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل تھے‘‘۔
مذکورہ تحقیقی تصنیف میں پاکستان، دوقومی نظریہ، تحریکِ پاکستان اور قائداعظم محمدعلی جناحؒ‘ علامہ اقبالؒ کی شخصیات کے بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات کا ناقابل تردید تحقیقی ثبوتوں کے ساتھ ازالہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے تحقیق کے ترازو میں تول کر کھرے کو کھوٹے سے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کا قابلِ تعریف علمی کارنامہ انجام دیا ہے۔