مرزا رفیع الدین سوداؔ
ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے
یہ ہیں وہ نین جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے
اے دل! یہ کس سے بگڑی کہ آتی ہے فوجِ اشک
لختِ جگر کی نعش کو آگے دھرے ہوئے
انصاف اپنا سونپئے کس کو بہ جز خدا
منصف جو بولتے ہیں تو تجھ سے ڈرے ہوئے
نزدیک اپنے رہنے سے مت کر ہمیں تو منع
ہیں لاکھ کوس جب ترے دل سے پرے ہوئے
سوداؔ نکل نہ گھر سے کہ اب تجھ کو ڈھونڈتے
لڑکے پھریں ہیں پتھروں سے دامن بھرے ہوئے