Results 1 to 2 of 2

Thread: کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

  1. #1
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Thumbs up کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

    کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

    جس طرØ+ کوئی اپنی کمر کا تل نہیں دیکھ سکتا اسی طرØ+ Ø+کمران بھی اپنے ہی کیے اکثر فیصلوں Ú©Û’ نتائج سے لاعلم ہوتے ہیں۔ وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ فیصلے کیا نتائج دیں Ú¯Û’ اور یہ کیسے کیسے مسائل اور انتشار پیدا کر سکتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ان Ú©Û’ ارد گرد اور Ø¢Ú¯Û’ پیچھے پھرنے والے وزیر اور مشیر گورننس Ú©Û’ نام پر کیا Ú©Ú†Ú¾ کرتے پھر رہے ہیں۔ اکثر فیصلوں اور اقدامات Ú©Û’ پسِ پردہ عزائم بھی کمر Ú©Û’ اُس تِل Ú©ÛŒ طرØ+ ہی اوجھل ہوتے ہیں‘ جلد یا بدیر جن Ú©Û’ نتائج بہرØ+ال Ø+کمرانوں Ú©Ùˆ ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔ مشورے دینے اور فیصلے کروانے والے اکثر تو ''تتر بتر‘‘ ہو جاتے ہیں اور Ú©Ú†Ú¾ اپنی اگلی منزل Ú©ÛŒ طرف رواں دواں نظر آتے ہیں۔
    Ø+کومت Ú©Û’ اکثر شرکا سابق Ø+کمرانوں Ú©Û’ مشیر اور فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں‘ جو اپنی آنکھ کا شہتیر بھول کر سابق ادوار Ú©Û’ Ø+کمرانوں Ú©ÛŒ آنکھ میں تنکے کا واویلا زور Ùˆ شور سے کر رہے ہیں۔کیا وزیر کیا مشیر‘ سرکاری بابو یا رفقا اور مصاØ+بین‘ کیسی کیسی واردات کس مہارت سے کرتے نظر آتے ہیں کہ بند آنکھ سے بھی سب Ú©Ú†Ú¾ صاف دکھائی دیتا ہے۔اگر نظر نہیں آتا تو بس Ø+کام Ú©Ùˆ نظرنہیں آتا۔ یہ منظرنامہ قطعی نیا نہیں‘ ہر دور میں ہر Ø+کمران Ú©Û’ اردگرد ایسے کردار کثرت سے نظر آتے رہے ہیں اور ان میں سے اکثر چہرے تو ہر دور میں اگلی نشستوں پر براجمان دکھائی دیتے ہیں۔
    ضیا الØ+Ù‚ Ú©Û’ دور میں لگائی گئی سیاسی Ùˆ انتظامی پنیری اب گھنا جنگل بن Ú†Ú©ÛŒ ہے‘ جن میں سے اکثر کردار خاردار اور زہریلی بیل ثابت ہو Ú†Ú©Û’ ہیں۔ ہر دور میں اقتدار Ú©Û’ جھولے لینے والے عہدِ Ø+اضر میں بھی Ù¾Ú©Ù†Ú© مناتے نظر آتے ہیں۔ جنہیں نجات دہندہ سمجھتے رہے‘ وہ نجانے کہاں کہاں نادہندہ Ù†Ú©Ù„Û’ اور پھر انہی سے نجات Ú©Û’ لیے کیسی کیسی دعائیں مانگنا پڑیں۔ جنہیں بے پناہ چاہا‘ پھر انہی سے پناہ مانگتے نظر آئے۔ یہ سبھی وہی کردار ہیں جو ہردور میں Ø+کمرانوں Ú©Û’ پیروں Ú©ÛŒ بیڑی اور Ú¯Ù„Û’ کا طوق بنتے Ú†Ù„Û’ گئے۔
    روٹی‘ کپڑا‘ مکان کا جھانسہ ہو یا نظامِ مصطفی کا خواب‘ لانگ مارچ ہو یا تØ+ریکِ نجات‘تبدیلی کا دھرنا ہو یا آزادی مارچ‘یہ سارے معاملات‘ یہ سارے تماشے Ø+صولِ اقتدار سے شروع ہو کر طولِ اقتدار تک عوام Ú©Ùˆ کیسے کیسے عذابوں سے دوچار رکھے ہوئے ہیں۔ Ø+کمران عہدِ ماضی Ú©Û’ ہوں یا دورِ Ø+اضر کے‘ نہ تو انہیں عوام کا کوئی درد ہے اور نہ ہی ملک Ùˆ قوم Ú©Û’ وقار اور استØ+کام سے کوئی سروکار‘ سرکاری وسائل Ú©ÛŒ لوٹ مار اور کلیدی عہدوں Ú©ÛŒ بندر بانٹ اور کنبہ پروری Ú©Û’ ساتھ ساتھ بندہ پروری کا رواج کوئی نیا نہیں‘ صرف چہرے بدل رہے ہیں‘ کردار نہیں۔ عوام Ú©Û’ Ø+الات بد سے بدتر ہوتے Ú†Ù„Û’ جارہے ہیں۔ جس معاشرے میں سب Ú©Ú†Ú¾ چلتا ہے‘ وہاں Ú©Ú†Ú¾ بھی نہیں Ú†Ù„ سکتا۔ جس ملک Ú©Û’ Ø+کمران طبقے Ú©ÛŒ دیانت اور اہلیت پر آئے روز سوال اُٹھتے ہوں تو پھر کیسی قیادتیں اور کہاں Ú©ÛŒ گورننس؟
    ہوسِ زرکے مارے Ø+کمرانوں Ù†Û’ عوام Ú©Û’ سروں پر مسلط رہنے Ú©Û’ لیے کون سا شارٹ Ú©Ù¹ نہیں استعمال کیا۔ ایسا ایسا شارٹ Ú©Ù¹ کہ پورا سسٹم ہی شارٹ کر Ú©Û’ رکھ دیا ہے۔ سسٹم شارٹ کیا ہوا پھر ان Ú©Û’ ہاتھ سے Ú©Ú†Ú¾ نہیں بچا۔ اخلاقی قدروں سے Ù„Û’ کر عوام Ú©Ùˆ تواتر سے دکھائے گئے سہانے خوابوں تک سبھی Ú©Ú†Ú¾ تو چکنا چور ہو چکا ہے۔ ٹریفک سگنل سے Ù„Û’ کر آئین اور قانون تک‘ توڑنے والوں Ù†Û’ کیا Ú©Ú†Ú¾ نہیں توڑا؟ ماضی Ú©Û’ Ø+کمرانوں Ù†Û’ اس ملک Ú©Û’ ساتھ جو کھلواڑ کیا سو کیا‘ کسر تو موجودہ Ø+کمران طبقے Ù†Û’ بھی کوئی نہیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ÛŒ دو سالوں سے ان Ú©ÛŒ اہلیت اور قابلیت پر اٹھنے والے سوالات معمہ بن Ú†Ú©Û’ ہیں۔
    انتہائی اہم اور Ú©Ù¹Ú¾Ù† فیصلوں کا بار اٹھانے سے قاصر یہ Ø+کمران بس زبانی جمع خرچ سے الفاظ کا گورکھ دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی سیاسی دباؤ اور مصلØ+توں کا شکار ہو گیا تو کوئی رنگ میں رنگا گیا‘ گویا سبھی Ú©Û’ ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ یہ رنگ ÚˆÚ¾Ù†Ú¯ دیکھ کر یوں Ù…Ø+سوس ہوتا ہے کہ ملاØ+ Ú©Ùˆ جہاز اُڑانے Ú©Û’ لیے کاک پٹ میں بٹھا دیا گیا ہو۔ طرزِ Ø+کمرانی سے Ù„Û’ کر من مانی تک‘ سڑکوں اور گلیوں Ú©ÛŒ صفائی ستھرائی سے Ù„Û’ کر ہاتھ Ú©ÛŒ صفائی تک‘ کورونا سے Ù„Û’ کر Ø+الات Ú©Û’ رونے تک‘قانون سے Ù„Û’ کرسماجی انصاف تک‘ سماجی اقدار سے Ù„Û’ کر اخلاقی قدروں تک‘سبکی سے Ù„Û’ کر پسپائی تک‘رخ سے Ù„Û’ کر پیکر تک‘خود نمائی سے Ù„Û’ کر خود پرستی تک‘ موقع پرستی سے Ù„Û’ کر شخصیت پرستی تک‘گورننس سے Ù„Û’ کر میرٹ تک‘اداؤں سے Ù„Û’ کر خطاؤں تک‘ خیال سے Ù„Û’ کر تکمیل تک‘ خواب سے Ù„Û’ کر تعبیر تک‘ یوٹیلٹی بلوں سے Ù„Û’ کر عوام Ú©ÛŒ بلبلاہٹ تک‘ وسوسوں سے Ù„Û’ کر خوف Ùˆ ہراس تک‘ عوام سے Ù„Û’ کر Ø+کام تک‘ سبھی موضوعات ایسے ہیں جن پر جتنا بھی رونا رویا جائے Ú©Ù… ہے۔
    سبکی اور جگ ہنسائی سے بے نیاز Ø+کومتی ساکھ سمیت نجانے کیا Ú©Ú†Ú¾ داؤ پہ لگانے Ú©Û’ بعد ہاتھ Ú©ÛŒ صفائی Ú©Ùˆ نصب العین بنانے والے چیمپئنز کس دیدہ دلیری سے وہ سبھی Ú©Ú†Ú¾ کیے Ú†Ù„Û’ جارہے ہیں جن پر وہ کنٹینر پہ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوکر تنقید Ú©Û’ نشتر برسایا کرتے تھے۔ Ù…Ø+کمہ مال ہو یا شہری سہولتیں‘ جیل ریفارمز ہوں یا پولیس ریفارمز‘ پرائس کنٹرول ہو یا انسدادِ ملاوٹ‘ صØ+تِ عامہ ہو یا مفادِ عامہ‘ فروغِ تعلیم سے Ù„Û’ کر علم Ùˆ ہنر تک سبھی شعبے ریفارمز Ú©Ùˆ ترستے ہوئے اب ڈیفارمز کا انبار دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیم Ú©Û’ نام پر جو کھلواڑ اور واردات منظر عام پر آئی ہے‘ وہ الگ کہانی ہے۔ سکولوں Ú©Ùˆ اَپ گریڈ کرنے اور لائبریریز Ú©Û’ قیام Ú©Û’ لیے برطانیہ سے ملنے والی گرانٹ کا کیابنا؟ من پسند اور چہیتے ناشرین Ú©ÛŒ تجوریاں بھرنامØ+کمہ تعلیم Ú©Û’ بعض ذمہ داران کا ایجنڈا ہے یا کسی Ú©Û’ Ø+Ú©Ù… اور اشارے پر یہ سب کیا جا رہا ہے۔ شعبہ تعلیم Ú©Û’ ساتھ یہ کھلواڑ ان بچوں Ú©Û’ ساتھ ظلم ہے جن Ú©ÛŒ اَپ گریڈیشن Ú©Û’ لیے برطانوی ادارے Ù†Û’ ایک خطیر رقم Ú©ÛŒ گرانٹ جاری Ú©ÛŒ تھی۔
    معاملات اب لاکھوں اور کروڑوں سے Ù†Ú©Ù„ کر اربوں تک آپہنچے ہیں اور ستم یہ کہ پہلے سے ہی بنجر تعلیم Ú©Û’ شعبے Ú©Ùˆ Ú©ÙˆÚ‘Ú¾ زدہ کرنے کا ایجنڈا جاری ہے۔ اس واردات پر سر پیٹنے والے بے بس اور سر دھننے والے بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں کہ وہ فروغ تعلیم Ú©Û’ لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ 3ارب Ú©ÛŒ یہ گرانٹ کتنے سکولوں Ú©ÛŒ اپ گریڈیشن اور کتنی لائبریریوں Ú©Û’ قیام Ú©Û’ علاوہ اُن بچوں Ú©Ùˆ بھی سکول لانے کا موجب بن سکتی تھی جنہوں Ù†Û’ کبھی سکول Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ بھی نہ دیکھی‘ لیکن یہ واردات تو پہلے سے موجود سکولوں اور ان میں Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والے بچوں Ú©Û’ لیے بھی کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ Ù…Ø+کمہ تعلیم بچوں Ú©Ùˆ سکولوں سے بھگانے Ú©Û’ ایجنڈے پر کاربند ہے۔ تبدیلی کا سونامی تو برسرِ اقتدار آگیا‘ لیکن عوام Ú©ÛŒ مشکلات جوں Ú©ÛŒ توں ہیں‘ تعلیم جیسے شعبے Ú©Û’ ساتھ اگر اتنی بڑی واردات سرکا رکو ہضم ہو Ú†Ú©ÛŒ ہے تو باقی شعبوں Ú©ÛŒ Ø+التِ زار پر گریہ زاری عوام کا مقدر کیوں نہ ہو؟خدارا!اپنے بچوں سے سوتیلوں والا سلوک ہرگز نہ کریں۔
    سماجی اقدار سے Ù„Û’ کر اخلاقی قدروں تک‘رخ سے Ù„Û’ کر پیکر تک‘خود نمائی سے Ù„Û’ کر خود پرستی تک‘ گورننس سے Ù„Û’ کر میرٹ تک‘اداؤں سے Ù„Û’ کر خطاؤں تک‘ خیال سے Ù„Û’ کر تکمیل تک‘ خواب سے Ù„Û’ کر تعبیر تک‘ یوٹیلٹی بلوں سے Ù„Û’ کر عوام Ú©ÛŒ بلبلاہٹ تک‘ وسوسوں سے Ù„Û’ کر خوف Ùˆ ہراس تک‘ عوام سے Ù„Û’ کر Ø+کام تک‘ سبھی موضوعات ایسے ہیں جن پر جتنا بھی رونا رویا جائے Ú©Ù… ہے۔



    2gvsho3 - کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

  2. #2
    Join Date
    Nov 2014
    Location
    Lahore,Pakistan
    Posts
    25,276
    Mentioned
    1562 Post(s)
    Tagged
    20 Thread(s)
    Rep Power
    214784

    Default Re: کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

    2gvsho3 - کمر کا تل اور آنکھ کا شہتیر ۔۔۔۔۔ آصف عفان

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •