جنگ آزادی کے 4 ہیرو ۔۔۔۔۔۔ تحریر : صہیب مرغوب
Jang e azadi ke 4 Hero.jpg
چلتی ٹرین سے انگریزوں کا خزانہ لوٹنے پر پھانسی چڑھ گئے
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
اے شہید ملک و ملت میں تیرے اوپر نثار
لے تیری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پائوں کی اے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
راہرو راہ محبت، رہ نہ جاناراہ میں
لذ ت صحرانوردی دوری منزل میں ہے
شوق سے راہ محبت کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز پنہاں جادہ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ، شوق شہادت ، جن کے دل میں ہے
مرنے والو، آئو اب گردن کٹائو شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے، خنجر کف قاتل میں ہے
مانع اظہار تم کو ہے حیا، ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
میکدہ سنسان، خم الٹے پڑے ہیں جام چور
سر نگوں بیٹھا ہے، ساقی جو تیری محفل میں ہے
اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ ارمانوں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دل بسمل میں ہے
رام پرشاد بسمل کی اس ایک نظم نے گزشتہ دنوں ہند وستان کے دل دہلی میں حکمرانوں کی صفوں میںصف ماتم بچھا دی تھی، انہیں ڈر تھا کہ کہیں بسمل اور اس کے ساتھیوں جیسا رویہ شاہین باغ کے شرکاء کے دلوں میں کہیں جانگزیں نہ ہو جائے۔ یہ نظم شاہین باغ میں بار بار ترنم کے ساتھ پڑھی گئی، ان لوگوں کاچرچا جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں بھی ہوا۔ آیئے، تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ رام پرشادبسمل اور ان کے باقی ساتھی کون تھے، ان پر کیا الزامات تھے، کانگریس ان سے کیوں ڈرتی تھی؟۔ رہے انگریز، انہوں نے ان دس افراد کو کبھی رنگون میںکالے پانی کا قیدی بنایا تو کبھی کسی اور جیل کی سیر کرائی۔ وہی دن بھی آگیا جب ان کا ایک ساتھی انگریز پولیس نے موت کی نیند سلا دیا، چار جیالوں کو سزائے موت دے دی۔ پھانسی گھاٹ کا منظر بھی عجیب تھا، آزادی کے متوالے یہ جانثار ' ہم ہوں گے آزاد‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔
شاعر اور ادیب رام پرشاد بسمل نے 30برس کی مختصرسی عمر پائی، جتنے برس بھی زندہ رہے، انگریزوں کی آنکھوں میں خوب کھٹکتے رہے، 11جون 1897ء کو شاہجہان پور میں پیدا ہونے والے رام پرشاد کو 19دسمبر 1927ء کو انگریزوں کا خزانہ لوٹنے پر گورکھپور (اتر پردیش ) میں پھانسی دے دی گئی ۔ ان پر 1918ء میں 'مین پور سازش کیس‘ اور 1925میں 'کاکوری سازش کیس‘ بنائے گئے تھے۔ وہ ''آریہ سماج‘‘ نامی تنظیم کے لئے بھی کام کرتے رہے ۔ وہ برہمن تھے لیکن اسلامی تعلیمات کا مکمل خیال رکھا کرتے تھے، اور کبھی ایسی بات نہیں کی جو کسی مسلمان کے دل پر ناگوار گزرے ۔ ہندی زبان انہوںنے اپنے والدسے اور اردو ایک مولوی سے سیکھی تھی۔ مولوی صاحب کی قربتوں سے انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہی حاصل ہوئی۔ انگریزی سیکھنے کے لئے سکول میں داخلہ لے لیا۔ انہوں نے بنگالی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ''بالشویکوں کے کرتوت‘‘ کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ ان کی آخری کتاب ''کرانتی گیتن جلی‘‘ ان کی پھانسی کے ایک سال بعد شائع ہوئی اس کتاب کو بھی کالعدم قراردے دیا گیا تھا۔
۔18برس کی عمر میں پرشاد بسمل کے دل میں آزادی کی حرارت پیدا ہوئی۔ انہوں نے کانگریس میں شمولیت کی کوشش کی لیکن کانگریسی رہنمائوں نے انکا رکر دیا۔ کیونکہ کچھ نوجوانوں کے ساتھ مل کر بسمل نے امریکہ کی آزادی پر کتاب لکھ ماری۔ مقصد انڈیا کو آزادی کا راستہ دکھانا تھا۔ کانگریس میں جگہ نہ ملنے پر بسمل نے 'متر دیوی‘ (دھرتی ماتا) کے نام سے ایک اور تنظیم بنا لی۔ انہوں نے مین پور، آگرہ اور شاہجہاں پور سمیت کئی علاقوں میں نوجوانوں کو منظم کرنا شروع کیا۔
آزادی کی تحریک چلانے کے لئے پیسہ درکار تھا،، ان کے پاس پھوٹی کوڑی نہ تھی، گھر بار تو پہلے ہی چھوڑ دیا تھا ، پیسے کی کمی دور کرنے کا ایک ہی راستہ تھا ،انگریزوں کے خزانے کی چوری! خزانے پرڈاکہ ڈالنے کے لئے ڈاکو کی ضرورت تھی جو انہیں ڈکشٹ کی صورت میں مل گیا۔
فنڈز جمع کرنے کے لئے انہوں نے 28جنوری 1918کو ''دیش واسیوں کے نام ایک پیغام‘‘ کے عنوان سے پملفلٹ تقسیم کیا جس میں اپنی مشہور نظم ''مین پور کانوحہ ‘‘ بھی شامل تھی۔ پمفلٹ پر پابندی لگنے کے بعد ان کے خلاف ''مین پور سازش کیس‘‘ درج کر لیا گیا۔ یکم نومبر 1919ء کو انگریز میجسٹریٹ بی ایس کرس نے ڈکشٹ اور بسمل کو اشتہاری قرار دے دیا ،کافی عرصہ روپوشی میں گزارنے کے باوجود بسمل جنگ آزادی کیلئے کتابیں بھی تقسیم کرتے رہے۔ فروری 1922ء میں Chauri Chuara پولیس سٹیشن کی حدود میں پولیس فائرنگ سے کچھ کاشت کار مارے گئے جس پر نوجوانوں نے پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی۔ 22 پولیس اہل کا ر زندہ جل کر ہلاک ہو گئے۔ تھانے کو آگ لگنے کی دیر تھی کہ اس افسو سناک واقعے پر گاندھی جی نے کسی سے مشورے کے بغیر ''نان کوآپریشن موومنٹ ‘‘ روکنے کا اعلان کر دیا۔ بسمل گاندھی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی برس لکھنئو میں منعقدہ سیشن میں ان نوجوانوں نے گاندھی کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔اختلافات پیدا ہونے پر سابق صدر کانگریس چترنجن داس مستعفی ہو گئے۔ اب بسمل نے اپنی جماعت بنانے کی ٹھان لی۔ الہ آباد میں بسمل نے اپنی نئی تنظیم ''ہندوستان ری پبلکن پارٹی ‘‘ کا منشور تیار کر لیا۔ 3اکتوبر 1923ء کو کانپور کے اجلاس میں منشور کی منظوری کے علاوہ آئین سازی کے لئے سچندرہ ناتھ پال کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ پارٹی نے سیاسی جدووجہد کے ساتھ ساتھ مسلح ونگ بھی قائم کر دیا، اسلحہ جمع کرنے کی ذمہ د اری رام پرشاد بسمل کے کندھوں پر ڈال دی گئی۔ بسمل''چیف آف آرمز ڈویژن‘‘ تھے۔ اشفاق اللہ خان رام پرشاد کے لیفٹیننٹ مقرر ہوئے۔ جنگ آزادی کے لئے کافی بحث کے بعد انگریزوں کے خزانے پر ہی ہاتھ صاف کرنے پر اتفاق ہوا۔کیونکہ یہ خزانہ بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کا ہی توتھا۔
۔8اگست کو انہیں معلوم ہوا کہ انگریزوں کاخزانہ بذریعہ کاکوری ریلوے سٹیشن لکھنئو بھیجا جا رہا ہے۔یہ ٹرین 9اگست کو کاکوری پہنچے گی۔ ڈکیتی کا پلان تو پہلے سے ہی تیار تھا اب عمل کرنے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ ریکی کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ لکھنئو پہنچنے سے پہلے ٹرین کاکوری ریلوے سٹیشن سے گزرے گی۔ وہاں ٹرین کی آمد کے وقت عملہ اور پولیس، دونوں ہی کم ہوں گے۔
پلان کے مطابق بسمل اپنے 9 دوسرے انقلابی ساتھیوں کے ساتھ کاکوری ریلوے سٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرنے لگے، کسی کو شک نہ ہو، اس لئے سب الگ الگ ،دیوار کی اوٹ میں کھڑے رہے۔ ٹرین کے دیکھتے ہی انہوں نے مسافروں کی طرح رکنے کا اشارہ کیا۔ ضرورت پڑنے پر وہ جرمن ساختہ مائوزر سی 96 بھی استعمال کرنے کے لئے تیار تھے۔ اس نیم آٹو میٹک ہتھیار سے وہ کئی پولیس والوں کی لاشیں ڈال سکتے تھے لیکن وہ قتل کی نیت سے نہیں گئے تھے۔
ٹرین کے رکتے ہی اشفاق اللہ خان نے اپنی گن منمتھ گپتا کو سونپ دی اور خود سیف توڑنے میں لگ گئے۔ منمتھ گپتا گن سنبھالنے کے لئے تیار نہ تھے، گھبراہٹ میں اس سے گولی چل گئی اور ایک مسلمان مسافر احمد علی کی جان چلی گئی۔ ان کی شریک حیات خواتین کے لئے مخصوص بوگی میں محو سفر تھیں اور وہ ان سے ملنے ٹرین سے اترے ہی
تھے کہ منمتھ گپتا کی گولی کا نشانہ بن گئے ۔
کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے 8 ہزار روپے لوٹے تھے جن کاایک حصہ برآمد کر لیا گیا تھا۔ تاج برطانیہ نے سخت سے سخت کارروائی کاحکم دیا۔پولیس ملزموں کی تلاش میں ماری ماری پھرتی رہی لیکن ایک مہینے تک کسی کا سراغ نہ مل سکا۔ سب سے پہلے 26ستمبر1925ء کو بسمل پولیس کے ہتھے چڑھے۔ اشفاق اللہ خان گرفتار ہونے والے آخری آدمی تھے۔وہ بنارس اور بہار میں چھپے ہوئے تھے جہاں ایک انجینئرنگ فرم میں کام کرتے رہے۔لیکن وہاں اسی کے ایک دوست نے انگریز پولیس کو مخبری کر دی جس نے حراست میں لے لیا۔ 10افراد کی جگہ 40 انتہا پسند حراست میں لے لئے گئے۔ کچھ کو بعد میں رہائی مل گئی تھی۔ سرکار نے غیر معمولی فیسوں پر جگن نارائن اور ڈاکٹر ہرکرن ناتھ سکسینا کو کیس سونپ دیا۔ گووند بلبھ، چندرہ بھانو اور کرپا شنکر نے بطور وکیل صفائی کاغذا ت جمع کرائے۔ یہ قانونی جنگ 18مہینے جاری رہی۔ جس کے بعد رام پرشاد بسمل، اشفاق اللہ خان ، روشن سنگھ اور راجندرا ناتھ لہری کو سزائے موت سنا دی گئی۔ان کے ساتھیوں نے رہائی کے لئے درجنوں افراد کے دستخطوں کے ساتھ اپیل بھیجی لیکن تاج برطانیہ پہلے ہی سزائے موت دینے کا فیصلہ کر چکی تھی۔برطانیہ بھیجی گئی اپیل 16ستمبر 1927ء کومسترد کئے جانے کے بعد بسمل 19دسمبر 1927کو گورکھپور جیل میں تختہ دار پرلٹکا دیئے گئے۔ اشفاق اللہ خان کو فیض آباد ، روشن لال کو الہٰ آباد جیل اور لہری کو گوند ا میں پھانسی ملی۔
وقت نے پلٹا کھایا، انہی لوگوں کی یاد میں مینار کھڑے کئے گئے، کانگریس نے کاکوری سازش کیس کے ملزموں کو ہیرو قرار دے کر 69ویں یوم پھانسی کے موقع پر شاہجہان پور میں ایک عالی شان مینار تعمیر کیا، شاہجہان پور سے 11 کلو میٹر دور رام پرشاد ریلوے سٹیشن کا افتتاح اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی نے 19دسمبر 1983کو کیا۔ 9دسمبر 1997ء یادگاری ٹکٹ بھی جاری ہوئے۔
تحریک آزادی کے دوسرے ہیروقرار پانے والے اشفاق اللہ خان 22اکتوبر1900 ء کو شاہجہان پور میں پیدا ہوئے اورصرف 27برس کی عمر پائی۔ اسی کاکوری کیس میں انہیں فیض آباد جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔ان کا مقدمہ انکے بھائی ریاست اللہ خان نے لڑا تھا۔ جیل میں وہ باقاعدگی سے قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے تھے،انہوں نے تمام نمازیں پڑھیں اورروزے بھی رکھے۔اسی کیس میں چندر شیکھر آزاد پولیس مقابلے میں پار کر دیئے گئے تھے۔ دیگر ملزمان کو کالے پانی بھیجنے کی سزا ملی تھی۔