صرف خوراک نہیں ‘ امن بھی ۔۔۔۔۔ بلال الرشید
زندگی میں دو چیزیں سب سے اہم ہوتی ہیں ‘ ایک یہ کہ جب انسان کوبھوک لگے تو اسے کھانا مل جائے دوسری چیز ہے امن ۔ ذہن اگر خوف سے آزاد نہیں تو اس خوراک کو نگلنا بھی ممکن نہ ہوگا۔ خوف بھوک کو کھاجاتاہے ۔ میرے دوست نے مجھے دوذاتی واقعات سنائے ‘ کہتا ہے :ایک دن میرا بیٹا میرے ساتھ قریبی مارکیٹ گیا۔ وہاں اس نے آئس کریم کا ایک کپ اور چپس کا پیکٹ خریدا ۔ میں نے چپس کاپیکٹ کھولا اور وہ اسے کھانے لگا۔ میں نے بھی چپس کا ایک ٹکڑا اٹھایا لیکن جیسے ہی میں اسے کھانے لگا‘ میرے بیٹے نے وہ ٹکڑا میرے ہاتھ سے چھین لیا اور خود کھا گیا۔اچانک مجھے خیال آیا کہ اس ٹکڑے پر شاید میرا نام نہ لکھا تھا ۔ پھر اچانک میرے بیٹے کو ایک بلی نظر آئی اور وہ سب کچھ بھول کر اس کے پیچھے بھاگ پڑا۔ کافی دیر وہ بلی کے پیچھے پھرتا رہا۔ آئس کریم کو فریج سے نکلے کافی دیر ہو چکی تھی اور کپ میں موجود آئس کریم پگھل چکی تھی ۔ اب اسے اٹھائے پھرنا بے کار تھا۔ ایک جگہ جھک کر میں اسے زمین پہ رکھنے لگا ۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب میرے بیٹے نے مڑ کر مجھے دیکھا۔ وہ بھاگتا ہوا آیا اور آئس کریم کا کپ اٹھا لیا۔ اس نے اس میں سے دو چمچ خود کھائے ‘ ایک مجھے کھلایا ۔ اس کے بعد وہ دوبارہ بلی کے پیچھے بھاگ پڑا ۔ یہ وہ لقمے تھے‘ جن پر میرا اور میرے بیٹے کا نام لکھا ہوا تھا ۔ کچھ عرصے بعد ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں کہیں مہمان کے طور پر مدعو تھا ۔ہم میزبان کے گھر چھت پر ایک کمرے میں بیٹھے تھے ۔ کھانا لگایا گیا ۔ اس میں مرغی کے تکے بھی تھے۔ آخری چند نوالے باقی تھے کہ بلی کی آواز آئی۔ میرے بیٹے نے میرا ہاتھ پکڑ کر دروازے کی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔ میں ایک نوالہ بنا چکا تھا ‘ جس میں مرغی کے گوشت کا ایک ٹکڑا موجود تھالیکن اسے منہ میں نہ ڈال سکا اور پلیٹ میں رکھ کر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ چھت پہ موجود اس بلی کو بھوک لگی ہوئی تھی اور وہ شور کر رہی تھی ۔ میرے بیٹے نے کہا ''میائوں ‘ کھانا ‘‘۔ میں کمرے میں آیا تو گوشت برائے نام ہی پڑا تھا ۔ ایک عدد بوٹی اس لقمے کے اندر بھی موجود تھی ‘ جو میرے نصیب میں نہیں تھا۔ گوشت کے یہ چند ٹکڑے میں نے اٹھائے اور باہر آکر بلی کو ڈال دیے ۔ جو گوشت میرے نصیب میں نہیں تھا‘ وہ لقمہ بن جانے کے بعد بھی مجھ سے چھین کر بلی کو دے دیا گیا۔
اب آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو رزق جس کے نصیب میں لکھا ہو‘ کیسے وہ اسے مل کر رہتا ہے ۔انسان چونکہ پہلے دن سے یہ دیکھتا آرہا تھا کہ بعض اوقات کوئی بھوکا ہوتاہے اور اس کے پاس کھانا نہیں ہوتا تو لاکھوں سالوں میں اس کے اندر ایک خوف اکٹھا ہوتا رہا ۔ سب جانداروں میں سے واحد انسان ہے جو مستقبل کا سوچ کر اس سے خوفزدہ ہو سکتا ہے ۔ باقی جانداروں کے دماغ میں ماضی کے تجربات کے علاوہ صرف حال میں اپنا پیٹ بھرنے کی خواہش ہوتی ہے ۔ کوئی بھینس اپنا مستقبل تعمیر کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتی ۔یہ خوف انسان کی رگ و پے میں اتر چکا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا‘ جب بھوک لگی ہوگی اور کھانے کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ اس خوف کا حل اس نے یہ نکالا کہ زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال یہ تھا کہ زیادہ مال کا مطلب ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ جتنا چاہے رزق خرید سکے گا۔ بھوک کے خوف سے مال اکٹھا کرنے کی دوڑ میں انسان اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اسے ذہن کا امن یاد ہی نہیں رہا۔ اگر آپ سورہ قریش پڑھیں تو اس میں دو چیزوں کا اللہ نے ذکر کیا ہے ۔ ایک تو یہ کہ بھوک میں‘ میں نے تمہیں کھانا دیا اور دوسرا خوف میں تمہیں امن دیا۔
خوف میں امن سے کیا مراد ہے ؟ اس سے مراد ہے سکون۔ اگر انسان پہ خوف طاری ہو تو وہ کھانے سے ہرگز لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ یہ صورتحال آج کی دنیا میں بہت عام ہو چکی ہے ۔ امیر کبیر لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں ۔ آپ یہ دیکھیں کہ جب بڑے بڑے سیاستدانوں کو نیب نے گرفتار کیا تو سب سے پہلے انہوں نے اپنی اپنی بیماریوں کی فہرست نکال کر دکھائی۔ اس میں مبالغہ تو تھا لیکن ڈاکٹر حضرات نے جب انہیں چیک کیا‘ تو وہ سب واقعتاً بیمار تھے ۔ یہ ان لوگوں کا حال تھا ‘ جن کے پاس سب سے زیادہ دولت موجود تھی ۔
کیا آپ کو مائیکل جیکسن یاد ہے ۔ جب وہ مرا تو انکشاف ہوا کہ نیند کی دس گولیاں لے کراسے نیند آتی تھی حالانکہ دولت اور شہرت سمیت بظاہر تمام نعمتوں کے اس کے پاس ڈھیر موجود تھے ۔ یہ سب لوگ وہ تھے‘ جو دولت تو اکٹھی کر رہے تھے لیکن دماغ کے امن سے محروم تھے ؛چنانچہ ان کی دولت انہیں پرسکون زندگی عطا کرنے سے قاصر تھی ۔ پریشانی انسان کو ہر قسم کا طبی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ وہ ریڑھ کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ‘ بظاہر جس کا پریشانی سے براہِ راست تعلق نہیں ۔نظامِ انہضام تو پریشانی میں سب سے پہلے متاثر ہوتاہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر تم اس طرح توکل کرو ‘ جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو دیا جاتاہے۔ صبح وہ خالی پیٹ گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ لوٹتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کم کھاناصحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں اور چوہوں کو کم خوراک پہ زندہ رکھا تو ان کی زندگیا ں تقریباً دو گناہو گئیں ۔ شروع شروع میں انسان کا حال بھی پرندوں جیسا تھا ۔ کل کیا ہوگا‘ کسی کو علم نہ تھا ۔صبح سب اپنا رزق ڈھونڈنے نکلتے۔ پھر آہستہ آہستہ انسان نے فصلیں اگانی شروع کیں ‘ غلے کے گودام تعمیر کیے اور کولڈ سٹوریج بھی ۔ کرنسی نوٹ ایجاد ہوئے ‘ بینک اکائونٹس میں دولت کے ڈھیر اکٹھے ہونا شروع ہوگئے ۔ آج غریب سے غریب شخص کے گھر میں دو چار دن کا آٹا موجود ہوتا ہے ۔ہونا تویہ چاہیے کہ انسان مطمئن ہوجاتا لیکن وہ پریشان سے پریشان تر ہوتا چلا گیا۔ کھانے کی دستیابی مگر ذہنی سکون سے محرومی شاید اس دور کاسب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ خوراک کے ڈھیروں کا دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان موٹاپے کا شکار ہو کر دل کے دورے او رموٹاپے سے متعلقہ دیگر بیماریوں کی وجہ سے بہت جلدی فوت ہو جاتاہے ۔
انسان کو صرف خوراک نہیں چاہیے ‘ اسے خوف کو ختم کر دینے والا امن بھی درکار ہے ۔ ہر جرم اور گناہ کے نتیجے میں انسان کی ذہنی اور روحانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ انسان کے دماغ میں خوف کی مقدار بڑھتی چلی جاتی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ جیسے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے گرفتار کرنے آتے ہیں تو ساتھ ہی وہ اپنی بیماریوں کی فہرست لہرانے لگتا ہے ۔ جسمانی صحت کی طرح ‘ انسان کی ایک ذہنی اور روحانی صحت بھی ہوتی ہے ۔ کاش کوئی غور کرے!رہا محفوظ مستقبل تواس کی کوئی ضمانت نہیں ۔ جب تین تین بار وزیرِ اعظم رہنے والوں اور چارچار عشروں تک کوس لمن الملک بجانے والوں کو نصیب نہیں ہو سکا تو ہم بھلا اس کی کیاضمانت پا سکتے ہیں ۔