افسوس، صد افسوس ۔۔۔۔۔ ندیم خورشید

واقعہ ایسا ہے کہ کوئی لکھنے والا نظر انداز نہیں کر سکتا۔
سماج اور ریاست، دونوں کٹہرے میں ہیں۔ سماج Ú©ÛŒ نمائندگی میں‘ آپ اور وہ کرتے ہیں۔ میں اور آپ، کشتگانِ زماں۔ 'وہ‘ سماج Ú©Û’ بااثر طبقات ہیں جن Ú©Û’ ہاتھ میں اس Ú©ÛŒ باگ ہے۔ علما، صØ+افی، دانشور۔ ریاست Ú©ÛŒ نمائندگی کا شرف سی سی Ù¾ÛŒ او لاہور Ú©Ùˆ Ø+اصل ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا Ø+سنِ انتخاب۔
جرم سے کوئی معاشرہ پاک نہیں لیکن یہ بات ہمارے جرائم Ú©Ùˆ سندِ جواز فراہم نہیں کرتی۔ جب ہم خود کسی جرم کا ہدف بنتے ہیں تو ہمیں یہ دلیل نہیں سوجھتی۔ تب ہماری خواہش ہوتی ہے کہ شام ہونے سے پہلے مجرم کیفرِ کردار تک پہنچے۔ جرم کا شکار کوئی دوسرا ہو تو عذر تراشے جاتے ہیں۔ موٹروے پہ ایک خاتون Ú©Û’ ساتھ پیش آنے والا Ø+ادثہ، دراصل یہ بتا رہا ہے کہ یہاں کون کتنا Ù…Ø+فوظ ہے۔
یہ Ø+ادثہ موٹروے پر پیش آیا اور سوشل میڈیا کا موضوع بن گیا۔ ان شاہراہوں سے دور، جو Ú©Ú†Ú¾ ہوتا ہے، وہ Ú©Ù… ہی سامنے آ سکا ہے۔ عورت، اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے درجے Ú©ÛŒ شہری ہے۔ اگر غریب ہو تو اس Ú©ÛŒ آبرو Ú©ÛŒ بھی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ ہمارا لٹریچر ایسی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے کہ کس طرØ+ عورت Ú©ÛŒ نسوانیت کا استØ+صال ہوتا ہے۔ جبر Ú©ÛŒ شادیاں کیا ریپ نہیں ہیں؟
Ú©Ú†Ú¾ این جی اوز Ù†Û’ اگر انہیں موضوع بنایا تو انہیں مغرب زدہ قرار دے کر یہ تاثر دیا گیاکہ ان Ú©ÛŒ بات مبالغہ آمیز ہے اور پاکستان مخالف ایجنڈے کا Ø+صہ۔ ان Ú©ÛŒ یہ خرابی اپنی جگہ ہے کہ Ø+Ù„ تجویز کرتے وقت، اُن Ú©Û’ ایک بڑے Ø+صے Ù†Û’ مقامی تہذیبی Ø+ساسیت Ú©Ùˆ نظر انداز کیا لیکن Ø+Ù„ Ú©ÛŒ اس خرابی سے یہ لازم نہیں آتاکہ مسئلے Ú©ÛŒ موجودگی ہی سے انکار کردیا جائے۔ اگر کسی Ú©Ùˆ Ø+Ù„ سے اختلاف ہے تو اس کا Ø+Ù‚ ہے کہ کوئی دوسرا Ø+Ù„ تجویز کرے لیکن اسے عورت Ú©ÛŒ مظلومیت سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔ جماعت اسلامی Ù†Û’ اس واقعے Ú©Ùˆ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اٹھایا‘ جو خوش آئند ہے۔ اچھا ہے کہ اب کشمیر اورفلسطین Ú©Û’ مظلوموں Ú©Û’ ساتھ پاکستان Ú©Û’ مظلوم بھی ان Ú©ÛŒ توجہ Ú©Û’ مستØ+Ù‚ بنے ہیں۔
عورتوں Ú©ÛŒ طرØ+ مذہبی اقلیتوں Ú©Û’ Ø+قوق Ú©ÛŒ بات ہو تواسے بھی قومی مفاد سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ قومی مفاد کا تقاضا سمجھا جاتا ہے کہ پیش پا افتادہ Ø+قائق کاانکار کردیا جائے کیونکہ وہ اب دوسروں Ú©Ùˆ بھی دکھائی دینے Ù„Ú¯Û’ ہیں۔ ان خود ساختہ تصورات Ù†Û’ بھی معاشرے Ú©Û’ کمزور طبقوں Ú©Ùˆ بہت نقصان پہنچایا ہے۔ قومی مفاد اعتراف اور اصلاØ+ سے Ù…Ø+فوظ رہتا ہے، Ø+قائق کوجھٹلانے سے نہیں۔
علما کیلئے بھی ایسے واقعات میں غوروفکر کا بہت سامان ہے۔ زنا بالجبر، زنا سے مختلف ایک جرم ہے۔ یہ Ù…Ø+اربہ ہے۔ اسی واقعے Ú©Ùˆ دیکھیے۔ مجرموں Ù†Û’ Ù…Ø+ض ایک خاتون یا اس Ú©Û’ بچوں ہی کوخوف زدہ نہیں کیا،پورے معاشرے Ú©Ùˆ خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ دراصل فرد Ú©Û’ خلاف نہیں، معاشرے Ú©Û’ خلاف جرم ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہرجرم معاشرے پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے لیکن ڈکیتی، دہشت گردی یا آبروریزی Ú©ÛŒ نوعیت سنگین تر ہے۔ ان کا ہدف ہی معاشرہ ہے۔
قرآن مجید نے ایسے جرائم کو فساد اور خدا اور رسول سے جنگ کے مترادف کہا ہے اور ان کی عبرتناک سزائیں بتائی ہیں۔ یہ واقعہ زنا کے دائرے کا کوئی جرم نہیں۔ ایسے جرائم کے ثبوت کیلئے چار مسلمان مردوں کی گواہی کی شرط نہیں رکھی جا سکتی۔ یہاں ہمیں واقعاتی شواہد کو بھی بطور ثبوت قبول کرنا ہوگا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کو بھی بطور گواہ تسلیم کرنا ہوگا۔
ایسے واقعات میں گواہوں Ú©ÛŒ فراہمی مدعی Ú©ÛŒ ذمہ داری نہیں۔ یہ ریاست کاکام ہے کہ وہ مجرموں Ú©Ùˆ تلاش کرے اور شواہد جمع کرے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ایک بیگناہ Ú©Ùˆ کسی صورت سزا نہیں ہونی چاہیے۔ تØ+قیقات اتنی شفاف ہوں کہ غلطی کا اندیشہ Ú©Ù… سے Ú©Ù… باقی رہ جا ئے۔ علما Ú©Ùˆ بھی یہی بات بتانی چاہیے کہ یہ زناکا نہیں، فساد فی الارض کا واقعہ ہے اور یہاں ثبوتوں کا بار مدعی پر نہیں ہے جو ظلم کا شکار ہوا۔
ہمارے لبرل طبقات Ú©Û’ لیے بھی اس میں عبرت کا بہت سامان ہے جو سخت سزاؤں Ú©Û’ خلاف ہیں۔ ایسے مجرموں Ú©Û’ ساتھ نرمی دراصل پورے معاشرے Ú©Û’ ساتھ ظلم ہے۔ ہر عدالت فیصلہ دیتے وقت مجرم Ú©Û’ Ø+الات Ú©ÛŒ رعایت رکھتی ہے لیکن جہاں تک اصولی موقف کا تعلق ہے، سنگین جرائم اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان Ú©ÛŒ سزا بھی سخت ہو۔ سزا کا ایک پہلو مجرم Ú©ÛŒ اصلاØ+ ہے لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دوسروں Ú©Ùˆ عبرت ہو اور انہیں یہ پیغام ملے کہ ایسی Ø+رکت کاانجام کیا ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید Ù†Û’ یہ کہا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ یعنی یہ سزا دراصل زندگی Ú©ÛŒ Ø+فاظت Ú©Ùˆ یقینی بناتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ جرم اور سزا میں نسبت عقل کا تقاضا ہے۔
علمااور میڈیا Ú©Ùˆ اس پہلو سے بھی سوچنا ہے کہ عورت Ú©Û’ اØ+ترام Ú©Û’ لیے انہوں Ù†Û’ معاشرے Ú©Ùˆ کتنا Ø+ساس بنایا ہے۔ ہم Ù†Û’ مذہب کا مفہوم یہ سمجھا ہے کہ عزت Ùˆ عفت Ú©ÛŒ Ø+فاظت عورت Ú©ÛŒ اپنی ذمہ داری ہے۔ اس Ú©Ùˆ زیادہ سے زیادہ ملفوف ہونا چاہیے کہ کسی Ú©Û’ جذبات مشتعل نہ ہوں۔ عورت Ù†Û’ عام Ø+الات میں گھر سے باہر نکلتے وقت کس طرØ+ کا لباس پہننا ہے، اسے سورہ نور میں بتا دیا گیا۔ صرف اسے ہی نہیں مرد Ú©Ùˆ بھی بتایا گیا ہے۔
ہم Ù†Û’ اس لباس کا کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اس میں علاقوں Ú©Û’ رسم Ùˆ رواج Ú©Ùˆ شامل کر Ú©Û’ سب پر اسلام کا لیبل لگادیا۔ نتیجہ یہ نکالا کہ عورت اپنی عفت Ú©ÛŒ خود Ø+فاظت کرے۔ سی سی Ù¾ÛŒ او کا جو بیان ہدفِ تنقید ہے، وہ دراصل اسی سوچ کا اظہار ہے۔ علما سے گزارش یہ ہے کہ عورت پر بہت زور دیا جا چکا‘ اب ضرورت ہے کہ Ù…Ø+راب Ùˆ منبر سے مرد، ریاست اور معاشرے Ú©Ùˆ بھی اس Ú©ÛŒ ذمہ داریوں Ú©ÛŒ طرف متوجہ کیا جائے۔
میڈیا Ú©Ùˆ بھی سوچنا ہے کہ اس Ù†Û’ عورت Ú©Ùˆ جس طرØ+ اشتہار اور نمائش Ú©ÛŒ Ø´Û’ بنا دیا ہے، اس سے عورت Ú©ÛŒ توقیر میں اضافہ نہیں ہوا، Ú©Ù…ÛŒ آئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اداکار کا انٹرویو زیرِ بØ+Ø« ہے جو فخر Ú©Û’ ساتھ شادی شدہ خواتین سے اپنے معاشقوں کا ذکر کر رہا ہے۔ کیا یہ خواتین Ú©Û’ لیے باعثِ تذلیل نہیں؟
رہی بات Ø+کومتوں Ú©ÛŒ تو افسوس کہ ان Ú©ÛŒ ترجیØ+ عوام Ú©Û’ جان Ùˆ مال اور عزت Ùˆ آبرو Ú©ÛŒ Ø+فاظت نہیں رہی۔ جو Ú©Ù„ تھا، وہی آج بھی ہے بلکہ اس سے بدتر۔ Ú©Ù„ پولیس Ú©Ùˆ بتایا گیا تھا کہ ان Ú©ÛŒ پہلی ذمہ داری اشرافیہ بالخصوص Ø+کمرانوں Ú©Û’ جان Ùˆ مال کا تØ+فظ ہے۔ آج بھی ان Ú©Ùˆ یہی سکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے کہ خبردار کوئی Ø+کومت Ú©Û’ خلاف بولنے نہ پائے۔ Ø+کومت Ú©ÛŒ پریشانی یہ نہیں ہے کہ عام لوگ جرم سے Ù…Ø+فوظ ہیں یا نہیں، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز Ú©Û’ لیے لوگ گھروں سے کیوں Ù†Ú©Ù„Û’ اور ان پر سختی کیوں نہیں Ú©ÛŒ گئی؟ اب بھی ساری کوشش یہ ہے کہ ملک میں خوف Ú©ÛŒ ایسا فضا پیدا کر دی جائے کہ کوئی Ø+کومت Ú©Û’ خلاف سڑکوں پر نہ نکلنے پائے۔ اچھا پولیس افسر وہی ہوگا جو اس Ú©Ùˆ یقینی بنائے گا۔
جب تک پولیس اور دوسرے اداروں کا یہ آموختہ تبدیل نہیں ہو گا، عام آدمی غیر Ù…Ø+فوظ رہے گا اور عورت سب سے زیادہ۔ ساہیوال Ú©Û’ مظلوموں Ú©Û’ لیے وزیراعظم ابھی قطر سے واپس نہیں آئے۔ اس واقعے Ú©Ùˆ تو ابھی صرف تین دن ہوئے ہیں۔